’’پدر شاہی‘‘ سماج کی بے توقیر بیٹی
یہ ہمارے سماج کا وہ جبر ہے جو عورت کی رائے اور سوچ کو باندی بنا کر رکھنا چاہتا ہے
SHANGAI:
مجھے کہنے دیں،مجھے چیخنے دیں اور مجھے لکھنے دیں کہ ''پدر شاہی''سماج کو ایندھن فراہم کرنے والی تنگ نظر سوچ کے ساتھ پدری جنونیت کو مذہب کی قبا پہنا کر سماج کو گلایا اور سڑایا جا رہا ہے، اس فرسودہ نظام میں ''انسانی نسوانی توقیر'' صرف رسوا اور برباد ہونے کے لیے رکھی جائے گی اور عورت کے وجود سے جنم لینے والے کو ہی عورت کی عزتوں کی پامالی پر انعام و اکرام دیا جائے گا۔
اس مذکورہ تناظر میں مجھے اپنی کمیونسٹ نظریاتی تربیت اور اس سوچ کے ما تحت پلنے والی چھ باشعور اعلی تعلیم یافتہ بیٹیاں میری وہ میراث لگتی ہیں جن پر میں جتنا فخر کروں کم ہے،اس فرسودہ سماج میں مرد حضرات کی تنگ نظر مذہبی سوچ تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر میرے وجود میں اس دم ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں جس دم سماج کی بیٹی کی کمزوری یا کوتاہی یا واقعہ کو اس سماج میں بسنے والی عورت بھی تنگ نظری اور ذہنی پسماندگی کی عینک سے دیکھنے لگے،اور سماجی مریض بن کرکردار و عمل اور تربیت کے بھاشن دینے والی وکیل بن جائے تاکہ اسے سماج کے نیکو کاروں کی صفوں میں مستقل شامل رکھا جائے۔
یہ ہمارے سماج کا وہ جبر ہے جو عورت کی رائے اور سوچ کو باندی بنا کر رکھنا چاہتا ہے،اور ایسے فرمانبرداری کے لیبل لگا کر ہماری سادہ عورت خوف کے اندیشوں کے پیراہن میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے،عورت کی یہ طرزِ سوچ کسی طور باشعور سماج کی عکاس نہیں کہی جاسکتی،جس سماج میں کسی عورت پر ظلم کے پہاڑ اس بنیاد پر ڈھا دیے جائیں کہ اس کے شکم نے بیٹی کیوں اگلی...؟ کیا اس سماج کو انسانی توقیر کا کوئی درجہ دیا جا سکتا ہے۔؟
یہی وہ سوال ہے جو کراچی سے اغوا کی جانے والی دعا زہرا،نمرہ کاظمی کی ماں سمیت نہ جانے کتنی مائوں کا وہ درد ہے جو نہ اگلا جا سکتا ہے اور نہ محسوس کیا جا سکتا ہے،گویا یہ سماج انسانی زخموں سے چور انسانی احساسات کو کچلنے اور دریدہ کرنے کے لیے اب تک قرون وسطی کی سوچ کا مربی اور فرسودگی کا شکار ہے۔
دعا زہرا اور نمرہ کے منصوبہ بند اغوا اور نکاح میں الزامات کا سارا ملبہ کمسن بچیوں کی تربیت اور ان کی فطری آزادی کو قید نہ کرنے کی ادا پر کیا جا رہا ہے جو بغیر سیاق و سباق اور جانکاری کے نہ صرف انتہائی افسوناک عمل ہے بلکہ اس پورے واقعے میں انتہائی منصوبہ بندی اور سوچ کے تحت اس واقعے کے اصل اور دوسرے فریق یعنی شادی کرنے والے لڑکے اور نکاح کے عمل میں موجود مرد کرداروں کو انتہائی چابکدستی سے اس گھنائونے معاشرتی جرم سے نہ صرف بچایا جا رہا ہے بلکہ ان مذکورہ مرد حضرات کے جرم کو مذہبی آزادی کے پردے کی چادر ڈھانپ کر اصل کرداروں کو بچایا جا رہا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکیاں کمزور دلیل کے بہانے بہک گئی تھیں تو ان کے اس عمل میں وہ مرد جو معاون و مددگار رہے تو وہ اب تک منظر عام پر کیوں نہیں آئے،سماجی ٹھیکیداروں کے ان داتا کیا اس جرم میں لڑکوں اور ان کے مرد سہولت کاروں کو مجرم نہیں سمجھتے؟ کیا مردوں کو اس بات کی مکمل چھوٹ دی جا سکتی ہے کہ وہ مذہب کی چادر پہن کر نیکو کار ہوجائیں اور بہکائی یا مرضی سے لائی گئی لڑکیاں اور ان کے لواحقین کو اس سماج میں مرتے دم تک ''داغدار'' کردیا جائے۔
ان واقعات کے سماجی اور قانونی پہلو میں اغوا کی گئی کراچی کی لڑکیوں کی بازیابی سوشل میڈیا کی مرہونِ منت رہی مگر دبائو کے نتیجے میں ایک ہی دن چند گھنٹوں کے فرق سے پنجاب کے دو مختلف مقامات سے بمعہ نکاح برآمدگی ازخود سنگین جرم اور سوالات کو جنم دیتی ہے،اس ڈرامائی انداز میں اس خیال کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے کہ اس پوری کاروائی میں گزشتہ برسوں میں بطور خاص لڑکیوں کی آبروریزی اور قتل کرنے والے افراد یا گینگ ایک منظم مافیا کی طرح اس کاروائی کا مرکزی کردار نہیں ہیں۔
یہ خبریں نئی نہیں کہ نوجوان اور خوبصورت بچیاں و خواتین کو پھانسنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال مختلف گیمز کے ذریعہ خطرناک گینگ کر رہے ہیں جو نام نہاد دوستی کے نام پر ان لڑکیوں کو گھیرتے ہیں انکو مختلف طریقوں سے بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیو یا نا مناسب فوٹو ان لڑکیوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر ان فوٹوز کو وائرل کرنے کی دھمکی دیکر لڑکی کو گھر سے نکالتے ہیں، پھر ان بچیوں کو نشہ کا عادی بناتے ہیں اور نام نہاد نکاح کا ڈرامہ کرتے ہیں اور ان سے نکاح کی تصدیق کرا کر لڑکی پر مکمل قبضہ کرلیتے ہیں اس طریقہ واردات سے دن دھاڑے لڑکیوں کو مارکیٹس میں سیکس کے لیے سر عام حاصل کرکے ان کا کاروبار کرایا جاتا ہے۔
پنجاب میں یہ تمام کرائم زینب کے قتل کے وقت منظر عام پر آچکے ہیں،مذکورہ کارروائی سے لگتا ہے کہ ایک مجرم کو سزا دیکر پورے مافیا کو محفوظ کرلیا گیا تھا،کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ تمام نیٹ ورک اب ملک بھر میں پھیل چکا ہے اور بطور خاص کراچی جیسا معاشی حب اس کا خاص نشانہ ہے۔اس پورے تناظر میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر بچی سے نکاح کرنا قانونی جرم اور لائق سزا ہے،جب کہ پنجاب سمیت باقی صوبوں میں اب تک بچیوں کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے اور نہ ہی نوعمر بچیوں کے تحفظ کے لیے کوئی واضح قومی پالیسی یا قانون ہے۔
یہ علاقے لڑکیوں کے اغوا نکاح یا قتل کا سب سے بڑا مرکز ہے،کیونکہ ایسے گروہ کم عمر بچی کا نکاح کرانے میں قانون کے نہ ہوتے ہوئے کامیاب ہو جاتے ہیں،جب کہ پنجاب حکومت قانون نہ ہونے کی بنا پر نوعمر بچیوں کے جبری نکاح روکنے یا نو عمر لڑکی کے تحفظ کا حل تاحال نہیں نکال سکی ہے۔محض یہی وجہ ہے کہ اغوا یا بہکا کر یہ نو عمر بچیاں پنجاب لے جائی جاتی ہیں تاکہ ان مافیاز کی قانونی گرفت نہ ہوسکے۔
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ جب سے حکومت سندھ بچیوں کے تحفظ کا قانون صوبے میں لائی ہے،اس کے بعد سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری شادیوں کی خبریں زبان زد عام نہیں ہو پارہیں،مگر سندھ میں کارو کاری اور قبائلی جھگڑوں میں اب تک سندھ کی لڑکی اسی جبر کا شکار ہے جس کی اجازت ''پدر شاھی'' سماج دیتا ہے۔سوچتا ہوں کہ جو سماج تنگ نظر اور انتہا پسندنظام میں جکڑا ہوا ہو وہ بھلا اپنے ملک کے بانی قائد اعظم کی عورت حقوق کے بارے میں روشن خیال سوچ کی بات کو کیسے اور کیونکر مانے گا،یہ وہی قائد اعظم تھے جنہوں نے1920میں انگریز سرکار کے اس بل کی حمایت کی جس میں لڑکی کی بالغ عمر کے بعد شادی کا قانون پاس ہوا،اس موقع پر بھی قائد اعظم کے علاوہ ہندو مسلم تمام رہنمائوں اور خاص طور پر مذہبی اسکالر نے اس کی مخالفت کی۔
اسی طرح Free will کے قانون اور حق کے نتیجے میں ہی رتی بائی کی قائداعظم سے شادی ہوئی۔افسوس ! قائد اعظم کے ''پدر شاہی'' مخالف سماج کی جگہ اب تنگ نظر اور تنگ ذہن پدر شاہی سماج لیتا جارہا ہے۔
مجھے کہنے دیں،مجھے چیخنے دیں اور مجھے لکھنے دیں کہ ''پدر شاہی''سماج کو ایندھن فراہم کرنے والی تنگ نظر سوچ کے ساتھ پدری جنونیت کو مذہب کی قبا پہنا کر سماج کو گلایا اور سڑایا جا رہا ہے، اس فرسودہ نظام میں ''انسانی نسوانی توقیر'' صرف رسوا اور برباد ہونے کے لیے رکھی جائے گی اور عورت کے وجود سے جنم لینے والے کو ہی عورت کی عزتوں کی پامالی پر انعام و اکرام دیا جائے گا۔
اس مذکورہ تناظر میں مجھے اپنی کمیونسٹ نظریاتی تربیت اور اس سوچ کے ما تحت پلنے والی چھ باشعور اعلی تعلیم یافتہ بیٹیاں میری وہ میراث لگتی ہیں جن پر میں جتنا فخر کروں کم ہے،اس فرسودہ سماج میں مرد حضرات کی تنگ نظر مذہبی سوچ تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر میرے وجود میں اس دم ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں جس دم سماج کی بیٹی کی کمزوری یا کوتاہی یا واقعہ کو اس سماج میں بسنے والی عورت بھی تنگ نظری اور ذہنی پسماندگی کی عینک سے دیکھنے لگے،اور سماجی مریض بن کرکردار و عمل اور تربیت کے بھاشن دینے والی وکیل بن جائے تاکہ اسے سماج کے نیکو کاروں کی صفوں میں مستقل شامل رکھا جائے۔
یہ ہمارے سماج کا وہ جبر ہے جو عورت کی رائے اور سوچ کو باندی بنا کر رکھنا چاہتا ہے،اور ایسے فرمانبرداری کے لیبل لگا کر ہماری سادہ عورت خوف کے اندیشوں کے پیراہن میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے،عورت کی یہ طرزِ سوچ کسی طور باشعور سماج کی عکاس نہیں کہی جاسکتی،جس سماج میں کسی عورت پر ظلم کے پہاڑ اس بنیاد پر ڈھا دیے جائیں کہ اس کے شکم نے بیٹی کیوں اگلی...؟ کیا اس سماج کو انسانی توقیر کا کوئی درجہ دیا جا سکتا ہے۔؟
یہی وہ سوال ہے جو کراچی سے اغوا کی جانے والی دعا زہرا،نمرہ کاظمی کی ماں سمیت نہ جانے کتنی مائوں کا وہ درد ہے جو نہ اگلا جا سکتا ہے اور نہ محسوس کیا جا سکتا ہے،گویا یہ سماج انسانی زخموں سے چور انسانی احساسات کو کچلنے اور دریدہ کرنے کے لیے اب تک قرون وسطی کی سوچ کا مربی اور فرسودگی کا شکار ہے۔
دعا زہرا اور نمرہ کے منصوبہ بند اغوا اور نکاح میں الزامات کا سارا ملبہ کمسن بچیوں کی تربیت اور ان کی فطری آزادی کو قید نہ کرنے کی ادا پر کیا جا رہا ہے جو بغیر سیاق و سباق اور جانکاری کے نہ صرف انتہائی افسوناک عمل ہے بلکہ اس پورے واقعے میں انتہائی منصوبہ بندی اور سوچ کے تحت اس واقعے کے اصل اور دوسرے فریق یعنی شادی کرنے والے لڑکے اور نکاح کے عمل میں موجود مرد کرداروں کو انتہائی چابکدستی سے اس گھنائونے معاشرتی جرم سے نہ صرف بچایا جا رہا ہے بلکہ ان مذکورہ مرد حضرات کے جرم کو مذہبی آزادی کے پردے کی چادر ڈھانپ کر اصل کرداروں کو بچایا جا رہا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکیاں کمزور دلیل کے بہانے بہک گئی تھیں تو ان کے اس عمل میں وہ مرد جو معاون و مددگار رہے تو وہ اب تک منظر عام پر کیوں نہیں آئے،سماجی ٹھیکیداروں کے ان داتا کیا اس جرم میں لڑکوں اور ان کے مرد سہولت کاروں کو مجرم نہیں سمجھتے؟ کیا مردوں کو اس بات کی مکمل چھوٹ دی جا سکتی ہے کہ وہ مذہب کی چادر پہن کر نیکو کار ہوجائیں اور بہکائی یا مرضی سے لائی گئی لڑکیاں اور ان کے لواحقین کو اس سماج میں مرتے دم تک ''داغدار'' کردیا جائے۔
ان واقعات کے سماجی اور قانونی پہلو میں اغوا کی گئی کراچی کی لڑکیوں کی بازیابی سوشل میڈیا کی مرہونِ منت رہی مگر دبائو کے نتیجے میں ایک ہی دن چند گھنٹوں کے فرق سے پنجاب کے دو مختلف مقامات سے بمعہ نکاح برآمدگی ازخود سنگین جرم اور سوالات کو جنم دیتی ہے،اس ڈرامائی انداز میں اس خیال کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے کہ اس پوری کاروائی میں گزشتہ برسوں میں بطور خاص لڑکیوں کی آبروریزی اور قتل کرنے والے افراد یا گینگ ایک منظم مافیا کی طرح اس کاروائی کا مرکزی کردار نہیں ہیں۔
یہ خبریں نئی نہیں کہ نوجوان اور خوبصورت بچیاں و خواتین کو پھانسنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال مختلف گیمز کے ذریعہ خطرناک گینگ کر رہے ہیں جو نام نہاد دوستی کے نام پر ان لڑکیوں کو گھیرتے ہیں انکو مختلف طریقوں سے بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیو یا نا مناسب فوٹو ان لڑکیوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر ان فوٹوز کو وائرل کرنے کی دھمکی دیکر لڑکی کو گھر سے نکالتے ہیں، پھر ان بچیوں کو نشہ کا عادی بناتے ہیں اور نام نہاد نکاح کا ڈرامہ کرتے ہیں اور ان سے نکاح کی تصدیق کرا کر لڑکی پر مکمل قبضہ کرلیتے ہیں اس طریقہ واردات سے دن دھاڑے لڑکیوں کو مارکیٹس میں سیکس کے لیے سر عام حاصل کرکے ان کا کاروبار کرایا جاتا ہے۔
پنجاب میں یہ تمام کرائم زینب کے قتل کے وقت منظر عام پر آچکے ہیں،مذکورہ کارروائی سے لگتا ہے کہ ایک مجرم کو سزا دیکر پورے مافیا کو محفوظ کرلیا گیا تھا،کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ تمام نیٹ ورک اب ملک بھر میں پھیل چکا ہے اور بطور خاص کراچی جیسا معاشی حب اس کا خاص نشانہ ہے۔اس پورے تناظر میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر بچی سے نکاح کرنا قانونی جرم اور لائق سزا ہے،جب کہ پنجاب سمیت باقی صوبوں میں اب تک بچیوں کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے اور نہ ہی نوعمر بچیوں کے تحفظ کے لیے کوئی واضح قومی پالیسی یا قانون ہے۔
یہ علاقے لڑکیوں کے اغوا نکاح یا قتل کا سب سے بڑا مرکز ہے،کیونکہ ایسے گروہ کم عمر بچی کا نکاح کرانے میں قانون کے نہ ہوتے ہوئے کامیاب ہو جاتے ہیں،جب کہ پنجاب حکومت قانون نہ ہونے کی بنا پر نوعمر بچیوں کے جبری نکاح روکنے یا نو عمر لڑکی کے تحفظ کا حل تاحال نہیں نکال سکی ہے۔محض یہی وجہ ہے کہ اغوا یا بہکا کر یہ نو عمر بچیاں پنجاب لے جائی جاتی ہیں تاکہ ان مافیاز کی قانونی گرفت نہ ہوسکے۔
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ جب سے حکومت سندھ بچیوں کے تحفظ کا قانون صوبے میں لائی ہے،اس کے بعد سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری شادیوں کی خبریں زبان زد عام نہیں ہو پارہیں،مگر سندھ میں کارو کاری اور قبائلی جھگڑوں میں اب تک سندھ کی لڑکی اسی جبر کا شکار ہے جس کی اجازت ''پدر شاھی'' سماج دیتا ہے۔سوچتا ہوں کہ جو سماج تنگ نظر اور انتہا پسندنظام میں جکڑا ہوا ہو وہ بھلا اپنے ملک کے بانی قائد اعظم کی عورت حقوق کے بارے میں روشن خیال سوچ کی بات کو کیسے اور کیونکر مانے گا،یہ وہی قائد اعظم تھے جنہوں نے1920میں انگریز سرکار کے اس بل کی حمایت کی جس میں لڑکی کی بالغ عمر کے بعد شادی کا قانون پاس ہوا،اس موقع پر بھی قائد اعظم کے علاوہ ہندو مسلم تمام رہنمائوں اور خاص طور پر مذہبی اسکالر نے اس کی مخالفت کی۔
اسی طرح Free will کے قانون اور حق کے نتیجے میں ہی رتی بائی کی قائداعظم سے شادی ہوئی۔افسوس ! قائد اعظم کے ''پدر شاہی'' مخالف سماج کی جگہ اب تنگ نظر اور تنگ ذہن پدر شاہی سماج لیتا جارہا ہے۔