چاپلوسی
مسلمانوں کے ساتھ جوظلم وستم ہوا سوہوا، ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ مسلمانوں کے گھروں اوردکانوں کوبلڈوزر چلاکرتباہ کردیاگیا
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن گزشتہ دنوں بھارت کے دورے پر تھے۔ ان کے اس دورے پر خود ان کے ملک کے میڈیا نے تنقید کی ہے، میڈیا کا کہنا ہے کہ جانسن کا پورا دورہ مودی کی چاپلوسی میں گزرا۔ ان کے دورے سے صرف دو دن قبل دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں بی جے پی کے غنڈوں نے وہاں آباد مسلمانوں پر قیامت ڈھا دی تھی ،وہاں مسلمانوں کے قتل عام کی منظم منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہوا سو ہوا، ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوزر چلا کر تباہ کردیا گیا۔ یہ بلڈوزر بھارت میں ہی تیار ہو رہے ہیں جنھیں ایک برطانوی کمپنی تیار کر رہی ہے۔ جانسن نے جہانگیرپوری کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے گجرات میں اسی بلڈوزر کمپنی کے ایک نئے پلانٹ کا افتتاح کیا اور اس کے بلڈوزر پر بیٹھ کر بڑے فخر سے تصویریں بنوائیں۔
ان کی بلڈوزر پر سواری کی تصاویر کو برطانوی اخباروں نے چھاپا اور وزیر اعظم کو یاد کرایا کہ ان ہی بلڈوزروں سے بی جے پی کی حکومت دہلی میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کر رہی تھی۔ جانسن نے محض مودی کو خوش کرنے کے لیے ایسا کیا ،مگر یہ خیال نہیں کیا کہ ان کے اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ مودی تو مسلمانوں پر ظلم و ستم کر ہی رہا ہے اب جانسن کو بھی اس میں اس کا مددگار سمجھا جائے گا۔
جانسن کے لندن سے نئی دہلی کے لیے پرواز کرنے سے قبل وہاں کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمایندوں نے انھیں یہ کہا تھا کہ وہ وہاں جا کر مودی کو انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے مجبور کریں مگر جانسن نے بھارت آ کر مودی سے بھارت میں آباد تمام اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر ہونے والی بربریت کو روکنے کی کوئی بات نہیں کی بلکہ سارا وقت مودی کی پالیسیوں کی تعریفیں کرنے اور مودی کو روسی اسلحے کے بجائے برطانوی اسلحہ خریدنے پر آمادہ کرنے کے لیے وقف کردیا۔
کشمیریوں پر مسلسل ستر برسوں سے بھارتی فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ادھر سکھوں کو بھی دبانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے مگر جانسن نے اس سلسلے میں مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کشمیر کا مسئلہ حقیقتاً برطانوی حکومت کا ہی پیدا کردہ ہے۔
اس کے ہندوستان میں متعین آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کشمیریوں کو بھارت کی غلامی میں دے دیا تھا، اگر وہ اپنی بیوی کے کہے میں آ کر ریڈ کلف کو پنجاب کے ضلع گورداس پور کو بھارت کے نقشے میں شامل کرنے کا حکم نہ دیتا تو ہرگز کشمیر بھارت کا حصہ نہ بنتا اور اس طرح کشمیری اپنی مرضی کے مطابق پاکستان کا حصہ بن کر آج غلامی کے بجائے آزادی کی زندگی گزار رہے ہوتے۔
یہ بات اب راز نہیں رہی کہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے میں نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی سے اپنے تعلقات کو استعمال کیا تھا۔ کشمیریوں کے ساتھ برطانوی حکومت نے ضرور بے اعتنائی برتی مگر اس نے سکھوں کے ساتھ بھی بے انصافی کی ہے۔ تقسیم کے وقت گاندھی اور نہرو نے سکھوں کے رہنماؤں سے وعدہ کیا تھا کہ آزادی کے بعد بھارتی پنجاب کو سکھوں کا ایک آزاد اور خودمختار ملک قرار دیا جائے گا مگر وہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اب تو یہ حال ہے کہ کوئی سکھ خالصتان کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لاسکتا۔
اگر کوئی سکھ خالصتان کا نعرہ بلند کرتا ہے تو اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔ 1984 میں اندرا گاندھی کے اس کے دو سکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوں قتل کے بعد پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا جس میں ہزاروں سکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا تھا ساتھ ہی ان کے مکانوں اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی تھی ،اس کے بعد سے سکھوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردی تھی۔
کینیڈا اور برطانیہ میں سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں انھوں نے سکھوں کو بھارت سے آزادی دلانے کے لیے ایک تنظیم ''سکس فار جسٹس'' کے نام سے تشکیل دی ہے یہ تنظیم پوری دنیا کے سکھوں کی نمایندہ تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے پوری دنیا میں خالصتان کے قیام کے لیے تحریک شروع کر رکھی ہے۔ اس تحریک کے تحت کینیڈا اور برطانیہ میں خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم بھی کرایا جاچکا ہے جس میں وہاں کے سکھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اس ریفرنڈم کو کامیاب بنایا ہے۔
اس کامیاب ریفرنڈم نے مودی کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اس نے کینیڈین اور برطانوی حکومتوں کو سکھوں کی عالمی تنظیم ''سکس فار جسٹس'' پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ بورس جانسن جو مودی سے بہت زیادہ مرعوب ہیں نے اس تنظیم پر کوئی قدغن تو نہیں لگائی ہے مگر اپنے دورے میں سکھوں سے وعدے کے مطابق خالصتان کے قیام کے لیے مودی سے کوئی بات نہیں کی ہے جس پر سکھ ان سے ناراض ہیں۔
جانسن اگر مودی کے دباؤ میں ''سکس فار جسٹس'' پر پابندی لگانا بھی چاہے تو نہیں لگا سکے گا کیونکہ برطانوی سامراج سکھوں کے اس پرانے احسان تلے دبا ہوا ہے کہ یہ سکھ ہی تھے جنھوں نے 1857 کی جنگ آزادی کو ناکام بنانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
سکھوں کی برطانوی سلطنت کی خدمات کے پیش نظر برطانیہ میں آباد سکھوں کے مسائل پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ سکھ رہنماؤں کے مطابق بورس جانسن کو مودی کو خالصتان کے قیام کے لیے مجبور کرنا چاہیے مگر جانسن ایک تھکے ہوئے وزیر اعظم ہیں، ان کی حکومت کئی اسکینڈلز میں گھری ہوئی ہے۔ کورونا کے دنوں میں انھوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈاؤنڈ اسٹریٹ میں اپنی شادی کی سالگرہ منعقد کی تھی جس کی پاداش میں انھیں وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے لیے حزب اختلاف نے زبردست زور ڈالا تھا مگر وہ ملکہ سے معافی مانگ کر بچ گئے تھے۔
بورس جانسن کی حکومت پوری دنیا میں حقوق انسانی کی نگہبانی کا دعویٰ کرتی ہے، وہ پاکستان پر تو معمولی واقعات پر بھی زبردست تنقید کرتی ہے مگر بھارتی مسلمانوں کے قتل عام پر وہ خاموش ہے۔ اس کی خاموشی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب بھارت میں عیسائیوں پر بھی کھلے عام حملے ہو رہے ہیں اور چرچوں کی توڑ پھوڑ جاری ہے۔
چند دن قبل ہی کئی عیسائی پادریوں کو بی جے پی کے غنڈوں نے زد و کوب کیا ہے کہ وہ چرچ میں کچھ ہندو نوجوانوں کو بائبل کی تعلیم دے رہے تھے۔ بورس جانسن کی چکنی چپڑی باتوں سے مودی کو تو ضرور فائدہ ہوگا مگر بھارتی عیسائیوں اور برطانوی مفادات کو ضرور نقصان پہنچے گا۔
مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہوا سو ہوا، ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوزر چلا کر تباہ کردیا گیا۔ یہ بلڈوزر بھارت میں ہی تیار ہو رہے ہیں جنھیں ایک برطانوی کمپنی تیار کر رہی ہے۔ جانسن نے جہانگیرپوری کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے گجرات میں اسی بلڈوزر کمپنی کے ایک نئے پلانٹ کا افتتاح کیا اور اس کے بلڈوزر پر بیٹھ کر بڑے فخر سے تصویریں بنوائیں۔
ان کی بلڈوزر پر سواری کی تصاویر کو برطانوی اخباروں نے چھاپا اور وزیر اعظم کو یاد کرایا کہ ان ہی بلڈوزروں سے بی جے پی کی حکومت دہلی میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کر رہی تھی۔ جانسن نے محض مودی کو خوش کرنے کے لیے ایسا کیا ،مگر یہ خیال نہیں کیا کہ ان کے اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ مودی تو مسلمانوں پر ظلم و ستم کر ہی رہا ہے اب جانسن کو بھی اس میں اس کا مددگار سمجھا جائے گا۔
جانسن کے لندن سے نئی دہلی کے لیے پرواز کرنے سے قبل وہاں کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمایندوں نے انھیں یہ کہا تھا کہ وہ وہاں جا کر مودی کو انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے مجبور کریں مگر جانسن نے بھارت آ کر مودی سے بھارت میں آباد تمام اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر ہونے والی بربریت کو روکنے کی کوئی بات نہیں کی بلکہ سارا وقت مودی کی پالیسیوں کی تعریفیں کرنے اور مودی کو روسی اسلحے کے بجائے برطانوی اسلحہ خریدنے پر آمادہ کرنے کے لیے وقف کردیا۔
کشمیریوں پر مسلسل ستر برسوں سے بھارتی فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ادھر سکھوں کو بھی دبانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے مگر جانسن نے اس سلسلے میں مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کشمیر کا مسئلہ حقیقتاً برطانوی حکومت کا ہی پیدا کردہ ہے۔
اس کے ہندوستان میں متعین آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کشمیریوں کو بھارت کی غلامی میں دے دیا تھا، اگر وہ اپنی بیوی کے کہے میں آ کر ریڈ کلف کو پنجاب کے ضلع گورداس پور کو بھارت کے نقشے میں شامل کرنے کا حکم نہ دیتا تو ہرگز کشمیر بھارت کا حصہ نہ بنتا اور اس طرح کشمیری اپنی مرضی کے مطابق پاکستان کا حصہ بن کر آج غلامی کے بجائے آزادی کی زندگی گزار رہے ہوتے۔
یہ بات اب راز نہیں رہی کہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے میں نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی سے اپنے تعلقات کو استعمال کیا تھا۔ کشمیریوں کے ساتھ برطانوی حکومت نے ضرور بے اعتنائی برتی مگر اس نے سکھوں کے ساتھ بھی بے انصافی کی ہے۔ تقسیم کے وقت گاندھی اور نہرو نے سکھوں کے رہنماؤں سے وعدہ کیا تھا کہ آزادی کے بعد بھارتی پنجاب کو سکھوں کا ایک آزاد اور خودمختار ملک قرار دیا جائے گا مگر وہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اب تو یہ حال ہے کہ کوئی سکھ خالصتان کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لاسکتا۔
اگر کوئی سکھ خالصتان کا نعرہ بلند کرتا ہے تو اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔ 1984 میں اندرا گاندھی کے اس کے دو سکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوں قتل کے بعد پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا جس میں ہزاروں سکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا تھا ساتھ ہی ان کے مکانوں اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی تھی ،اس کے بعد سے سکھوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردی تھی۔
کینیڈا اور برطانیہ میں سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں انھوں نے سکھوں کو بھارت سے آزادی دلانے کے لیے ایک تنظیم ''سکس فار جسٹس'' کے نام سے تشکیل دی ہے یہ تنظیم پوری دنیا کے سکھوں کی نمایندہ تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے پوری دنیا میں خالصتان کے قیام کے لیے تحریک شروع کر رکھی ہے۔ اس تحریک کے تحت کینیڈا اور برطانیہ میں خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم بھی کرایا جاچکا ہے جس میں وہاں کے سکھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اس ریفرنڈم کو کامیاب بنایا ہے۔
اس کامیاب ریفرنڈم نے مودی کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اس نے کینیڈین اور برطانوی حکومتوں کو سکھوں کی عالمی تنظیم ''سکس فار جسٹس'' پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ بورس جانسن جو مودی سے بہت زیادہ مرعوب ہیں نے اس تنظیم پر کوئی قدغن تو نہیں لگائی ہے مگر اپنے دورے میں سکھوں سے وعدے کے مطابق خالصتان کے قیام کے لیے مودی سے کوئی بات نہیں کی ہے جس پر سکھ ان سے ناراض ہیں۔
جانسن اگر مودی کے دباؤ میں ''سکس فار جسٹس'' پر پابندی لگانا بھی چاہے تو نہیں لگا سکے گا کیونکہ برطانوی سامراج سکھوں کے اس پرانے احسان تلے دبا ہوا ہے کہ یہ سکھ ہی تھے جنھوں نے 1857 کی جنگ آزادی کو ناکام بنانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
سکھوں کی برطانوی سلطنت کی خدمات کے پیش نظر برطانیہ میں آباد سکھوں کے مسائل پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ سکھ رہنماؤں کے مطابق بورس جانسن کو مودی کو خالصتان کے قیام کے لیے مجبور کرنا چاہیے مگر جانسن ایک تھکے ہوئے وزیر اعظم ہیں، ان کی حکومت کئی اسکینڈلز میں گھری ہوئی ہے۔ کورونا کے دنوں میں انھوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈاؤنڈ اسٹریٹ میں اپنی شادی کی سالگرہ منعقد کی تھی جس کی پاداش میں انھیں وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے لیے حزب اختلاف نے زبردست زور ڈالا تھا مگر وہ ملکہ سے معافی مانگ کر بچ گئے تھے۔
بورس جانسن کی حکومت پوری دنیا میں حقوق انسانی کی نگہبانی کا دعویٰ کرتی ہے، وہ پاکستان پر تو معمولی واقعات پر بھی زبردست تنقید کرتی ہے مگر بھارتی مسلمانوں کے قتل عام پر وہ خاموش ہے۔ اس کی خاموشی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب بھارت میں عیسائیوں پر بھی کھلے عام حملے ہو رہے ہیں اور چرچوں کی توڑ پھوڑ جاری ہے۔
چند دن قبل ہی کئی عیسائی پادریوں کو بی جے پی کے غنڈوں نے زد و کوب کیا ہے کہ وہ چرچ میں کچھ ہندو نوجوانوں کو بائبل کی تعلیم دے رہے تھے۔ بورس جانسن کی چکنی چپڑی باتوں سے مودی کو تو ضرور فائدہ ہوگا مگر بھارتی عیسائیوں اور برطانوی مفادات کو ضرور نقصان پہنچے گا۔