سڑک کا تاوان

کائنات کی سب سےبیش قیمت چیزانسانی جان ہے۔اگر ایک اورترتیب سےدنیا کامشاہدہ کیا جائےتو ہر چیز کا بنیادی محور انسان ہی ہے

raomanzar@hotmail.com

کائنات کی سب سے بیش قیمت چیز انسانی جان ہے۔ اگر ایک اور ترتیب سے دنیا کا مشاہدہ کیا جائے تو ہر چیز کا بنیادی محور انسان ہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک انسان کے وجود کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں انسانی جان کی قدر و قیمت قدرے کم ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں جو ترقی پذیر ممالک کے اندر بھی کم درجے پر ہیں، وہاں یہ جوہرِ اَنمول اور بھی سستا ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں انسانی جان کی کم اہمیت ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ امریکا، سویڈن یا برطانیہ میں کسی شہر سے دوسرے شہر تک جائیں۔ آپ کو لاتعداد پُل، سڑکیں، موٹر ویز اور سروس سینٹرز ملیں گے۔ کسی بھی جگہ آپ کو افتتاح بدست جناب فلاں کی تختی! نظر نہیں آئے گی۔

کہیں آپ کو وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا صدر کے بیش قیمت بیانات نہیں ملیں گے کہ انھوں نے عوام سے ایک اور وعدہ پورا کر دیا۔ اچھی طرز زندگی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اگر حکومت اس کے لیے سرکاری پیسوں سے کوئی سہولت مہیا کرتی ہے تو یہ قطعاً احسان نہیں ہے۔ یہ حکومت کے فرائض میں شامل ہے اور اس کا مسلسل پرچار کرنا ذہنی مفلسی کی نشانی ہے۔ ہمارے ہر شہر، دیہات اور گاؤں میں اس فکری غربت کی لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ ہمارا طرز حکمرانی تو اس قدر قلاش ہے کہ ہم اپنے سیاسی مخالفین کی بنائی ہوئی شاہراؤں اور پُلوں سے ان کے نام کی افتتاحی تختیاں اکھاڑ کر دوبارہ اپنے نام کی سنگِ مرمر کی تختی لگانے کو بھی عار نہیں سمجھتے۔ تمام وعدوں کے برعکس انسانی جان کی حفاظت میں ہمارا نظام بالکل ناکام ہو چکا ہے۔ ہم نے دو اہم ترین شعبے، سیاست اور دین اپنے معاشرہ کے سب سے پست طبقہ کے حوالے کر دیے ہیں۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ان شعبوں میں آگے نکلنے والے لوگ صرف اپنی ذاتی ذہنیت سے مطابقت رکھنے والے اشخاص کو ترقی کرنے کا حق دیتے ہیں۔ ہر لائق اور صاحب رائے شخص ان کے لیے خطرہ ہے۔

روز کروڑوں لوگ کام، روزگار، تفریح یا کسی اور ذاتی مقصد کے تحت ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک بستی سے دوسری بستی، ایک قصبہ سے دوسرے قصبے یا ایک ہی شہر میں کسی دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔ اس سفر میں ہر طرح کی سواری استعمال کیجاتی ہے۔ بس، رکشہ، موٹر سائیکل، سائیکل یا گاڑی یعنی جس کے اختیار میں سڑک پر سفر کرنے کے لیے جو بھی سہولت ہے، وہ باقاعدگی سے اُس کا استعمال کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنا اپنا کام مکمل کر کے ہر روز اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ لیکن ہر سال بیس ہزار کے قریب اشخاص کبھی واپس اپنے گھروں تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ بیس ہزار بدقسمت لوگ کسی نہ کسی سڑک پر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

W.H.O کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ٹریفک کے حادثات میں بیس ہزار لوگ مارے جاتے ہیں۔ ٹریفک حوادث کی شرح میں پاکستان دنیا میں94 نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان حوادث کی تعداد بتدریج بڑھتی جائے گی۔ ان بدقسمت لوگوں میں ہر عمر کے بوڑھے، بچے، نوجوان، مرد اور خواتین شامل ہیں۔ اس میں شیر خوار بچوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ میں بیس ہزار لوگوں کی بے وجہہ موت کا تجزیہ کروں تو دراصل بات ہزاروں خاندانوں کی معاشی بربادی تک جاتی ہے۔ اگر ایک مزدور یا دیہاڑی دار بس کے حادثہ میں مارا جاتا ہے تو یہ صرف ایک فرد کی موت نہیں بلکہ عمومی طور پر کم از کم ایک یا دو خاندانوں کا معاشی قتل ہے۔ یہ معاشی نقصان تقریباً100 ارب سالانہ کا ہے۔ ہزاروں لوگ حادثات میں اس بری طرح زخمی ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو جاتے ہیں۔ وہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ان میں مردوں کی تعداد خواتین سے بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹریفک حادثات میں کام آنے والے اشخاص میں سے اکثر کا تعلق غریب طبقہ سے ہوتا ہے۔


تیز رفتار، ناتجربہ کار ڈرائیور اور سڑکوں کی ناگفتہ صورت حال حادثات کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ موبائل فون کا بے جا استعمال، ڈرائیوروں میں منشیات کا استعمال، وَن ویلنگ اور بسوں اور دیگر سواریوں میں مقررہ تعداد سے زیادہ اشخاص کو بٹھانا بھی مہلک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ ٹریفک کے قوانین کی پابندی نہ کرنا بھی ان حادثات میں اضافہ کی ایک اور وجہ ہے۔ ان میں سے کوئی بھی وجہ ایسی نہیں جسے توجہ اور محنت سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سرکاری عمال کی عمومی بے حسی اور کرپشن اس صورت حال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔ صرف کراچی میں، ٹریفک کی مد میں کروڑوں روپے ماہانہ کا نذرانہ وصول کیا جاتا ہے جو نیچے سے اوپر تک تقسیم ہوتا ہے۔ پاکستان کے ہر صوبے اور بڑے شہر کی کہانی بالکل ایک جیسی ہے۔

ناصر اپنے ڈرائیور کے ہمراہ کار پر شام کو اسلام آباد سے لاہور کے لیے نکلا۔ ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا۔ یہ کوئی تین سال پہلے کا واقعہ ہے۔ کسی قسم کے مسئلہ کے بغیر سفر جاری تھا۔ لاہور کے ٹول پلازہ پر گاڑیوں کی میلوں لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ یہ لائن بڑی آہستہ رفتار سے چل رہی تھی۔ اُس کی وجہ ایک دھرنا تھا جس نے پورے لاہور کی ٹریفک کو درہم برہم کر دیا تھا۔ جیسے ہی ناصر کے ڈرائیور نے گاڑی روکی تو پیچھے سے ایک کار انتہائی تیز رفتار سے آئی اور کنٹرول نہ ہونے پر پوری رفتار اور طاقت سے ناصر کی گاڑی سے ٹکرائی۔ جس لمحہ یہ حادثہ ہوا، موٹر وے پولیس کی ایک موبائل سڑک کے کنارے پر چل رہی تھی۔ حادثہ کی شدت کو دیکھ کر وہ موبائل فوری طور پر وہاں سے غائب ہو گئی۔ ناصر کی گاڑی شدید جھٹکے کی وجہ سے اپنی لین سے دوسری لین میں چلی گئی۔ گاڑی بالکل اُلٹ چکی تھی۔ ڈرائیور اور ناصر دونوں شدید زخمی ہو گئے۔ ٹریفک بالکل منجمد ہو گئی۔ سب لوگ تماشہ دیکھنے لگے۔ موٹر وے پولیس کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ پیچھے سے ٹکر مارنے والی گاڑی پشاور سے آ رہی تھی۔ اُس کا ڈرائیور پہلی بار پشاور سے لاہور موٹر وے پر سفر کر رہا تھا۔ وہ وقت پر بریک نہ لگا سکا اور اُس کی گاڑی پوری قوت سے ناصر کی گاڑی سے ٹکرائی۔ دونوں گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ کچھ لوگوں نے ہمت کر کے ناصر اور اُس کے ڈرائیور کو گاڑی سے باہر نکالا۔

مگر ان لوگوں کی زخمیوں کو اٹھانے کی کسی قسم کی کوئی تربیت نہیں تھی۔ دونوں کو موٹر وے کے کنارے سڑک پر لٹا دیا گیا۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنے شدید زخمی ہیں۔ تقریباً پچیس منٹ بعد موٹر وے پولیس کی ایک گاڑی وہاں آئی۔ اس میں دو تین سپاہی موجود تھے۔ زخمیوں کو حفاظت سے اسپتال پہنچانے کے بجائے وہ ناصر اور اُس کے ڈرائیور سے ان کے نام، ولدیت اور ایڈریس پوچھنے لگے۔ وہ وائرلیس پر پیغام دیتے رہے کہ ایک ایکسیڈنٹ ہو چکا ہے اور فلاں فلاں شخص زخمی ہو چکا ہے۔ کسی قسم کی کوئی ایمبولینس حادثہ کے ایک گھنٹہ کے بعد تک موقعہ پر نہ پہنچ سکی۔ ڈرائیور کو شدید اندرونی چوٹیں آئی تھیں۔ وہ بر وقت طبی امداد نہ ملنے پر زندگی کی بازی ہار گیا۔ ناصر کی ریڑھ کی ہڈی میں کاری ضرب آئی تھی۔ ٹریفک پولیس کی موجودگی میں اُس نے ساتھ والی گاڑی والے کی منت کر کے اسپتال جانے کے لیے آمادہ کیا۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ گیا۔ موٹر وے پولیس نے اُس کی کوئی مدد نہ کی۔ وہ صرف وائرلیس پر پیغام دینے میں مصروف رہے۔ بڑی تگ و دو کے بعد ناصر اسپتال پہنچا۔ حادثہ کو تین گھنٹے گزر چکے تھے۔ ناصر کی ریڑھ کی ہڈی کا ایک مہرہ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ تین گھنٹے کی تاخیر بھی جان لیوا تھی۔ آج ناصر اپاہج ہو چکا ہے۔ اس نے اپنا علاج ہر جگہ اور ہر ڈاکٹر سے کروانے کی کوشش کی ہے مگر اُس ایکسیڈنٹ کی ضرب اتنی شدید تھی کہ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ آج تک ٹھیک نہ ہو سکی۔ وہ اب وہیل چیئر پر ہے۔ اُس کا کاروبار بالکل تباہ ہو چکا ہے کیونکہ وہ حادثہ کے ایک سال تک اپنی فیکٹری نہیں جا سکا۔

صادق کراچی میں مزدوری کے لیے خیبر پختونخوا سے آیا ہوا تھا۔ کراچی میں وہ دیہاڑی کی بنیاد پر روز کام تلاش کرتا تھا۔ اُس کو مہینہ میں تقریباً بیس دن کام مل جاتا تھا۔ اُس کے بچے مردان کے نزدیک ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ ہر ماہ دس بارہ ہزار روپے گھر بھجوا دیتا تھا۔ شدید محنت کے باوجود بھی وہ اپنے ذرایع آمدن کو کسی طریقے سے بڑھا نہیں پایا تھا۔ وہ اپنے کام کے اڈے تک بس میں سفر کرتا تھا۔ یہ بس اسے چالیس منٹ کی مسافت کے بعد اڈے پر پہنچا دیتی تھی۔ ایک صبح کو وہ اپنے معمول کے مطابق بس میں سوار ہوا۔ جیسے ہی بس چلی تو اُس نے محسوس کیا کہ بس کی رفتار خطرناک حد تک تیز ہے۔ کئی سواریوں نے ڈرائیور کو بتایا کہ وہ تیز گاڑی چلا رہا ہے۔ کچھ وقت کے بعد بس ڈرائیور سے بالکل بے قابو ہو گئی۔ وہ سڑک کے جنگلے کو توڑتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی۔ کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ وہ دن صادق کی زندگی کا آخری دن تھا۔ دراصل بس کا اصل ڈرائیور چھٹی پر تھا۔ اُس دن بس کو کنڈیکٹر چلا رہا تھا۔ اور وہ بالکل بھی ٹرینڈ نہیں تھا۔ آج صادق کا خاندان مفلسی کی اُس سطح پر جا چکا ہے کہ اب وہ باقاعدہ بھیک مانگتے ہیں۔ اس کے بچے غربت کے جبر کے باعث انسانی سطح سے بہت نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہماری سڑکوں پر یہ سب کچھ ہر وقت ہوتا ہے۔ کسی بھی حکومتی ادارے کی توجہ اس طرف مرکوز نہیں ہے۔ سیاسی اکابرین تو صرف اور صرف سڑکوں کی افتتاحی تختیاں لگانے میں مصروف ہیں۔ روز لوگ بے موت اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ مرنے والوں میں سے اکثریت اپنے مرنے کی وجہ سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ ہر سال ہماری سڑکیں بیس ہزار لوگوں کی زندگی کا خراج وصول کرتی ہیں! موت کی گاڑی میں سوار ہو کر ہم تمام لوگ ہر سڑک کا تاوان اپنی زندگی ہارنے کی صورت میں ادا کر رہے ہیں!
Load Next Story