شہبازشریف
ہم کوئی دانا دانشورہیں نہ کسی سیاسی نظرئیے یا پارٹی سے ہمارا تعلق ہے
کراچی:
زندہ باد ، ویل ڈن بلکہ شاباش، میاں شہباز شریف، کیا ''ٹک پہ ٹک'' بدلہ لیا ہے۔ ہمارے ہاں نرپشتون کابچہ اسے ہی کہتے ہیں، ایسے مواقع پر قومیت ،زبان اورعلاقہ بہت پیچھے رہ جاتاہے اورہم تو نہ صر ف''سخن فہم'' ہیں بلکہ پشتو فہم بھی ہیں جو بھی ''پشتوکلچر والاکام کرے گا، ہم اسے پشتون ہی قرار دیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو پشتون قراردیاجاچکا،جو نسلاً یا لساناً پشتون نہیں تھے لیکن ''پشتو'' کاکوئی زبردست کام کرچکے ہیں۔
ہم کوئی دانا دانشورہیں نہ کسی سیاسی نظرئیے یا پارٹی سے ہمارا تعلق ہے، نہ ہی کالم اورقلم کے ذریعے ہم اس ٹیڑھی دنیا کو ''سیدھا'' کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ نہ سارے جہاں کادرد ہمارے جگر میں ہے بلکہ ہرلحاظ سے مکمل اور بڑے سادہ اور اجڈ پشتون ہیں۔ ہمیں کوئی قبیلہ قبیلی آتاہے اورنہ شبلہ شبلی یعنی ہم صرف یہی جانیں کہ سیدھا بدلہ ہو اورایسا ٹک پہ ٹک ۔
اوروں پہ اثر کیاہوا اس ہوشربا کا
بس اتنی خبر ہے مراایمان گیاہے
ہماری مٹی بھی بہرحال پشتون مٹی ہے اور جہاں کہیں کوئی ''پشتو'' کاکام کرے گا، اسے پشتون کہیں گے۔بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں کہ پشتونوں میں ایک نہیں دوپشتو رائج ہیں، ایک وہ جو بولی جاتی ہے یعنی زبان ۔اوردوسری وہ جو ''کی ''جاتی ہے، یہ اس ہمہ گیر اوردنیا کے قدیم ترین آئین یا دستورکانام ہے جو کہیں لکھا نہیں گیا ہے لیکن ہرپشتون کی رگ رگ میں جاری وساری ہے۔
اس پشتومیں ویسے توبہت کچھ شامل ہے لیکن ''بدلہ لینا'' بڑے بڑے قوانین میں شامل ہے، چاہے وہ برائی کا بدلہ ہو یا اچھائی کا اوراس کے لیے کوئی ٹائم لمٹ بھی نہیں ہے۔کہاوت ہے کسی نے بیس سال بعد ''بدلہ'' لیا تو لوگوں نے کہا، بہت جلدی لے لیا ہے اورشہبازشریف بلکہ اب شاباش شریف نے جو بدلہ لیا ہے، اسے ''ٹک پہ ٹک'' بدلہ کہتے ہیں کہ میت ابھی دفن نہیں ہوئی ہو اواس کابدلہ لے لیا جائے۔
ایسا ہی تو اس کے اوراس کے بھائی بلکہ خاندان کے ساتھ ہوا تھا کہ کہیں کی اینٹ اورکہیں کا روڑا جمع ہوئے اور ایک ''منتخب وزیراعظم'' سے نہ صرف اقتدار چھینا بلکہ دنیا کے تمام جرائم اورچوریوں کو اکٹھا کرکے ایک بوری میں ڈالا اوراس بوری کو اس بچارے کے سر پر دھر کر خود کو دودھ کے دھولے کے زمرے میں ڈال کر بھنگڑہ ڈالنے لگے تھے، دنیا بھرکے نااہلوں اوراناڑیوں کو جمع کر کے اس ملک اور عوام پر کھلم کھلا چھوڑ دیاگیا۔خیر وہ تو حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر عامل کامل جناب طاہرالقادری اورباباجی ڈیموں والی سرکار جانیں، ہم اپنی بات کرتے ہیں کہ پشتون کی اصل تعریف اورپہچان کیاہے۔
دبئی میں ہمارے بیٹے کے کچھ دوست بنے تھے جو منڈی بہاؤالدین کے تھے، وہ اپنے گاؤں گئے تھے، بیٹے نے وہاں سے ٹیلیفون کیاکہ ہم کچھ مصالحے دار گڑ اورچند اوراشیاء ان کو پہنچائیں۔
سامان تو پورا ہوگیا لیکن ہمیں جانے کی فرصت میسر نہ تھی، اس لیے ہم نے ایک پڑوسی کو سب کچھ دے کر بھیجا ،وہ چلا گیا، چارپانچ روزبعد اس کی واپسی ہوئی، بڑا خوش تھا، ان لوگوں نے اس کی بہت آؤ بھگت کی تھی،کچھ تحائف بھی دیے اورزبردست مہمان نوازی کی تھی،ساری رودادسناکربولا، منڈی بہاؤالدین بڑے پشتون لوگ ہیں،اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ ہنس پڑے کیونکہ وہ توپنجابی تھے اوریہ اسے پشتون کہہ رہا تھا، اس پر کافی دیربحث ہوئی لیکن وہ اپنی بات پراٹل رہا اورمثالیں دے دے کرثابت کرتا رہا کہ وہ بڑے پشتون لوگ ہیں بلکہ ایک دوکوتو طعنہ بھی دیا کہ تم جیسے نام کے پشتون نہیں بلکہ پکے اورسچے پشتون ہیں ۔
دراصل وہ ان پڑھ دیہاتی تھا، وہ باقی کچھ نہیں جانتا تھا، صرف یہ جانتا تھا کہ پشتو کے کام کیا ہوتے ہیں ۔
ہم بھی اگرشہبازشریف بلکہ شہباز خان شریف قراردے کر شاباش دے رہے ہیں تو۔۔
اس کاازتو آئد ومردان چیں کنند۔
یعین جو کام تم نے کردکھایا ہے مرد لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔
رہی سیاست اوردانا دانشوری کی بات تو پاکستان کی سیاست تو ایک ایسا اونٹ ہے کہ پہلے سے کچھ کم ٹیڑھا تھا کہ اوپر سے اسے لقوہ بھی مار گیا،اس میں وہ سب کچھ ہوسکتاہے اورہوتاہے جو ہونے کا ہو اورجو نہ ہونے کے ہوں، وہ اس سے پہلے ہوچکے ہوتے ہیں۔
باقی رہا نہ کوئی تماشا ترے بغیر
بلکہ اگر سچ کہتے تو پیرومرشد کی زبان میں کہنا پڑے گا کہ ۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتاہے شب وروزتماشا مرے آگے
زندہ باد ، ویل ڈن بلکہ شاباش، میاں شہباز شریف، کیا ''ٹک پہ ٹک'' بدلہ لیا ہے۔ ہمارے ہاں نرپشتون کابچہ اسے ہی کہتے ہیں، ایسے مواقع پر قومیت ،زبان اورعلاقہ بہت پیچھے رہ جاتاہے اورہم تو نہ صر ف''سخن فہم'' ہیں بلکہ پشتو فہم بھی ہیں جو بھی ''پشتوکلچر والاکام کرے گا، ہم اسے پشتون ہی قرار دیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو پشتون قراردیاجاچکا،جو نسلاً یا لساناً پشتون نہیں تھے لیکن ''پشتو'' کاکوئی زبردست کام کرچکے ہیں۔
ہم کوئی دانا دانشورہیں نہ کسی سیاسی نظرئیے یا پارٹی سے ہمارا تعلق ہے، نہ ہی کالم اورقلم کے ذریعے ہم اس ٹیڑھی دنیا کو ''سیدھا'' کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ نہ سارے جہاں کادرد ہمارے جگر میں ہے بلکہ ہرلحاظ سے مکمل اور بڑے سادہ اور اجڈ پشتون ہیں۔ ہمیں کوئی قبیلہ قبیلی آتاہے اورنہ شبلہ شبلی یعنی ہم صرف یہی جانیں کہ سیدھا بدلہ ہو اورایسا ٹک پہ ٹک ۔
اوروں پہ اثر کیاہوا اس ہوشربا کا
بس اتنی خبر ہے مراایمان گیاہے
ہماری مٹی بھی بہرحال پشتون مٹی ہے اور جہاں کہیں کوئی ''پشتو'' کاکام کرے گا، اسے پشتون کہیں گے۔بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں کہ پشتونوں میں ایک نہیں دوپشتو رائج ہیں، ایک وہ جو بولی جاتی ہے یعنی زبان ۔اوردوسری وہ جو ''کی ''جاتی ہے، یہ اس ہمہ گیر اوردنیا کے قدیم ترین آئین یا دستورکانام ہے جو کہیں لکھا نہیں گیا ہے لیکن ہرپشتون کی رگ رگ میں جاری وساری ہے۔
اس پشتومیں ویسے توبہت کچھ شامل ہے لیکن ''بدلہ لینا'' بڑے بڑے قوانین میں شامل ہے، چاہے وہ برائی کا بدلہ ہو یا اچھائی کا اوراس کے لیے کوئی ٹائم لمٹ بھی نہیں ہے۔کہاوت ہے کسی نے بیس سال بعد ''بدلہ'' لیا تو لوگوں نے کہا، بہت جلدی لے لیا ہے اورشہبازشریف بلکہ اب شاباش شریف نے جو بدلہ لیا ہے، اسے ''ٹک پہ ٹک'' بدلہ کہتے ہیں کہ میت ابھی دفن نہیں ہوئی ہو اواس کابدلہ لے لیا جائے۔
ایسا ہی تو اس کے اوراس کے بھائی بلکہ خاندان کے ساتھ ہوا تھا کہ کہیں کی اینٹ اورکہیں کا روڑا جمع ہوئے اور ایک ''منتخب وزیراعظم'' سے نہ صرف اقتدار چھینا بلکہ دنیا کے تمام جرائم اورچوریوں کو اکٹھا کرکے ایک بوری میں ڈالا اوراس بوری کو اس بچارے کے سر پر دھر کر خود کو دودھ کے دھولے کے زمرے میں ڈال کر بھنگڑہ ڈالنے لگے تھے، دنیا بھرکے نااہلوں اوراناڑیوں کو جمع کر کے اس ملک اور عوام پر کھلم کھلا چھوڑ دیاگیا۔خیر وہ تو حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر عامل کامل جناب طاہرالقادری اورباباجی ڈیموں والی سرکار جانیں، ہم اپنی بات کرتے ہیں کہ پشتون کی اصل تعریف اورپہچان کیاہے۔
دبئی میں ہمارے بیٹے کے کچھ دوست بنے تھے جو منڈی بہاؤالدین کے تھے، وہ اپنے گاؤں گئے تھے، بیٹے نے وہاں سے ٹیلیفون کیاکہ ہم کچھ مصالحے دار گڑ اورچند اوراشیاء ان کو پہنچائیں۔
سامان تو پورا ہوگیا لیکن ہمیں جانے کی فرصت میسر نہ تھی، اس لیے ہم نے ایک پڑوسی کو سب کچھ دے کر بھیجا ،وہ چلا گیا، چارپانچ روزبعد اس کی واپسی ہوئی، بڑا خوش تھا، ان لوگوں نے اس کی بہت آؤ بھگت کی تھی،کچھ تحائف بھی دیے اورزبردست مہمان نوازی کی تھی،ساری رودادسناکربولا، منڈی بہاؤالدین بڑے پشتون لوگ ہیں،اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ ہنس پڑے کیونکہ وہ توپنجابی تھے اوریہ اسے پشتون کہہ رہا تھا، اس پر کافی دیربحث ہوئی لیکن وہ اپنی بات پراٹل رہا اورمثالیں دے دے کرثابت کرتا رہا کہ وہ بڑے پشتون لوگ ہیں بلکہ ایک دوکوتو طعنہ بھی دیا کہ تم جیسے نام کے پشتون نہیں بلکہ پکے اورسچے پشتون ہیں ۔
دراصل وہ ان پڑھ دیہاتی تھا، وہ باقی کچھ نہیں جانتا تھا، صرف یہ جانتا تھا کہ پشتو کے کام کیا ہوتے ہیں ۔
ہم بھی اگرشہبازشریف بلکہ شہباز خان شریف قراردے کر شاباش دے رہے ہیں تو۔۔
اس کاازتو آئد ومردان چیں کنند۔
یعین جو کام تم نے کردکھایا ہے مرد لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔
رہی سیاست اوردانا دانشوری کی بات تو پاکستان کی سیاست تو ایک ایسا اونٹ ہے کہ پہلے سے کچھ کم ٹیڑھا تھا کہ اوپر سے اسے لقوہ بھی مار گیا،اس میں وہ سب کچھ ہوسکتاہے اورہوتاہے جو ہونے کا ہو اورجو نہ ہونے کے ہوں، وہ اس سے پہلے ہوچکے ہوتے ہیں۔
باقی رہا نہ کوئی تماشا ترے بغیر
بلکہ اگر سچ کہتے تو پیرومرشد کی زبان میں کہنا پڑے گا کہ ۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتاہے شب وروزتماشا مرے آگے