طالبان کے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی
آجکل پاک افغان سرحد پر حالات معمول پر نہیں ہیں
ISLAMABAD:
آجکل پاک افغان سرحد پر حالات معمول پر نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد سے پاکستان پر کئی حملہ ہوئے ہیں۔ بالخصوص شمالی وزیر ستان میں پاکستان کے فوجیوں نے جام شہادت میں نوش کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی پاک افغان سرحد سے پاکستان میں کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات بھی پیغام دے رہے ہیں کہ افغان سرحد سے پاکستان میں در اندازی ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت سے احتجاج بھی کیا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف ا ستعمال ہو رہی ہے لیکن طالبان اس کو سرکاری طو رپر ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
کراچی میں چینی با شندوں پر خود کش حملہ بھی یہی بتا رہا ہے کہ افغان سرحد سے دہشت گردی کے واقعات کی سہولت کاری اور مدد جاری ہے۔ چینی شہریوں پر حملہ بتا رہا ہے کہ پاکستان مخالف کھیل ابھی تک افغانستان میں جاری ہے۔
حالیہ ماہ میں جس تواتر سے افغان سرحد سے پاکستان پر دہشت گردی اور دراندازی ہوئی ہے، عمومی رائے یہی ہے کہ اس میں بھی افغان سرزمین استعمال ضرور ہو ئی ہے۔ویسے تو بلوچ لبریشن آرمی نے اس واقعہ کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ خاتون خود کش بمبار کی نشاندہی بھی ہوگئی ہے۔ لاہور کراچی سے سہولت کار بھی پکڑے گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی جب تک افغان سرزمین سے مدد ختم نہیں ہو گی ، پاکستان کے لیے ا س دہشت گردی کو مکمل ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد عمران حکومت کی جانب سے ایک بیانیہ یہ بھی بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اب افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ عمران خان کی حکومت نے تو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا بھی اعلان کر دیا تھا۔
ان مذاکرات کا پہلا دور افغانستان کی سرزمین پر ہوا۔ افغان طالبان نے ان میں سہولت کار ی کا اعلان کیا تا ہم یہ مذاکرات پہلے دور کے بعد ہی ناکام ہو گئے اور بات آگے چل ہی نہیں سکی۔ میں سمجھتا ہوں یہی بنیادی غلطی تھی، جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمیں افغان طالبان کی سہولت کاری میں مذاکرات کرنے کے بجائے پہلے دن یہ مطالبہ رکھنا چاہیے تھا کہ ہمارے ملزم ہمارے حوالے کیے جائیں۔ افغان سرزمین پر ان سے مذاکرات نے ان کی افغان سرزمین پر موجودگی کو قانونی جواز فراہم کر دیا جو درست نہیں تھا۔
طالبان کے موجودہ دور حکومت میں ان کا افغانستان پر وہ کنٹرول نہیں ہے، جو ماضی میں تھا۔ ماضی میں ملاء عمر کی طالبان حکومت کا افغانستان میں اپنے زیرکنٹرول علاقوں پر کنٹرول مثالی رہا تھا۔ طالبان میں ڈسپلن بھی مثالی تھا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ ہمیں طالبان کے اندر بھی اختلافات نظر آرہے ہیں۔ سب حقانی اور قندھاری گروپ کے درمیان اختلافات کی بات کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے انتخاب پر جس قسم کا تنازعہ سامنے آیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
اس کے ساتھ ہم دیکھ رہے ہیں کہ چند دن قبل کابل میں بم دھماکے ہوئے ہیں۔ ورنہ طالبان کے پہلے دور میں اس قسم کے واقعات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ داعش بہت تیزی سے افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں داعش کا ہاتھ ہے۔ بات صرف کابل کی نہیں ہے بلکہ افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول دیگر علاقوں میں بھی ہمیں حالات کنٹرول میں دکھائی نہیں دے رہے۔ قندھار جس کو طالبان کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے وہاں بھی امن وامان کے مسائل سامنے آئے ہیں۔
غرض طالبان ابھی تک افغانستان پر مکمل کنٹرول قائم نہیں کر سکے ہیں۔ حکومت بنا نا اور بات ہے اور مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور بات ہے۔ یہی گلہ تو پاکستان کو اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتوں سے بھی تھا کہ ان کا افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے۔ تا ہم ا شرف غنی نے دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہوا تھا۔ جن میں داعش اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی شامل تھے۔ لیکن طالبان نے جب جیلیں کھول دیں تو سب رہا ہو گئے۔ جس کی قیمت آج طالبان کو خود بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
پاکستان نے اربوں روپے خرچ کر کے افغان سرحد پر باڑ لگائی ہے۔ ہم نے دیکھاہے کہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد اس باڑ پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ ایسی فوٹیج سامنے آئی ہیں جہاں افغان سرحد کے اندر سے باڑ پر حملہ کیا گیا ہے۔ باڑ توڑی گئی ہے اور فتح کا جشن منایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ باڑ پاکستان نے اپنے علاقے میں لگائی ہے۔ اس باڑ کا بنیادی مقصد بھی پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل کو روکناتھا۔
دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکنا ہے۔ اشرف غنی کے دور میں اس باڑ پر کبھی حملہ نہیں ہوا تھا۔ میں اشرف غنی کا حامی نہیں ہوں نہ ہی میں اس دور کو افغانستان کے لیے کوئی مثالی دور سمجھتا ہوں۔ لیکن ہمیں امید یہی تھی کہ طالبان کے دور میں پاکستان کے لیے حا لات اشرف غنی دور سے بہتر ہوںگے۔ اس لیے تقابلی جائزہ بنتا ہے۔
افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات اور افغان سرزمین کاپاکستان کے خلاف استعمال ہونا پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس حوالے سے طالبان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث گروپس کو پناہ دینا بند کریں۔ ان کے خلاف کارروائی پاکستان کا حق ہونا چاہیے۔ اگر طالبان ان کو خود ہمارے حوالے کر دیں تو بہت بہتر ہے لیکن دوسری صورت میں پاکستان کو کارروائی کا حق ہونا چاہیے۔
یہ دلیل بھی کوئی قابل قبول نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی بیعت کی ہوئی ہے، اس لیے انھیں افغانستان میں رہنے کا حق دیا گیا ہے۔ وہ پاکستان کے دشمن ہیں، اگر ہم طالبان کے دشمنوں کو پناہ نہیں دے رہے تو طالبان ہمارے دشمنوں کو پناہ کیوں دے رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی سرزمین طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی تو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کیوں ہو رہی ہے۔
عمران خان کی حکومت نے پوری دنیا میں طالبان کا ترجمان بن کر پاکستان کے لیے کوئی نیک نامی نہیں کمائی۔ آج ہمیں طالبان سے جو گلے ہیں ہم کس سے کریں۔ دنیا کہے گی آپ تو ان کے ترجمان ہیں۔ آپ ان کی شکایت کر رہے ہیں۔ ہمیں طالبان کی حکومت سے وہی فاصلہ رکھنا چاہیے تھا جو باقی دنیا نے رکھا ہے۔ جب ہم نے انھیں تسلیم نہیں کیا کہ دنیا تسلیم نہیں کر رہی تو اتنی ترجمانی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
آجکل پاک افغان سرحد پر حالات معمول پر نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد سے پاکستان پر کئی حملہ ہوئے ہیں۔ بالخصوص شمالی وزیر ستان میں پاکستان کے فوجیوں نے جام شہادت میں نوش کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی پاک افغان سرحد سے پاکستان میں کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات بھی پیغام دے رہے ہیں کہ افغان سرحد سے پاکستان میں در اندازی ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت سے احتجاج بھی کیا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف ا ستعمال ہو رہی ہے لیکن طالبان اس کو سرکاری طو رپر ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
کراچی میں چینی با شندوں پر خود کش حملہ بھی یہی بتا رہا ہے کہ افغان سرحد سے دہشت گردی کے واقعات کی سہولت کاری اور مدد جاری ہے۔ چینی شہریوں پر حملہ بتا رہا ہے کہ پاکستان مخالف کھیل ابھی تک افغانستان میں جاری ہے۔
حالیہ ماہ میں جس تواتر سے افغان سرحد سے پاکستان پر دہشت گردی اور دراندازی ہوئی ہے، عمومی رائے یہی ہے کہ اس میں بھی افغان سرزمین استعمال ضرور ہو ئی ہے۔ویسے تو بلوچ لبریشن آرمی نے اس واقعہ کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ خاتون خود کش بمبار کی نشاندہی بھی ہوگئی ہے۔ لاہور کراچی سے سہولت کار بھی پکڑے گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی جب تک افغان سرزمین سے مدد ختم نہیں ہو گی ، پاکستان کے لیے ا س دہشت گردی کو مکمل ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد عمران حکومت کی جانب سے ایک بیانیہ یہ بھی بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اب افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ عمران خان کی حکومت نے تو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا بھی اعلان کر دیا تھا۔
ان مذاکرات کا پہلا دور افغانستان کی سرزمین پر ہوا۔ افغان طالبان نے ان میں سہولت کار ی کا اعلان کیا تا ہم یہ مذاکرات پہلے دور کے بعد ہی ناکام ہو گئے اور بات آگے چل ہی نہیں سکی۔ میں سمجھتا ہوں یہی بنیادی غلطی تھی، جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمیں افغان طالبان کی سہولت کاری میں مذاکرات کرنے کے بجائے پہلے دن یہ مطالبہ رکھنا چاہیے تھا کہ ہمارے ملزم ہمارے حوالے کیے جائیں۔ افغان سرزمین پر ان سے مذاکرات نے ان کی افغان سرزمین پر موجودگی کو قانونی جواز فراہم کر دیا جو درست نہیں تھا۔
طالبان کے موجودہ دور حکومت میں ان کا افغانستان پر وہ کنٹرول نہیں ہے، جو ماضی میں تھا۔ ماضی میں ملاء عمر کی طالبان حکومت کا افغانستان میں اپنے زیرکنٹرول علاقوں پر کنٹرول مثالی رہا تھا۔ طالبان میں ڈسپلن بھی مثالی تھا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ ہمیں طالبان کے اندر بھی اختلافات نظر آرہے ہیں۔ سب حقانی اور قندھاری گروپ کے درمیان اختلافات کی بات کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے انتخاب پر جس قسم کا تنازعہ سامنے آیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
اس کے ساتھ ہم دیکھ رہے ہیں کہ چند دن قبل کابل میں بم دھماکے ہوئے ہیں۔ ورنہ طالبان کے پہلے دور میں اس قسم کے واقعات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ داعش بہت تیزی سے افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں داعش کا ہاتھ ہے۔ بات صرف کابل کی نہیں ہے بلکہ افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول دیگر علاقوں میں بھی ہمیں حالات کنٹرول میں دکھائی نہیں دے رہے۔ قندھار جس کو طالبان کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے وہاں بھی امن وامان کے مسائل سامنے آئے ہیں۔
غرض طالبان ابھی تک افغانستان پر مکمل کنٹرول قائم نہیں کر سکے ہیں۔ حکومت بنا نا اور بات ہے اور مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور بات ہے۔ یہی گلہ تو پاکستان کو اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتوں سے بھی تھا کہ ان کا افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے۔ تا ہم ا شرف غنی نے دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہوا تھا۔ جن میں داعش اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی شامل تھے۔ لیکن طالبان نے جب جیلیں کھول دیں تو سب رہا ہو گئے۔ جس کی قیمت آج طالبان کو خود بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
پاکستان نے اربوں روپے خرچ کر کے افغان سرحد پر باڑ لگائی ہے۔ ہم نے دیکھاہے کہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد اس باڑ پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ ایسی فوٹیج سامنے آئی ہیں جہاں افغان سرحد کے اندر سے باڑ پر حملہ کیا گیا ہے۔ باڑ توڑی گئی ہے اور فتح کا جشن منایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ باڑ پاکستان نے اپنے علاقے میں لگائی ہے۔ اس باڑ کا بنیادی مقصد بھی پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل کو روکناتھا۔
دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکنا ہے۔ اشرف غنی کے دور میں اس باڑ پر کبھی حملہ نہیں ہوا تھا۔ میں اشرف غنی کا حامی نہیں ہوں نہ ہی میں اس دور کو افغانستان کے لیے کوئی مثالی دور سمجھتا ہوں۔ لیکن ہمیں امید یہی تھی کہ طالبان کے دور میں پاکستان کے لیے حا لات اشرف غنی دور سے بہتر ہوںگے۔ اس لیے تقابلی جائزہ بنتا ہے۔
افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات اور افغان سرزمین کاپاکستان کے خلاف استعمال ہونا پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس حوالے سے طالبان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث گروپس کو پناہ دینا بند کریں۔ ان کے خلاف کارروائی پاکستان کا حق ہونا چاہیے۔ اگر طالبان ان کو خود ہمارے حوالے کر دیں تو بہت بہتر ہے لیکن دوسری صورت میں پاکستان کو کارروائی کا حق ہونا چاہیے۔
یہ دلیل بھی کوئی قابل قبول نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی بیعت کی ہوئی ہے، اس لیے انھیں افغانستان میں رہنے کا حق دیا گیا ہے۔ وہ پاکستان کے دشمن ہیں، اگر ہم طالبان کے دشمنوں کو پناہ نہیں دے رہے تو طالبان ہمارے دشمنوں کو پناہ کیوں دے رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی سرزمین طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی تو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کیوں ہو رہی ہے۔
عمران خان کی حکومت نے پوری دنیا میں طالبان کا ترجمان بن کر پاکستان کے لیے کوئی نیک نامی نہیں کمائی۔ آج ہمیں طالبان سے جو گلے ہیں ہم کس سے کریں۔ دنیا کہے گی آپ تو ان کے ترجمان ہیں۔ آپ ان کی شکایت کر رہے ہیں۔ ہمیں طالبان کی حکومت سے وہی فاصلہ رکھنا چاہیے تھا جو باقی دنیا نے رکھا ہے۔ جب ہم نے انھیں تسلیم نہیں کیا کہ دنیا تسلیم نہیں کر رہی تو اتنی ترجمانی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔