سارے رنگ
عید آخر عید کیوں ہے۔۔۔؟
ISLAMABAD:
عید آخر عید کیوں ہے۔۔۔؟
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
کیا کبھی آپ نے عید کی صبح یہ محسوس کیا ہے کہ آج آخر ایسی کیا خاص چیز ہے، جو باقی سال یا گذشتہ 29 یا 30 دنوں سے آج کی صبح کو بالکل مختلف بنا رہی ہے۔۔۔ محض ایک ہی دن پہلے تو یہی وقت تھا اور یہی صبح تھی اور سویرے سویرے کا وقت ہماری سَحری کے بعد سُستانے یا نیند پوری کرنے کا ہوتا تھا، لیکن آج صبح ہونے تک گھروں میں خوب جاگ ہو رہی ہے، کچھ نہ کچھ اہتمام ہو رہا ہے، گلی کوچوں اور بازاروں میں الگ طرح کی رونق ہے۔
دوسری طرف ابھی کل ہی کی صبح سب نے روزہ رکھا ہوا تھا اور ماحول میں الگ ہی قسم کی سنجیدگی اور متانت تھی، وہ اور قسم کا سماں تھا اور آج اس سے یک سر مختلف ماحول ہے۔۔۔ سب اچھے لباس، عمدہ سرپوش اور نئی جوتی پہنے عید گاہ جانے کی تیاری میں ہیں۔۔۔ پھر لفظِ عید میں ہی کچھ ایسا جادو ہے کہ انسان کے پورے وجود میں ایک مسرت سی بھر دیتا ہے۔
ایک ایسی مسرت جسے صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے، لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جب کبھی خوشی کی انتہا بیان کرنی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ 'بھئی، آج تو عید ہو گئی۔۔۔!' گویا 'عید' مسرت کی انتہا ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ عید آخر خود 'عید' کیوں ہے۔۔۔؟
شاید اپنوں سے میل ملاقات اور اپنی خوشیاں بانٹنے کے سبب۔۔۔! لیکن یہ تو زندگی ہے، جو اپنے رنگ بھی بدلتی ہے، دکھ سُکھ کی دھوپ، چھاؤں بھی چلتی ہے، وقت کے نشیب وفراز بھی آتے ہیں، لیکن خوشی کا تیوہار تو وقت کا قیدی ہے، وہ کسی کے سُکھی ہونے یا زندگی کے مسئلے نمٹ جانے کا بالکل انتظار نہیں کرتا، سو اگر معمول کے مسئلے ہوں، تو عید ان پر غالب آجاتی ہے، لیکن جہاں خدانخواستہ کوئی زیادہ پریشانی اور افسردگی والا مسئلہ درپیش ہو تو پھر 'عید' واقعی عید نہیں رہتی، بلکہ دکھ میں اضافے کا باعث بنتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہے۔ ا
ب زندگی کے یہ معاملات معاش سے لے کر دکھ بیماری تلک کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ تو پھر بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ محض عید کا چاند ہو جانا ہی تو عید نہیں ہوتی۔ عید کے چاند ہونے کے ساتھ اصل عید کا ہونا ہماری زندگیوں میں سکون ہونا، دلوں کا مطمئن اور شاد ہونا ہے اور آپس کی بات ہے کہ کبھی تو اندر کا اطمینان اور سکھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پھر یہ کبھی کسی 'ہلالِ عید' کا محتاج بھی نہیں ہوتا۔
سو اگر آج زندگی کی گردش کے سبب یا تقدیر کے کچھ اَلم عید پر آپ کو خوش ہونے سے روکے جائے ہیں، تو کوشش کیجیے کہ اگر ممکن ہو تو زندگی میں جو اپنے آپ کو میسر ہیں، ان سے میل ملاقات کے ذریعے عید کی خوشی کو کچھ کشید کر لیجیے۔ ہم نے میسر اس لیے لکھا ہے کہ اب وہ زمانے تو رہے نہیں، کہ جب عید پر خاندان کے خاندان جمع ہو لیا کرتے تھے۔۔۔ ایک ننھیال کا دن، ایک ددھیال کا دن، ایک میکے کے نام اور ایک سسرال کی نذر۔۔۔ اس لیے بس جو دست یاب ہیں، جو واقعی آپ سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور آپ کا دل بھی ان کے قرب سے شاداں ہوتا ہے، بس انھی پر اکتفا کیجیے۔
یہی آپ کی عید اور یہی بقرعید۔ اگر جبراً کسی سے عید کے روز بھی ملنے کی کوشش کی، تو ممکن ہے کہ آپ کے 'میزبان' کے تنک چہرے یا چڑھے تیور آپ کی عید کو اچھی خاصی 'وعید' بنا ڈالیں۔ سو اگرچہ دو برس بعد 'کورونا' کی وبا کچھ تھمی ہے۔
بیماری سے تحفظ کی خاطر سماجی فاصلوں کی منادی باقی نہیں رہی، لیکن ایسے رشتوں سے اور ایسے ''اپنوں'' سے تیوہاروں پر بھی ''محدود رہیے، محفوظ رہیے'' کی صلاح پر بدستور کاربند رہیے۔ فقط رِیت روایات کو، صرف دنیا داری کو 'روزِ عید' جن کے چہرے دیکھنا 'واجب' ہوں، سو دیکھ لیجیے، کوئی حرج نہیں، مبارک سلامت بھی کرلیجیے، لیکن بس اتنا ہی۔ اِس سے زیادہ توقع رکھیں گے، تو خدشہ ہے کہ آپ کی عیدِ سعید کا 'فالودہ' ہو جائے گا۔
حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے، اپنی خوشیوں کی خود حفاظت کیجیے، جو جتنا اور جیسا ملنا چاہتا ہے، اس سے ویسا اور اتنا ہی ملیے۔ یعنی خوشیاں صرف اِس سے بانٹیے، جو آپ کی خوشی لے کر بھی خوش ہو، اس کا چہرے کی دمک گواہی دے کہ واقعی وہ آپ سے مل کر کھِل اٹھا ہے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ خوشی آپ کے وجود میں منعکس ہو کر آپ کے تہوار کو بھی واقعی تہوار بنا دے گی۔ عید کو عید بنا دے گی، زندگی میں جاری کچھ تلخیوں کو ذرا دیر کو بھلا دے گی، اور آپ کی طبیعت بڑی دیر کو مسکرانے لگے گی، بس بھلا عید کا مقصد ہی اور کیا ہے۔۔۔۔
میرا جی اور شونیتا کا تصور
نادیہ عنبر لودھی، اسلام آباد
وحشت میں انسان کاآخری سہارا مذہب ہوتا ہے اور جس کے پاس یہ سہارا نہ ہو تو اس کی داخلی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ میرا جی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، انھوں نے اپنی وحشت کوخود پر طاری کرلیا اور اسی وحشت نے انھیں ختم کر دیا ۔ میرا جی کے ظاہری حلیے کا پراگندہ پن، ان کی عجیب عادتیں، صاف گوئی اور غربت نے انھیں لوگوں کی نظروں میں منفی تاثرات کی حامل ایک مجہول سی شخصیت بنا دیا تھا ۔ لوگ ان کے من میں چھپے حساس دل تک نہ پہنچ سکے اور میرا جی مر گئے۔
میرا جی کی شاعری اور ان کی نظموں کی انوکھی فضا، ان کے مضامین میں تنوع ، ان کی وسیع سوچ اور جدیدیت سے بھرپور تنقیدی شعور نے انھیں اردو ادب کے جدید شاعروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔
میرا جی کی شخصیت نفی ِ ذات کا منہ بولتا ثبوت تھی اور ان کی شاعری اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔
میرا جی کے شعور نے انہیں مصرعوں کی کانٹ چھانٹ سے آزاد کیا اور نظریہ شونیتا نے ان کے الفاظ کو امر کردیا۔ شونیتا یعنی سوچنے کا ایسا قاعدہ جس کی رُو سے ایک ایسی سوچ تک آگہی کہ اس کائنات میں کچھ بھی، یعنی کوئی شے، کوئی بھی خیال، کوئی بھی نظریہ، کوئی بھی تصور، کوئی بھی اصول قائم بالذات نہیں ہے، یعنی کسی شے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ شونے کا مطلب ہندی میں صفر ہے ۔ مطلب زیرو۔ شونیتا شونے سے ہے۔ صفر، جو ایک عددی علامت ہے۔ شونیہ کے ایک معنی تو یہ ہے کہ 0 ۔ یعنی کہ نہیں ہے۔ اس کے مطابق اس کائنات میں موجود ہر چیز معدوم ہے۔ ہر شے پر غیاب کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ حقیقت کی اصل محض ایک واہمہ ہے۔ اپنی مطلق حیثیت سے شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادی مطلق کا احساس ہے۔
اس آزادی کے احساس کو میرا جی نے اپنی شخصیت پر بھی طاری کیا اور اپنے فن میں بھی اس کو لاشعوری طور پر برتا ہے۔ لیکن اس کی بنیادیں شونیتا کی جڑوں سے جڑی ہوئی ہیں ۔ شونیتا کی یہ نفی محض ''نہیں'' میں نہیں ہے، بلکہ وجود یا وجود کے احساس سے ورا جو وجود ہے، اس کا احساس ہے، اس کی نفی بھی ہے۔ شونیتا کے تصور کو بہتر طور سمجھنے کے لیے ہمیں یوں سمجھنا چاہیے کہ حقیقت یا وجود اپنی جگہ پر ہے لیکن شونیتا کی فہم کے بغیر اس کا علم ممکن نہیں ہے شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادی مطلق کااحساس ہے۔ اسی آزادی کے احساس کو جینے کی کوشش میں میرا جی نے اپنی عجیب وغریب وضع قطع بنا کر اپنی ذات کی نفی کرنے کی کوشش کی ۔ وہ شونیتا کے تصور سے بخوبی واقف تھے ان کے اشعار پر ہندی کے اثرات واضح ہیں، الفاظ کے چناؤ سے خیالات تک۔ وہ خود کو ایک آزاد روح سمجھتے تھے، لیکن جب آزاد ہو نہیں پاتے تھے، تو اپنی نفی کرنے لگتے یہ ہی انداز ان کی نظموں کی انفرادیت ہے۔
اندرونی کشمکش بیرونی ماحول کی شدت پسندی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی، بلکہ نفی اور اثبات کا کھیل کھیلتی رہتی ہے ۔ یہ ہی کھیل میرا جی کے وجود میں جاری رہتا تھا کبھی ان کے من موجی فطرت حاوی ہو جاتی اور کبھی زیر۔ جس کا اندازہ میرا جی کی حالت ناگفتہ بہ سے ہوتا۔ وحشت کی بھرمار ان کے وجود میں ایسی آگ بھر دیتی کہ وہ اس آگ کو آنسووں سے بجھانے لگتے۔ سکون آور کیف کے لیے شاید ان کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا یا وہ وجود کی نفی کرتے کرتے تھک جاتے تھے۔
شونیتا کے تصورات میرا جی کے مضامین میں بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی نظر مغربی تنقیدی افکار پر بہت گہری تھی اور نظم نگاری کے فن سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ان کی نظمیں گہری معنویت لیے ہوئے ہیں، جن کی تہہ میں کئی عناصر بکھرے ملتے ہیں جن میں نفی کا جذبہ شدت سے ابھر تا چلا جاتا ہے اور اثبات کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم روک دیتا ہے، وہ صفر کی دہلیز پر کھڑے ہو کر سوچتے ہیں کہ سب شونے ہے۔ لیکن وہ آس اور امید کا دامن بھی تھامے رکھتے ہیں۔
بلّی
شفیق الرحمن
بلّیاں سلطنت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ چناں چہ بلّیوں پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ بلّیوں کی کئی قسمیں بتائی گئی ہیں۔ جو لوگ بلّیوں قسمیں گنتے رہتے ہیں ان کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ بلّیاں پالنے والوں کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ بلّی انہیں خواہ مخواہ چاہتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ بلّی کے قیام و طعام کا بندوبست کرتے ہیں۔ کاش کہ ایسا ہی ہوتا۔
بلّیاں دو ہفتے کی عمر ہی میں نازوانداز دکھانا شروع کر دیتی ہیں بغیر کسی ٹریننگ کے۔ سنا ہے کہ کچھ بلّیاں دوسری بلّیوں سے خوب صورت ہوتی ہیں، بعض لوگ سیامی بلّی کو حسین سمجھتے ہیں (ایسے لوگ کسی چیز کو بھی حسین سمجھنے لگیں گے۔) الگورہ کی بلّی کی جسامت اور خدوخال کتے سے زیادہ ملتے ہیں۔ ویسے ایرانی بلّی ایک اچھی آل رائونڈر بلّی کہی جا سکتی ہے۔
لیکن ایران میں ایرانی بلّیوں پر غیرملکی بلّیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سو دیشی بدیشی کا سوال ہر جگہ ہے۔ ویسے ایرانی بلّی بھی تماشا ہے۔ کبھی گریہ 'مسکین بن جاتی ہے اور کبھی ''نہ میں کہ چوں گر بہ عاجز شوو'' شاید ایرانیوں نے اپنی بلّی کو نہیں سمجھا۔ یا شاید سمجھ لیا ہے۔
بلّیاں میائوں میائوں کرتی ہیں۔ قنوطی بلی می می می آوئوں کہتی ہے تاکہ ہر ایک سن لے۔ جب بلّی زیر لب بڑبڑانا شروع کر دے اور تنہائی میں دیر تک بڑبڑاتی رہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین دن گزار چکی ہے۔ گرمیوں میں بلّیاں پنکھے کے نیچے سے نہیں ہلتیں۔ سردیوں میں بن ٹھن کر ربن بندھوا کر دھوپ سینکتی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا مقصد یہی ہے۔ بلّی کا بورژوا پن نو عمر لڑکے لڑکیوں کے لیے مہلک ہے۔ انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ جو کچھ بلی کے لیے مفید ہے وہ سب کے لیے مفید ہوگا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ بلّیاں اتنی مغرور اور خودغرض کیوں ہیں میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو محنت کیے بغیر ایسی مرغن غذا ملتی رہے، جس میں پروٹین اور وٹامن ضرورت سے زیادہ ہوں تو آپ کا رویہ کیا ہوگا؟
بلّی دوسرے کا نقطۂ نظر نہیں سمجھتی۔ اگر اسے بتایا جائے کہ ہم دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے آئے ہیں تو اس کا پہلا سوال یہ ہوگا کہ دوسرے یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟
تقریباً سال بھر میں بلّی سدھائی جاسکتی ہے۔ مگر سال بھر کی مشقت کا نتیجہ صرف ایک سدھائی ہوئی بلّی ہوگا۔ جہاں بقیہ چوپائے دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہیں وہاں بلّی دودھ پینے والے جانوروں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر غلطی سے دودھ کھلا رہ جائے تو آپ کی سدھائی ہوئی بلّی پی جائے گی۔ اگر دودھ کو بند کرکے قفل لگادیا جائے تب بھی پی جائے گی۔ کیوں کر؟ یہ ایک راز ہے جو بلّیوں تک محدود ہے۔
''محبت زیادہ سچی تھی!''
مرسلہ: خجستہ انوار، فیڈرل بی ایریا
خلیل جبران کی اپنی محبوبہ میزیادہ سے محبت بغیر کسی ملاقات اور دیدار کے 20سال تک چلتی رہی۔ جبران نیویارک میں تھا اور میزیادہ قاہرہ میں۔ دنیا کے دو کونوں سے دونوں باہم خطوط کا تبادلہ کیا کرتے تھے، ایک خط میں جبران نے میزیادہ کی تصویر مانگی تو میزیادہ نے اس کو لکھا: ''سوچو ! تصور کرو! میں کیسی دکھائی دیتی ہوں گی؟''
جبران نے لکھا ''مجھے لگتا ہے، تمھارے بال چھوٹے ہوں گے، جو تمھارا چہرہ ڈھانپ لیتے ہوں گے۔ میزیادہ نے یہ پڑھ کر اپنے لمبے بال کاٹ ڈالے اور ایک خط کے ساتھ اپنے چھوٹے بالوں والی تصویر بھیجی۔ جبران نے کہا تم نے دیکھا؟ میرا تصور بالکل سچا تھا، میزیادہ نے کہا محبت زیادہ سچی تھی!
عید آخر عید کیوں ہے۔۔۔؟
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
کیا کبھی آپ نے عید کی صبح یہ محسوس کیا ہے کہ آج آخر ایسی کیا خاص چیز ہے، جو باقی سال یا گذشتہ 29 یا 30 دنوں سے آج کی صبح کو بالکل مختلف بنا رہی ہے۔۔۔ محض ایک ہی دن پہلے تو یہی وقت تھا اور یہی صبح تھی اور سویرے سویرے کا وقت ہماری سَحری کے بعد سُستانے یا نیند پوری کرنے کا ہوتا تھا، لیکن آج صبح ہونے تک گھروں میں خوب جاگ ہو رہی ہے، کچھ نہ کچھ اہتمام ہو رہا ہے، گلی کوچوں اور بازاروں میں الگ طرح کی رونق ہے۔
دوسری طرف ابھی کل ہی کی صبح سب نے روزہ رکھا ہوا تھا اور ماحول میں الگ ہی قسم کی سنجیدگی اور متانت تھی، وہ اور قسم کا سماں تھا اور آج اس سے یک سر مختلف ماحول ہے۔۔۔ سب اچھے لباس، عمدہ سرپوش اور نئی جوتی پہنے عید گاہ جانے کی تیاری میں ہیں۔۔۔ پھر لفظِ عید میں ہی کچھ ایسا جادو ہے کہ انسان کے پورے وجود میں ایک مسرت سی بھر دیتا ہے۔
ایک ایسی مسرت جسے صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے، لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جب کبھی خوشی کی انتہا بیان کرنی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ 'بھئی، آج تو عید ہو گئی۔۔۔!' گویا 'عید' مسرت کی انتہا ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ عید آخر خود 'عید' کیوں ہے۔۔۔؟
شاید اپنوں سے میل ملاقات اور اپنی خوشیاں بانٹنے کے سبب۔۔۔! لیکن یہ تو زندگی ہے، جو اپنے رنگ بھی بدلتی ہے، دکھ سُکھ کی دھوپ، چھاؤں بھی چلتی ہے، وقت کے نشیب وفراز بھی آتے ہیں، لیکن خوشی کا تیوہار تو وقت کا قیدی ہے، وہ کسی کے سُکھی ہونے یا زندگی کے مسئلے نمٹ جانے کا بالکل انتظار نہیں کرتا، سو اگر معمول کے مسئلے ہوں، تو عید ان پر غالب آجاتی ہے، لیکن جہاں خدانخواستہ کوئی زیادہ پریشانی اور افسردگی والا مسئلہ درپیش ہو تو پھر 'عید' واقعی عید نہیں رہتی، بلکہ دکھ میں اضافے کا باعث بنتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہے۔ ا
ب زندگی کے یہ معاملات معاش سے لے کر دکھ بیماری تلک کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ تو پھر بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ محض عید کا چاند ہو جانا ہی تو عید نہیں ہوتی۔ عید کے چاند ہونے کے ساتھ اصل عید کا ہونا ہماری زندگیوں میں سکون ہونا، دلوں کا مطمئن اور شاد ہونا ہے اور آپس کی بات ہے کہ کبھی تو اندر کا اطمینان اور سکھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پھر یہ کبھی کسی 'ہلالِ عید' کا محتاج بھی نہیں ہوتا۔
سو اگر آج زندگی کی گردش کے سبب یا تقدیر کے کچھ اَلم عید پر آپ کو خوش ہونے سے روکے جائے ہیں، تو کوشش کیجیے کہ اگر ممکن ہو تو زندگی میں جو اپنے آپ کو میسر ہیں، ان سے میل ملاقات کے ذریعے عید کی خوشی کو کچھ کشید کر لیجیے۔ ہم نے میسر اس لیے لکھا ہے کہ اب وہ زمانے تو رہے نہیں، کہ جب عید پر خاندان کے خاندان جمع ہو لیا کرتے تھے۔۔۔ ایک ننھیال کا دن، ایک ددھیال کا دن، ایک میکے کے نام اور ایک سسرال کی نذر۔۔۔ اس لیے بس جو دست یاب ہیں، جو واقعی آپ سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور آپ کا دل بھی ان کے قرب سے شاداں ہوتا ہے، بس انھی پر اکتفا کیجیے۔
یہی آپ کی عید اور یہی بقرعید۔ اگر جبراً کسی سے عید کے روز بھی ملنے کی کوشش کی، تو ممکن ہے کہ آپ کے 'میزبان' کے تنک چہرے یا چڑھے تیور آپ کی عید کو اچھی خاصی 'وعید' بنا ڈالیں۔ سو اگرچہ دو برس بعد 'کورونا' کی وبا کچھ تھمی ہے۔
بیماری سے تحفظ کی خاطر سماجی فاصلوں کی منادی باقی نہیں رہی، لیکن ایسے رشتوں سے اور ایسے ''اپنوں'' سے تیوہاروں پر بھی ''محدود رہیے، محفوظ رہیے'' کی صلاح پر بدستور کاربند رہیے۔ فقط رِیت روایات کو، صرف دنیا داری کو 'روزِ عید' جن کے چہرے دیکھنا 'واجب' ہوں، سو دیکھ لیجیے، کوئی حرج نہیں، مبارک سلامت بھی کرلیجیے، لیکن بس اتنا ہی۔ اِس سے زیادہ توقع رکھیں گے، تو خدشہ ہے کہ آپ کی عیدِ سعید کا 'فالودہ' ہو جائے گا۔
حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے، اپنی خوشیوں کی خود حفاظت کیجیے، جو جتنا اور جیسا ملنا چاہتا ہے، اس سے ویسا اور اتنا ہی ملیے۔ یعنی خوشیاں صرف اِس سے بانٹیے، جو آپ کی خوشی لے کر بھی خوش ہو، اس کا چہرے کی دمک گواہی دے کہ واقعی وہ آپ سے مل کر کھِل اٹھا ہے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ خوشی آپ کے وجود میں منعکس ہو کر آپ کے تہوار کو بھی واقعی تہوار بنا دے گی۔ عید کو عید بنا دے گی، زندگی میں جاری کچھ تلخیوں کو ذرا دیر کو بھلا دے گی، اور آپ کی طبیعت بڑی دیر کو مسکرانے لگے گی، بس بھلا عید کا مقصد ہی اور کیا ہے۔۔۔۔
میرا جی اور شونیتا کا تصور
نادیہ عنبر لودھی، اسلام آباد
وحشت میں انسان کاآخری سہارا مذہب ہوتا ہے اور جس کے پاس یہ سہارا نہ ہو تو اس کی داخلی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ میرا جی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، انھوں نے اپنی وحشت کوخود پر طاری کرلیا اور اسی وحشت نے انھیں ختم کر دیا ۔ میرا جی کے ظاہری حلیے کا پراگندہ پن، ان کی عجیب عادتیں، صاف گوئی اور غربت نے انھیں لوگوں کی نظروں میں منفی تاثرات کی حامل ایک مجہول سی شخصیت بنا دیا تھا ۔ لوگ ان کے من میں چھپے حساس دل تک نہ پہنچ سکے اور میرا جی مر گئے۔
میرا جی کی شاعری اور ان کی نظموں کی انوکھی فضا، ان کے مضامین میں تنوع ، ان کی وسیع سوچ اور جدیدیت سے بھرپور تنقیدی شعور نے انھیں اردو ادب کے جدید شاعروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔
میرا جی کی شخصیت نفی ِ ذات کا منہ بولتا ثبوت تھی اور ان کی شاعری اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔
میرا جی کے شعور نے انہیں مصرعوں کی کانٹ چھانٹ سے آزاد کیا اور نظریہ شونیتا نے ان کے الفاظ کو امر کردیا۔ شونیتا یعنی سوچنے کا ایسا قاعدہ جس کی رُو سے ایک ایسی سوچ تک آگہی کہ اس کائنات میں کچھ بھی، یعنی کوئی شے، کوئی بھی خیال، کوئی بھی نظریہ، کوئی بھی تصور، کوئی بھی اصول قائم بالذات نہیں ہے، یعنی کسی شے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ شونے کا مطلب ہندی میں صفر ہے ۔ مطلب زیرو۔ شونیتا شونے سے ہے۔ صفر، جو ایک عددی علامت ہے۔ شونیہ کے ایک معنی تو یہ ہے کہ 0 ۔ یعنی کہ نہیں ہے۔ اس کے مطابق اس کائنات میں موجود ہر چیز معدوم ہے۔ ہر شے پر غیاب کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ حقیقت کی اصل محض ایک واہمہ ہے۔ اپنی مطلق حیثیت سے شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادی مطلق کا احساس ہے۔
اس آزادی کے احساس کو میرا جی نے اپنی شخصیت پر بھی طاری کیا اور اپنے فن میں بھی اس کو لاشعوری طور پر برتا ہے۔ لیکن اس کی بنیادیں شونیتا کی جڑوں سے جڑی ہوئی ہیں ۔ شونیتا کی یہ نفی محض ''نہیں'' میں نہیں ہے، بلکہ وجود یا وجود کے احساس سے ورا جو وجود ہے، اس کا احساس ہے، اس کی نفی بھی ہے۔ شونیتا کے تصور کو بہتر طور سمجھنے کے لیے ہمیں یوں سمجھنا چاہیے کہ حقیقت یا وجود اپنی جگہ پر ہے لیکن شونیتا کی فہم کے بغیر اس کا علم ممکن نہیں ہے شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادی مطلق کااحساس ہے۔ اسی آزادی کے احساس کو جینے کی کوشش میں میرا جی نے اپنی عجیب وغریب وضع قطع بنا کر اپنی ذات کی نفی کرنے کی کوشش کی ۔ وہ شونیتا کے تصور سے بخوبی واقف تھے ان کے اشعار پر ہندی کے اثرات واضح ہیں، الفاظ کے چناؤ سے خیالات تک۔ وہ خود کو ایک آزاد روح سمجھتے تھے، لیکن جب آزاد ہو نہیں پاتے تھے، تو اپنی نفی کرنے لگتے یہ ہی انداز ان کی نظموں کی انفرادیت ہے۔
اندرونی کشمکش بیرونی ماحول کی شدت پسندی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی، بلکہ نفی اور اثبات کا کھیل کھیلتی رہتی ہے ۔ یہ ہی کھیل میرا جی کے وجود میں جاری رہتا تھا کبھی ان کے من موجی فطرت حاوی ہو جاتی اور کبھی زیر۔ جس کا اندازہ میرا جی کی حالت ناگفتہ بہ سے ہوتا۔ وحشت کی بھرمار ان کے وجود میں ایسی آگ بھر دیتی کہ وہ اس آگ کو آنسووں سے بجھانے لگتے۔ سکون آور کیف کے لیے شاید ان کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا یا وہ وجود کی نفی کرتے کرتے تھک جاتے تھے۔
شونیتا کے تصورات میرا جی کے مضامین میں بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی نظر مغربی تنقیدی افکار پر بہت گہری تھی اور نظم نگاری کے فن سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ان کی نظمیں گہری معنویت لیے ہوئے ہیں، جن کی تہہ میں کئی عناصر بکھرے ملتے ہیں جن میں نفی کا جذبہ شدت سے ابھر تا چلا جاتا ہے اور اثبات کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم روک دیتا ہے، وہ صفر کی دہلیز پر کھڑے ہو کر سوچتے ہیں کہ سب شونے ہے۔ لیکن وہ آس اور امید کا دامن بھی تھامے رکھتے ہیں۔
بلّی
شفیق الرحمن
بلّیاں سلطنت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ چناں چہ بلّیوں پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ بلّیوں کی کئی قسمیں بتائی گئی ہیں۔ جو لوگ بلّیوں قسمیں گنتے رہتے ہیں ان کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ بلّیاں پالنے والوں کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ بلّی انہیں خواہ مخواہ چاہتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ بلّی کے قیام و طعام کا بندوبست کرتے ہیں۔ کاش کہ ایسا ہی ہوتا۔
بلّیاں دو ہفتے کی عمر ہی میں نازوانداز دکھانا شروع کر دیتی ہیں بغیر کسی ٹریننگ کے۔ سنا ہے کہ کچھ بلّیاں دوسری بلّیوں سے خوب صورت ہوتی ہیں، بعض لوگ سیامی بلّی کو حسین سمجھتے ہیں (ایسے لوگ کسی چیز کو بھی حسین سمجھنے لگیں گے۔) الگورہ کی بلّی کی جسامت اور خدوخال کتے سے زیادہ ملتے ہیں۔ ویسے ایرانی بلّی ایک اچھی آل رائونڈر بلّی کہی جا سکتی ہے۔
لیکن ایران میں ایرانی بلّیوں پر غیرملکی بلّیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سو دیشی بدیشی کا سوال ہر جگہ ہے۔ ویسے ایرانی بلّی بھی تماشا ہے۔ کبھی گریہ 'مسکین بن جاتی ہے اور کبھی ''نہ میں کہ چوں گر بہ عاجز شوو'' شاید ایرانیوں نے اپنی بلّی کو نہیں سمجھا۔ یا شاید سمجھ لیا ہے۔
بلّیاں میائوں میائوں کرتی ہیں۔ قنوطی بلی می می می آوئوں کہتی ہے تاکہ ہر ایک سن لے۔ جب بلّی زیر لب بڑبڑانا شروع کر دے اور تنہائی میں دیر تک بڑبڑاتی رہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین دن گزار چکی ہے۔ گرمیوں میں بلّیاں پنکھے کے نیچے سے نہیں ہلتیں۔ سردیوں میں بن ٹھن کر ربن بندھوا کر دھوپ سینکتی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا مقصد یہی ہے۔ بلّی کا بورژوا پن نو عمر لڑکے لڑکیوں کے لیے مہلک ہے۔ انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ جو کچھ بلی کے لیے مفید ہے وہ سب کے لیے مفید ہوگا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ بلّیاں اتنی مغرور اور خودغرض کیوں ہیں میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو محنت کیے بغیر ایسی مرغن غذا ملتی رہے، جس میں پروٹین اور وٹامن ضرورت سے زیادہ ہوں تو آپ کا رویہ کیا ہوگا؟
بلّی دوسرے کا نقطۂ نظر نہیں سمجھتی۔ اگر اسے بتایا جائے کہ ہم دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے آئے ہیں تو اس کا پہلا سوال یہ ہوگا کہ دوسرے یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟
تقریباً سال بھر میں بلّی سدھائی جاسکتی ہے۔ مگر سال بھر کی مشقت کا نتیجہ صرف ایک سدھائی ہوئی بلّی ہوگا۔ جہاں بقیہ چوپائے دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہیں وہاں بلّی دودھ پینے والے جانوروں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر غلطی سے دودھ کھلا رہ جائے تو آپ کی سدھائی ہوئی بلّی پی جائے گی۔ اگر دودھ کو بند کرکے قفل لگادیا جائے تب بھی پی جائے گی۔ کیوں کر؟ یہ ایک راز ہے جو بلّیوں تک محدود ہے۔
''محبت زیادہ سچی تھی!''
مرسلہ: خجستہ انوار، فیڈرل بی ایریا
خلیل جبران کی اپنی محبوبہ میزیادہ سے محبت بغیر کسی ملاقات اور دیدار کے 20سال تک چلتی رہی۔ جبران نیویارک میں تھا اور میزیادہ قاہرہ میں۔ دنیا کے دو کونوں سے دونوں باہم خطوط کا تبادلہ کیا کرتے تھے، ایک خط میں جبران نے میزیادہ کی تصویر مانگی تو میزیادہ نے اس کو لکھا: ''سوچو ! تصور کرو! میں کیسی دکھائی دیتی ہوں گی؟''
جبران نے لکھا ''مجھے لگتا ہے، تمھارے بال چھوٹے ہوں گے، جو تمھارا چہرہ ڈھانپ لیتے ہوں گے۔ میزیادہ نے یہ پڑھ کر اپنے لمبے بال کاٹ ڈالے اور ایک خط کے ساتھ اپنے چھوٹے بالوں والی تصویر بھیجی۔ جبران نے کہا تم نے دیکھا؟ میرا تصور بالکل سچا تھا، میزیادہ نے کہا محبت زیادہ سچی تھی!