نفرت اور انتشار کی سیاست
اگلے مہینے سے وہ باقاعدہ ایک منظم تحریک چلانے کی موڈ میں دکھائی دیتے ہیں
ایک زمانہ تھا ہمارے یہاں لوگ سیاست کو صرف اپنے جمہوری استحقاق کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔الیکشن کے دنوں میں وہ سرگرم ہوکر اپنی اپنی من پسند سیاسی پارٹی کے جھنڈے اُٹھاکے انتخابی مہم چلایاکرتے تھے اورالیکشن ہوجانے کے بعد جمہوری طرز کے مطابق کھلے دل سے انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے ایک منتخب حکومت کو آرام وسکون سے کام کرنے دیاکرتے تھے۔
وہ سیاسی چپقلش اورنفرتوں کو اپنے گھروں اورمحلوں میں گھسنے نہیں دیاکرتے تھے۔مگر رفتہ رفتہ یہ بردباری اورمیانہ روی ختم ہوتی گئی اوراب تو یہ حال ہوچکا ہے کہ سیاسی مخاصمت، دشمنی اورنااتفاقی میں لوگ اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ایک پارٹی کاحامی دوسری سیاسی پارٹی کے حامی کو اپنا انتہائی ناپسندیدہ حریف تصورکرنے لگا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو مرحوم دور کے آخری ایام میں بھی جب نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد نے 1977کے انتخابات میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف بھی انتخابی سیاسی معرکہ لڑاتھااُس وقت بھی دلوں میں نفرتیں اورکدورتیں اس قدرسرایت نہیں کرگئی تھیں جیسی اب کرچکی ہیں۔
سیاست میں یہ خرابی دیکھاجائے تو 2011 سے بہت زیادہ بڑھی ہے جب عمران خان صاحب کی جماعت کو پذیرائی نصیب ہوئی۔اس سے پہلے پندرہ سولہ سال تک خان صاحب تمام تر کوششوں کو باوجود کسی بھی الیکشن میں ایک دوسیٹوں سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرپائے تھے،مگر 2011 سے اُن کی جماعت عوامی مقبولیت کے اس درجہ پر پہنچ گئی جہاں اُسے وفاق میں حکومت بنانے کی آس وامید ہوچلی اورپھر 2018 انتخابات میں اس نے یہ معرکہ بھی سرکرلیا۔
ان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کی اپنی کرشماتی پرسنلٹی کے علاوہ بہت سی اور وجوہات بھی کارفرماتھیں جسے استعمال کرکے 2013 میں بننے والی نوازشریف حکومت کو انھوں نے ایک دن بھی سکون کاسانس لینے نہیں دیا۔وہ کبھی لانگ مارچ کرتے، کبھی ڈی چوک پر دھرنادیتے اورکبھی سارے ملک میں لاک ڈاؤن کی تحریک چلاتے۔
اُن کی حمایت میں سامنے آنے والوں میں اس ملک کا غریب طبقہ شامل نہیں تھابلکہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کی اکثریت اور چالیس پچاس فیصد نوجوانوں پر مشتمل وہ طبقہ شامل تھا جو عمران خان کے اسٹائلز اور شہرت سے متاثر ہوکرگھروں سے باہر نکل آیا تھا۔ جلسوں میں میوزک اور گانوں کاکلچر بھی عمران خان ہی نے شروع کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں 126 دنوں تک وہ ہرشام لگاتار ایک میوزیکل کنسرٹ منعقد کرتے رہے اور لوگ تقریروں سے ذیادہ اُن شاموں کو ایک تفریح کے طور پر انجوائے کرتے رہے۔سیاسی مخالفوں کو غیر مناسب الفاظ، ناموں اورالقابات سے مخاطب کرکے اُن کامذاق بنانا بھی اسی دور کاشاخسانہ ہے۔
اس نئے دور کی سیاست کی ایک بہت بڑی خامی یہ سامنے آئی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں نفرت اوربغض اس قدر بڑھ چکاہے کہ ایک گھر کے اندر بھائی بھائی سے لڑنے پر تلا ہواہے۔لمحہ فکر یہ ہے کہ اس سیاسی مخالفت اورمخاصمت نے ساری قوم کو گروہوں اور گروپوں میں تقسیم کرکے رکھ دیاہے،وہ ایک دوسرے کو جان سے مارڈالنے پرتلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست کی اس چپقلش اورنفرت سے اب کوئی گھر اورکوئی فرد بھی محفوظ نہیں رہا۔ کون کس وقت کسی دوسرے کی اشتعال انگیزی اور دشمنی کاشکار ہوجائے معلوم نہیں۔
تلخ اور جارحانہ لب ولہجہ نے قومی یک جہتی اوریگانت کاشیرازہ بکھیر کر رکھ دیاہے۔بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ ہم ایک مہذب ، خواندہ جمہوریت آشنامعاشرہ تشکیل دینے اورسیاست میں صالحیت داخل کرنے کے بجائے مزاحمت، فسطائیت اوردست درازی پراُترآئے ہیں۔ اعصاب اخلاق پرکلہاڑے چلاکے ، ایک دوسرے کی پگڑی اچھال کے اورداڑھی اورمنبر کی پامالی کرکے سمجھ رہے ہیں کہ ہم قوم کی خوب اچھی تربیت کررہے ہیں۔
افسوس سے کہناپڑتاہے کہ آج ہمارا اجتماعی شعور عدم برداشت ، مارکٹائی اورپرتشدد محاذآرائی پر مبنی ہو چکا ہے۔ ملک تاریخ کے سنگین بحران اور بدترین حالات سے دوچار ہے۔انسانی قدروں کی توڑپھوڑ، ذاتی اوراجتماعی حماقتوں اورملی نااتفاقیوں نے سارے معاشرے کوجامد وساکت اوربنجر بناکے رکھ دیا ہے۔ سیاستدانوں کی متعصبانہ سوچوں اوردانشوروں کے جانبدارانہ تجزیوں نے ساری قوم کوہیجان انگیز کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ جھوٹ ، بے ایمانی ، کرپشن ، ضمیر فروشی ہماری قومی شناخت بن چکی ہے۔
احساس زیاں سے بے نیاز ہوکر ہم اجتماعی خودسوزی اورخودکشی کے طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ معلوم نہیں نفرت اوراشتعال کی یہ سیاست ہمیں کہاں لے جائے گی۔اقتدار آنے جانے کی شے ہے۔ آج تک کسی کو بھی دائمی اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ملک کے اندر آج تک جتنے بھی وزراء اعظم منتخب ہوتے رہے ہیں کسی نے بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ لیکن اُن میں سے کسی نے بھی اس محرومی اقتدار کو زندگی اورموت کامسئلہ نہیں بنالیا۔
یہ پہلاموقعہ ہے کہ خان صاحب ایک جمہوری اورآئینی طریقہ کار کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار میں رہنے کاجواز کھوبیٹھے تووہ اس قدر برہم اورسیخ پاہوگئے کہ سارے ملک ہی کوبھسم کردیناچاہتے ہیں۔
حالانکہ اس سے قبل بھی پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ نون کے منتخب وزراء اعظم ایک سے زائد مرتبہ ایوان اقتدار سے بے دخل کردیے گئے بلکہ یہ کہاجائے توکوئی غیرمناسب بھی نہ ہوگاکہ اُن سب کوغیر آئینی طریقوں سے معزول کیاجاتارہا۔ جب کہ خان صاحب کوتودستور میں دیے گئے ایک جمہوری طریقے کے تحت نکالاگیاہے لیکن وہ اسے استقامت اور خوش دلی سے قبول کرنے کے بجائے اشتعال انگیزی اورمحاذآرائی پراتر آئے ہیں۔
وہ شاید سمجھ رہے ہیں کہ قوم کی طرف سے ملنے والی اس وقتی حمایت اور ہمدردی کواگرکیش کروانے میں ذراسے بھی تاخیر ہوگئی تو پھر وہ دوبارہ برسراقتدار آنے کا موقعہ ضایع کردیںگے اسی لیے وہ ہرجائزو ناجائز حربہ استعمال کرنے کے درپہ ہیں۔
اگلے مہینے سے وہ باقاعدہ ایک منظم تحریک چلانے کی موڈ میں دکھائی دیتے ہیں اور اس مقصد کو پانے کے لیے وہ توڑپھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ سمیت ہر قانونی اورغیر قانونی طریقوں پرعمل پیراہوناچاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ صرف اپنے صحن میں سورج اتارنے کی خواہش رکھتے ہیں اوراس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ نفرت و اشتعال کی آگ میں سارے ملک کو جلاکے راکھ کردیناچاہتے ہیں۔ اُن کے لیے تو ہم اب صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ نفرت کی آندھیوں کااستقبال کرنے والے شاید اس حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ جب آندھیاں آتی ہیں تو چراغوں سے اُن کاتعارف نہیں پوچھاکرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس ملک کومحفوظ و سلامت رکھے۔(آمین )
وہ سیاسی چپقلش اورنفرتوں کو اپنے گھروں اورمحلوں میں گھسنے نہیں دیاکرتے تھے۔مگر رفتہ رفتہ یہ بردباری اورمیانہ روی ختم ہوتی گئی اوراب تو یہ حال ہوچکا ہے کہ سیاسی مخاصمت، دشمنی اورنااتفاقی میں لوگ اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ایک پارٹی کاحامی دوسری سیاسی پارٹی کے حامی کو اپنا انتہائی ناپسندیدہ حریف تصورکرنے لگا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو مرحوم دور کے آخری ایام میں بھی جب نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد نے 1977کے انتخابات میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف بھی انتخابی سیاسی معرکہ لڑاتھااُس وقت بھی دلوں میں نفرتیں اورکدورتیں اس قدرسرایت نہیں کرگئی تھیں جیسی اب کرچکی ہیں۔
سیاست میں یہ خرابی دیکھاجائے تو 2011 سے بہت زیادہ بڑھی ہے جب عمران خان صاحب کی جماعت کو پذیرائی نصیب ہوئی۔اس سے پہلے پندرہ سولہ سال تک خان صاحب تمام تر کوششوں کو باوجود کسی بھی الیکشن میں ایک دوسیٹوں سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرپائے تھے،مگر 2011 سے اُن کی جماعت عوامی مقبولیت کے اس درجہ پر پہنچ گئی جہاں اُسے وفاق میں حکومت بنانے کی آس وامید ہوچلی اورپھر 2018 انتخابات میں اس نے یہ معرکہ بھی سرکرلیا۔
ان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کی اپنی کرشماتی پرسنلٹی کے علاوہ بہت سی اور وجوہات بھی کارفرماتھیں جسے استعمال کرکے 2013 میں بننے والی نوازشریف حکومت کو انھوں نے ایک دن بھی سکون کاسانس لینے نہیں دیا۔وہ کبھی لانگ مارچ کرتے، کبھی ڈی چوک پر دھرنادیتے اورکبھی سارے ملک میں لاک ڈاؤن کی تحریک چلاتے۔
اُن کی حمایت میں سامنے آنے والوں میں اس ملک کا غریب طبقہ شامل نہیں تھابلکہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کی اکثریت اور چالیس پچاس فیصد نوجوانوں پر مشتمل وہ طبقہ شامل تھا جو عمران خان کے اسٹائلز اور شہرت سے متاثر ہوکرگھروں سے باہر نکل آیا تھا۔ جلسوں میں میوزک اور گانوں کاکلچر بھی عمران خان ہی نے شروع کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں 126 دنوں تک وہ ہرشام لگاتار ایک میوزیکل کنسرٹ منعقد کرتے رہے اور لوگ تقریروں سے ذیادہ اُن شاموں کو ایک تفریح کے طور پر انجوائے کرتے رہے۔سیاسی مخالفوں کو غیر مناسب الفاظ، ناموں اورالقابات سے مخاطب کرکے اُن کامذاق بنانا بھی اسی دور کاشاخسانہ ہے۔
اس نئے دور کی سیاست کی ایک بہت بڑی خامی یہ سامنے آئی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں نفرت اوربغض اس قدر بڑھ چکاہے کہ ایک گھر کے اندر بھائی بھائی سے لڑنے پر تلا ہواہے۔لمحہ فکر یہ ہے کہ اس سیاسی مخالفت اورمخاصمت نے ساری قوم کو گروہوں اور گروپوں میں تقسیم کرکے رکھ دیاہے،وہ ایک دوسرے کو جان سے مارڈالنے پرتلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست کی اس چپقلش اورنفرت سے اب کوئی گھر اورکوئی فرد بھی محفوظ نہیں رہا۔ کون کس وقت کسی دوسرے کی اشتعال انگیزی اور دشمنی کاشکار ہوجائے معلوم نہیں۔
تلخ اور جارحانہ لب ولہجہ نے قومی یک جہتی اوریگانت کاشیرازہ بکھیر کر رکھ دیاہے۔بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ ہم ایک مہذب ، خواندہ جمہوریت آشنامعاشرہ تشکیل دینے اورسیاست میں صالحیت داخل کرنے کے بجائے مزاحمت، فسطائیت اوردست درازی پراُترآئے ہیں۔ اعصاب اخلاق پرکلہاڑے چلاکے ، ایک دوسرے کی پگڑی اچھال کے اورداڑھی اورمنبر کی پامالی کرکے سمجھ رہے ہیں کہ ہم قوم کی خوب اچھی تربیت کررہے ہیں۔
افسوس سے کہناپڑتاہے کہ آج ہمارا اجتماعی شعور عدم برداشت ، مارکٹائی اورپرتشدد محاذآرائی پر مبنی ہو چکا ہے۔ ملک تاریخ کے سنگین بحران اور بدترین حالات سے دوچار ہے۔انسانی قدروں کی توڑپھوڑ، ذاتی اوراجتماعی حماقتوں اورملی نااتفاقیوں نے سارے معاشرے کوجامد وساکت اوربنجر بناکے رکھ دیا ہے۔ سیاستدانوں کی متعصبانہ سوچوں اوردانشوروں کے جانبدارانہ تجزیوں نے ساری قوم کوہیجان انگیز کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ جھوٹ ، بے ایمانی ، کرپشن ، ضمیر فروشی ہماری قومی شناخت بن چکی ہے۔
احساس زیاں سے بے نیاز ہوکر ہم اجتماعی خودسوزی اورخودکشی کے طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ معلوم نہیں نفرت اوراشتعال کی یہ سیاست ہمیں کہاں لے جائے گی۔اقتدار آنے جانے کی شے ہے۔ آج تک کسی کو بھی دائمی اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ملک کے اندر آج تک جتنے بھی وزراء اعظم منتخب ہوتے رہے ہیں کسی نے بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ لیکن اُن میں سے کسی نے بھی اس محرومی اقتدار کو زندگی اورموت کامسئلہ نہیں بنالیا۔
یہ پہلاموقعہ ہے کہ خان صاحب ایک جمہوری اورآئینی طریقہ کار کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار میں رہنے کاجواز کھوبیٹھے تووہ اس قدر برہم اورسیخ پاہوگئے کہ سارے ملک ہی کوبھسم کردیناچاہتے ہیں۔
حالانکہ اس سے قبل بھی پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ نون کے منتخب وزراء اعظم ایک سے زائد مرتبہ ایوان اقتدار سے بے دخل کردیے گئے بلکہ یہ کہاجائے توکوئی غیرمناسب بھی نہ ہوگاکہ اُن سب کوغیر آئینی طریقوں سے معزول کیاجاتارہا۔ جب کہ خان صاحب کوتودستور میں دیے گئے ایک جمہوری طریقے کے تحت نکالاگیاہے لیکن وہ اسے استقامت اور خوش دلی سے قبول کرنے کے بجائے اشتعال انگیزی اورمحاذآرائی پراتر آئے ہیں۔
وہ شاید سمجھ رہے ہیں کہ قوم کی طرف سے ملنے والی اس وقتی حمایت اور ہمدردی کواگرکیش کروانے میں ذراسے بھی تاخیر ہوگئی تو پھر وہ دوبارہ برسراقتدار آنے کا موقعہ ضایع کردیںگے اسی لیے وہ ہرجائزو ناجائز حربہ استعمال کرنے کے درپہ ہیں۔
اگلے مہینے سے وہ باقاعدہ ایک منظم تحریک چلانے کی موڈ میں دکھائی دیتے ہیں اور اس مقصد کو پانے کے لیے وہ توڑپھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ سمیت ہر قانونی اورغیر قانونی طریقوں پرعمل پیراہوناچاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ صرف اپنے صحن میں سورج اتارنے کی خواہش رکھتے ہیں اوراس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ نفرت و اشتعال کی آگ میں سارے ملک کو جلاکے راکھ کردیناچاہتے ہیں۔ اُن کے لیے تو ہم اب صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ نفرت کی آندھیوں کااستقبال کرنے والے شاید اس حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ جب آندھیاں آتی ہیں تو چراغوں سے اُن کاتعارف نہیں پوچھاکرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس ملک کومحفوظ و سلامت رکھے۔(آمین )