آئین شکنی
اگر آج ہم نے آئین شکنی معاف کر دی تو کل سب کہیں گے کہ تب سزا نہیں ہوئی تھی اس لیے ہمیں کیوں سزا دی جا رہی ہے
LONDON:
وفاقی حکومت نے آئین شکنی پر صدر مملکت، ڈپٹی اسپیکر، گورنر پنجاب سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں پر آرٹیکل چھ کا ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر پاکستان میں جمہوری نظام نے چلنا ہے اور ہم نے اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو ہمیں آئین کی سربلندی اور آئین کی پاسداری کو ہر حال میں یقینی بنانا ہوگا۔
آپ اپنی سوچ کے مطابق وفاقی حکومت کے اس اقدام کو سیاسی مخالفت کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام تر سیاسی اختلاف کے دوران ہر پاکستانی کو آئین کی سربلندی پر یقین ہونا چاہیے۔ آئین سے انحراف اور آئین شکنی کی ایسی مثالی سزائیں ہونی چاہیے کہ کوئی ایسا کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہیں۔ یہ رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ہم آئین شکنی سے بچ سکتے ہیں۔
تحریک انصاف آئین شکنی اور قانون شکنی کو بھی ملا رہی ہے۔ قانون شکنی اور آئین شکنی میں بہت فرق ہے۔ قانون شکنی کی بھی سزائیں موجود ہیں۔ لیکن مختلف قانون شکنی کی مختلف سزائیں مقرر ہیں۔ لیکن اگر کسی قانون شکنی کی سزا نہیں ہو رہی تو اسے جواز بنا کر آئین شکنی کی راہ ہموار نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح کوئی ایک جرم کسی دوسرے جرم کا جواز نہیں ہو سکتا۔ اگر عمران خان کے ساتھی انھیں چھوڑ گئے ہیں اور آئین و قانون میں ان کو سزا دینے کا ایک طریقہ کار درج ہے اور عمران خان اس طریقہ کار میں جلد بازی چاہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کو جواز بنا کر ملک کے سارے آئینی ڈھانچے کی ہی نفی شروع کر دیں۔
ایک غلطی دوسری غلطی کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ پر حملہ ایک ناقابل معافی جرم ہے اسی طرح الیکشن کمیشن پر حملہ بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ ایک پر معافی اور ایک پر سزا نہیں ہو سکتی۔ پرامن انتقال اقتدار جمہوریت کی بنیادی روح ہے۔ یہ ہی جمہوریت اور فاشزم کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ پرامن انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ایک بڑی آئین شکنی ہے۔
عدم اعتماد اور شفاف انتخابات جمہوری نظام میں پرامن انتقال اقتدار کی بنیاد ہے ۔ عدم اعتماد کے خلاف جس طرح ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے رولنگ دی وہ ایک کھلی آئین شکنی تھی۔ اگر اس رولنگ کو درست مان لیا جاتا تو کسی بھی وزیر اعظم کو آئینی طریقہ سے نکالنا ممکن ہی نہ رہتا۔ جب بھی عدم اعتماد آتی حکومت ایک رولنگ سے اسے ختم کر دیتی۔ ڈپٹی اسپیکر کی یہ رولنگ ملک کے جمہوری نظام کو فاشزم اور آمریت میں تبدیل کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی۔
اس کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی سازش ہو بھی رہی تھی تب بھی عدم اعتماد کو ایک رولنگ سے ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے علیحدہ قانونی اور آئینی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔ آج عمران خان جس جیوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیا یہ سوال اہم ہے کہ اپنے دور اقتدار میں انھیں سپریم کورٹ کو جیوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کرنے سے کس نے روکا ہوا تھا۔ تب وہ کیوںاپنی حکومت کے ماتحت کمیشن بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انھیں تب ہی چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ نے آئین کے تحفظ کے لیے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ ڈپٹی اسپیکر کا غیر آئینی رولنگ پر اختیار کیا گیا رویہ پاکستان کی جمہوریت کے لیے خوش آیند نہیں ہے۔ڈپٹی اسپیکر کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہونے کی وجہ سے گورنر پنجاب کو بھی پر امن انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا حوصلہ ملا ہے۔
وہ بھی وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف نہیں لے رہے۔ اس سے پہلے صدر مملکت بھی وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ سے حلف لینے سے انکارکر چکے ہیں۔ بعد میں لگتا ہے کسی نے انھیں سمجھایا کہ اس طرح حکومت سازی نہیں رک سکتی۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہیٰ نے بھی آئین سے کھیلنے اور آئینی ابہام کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی ہے۔
شاید آئین بنانے والوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ کبھی اسپیکر خود ہی وزیر اعلیٰ کا امیدوار بن جائے گا۔اچھی جمہوری روایات تو یہی ہوتی کہ وہ پہلے اسپیکر شپ سے استعفیٰ دیتے پھر وزیر اعلیٰ کے امیدوار بنتے۔ لیکن جس طرح اسپیکر کے منصب کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں استعمال کیا گیا یہ بھی آئین شکنی ہے۔
ہم نے ماضی میں ایک آئین شکنی پر آرٹیکل چھ کا ریفرنس دائر ہوتے دیکھا ہے۔ یہ ریفرنس اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ ریفرنس اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا تو پھر اس کے بعد ملک میں مکمل آئین شکنی کی اجازت دے دی جائے۔
اگر آج ہم نے آئین شکنی معاف کر دی تو کل سب کہیں گے کہ تب سزا نہیں ہوئی تھی اس لیے ہمیں کیوں سزا دی جا رہی ہے۔ اس لیے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین شکنی کے خلاف کارروائی پاکستان کی جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے۔
وفاقی حکومت نے آئین شکنی پر صدر مملکت، ڈپٹی اسپیکر، گورنر پنجاب سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں پر آرٹیکل چھ کا ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر پاکستان میں جمہوری نظام نے چلنا ہے اور ہم نے اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو ہمیں آئین کی سربلندی اور آئین کی پاسداری کو ہر حال میں یقینی بنانا ہوگا۔
آپ اپنی سوچ کے مطابق وفاقی حکومت کے اس اقدام کو سیاسی مخالفت کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام تر سیاسی اختلاف کے دوران ہر پاکستانی کو آئین کی سربلندی پر یقین ہونا چاہیے۔ آئین سے انحراف اور آئین شکنی کی ایسی مثالی سزائیں ہونی چاہیے کہ کوئی ایسا کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہیں۔ یہ رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ہم آئین شکنی سے بچ سکتے ہیں۔
تحریک انصاف آئین شکنی اور قانون شکنی کو بھی ملا رہی ہے۔ قانون شکنی اور آئین شکنی میں بہت فرق ہے۔ قانون شکنی کی بھی سزائیں موجود ہیں۔ لیکن مختلف قانون شکنی کی مختلف سزائیں مقرر ہیں۔ لیکن اگر کسی قانون شکنی کی سزا نہیں ہو رہی تو اسے جواز بنا کر آئین شکنی کی راہ ہموار نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح کوئی ایک جرم کسی دوسرے جرم کا جواز نہیں ہو سکتا۔ اگر عمران خان کے ساتھی انھیں چھوڑ گئے ہیں اور آئین و قانون میں ان کو سزا دینے کا ایک طریقہ کار درج ہے اور عمران خان اس طریقہ کار میں جلد بازی چاہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کو جواز بنا کر ملک کے سارے آئینی ڈھانچے کی ہی نفی شروع کر دیں۔
ایک غلطی دوسری غلطی کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ پر حملہ ایک ناقابل معافی جرم ہے اسی طرح الیکشن کمیشن پر حملہ بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ ایک پر معافی اور ایک پر سزا نہیں ہو سکتی۔ پرامن انتقال اقتدار جمہوریت کی بنیادی روح ہے۔ یہ ہی جمہوریت اور فاشزم کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ پرامن انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ایک بڑی آئین شکنی ہے۔
عدم اعتماد اور شفاف انتخابات جمہوری نظام میں پرامن انتقال اقتدار کی بنیاد ہے ۔ عدم اعتماد کے خلاف جس طرح ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے رولنگ دی وہ ایک کھلی آئین شکنی تھی۔ اگر اس رولنگ کو درست مان لیا جاتا تو کسی بھی وزیر اعظم کو آئینی طریقہ سے نکالنا ممکن ہی نہ رہتا۔ جب بھی عدم اعتماد آتی حکومت ایک رولنگ سے اسے ختم کر دیتی۔ ڈپٹی اسپیکر کی یہ رولنگ ملک کے جمہوری نظام کو فاشزم اور آمریت میں تبدیل کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی۔
اس کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی سازش ہو بھی رہی تھی تب بھی عدم اعتماد کو ایک رولنگ سے ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے علیحدہ قانونی اور آئینی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔ آج عمران خان جس جیوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیا یہ سوال اہم ہے کہ اپنے دور اقتدار میں انھیں سپریم کورٹ کو جیوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کرنے سے کس نے روکا ہوا تھا۔ تب وہ کیوںاپنی حکومت کے ماتحت کمیشن بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انھیں تب ہی چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ نے آئین کے تحفظ کے لیے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ ڈپٹی اسپیکر کا غیر آئینی رولنگ پر اختیار کیا گیا رویہ پاکستان کی جمہوریت کے لیے خوش آیند نہیں ہے۔ڈپٹی اسپیکر کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہونے کی وجہ سے گورنر پنجاب کو بھی پر امن انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا حوصلہ ملا ہے۔
وہ بھی وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف نہیں لے رہے۔ اس سے پہلے صدر مملکت بھی وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ سے حلف لینے سے انکارکر چکے ہیں۔ بعد میں لگتا ہے کسی نے انھیں سمجھایا کہ اس طرح حکومت سازی نہیں رک سکتی۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہیٰ نے بھی آئین سے کھیلنے اور آئینی ابہام کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی ہے۔
شاید آئین بنانے والوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ کبھی اسپیکر خود ہی وزیر اعلیٰ کا امیدوار بن جائے گا۔اچھی جمہوری روایات تو یہی ہوتی کہ وہ پہلے اسپیکر شپ سے استعفیٰ دیتے پھر وزیر اعلیٰ کے امیدوار بنتے۔ لیکن جس طرح اسپیکر کے منصب کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں استعمال کیا گیا یہ بھی آئین شکنی ہے۔
ہم نے ماضی میں ایک آئین شکنی پر آرٹیکل چھ کا ریفرنس دائر ہوتے دیکھا ہے۔ یہ ریفرنس اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ ریفرنس اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا تو پھر اس کے بعد ملک میں مکمل آئین شکنی کی اجازت دے دی جائے۔
اگر آج ہم نے آئین شکنی معاف کر دی تو کل سب کہیں گے کہ تب سزا نہیں ہوئی تھی اس لیے ہمیں کیوں سزا دی جا رہی ہے۔ اس لیے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین شکنی کے خلاف کارروائی پاکستان کی جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے۔