اڑیل گھوڑا اور نفس مطمئنہ
عبرتناک موت اور ذلت و رسوائی کا طوق گردن میں لٹکایا گیا ہے لیکن گزرے وقتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ہے
ISLAMABAD:
علامہ اقبال نے اپنے زمانے میں جو اشعار تخلیق کیے، جو سماجی، سیاسی اور دینی حالات کے تناظر میں تھے ۔علامہ کی مکمل شاعری داخلی و خارجی جذبوں کی عکاس ہے۔ مثال کے طور:
کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری
خصوصیت تھی سلطانی و راہبی میں
کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
ہوئی دِین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیریِ، ہوس کی وزیری
دوئی ملک و دِیں کے لیے نامرادی
دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری!
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری
آج کے حالات بھی ایسے ہی ہیں، ہوس کی امیری اور ہوس کی وزیری کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ ہر طرف مایوسی اور ہو کا عالم ہے، سچائی کو پچھاڑنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہمیشہ کی طرح باطل کو شکست اور صداقت کو فتح حاصل ہوتی ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں بھی بڑے زوروں کا رن پڑا ہے، غریبوں کے جھونپڑے اور امیروں کے محلات ہل گئے ہیں، پاکستان کی بنیادوں میں شگاف ڈالنے کی کوشش میں دشمنان وطن عرصہ دراز سے لگے ہوئے ہیں، لیکن ناکامی ہاتھ آتی ہے لیکن ان دنوں حالات کو سازشوں نے اس طرح بدلا ہے کہ گویا جنگ کا طبل بج گیا ہو، امریکا کو تو مسلم ممالک سے ازل سے بیر ہے اور رہا ہندوستان تو وہ پاکستان کی دشمنی میں اس کے ساتھ ہے۔
ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان تھے جن کی ہمت و عزم اور مجاہدانہ طرز حکومت کے ڈنکے بج رہے تھے اور اسلام کے حوالے سے بڑی کامیابیاں سامنے آئی تھیں لیکن باد مخالف نے وہ کام کر دکھایا جس کی توقع ہرگز نہیں تھی، اس بار پاکستان میں وہ ہوا جس کے بارے میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا، اعتبار اور اعتماد کا بت دھڑام سے گر گیا، اس مرد مجاہد کو لوگ تنہا چھوڑ گئے محض اقتدار کی خاطر۔
ہندو پاک میں ایسے لوگ بار بار سامنے آئے ہیں جنھوں نے ملک و ملت کو تباہ کردیا اسلامی ریاست کا شیرازہ بکھیر دیا اور کفار کے لیے راہ ہموار کی، ٹیپو سلطان شیربنگال، بہادر اور جفاکش جس نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انگریزوں کے خلاف جنگوں میں گزارا، لیکن وہاں بھیایسے لوگ تھے جنھوں نے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور فوج اندر آگئی اور پھر وہی ہوا جس کی ہمیشہ سے دشمن کو طلب رہی ہے اور اللہ کے شیروں کو شہادت نصیب ہوئی کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اپنی زمین کی حفاظت کی۔
شہیدوں کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ اس مرتبے کی تمنا انھی لوگوں کو ہوتی ہے جو اس دنیا کو حقیر ترین اور خس و خاشاک کی مانند جانتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے زندگی ہوتی ہی کتنی ہے، پچاس، ساٹھ یا زیادہ سے زیادہ ستر، اسی یا نوے۔ گزرتے پتا نہیں چلتی ہے، تینوں ادوار وقت کی پرواز کی نذر ہو جاتے ہیں دنیا کے جھمیلے جھیلتے مسائل سلجھاتے زندگی کی شام ہو جاتی ہے۔
ہوس پرست ہوں یا قانع، صابر و شاکر ہوں خالی ہاتھ جاتے ہیں کچھ ساتھ نہیں جاتا ، یہ محل، گاڑیاں، دولت کے انبار دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب کہ وہ لوگ جنھوں نے ساری عمر مخلوق خدا کی خدمت اور اللہ کی رضا کو اپنا سب کچھ جانا ان کی قبر جنت میں بدل جاتی ہے، یہ بات سب جانتے ہیں لیکن نفس کے اڑیل گھوڑے پر سوار ہو کر ان راستوں پر نکل جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ اڑیل گھوڑا جس بھی دلدل میں پٹخ دے یا کال کوٹھری یا پھر پھانسی گھاٹ پر چھوڑ دے مکافات عمل تو ہے ناں۔ خیرات، زکوٰۃ کو ہڑپ کر جانا، ملکی مفادات پر اپنے نفع کو مقدم جاننا، اپنے وطن کے ساتھ غداری کرنے والوں کا ہمیشہ یہی انجام ہوا ہے۔
عبرتناک موت اور ذلت و رسوائی کا طوق گردن میں لٹکایا گیا ہے لیکن گزرے وقتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ہے۔ سب اڑیل گھوڑے پر سوار نفس مطمئنہ کے غلام تعیشات زندگی میں مست ہیں، اپنی ہی زمین پر اپنوں ہی کا خون بہایا جاتا ہے، ناحق معصوم و بے خطا لوگوں کو مار دیا جاتا ہے اور جب ملازمت پوری ہوئی تو مغرب میں جا بستے ہیں۔ اس کی چکا چوند میں کھو جاتے ہیں جس ملک اور قوم کو برباد کرکے گئے ہیں اسے یکسر بھول جاتے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے بارے میں کیا خوب کہا ہے، حق کہنا مرد مومن کی صفات میں شامل ہے۔ اقبال تو تھے ہی مومن۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو' وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرلے گی
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
عام اور غریب آدمی کے لیے قانون ہے اور طاقتور کے لیے جب چاہیں عدالت سجا لیں۔ عمران خان کے لاکھوں چاہنے اور جان قربان کرنے والے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے جب لوگ اپنا حق اور انصاف مانگنے سڑکوں پر نکل آئیں۔
مقتدر حضرات کا پہلا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد الیکشن کرانے کا اعلان کریں، الیکشن ہوں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ عمران خان کے لیے توشہ خانہ کی چیزیں حیثیت نہیں رکھتی ہیں اس سے کہیں زیادہ دولت نمل یونیورسٹی اور کینسر اسپتالوں کی شکل میں موجود ہے وہ جب چاہیں اس کا سودا کرسکتے ہیں لیکن وہ محب وطن ہیں انھوں نے ملکوں ملکوں کا دورہ تفریح کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ پاکستان کے استحکام اور وقار کے لیے وہ اسلام کا سپاہی ہے جس نے اسلامی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی۔
اسلامی ملکوں کے اتحاد کے لیے صبح و شام کام کیا۔ یہ طریقہ مغرب کو پسند نہیں آیا، وہ اسلام کو ایک بار پھر طلوع ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے، وہ خوف زدہ تھے، لہٰذا اپنوں کے ساتھ مل کر ہٹا دیا گیا، لیکن ایک بار پھر وہ آئے گا اور عالم اسلام میں پھر چھا جائے گا۔
علامہ اقبال نے اپنے زمانے میں جو اشعار تخلیق کیے، جو سماجی، سیاسی اور دینی حالات کے تناظر میں تھے ۔علامہ کی مکمل شاعری داخلی و خارجی جذبوں کی عکاس ہے۔ مثال کے طور:
کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری
خصوصیت تھی سلطانی و راہبی میں
کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
ہوئی دِین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیریِ، ہوس کی وزیری
دوئی ملک و دِیں کے لیے نامرادی
دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری!
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری
آج کے حالات بھی ایسے ہی ہیں، ہوس کی امیری اور ہوس کی وزیری کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ ہر طرف مایوسی اور ہو کا عالم ہے، سچائی کو پچھاڑنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہمیشہ کی طرح باطل کو شکست اور صداقت کو فتح حاصل ہوتی ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں بھی بڑے زوروں کا رن پڑا ہے، غریبوں کے جھونپڑے اور امیروں کے محلات ہل گئے ہیں، پاکستان کی بنیادوں میں شگاف ڈالنے کی کوشش میں دشمنان وطن عرصہ دراز سے لگے ہوئے ہیں، لیکن ناکامی ہاتھ آتی ہے لیکن ان دنوں حالات کو سازشوں نے اس طرح بدلا ہے کہ گویا جنگ کا طبل بج گیا ہو، امریکا کو تو مسلم ممالک سے ازل سے بیر ہے اور رہا ہندوستان تو وہ پاکستان کی دشمنی میں اس کے ساتھ ہے۔
ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان تھے جن کی ہمت و عزم اور مجاہدانہ طرز حکومت کے ڈنکے بج رہے تھے اور اسلام کے حوالے سے بڑی کامیابیاں سامنے آئی تھیں لیکن باد مخالف نے وہ کام کر دکھایا جس کی توقع ہرگز نہیں تھی، اس بار پاکستان میں وہ ہوا جس کے بارے میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا، اعتبار اور اعتماد کا بت دھڑام سے گر گیا، اس مرد مجاہد کو لوگ تنہا چھوڑ گئے محض اقتدار کی خاطر۔
ہندو پاک میں ایسے لوگ بار بار سامنے آئے ہیں جنھوں نے ملک و ملت کو تباہ کردیا اسلامی ریاست کا شیرازہ بکھیر دیا اور کفار کے لیے راہ ہموار کی، ٹیپو سلطان شیربنگال، بہادر اور جفاکش جس نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انگریزوں کے خلاف جنگوں میں گزارا، لیکن وہاں بھیایسے لوگ تھے جنھوں نے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور فوج اندر آگئی اور پھر وہی ہوا جس کی ہمیشہ سے دشمن کو طلب رہی ہے اور اللہ کے شیروں کو شہادت نصیب ہوئی کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اپنی زمین کی حفاظت کی۔
شہیدوں کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ اس مرتبے کی تمنا انھی لوگوں کو ہوتی ہے جو اس دنیا کو حقیر ترین اور خس و خاشاک کی مانند جانتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے زندگی ہوتی ہی کتنی ہے، پچاس، ساٹھ یا زیادہ سے زیادہ ستر، اسی یا نوے۔ گزرتے پتا نہیں چلتی ہے، تینوں ادوار وقت کی پرواز کی نذر ہو جاتے ہیں دنیا کے جھمیلے جھیلتے مسائل سلجھاتے زندگی کی شام ہو جاتی ہے۔
ہوس پرست ہوں یا قانع، صابر و شاکر ہوں خالی ہاتھ جاتے ہیں کچھ ساتھ نہیں جاتا ، یہ محل، گاڑیاں، دولت کے انبار دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب کہ وہ لوگ جنھوں نے ساری عمر مخلوق خدا کی خدمت اور اللہ کی رضا کو اپنا سب کچھ جانا ان کی قبر جنت میں بدل جاتی ہے، یہ بات سب جانتے ہیں لیکن نفس کے اڑیل گھوڑے پر سوار ہو کر ان راستوں پر نکل جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ اڑیل گھوڑا جس بھی دلدل میں پٹخ دے یا کال کوٹھری یا پھر پھانسی گھاٹ پر چھوڑ دے مکافات عمل تو ہے ناں۔ خیرات، زکوٰۃ کو ہڑپ کر جانا، ملکی مفادات پر اپنے نفع کو مقدم جاننا، اپنے وطن کے ساتھ غداری کرنے والوں کا ہمیشہ یہی انجام ہوا ہے۔
عبرتناک موت اور ذلت و رسوائی کا طوق گردن میں لٹکایا گیا ہے لیکن گزرے وقتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ہے۔ سب اڑیل گھوڑے پر سوار نفس مطمئنہ کے غلام تعیشات زندگی میں مست ہیں، اپنی ہی زمین پر اپنوں ہی کا خون بہایا جاتا ہے، ناحق معصوم و بے خطا لوگوں کو مار دیا جاتا ہے اور جب ملازمت پوری ہوئی تو مغرب میں جا بستے ہیں۔ اس کی چکا چوند میں کھو جاتے ہیں جس ملک اور قوم کو برباد کرکے گئے ہیں اسے یکسر بھول جاتے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے بارے میں کیا خوب کہا ہے، حق کہنا مرد مومن کی صفات میں شامل ہے۔ اقبال تو تھے ہی مومن۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو' وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرلے گی
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
عام اور غریب آدمی کے لیے قانون ہے اور طاقتور کے لیے جب چاہیں عدالت سجا لیں۔ عمران خان کے لاکھوں چاہنے اور جان قربان کرنے والے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے جب لوگ اپنا حق اور انصاف مانگنے سڑکوں پر نکل آئیں۔
مقتدر حضرات کا پہلا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد الیکشن کرانے کا اعلان کریں، الیکشن ہوں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ عمران خان کے لیے توشہ خانہ کی چیزیں حیثیت نہیں رکھتی ہیں اس سے کہیں زیادہ دولت نمل یونیورسٹی اور کینسر اسپتالوں کی شکل میں موجود ہے وہ جب چاہیں اس کا سودا کرسکتے ہیں لیکن وہ محب وطن ہیں انھوں نے ملکوں ملکوں کا دورہ تفریح کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ پاکستان کے استحکام اور وقار کے لیے وہ اسلام کا سپاہی ہے جس نے اسلامی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی۔
اسلامی ملکوں کے اتحاد کے لیے صبح و شام کام کیا۔ یہ طریقہ مغرب کو پسند نہیں آیا، وہ اسلام کو ایک بار پھر طلوع ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے، وہ خوف زدہ تھے، لہٰذا اپنوں کے ساتھ مل کر ہٹا دیا گیا، لیکن ایک بار پھر وہ آئے گا اور عالم اسلام میں پھر چھا جائے گا۔