پی سی بی کو سیاسی پنجوں سے آزاد کرانے کی صدائیں بلند
رمیزکو 3سال کام کرنے کا موقع دیں،حکومت کرکٹ نہیں دیگر اہم معاملات میں سدھار لانے پرتوجہ دے،توقیر ضیا
پی سی بی کو سیاسی پنجوں سے آزاد کرانے کی صدائیں بلند ہونے لگیں.
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو انٹرویو میں سابق چیئرمین پی سی بی لیفٹینٹ جنرل(ر)توقیر ضیانے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں نامزدگیوں کا طریقہ کار ہے،بس اتنی تبدیلی ہوئی کہ اب حکومت کے نامزد کردہ 2ارکان ہوتے ہیں، ان میں سے ایک چیئرمین منتخب ہوجاتا ہے،اس میں خرابیاں بھی ہیں، یہ سسٹم تبدیل نہ ہوا تو سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا،اگر تبدیلی کی جائے تو بورڈ آف گورنرز کی تشکیل اور ایسوسی ایشنز کے ووٹس وغیرہ کے معاملات کو دیکھنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ کرکٹ میں سیاست کا کردار ختم ہونا چاہیے،رمیز راجہ کو چیئرمین بنایا ہے تو 3سال کام کرنے کا موقع دیا جائے، ہوسکتا ہے کہ معاملات میں بہتری آجائے، اگر 5،6ماہ بعد ہی ان کو تبدیل کردیں تو بورڈ کا نیا سربراہ نئی سوچ لے کر آئے گا،وہ سب کچھ بدلنے کی کوشش کرے گا تو ہماری کرکٹ آگے جانے کے بجائے پیچھے چلی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ جو بھی چیئرمین آئے اپنی عزت کیلیے اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ کسی سابق کرکٹرز کو بورڈ کا سربراہ ہونا چاہیے، اب اگر رمیز راجہ آگئے ہیں تو ان کو کام کرنے دیا جائے،نئی حکومت ابھی مستحکم نہیں ہوئی،معلوم نہیں کہ اگل3،6 ماہ یا سال میں اونٹ کس کروٹ بیٹھ گا، حکومت کی توجہ کرکٹ یا چیئرمین کو تبدیل کرنے پر نہیں دیگر اہم معاملات میں سدھار لانے پر ہونی چاہیے۔
ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کیے جانے کے سوال پر توقیر ضیانے کہا کہ نیا ڈومیسٹک سسٹم 4سال سے چل رہا ہیاس کو چلنے دیا جائے، اگر مسئلہ ملازمتوں کا ہے تو اس کا حل تلاش کرنے کیلیے زیادہ گرائونڈز بنائیں،کرکٹرزکی تربیت کا اہتمام کرکے ان کو کوچنگ کی ذمہ داریاں دی جائیں،ان کو ایڈمنسٹریشن اور دیگر اسٹاف میں شامل کیا جائے،یوں روٹی روزی کا بندوبست ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اب ڈپارٹمنٹس بھی ٹیمیں بنانے کیلیے تیار ہوں گے یا نہیں،موجودہ حالات میں ان کی اپنی مالی حیثیت بھی دیکھنا ہوگی، اگر تبدیلی لانا بھی چاہتے ہیں تو موجودہ ایسوسی ایشنز کو چلنے دیا جائے،ساتھ ایک متوازی سسٹم بھی لانے کیلیے اداروں کو ٹیمیں بنانے کا کہہ دیں تاکہ انھیں اس کیلیے تیار ہونے کا موقع ملے۔
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتے،معاملہ حکومتوں کی سطح پر ہے،بی سی سی آئی اور پی سی بی کے سربراہ ساروگنگولی اور رمیزراجہ سابق کرکٹرز ہیں، دونوں چاہیں گے کہ باہمی مقابلوں سے کھیل کو فروغ حاصل ہو،اس سے خطیر سرمایہ بھی آئے گا،بھارت کو شاید اس کی اتنی ضرورت نہ ہوجتنی ہمیں ہے مگر ہمیں کسی کی منت سماجت نہیں کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوگئی مگر کراچی میں دہشت گردی جیسے واقعات رونما ہونے سے مشکل ہو سکتی ہے،حالات ٹھیک نہ ہوں تو غیر ملکی ٹیمیں ڈرتی رہیں گی۔
جسٹس قیوم رپورٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں
توقیر ضیانے کہا ہے کہ فکسنگ کے معاملے میں بات تو بہت ہوتی ہے مگر جسٹس قیوم رپورٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں،95فیصد نے تو اس کو پڑھا بھی نہیں،میں نے اس رپورٹ کو نہ صرف شائع کیا خود بھی بغور مطالعہ کیا،دانش کنیریا کی رپورٹ پڑھی، شرجیل خان کیس میں خود بھی کام کیا، ماضی کی بانسبت اب صورتحال مختلف ہوچکی،کرکٹرز کو پیسہ بھی زیادہ ملتا ہے،فکسرز کیخلاف کارروائیاں ہوتی ہیں مگر فکسنگ کو کبھی ختم نہیں کرسکتے۔
ایک سوال پر سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ میرے خیال میں تو کسی بھی فکسر کو دوبارہ قومی ٹیم میں شامل نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر محمد عامر کو واپس لاکر ایک مثال قائم کردی گئی تو دوسروں کا کیا قصور ہے۔انھوں نے کہا کہ فکسنگ سے دور رکھنے کیلیے کرکٹرز کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکچرز وغیرہ ہوتے ہیں لیکن کوئی ان پر کان دھرتا ہے تو کوئی نہیں،بہرحال یہ ایک انفرادی فعل ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں 38سال فوج کی ملازمت کرتا رہا،جب پی سی بی میں آیا تب بھی ڈسپلن پر توجہ دینا تو بنتا تھا مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ غلطی پر سر ہی اڑادیا جائے، نوجوان کرکٹرز شرارتیں تو کریں گے، کوئی اگر قانون کی خلاف ورزی کرے تب تو سزا بنتی ہے،اسی لیے کمرے میں لڑکیوں کی موجودگی پر کرکٹرز پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
لاہور قلندرز نے پورے پاکستان میں جا کر ٹیلنٹ کو تلاش کیا
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ لاہور قلندرز نے پورے پاکستان میں جا کر ٹیلنٹ کو تلاش کیا، تب ہی ہمیں حارث رئوف اور زمان خان جیسے کرکٹرز ملے،اس کا مطلب ہے کہ سسٹم ٹھیک چل رہا ہے،گذشتہ 6ماہ سے قومی ٹیموں کی کارکردگی اچھی ہے،ورلڈکپ میں اچھا پرفارم کیا،پی ایس ایل اور کائونٹی میں بھی ہمارے کرکٹرز نے دھوم مچارکھی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ موجود ہے،راشد لطیف،معین خان، جلال الدین اورعبدالقادر اکیڈمیز کام کررہی ہیں، پی سی بی کو ان کے ساتھ کام کرنا چاہیے،اگر ان کے پاس ایسے کرکٹرز ہوں جو آگے چل کر قومی ٹیم میں جگہ بناسکیں تومستقبل کیلیے تیار کریں۔
صرف شعیب اختر ہی نہیں، اچھا کام کرنے والا ہر شخص میرا لاڈلا ہے
توقیر ضیانے کہا کہ صرف شعیب اختر ہی نہیں،ملک کیلیے اچھا کام کرنے والا ہر شخص میرا لاڈلا ہے، میچ ونرز کو بچوں کی طرح سمجھنا اور سپورٹ کرنا چاہیے، میں پیسر کے ساتھ کھڑا ہوا تو انھوں نے جتنے سال بھی کرکٹ کھیلی پاکستان کیلیے اچھا پرفارم کیا۔
یہ مقدر کی بات تھی کہ میں تھا، ہوسکتا ہے کہ کوئی اور میری جگہ بورڈ کا سربراہ ہوتا تو ان کو اس طرح کی سپورٹ نہ ملتی،انھوں نے کہا کہ جب شعیب اختر کے بولنگ ایکشن کا مسئلہ ہوا تو اس وقت کے آئی سی سی صدر جگموہن ڈالمیا نے ہمارا بہت ساتھ دیا،اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید شعیب کو دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع نہ ملتا، آج کی کرکٹ میں بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف اور دیگر پرفارم کررہے ہیں، یہ سب بھی مجھے بہت عزیز ہیں۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو انٹرویو میں سابق چیئرمین پی سی بی لیفٹینٹ جنرل(ر)توقیر ضیانے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں نامزدگیوں کا طریقہ کار ہے،بس اتنی تبدیلی ہوئی کہ اب حکومت کے نامزد کردہ 2ارکان ہوتے ہیں، ان میں سے ایک چیئرمین منتخب ہوجاتا ہے،اس میں خرابیاں بھی ہیں، یہ سسٹم تبدیل نہ ہوا تو سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا،اگر تبدیلی کی جائے تو بورڈ آف گورنرز کی تشکیل اور ایسوسی ایشنز کے ووٹس وغیرہ کے معاملات کو دیکھنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ کرکٹ میں سیاست کا کردار ختم ہونا چاہیے،رمیز راجہ کو چیئرمین بنایا ہے تو 3سال کام کرنے کا موقع دیا جائے، ہوسکتا ہے کہ معاملات میں بہتری آجائے، اگر 5،6ماہ بعد ہی ان کو تبدیل کردیں تو بورڈ کا نیا سربراہ نئی سوچ لے کر آئے گا،وہ سب کچھ بدلنے کی کوشش کرے گا تو ہماری کرکٹ آگے جانے کے بجائے پیچھے چلی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ جو بھی چیئرمین آئے اپنی عزت کیلیے اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ کسی سابق کرکٹرز کو بورڈ کا سربراہ ہونا چاہیے، اب اگر رمیز راجہ آگئے ہیں تو ان کو کام کرنے دیا جائے،نئی حکومت ابھی مستحکم نہیں ہوئی،معلوم نہیں کہ اگل3،6 ماہ یا سال میں اونٹ کس کروٹ بیٹھ گا، حکومت کی توجہ کرکٹ یا چیئرمین کو تبدیل کرنے پر نہیں دیگر اہم معاملات میں سدھار لانے پر ہونی چاہیے۔
ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کیے جانے کے سوال پر توقیر ضیانے کہا کہ نیا ڈومیسٹک سسٹم 4سال سے چل رہا ہیاس کو چلنے دیا جائے، اگر مسئلہ ملازمتوں کا ہے تو اس کا حل تلاش کرنے کیلیے زیادہ گرائونڈز بنائیں،کرکٹرزکی تربیت کا اہتمام کرکے ان کو کوچنگ کی ذمہ داریاں دی جائیں،ان کو ایڈمنسٹریشن اور دیگر اسٹاف میں شامل کیا جائے،یوں روٹی روزی کا بندوبست ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اب ڈپارٹمنٹس بھی ٹیمیں بنانے کیلیے تیار ہوں گے یا نہیں،موجودہ حالات میں ان کی اپنی مالی حیثیت بھی دیکھنا ہوگی، اگر تبدیلی لانا بھی چاہتے ہیں تو موجودہ ایسوسی ایشنز کو چلنے دیا جائے،ساتھ ایک متوازی سسٹم بھی لانے کیلیے اداروں کو ٹیمیں بنانے کا کہہ دیں تاکہ انھیں اس کیلیے تیار ہونے کا موقع ملے۔
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتے،معاملہ حکومتوں کی سطح پر ہے،بی سی سی آئی اور پی سی بی کے سربراہ ساروگنگولی اور رمیزراجہ سابق کرکٹرز ہیں، دونوں چاہیں گے کہ باہمی مقابلوں سے کھیل کو فروغ حاصل ہو،اس سے خطیر سرمایہ بھی آئے گا،بھارت کو شاید اس کی اتنی ضرورت نہ ہوجتنی ہمیں ہے مگر ہمیں کسی کی منت سماجت نہیں کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوگئی مگر کراچی میں دہشت گردی جیسے واقعات رونما ہونے سے مشکل ہو سکتی ہے،حالات ٹھیک نہ ہوں تو غیر ملکی ٹیمیں ڈرتی رہیں گی۔
جسٹس قیوم رپورٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں
توقیر ضیانے کہا ہے کہ فکسنگ کے معاملے میں بات تو بہت ہوتی ہے مگر جسٹس قیوم رپورٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں،95فیصد نے تو اس کو پڑھا بھی نہیں،میں نے اس رپورٹ کو نہ صرف شائع کیا خود بھی بغور مطالعہ کیا،دانش کنیریا کی رپورٹ پڑھی، شرجیل خان کیس میں خود بھی کام کیا، ماضی کی بانسبت اب صورتحال مختلف ہوچکی،کرکٹرز کو پیسہ بھی زیادہ ملتا ہے،فکسرز کیخلاف کارروائیاں ہوتی ہیں مگر فکسنگ کو کبھی ختم نہیں کرسکتے۔
ایک سوال پر سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ میرے خیال میں تو کسی بھی فکسر کو دوبارہ قومی ٹیم میں شامل نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر محمد عامر کو واپس لاکر ایک مثال قائم کردی گئی تو دوسروں کا کیا قصور ہے۔انھوں نے کہا کہ فکسنگ سے دور رکھنے کیلیے کرکٹرز کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکچرز وغیرہ ہوتے ہیں لیکن کوئی ان پر کان دھرتا ہے تو کوئی نہیں،بہرحال یہ ایک انفرادی فعل ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں 38سال فوج کی ملازمت کرتا رہا،جب پی سی بی میں آیا تب بھی ڈسپلن پر توجہ دینا تو بنتا تھا مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ غلطی پر سر ہی اڑادیا جائے، نوجوان کرکٹرز شرارتیں تو کریں گے، کوئی اگر قانون کی خلاف ورزی کرے تب تو سزا بنتی ہے،اسی لیے کمرے میں لڑکیوں کی موجودگی پر کرکٹرز پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
لاہور قلندرز نے پورے پاکستان میں جا کر ٹیلنٹ کو تلاش کیا
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ لاہور قلندرز نے پورے پاکستان میں جا کر ٹیلنٹ کو تلاش کیا، تب ہی ہمیں حارث رئوف اور زمان خان جیسے کرکٹرز ملے،اس کا مطلب ہے کہ سسٹم ٹھیک چل رہا ہے،گذشتہ 6ماہ سے قومی ٹیموں کی کارکردگی اچھی ہے،ورلڈکپ میں اچھا پرفارم کیا،پی ایس ایل اور کائونٹی میں بھی ہمارے کرکٹرز نے دھوم مچارکھی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ موجود ہے،راشد لطیف،معین خان، جلال الدین اورعبدالقادر اکیڈمیز کام کررہی ہیں، پی سی بی کو ان کے ساتھ کام کرنا چاہیے،اگر ان کے پاس ایسے کرکٹرز ہوں جو آگے چل کر قومی ٹیم میں جگہ بناسکیں تومستقبل کیلیے تیار کریں۔
صرف شعیب اختر ہی نہیں، اچھا کام کرنے والا ہر شخص میرا لاڈلا ہے
توقیر ضیانے کہا کہ صرف شعیب اختر ہی نہیں،ملک کیلیے اچھا کام کرنے والا ہر شخص میرا لاڈلا ہے، میچ ونرز کو بچوں کی طرح سمجھنا اور سپورٹ کرنا چاہیے، میں پیسر کے ساتھ کھڑا ہوا تو انھوں نے جتنے سال بھی کرکٹ کھیلی پاکستان کیلیے اچھا پرفارم کیا۔
یہ مقدر کی بات تھی کہ میں تھا، ہوسکتا ہے کہ کوئی اور میری جگہ بورڈ کا سربراہ ہوتا تو ان کو اس طرح کی سپورٹ نہ ملتی،انھوں نے کہا کہ جب شعیب اختر کے بولنگ ایکشن کا مسئلہ ہوا تو اس وقت کے آئی سی سی صدر جگموہن ڈالمیا نے ہمارا بہت ساتھ دیا،اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید شعیب کو دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع نہ ملتا، آج کی کرکٹ میں بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف اور دیگر پرفارم کررہے ہیں، یہ سب بھی مجھے بہت عزیز ہیں۔