اتمام حجت کے بعد۔۔۔
اب تک فضائیہ نےکارروائی کرکےکئی اہم ٹھکانےگولہ باروداورہتھیاروں کےذخائر کےعلاوہ بعض بم بنانے والی فیکٹریاں تباہ کر دیں
ہماری حکومت نے فریق مخالف کو مذاکرات کی میز پر لانے کی جو غیر معمولی کوششیں کیں اس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا تھا کہ فریق مخالف کے مقابلے میں حکومت بہت کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور یہ بات عوام کے لیے باعث حیرت بھی بنتی جا رہی تھی کہ چند عسکریت پسند گروہوں کے مقابلے میں ایک بڑی ریاست جس کے پاس چھ لاکھ سے زیادہ منظم اور جدید ترین اسلحے سے لیس فوج ہو ایک بڑی اور تیز رفتار فضائیہ اور ایک بڑی بحری طاقت ہو کیوں کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ امن کی خواہش اور جنگ سے بچنے کی کوشش مہذب اور امن پسند ملکوں کا وطیرہ رہتی ہے اور اسی پس منظر میں ہو سکتا ہے حکومت نے عاجزی کی حدود میں داخل ہو کر فریق مخالف کو مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ساری کوششیں رائیگاں گئیں بلکہ ان مثبت کوششوں کے جواب میں جب بنوں اور کراچی میں سرکاری اہلکاروں کا خون بہایا گیا تو وہ مرحلہ آ گیا جب حکومت کا صبر جواب دے گیا۔ اور مذاکرات کو شدت پسندی روکنے کا واحد حل قرار دینے والی حکومت اور اس کے اہلکار اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور ہو گئے۔
اب تک فضائیہ نے کارروائی کر کے کئی اہم ٹھکانے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے ذخائر کے علاوہ بعض بم بنانے والی فیکٹریاں تباہ کر دیں۔ ان F-16 اور گن شپ حملوں میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے جن میں ایک بڑی تعداد ازبک تاجک وغیرہ کی تھی۔ اس کارروائی میں بنوں اور کراچی کے حملے بڑے محرک تھے لیکن سب سے بڑا محرک اور حکومت کو مشتعل کرنے والا واقعہ ان 23 ایف سی اہلکاروں کا بہیمانہ قتل تھا جو 4 سال سے شدت پسندوں کی قید میں تھے، چار سال پہلے انھیں اغوا کر کے قیدی بنا لیا گیا تھا۔ ان مظلوم اور چار سال تک اپنے خاندانوں سے بچھڑے ایف سی اہلکاروں کو اس بیدردی سے قتل کیا گیا کہ ان کے سر کاٹے گئے اور اس ہولناک جرم کا ارتکاب افغانستان کی سرزمین پر کیا گیا، جس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی ان وحشت ناک کارروائیوں میں افغانستان کی سرزمین کو کتنی آزادی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ سرحدوں پر امریکا اور نیٹو کی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے۔امریکا اور بھارت کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور ان دہشت گردوں کے اڈوں پر پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو نظرانداز کر کے ڈرون حملے بھی کیے جاتے رہے لیکن اس بدنما حقیقت کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا کہ افغانستان دہشت گردوں کا دوسرا ٹھکانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا بڑا مرکز ہے۔
حکومت کی طرف سے جس فضائی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے اگر اس کا مقصد ان علاقوں سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہے تو پھر اس کارروائی کو تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے بلکہ اس کا دائرہ وسیع کر کے ان تمام علاقوں کو اس میں شامل کرنا چاہیے جہاں جہاں عسکریت پسندوں کے اڈے موجود ہیں۔ یہ کارروائی کسی حوالے سے انتقامی نہیں کہلائی جا سکتی بلکہ اس کارروائی کی نوعیت دفاعی ہی ہو گی۔یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے کیونکہ اس سوال کے جواب ہی سے وہ حقائق سامنے آتے ہیں جو اس بے لگام بے سمت قتل و غارت گردی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ فضائیہ کی کارروائیوں کے باوجود عسکریت پسندوں نے اپنا یہ موقف نہیں بدلا کہ وہ پاکستان کے آئین کو ریاستی اداروں اور جمہوریت اور حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ جو اہل خرد عسکریت پسندوں کے اس موقف کی گیرائی اور گہرائی کا ادراک رکھتے تھے وہ روز اول سے کہہ رہے تھے اس واضح موقف کے بعد مذاکرات کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اس حقیقت پسندانہ دلیل کو سمجھنے اور اس کی گیرائی اور گہرائی کو محسوس کرنے کے بجائے ان لوگوں پر الزام لگایا گیا کہ یہ عناصر مذاکرات کو سبوتاژ کر کے امن کی کوششوں کو ناکام بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔
آج حکومت وہی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی ہے جسے کل وہ امن دشمنی کا نام دے رہی تھی۔ ایسا کیوں؟ایک سوال جس کا جواب عوام اور خواص کوششوں کے باوجود تلاش نہ کر سکے وہ یہ ہے کہ دنیا کی مذہبی تاریخ میں اگرچہ تبلیغ دین کی کوششیں اور تحریکیں قدم قدم پر ملتی ہیں اور ہر مذہب کے مبلغین اپنے مذہب کی تبلیغ آج بھی کر رہے ہیں لیکن ان کوششوں میں کہیں جبر نہیں ملتا ترغیب ضرور ملتی ہے اور ترغیب کا مطلب اپنے مذہب کے اچھے پہلوؤں کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے سامنے پیش کر کے انھیں اپنے مذہب کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے پاکستان میں درجنوں مذہبی جماعتیں اس حوالے سے 66 سال سے کام کر رہی ہیں ان کا مقصد بھی ملک میں شریعت کا نفاذ ہے لیکن یہ کوششیں ہمیشہ ملکی آئین اور قانون کے اندر رہی ہیں جبر کے بجائے ہمیشہ ترغیب کا راستہ ہی اختیار کیا گیا۔دین میں جبر نہیں کے واضح حکم کے بعد ایک اور اہم حکم یہ ہے کہ ''مسلمان کا خون مسلمان پر حرام ہے اور ایک انسان کا قتل سارے عالم کے قتل کے برابر ہے''۔ اس واضح ہدایت کے باوجود جبر اور قتل و غارت کے ذریعہ شریعت کے نفاذ کی منطق کو ہم دین سے نافرمانی بلکہ بغاوت کے علاوہ کیا نام دے سکتے ہیں۔ اس طرز فکر کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ ہماری محترم مذہبی جماعتیں اور مذہبی قیادت یہ تو تسلسل کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ دین میں جبر نہیں اور ایک انسان کا خون سارے عالم کا خون ہے، لیکن اس حکم اور ہدایت کی کھلی نافرمانی کرنے والوں کے خلاف وہ ایک واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے مبہم اور دوغلی پالیسیوں پر کاربند نظر آتی ہیں جس کا نتیجہ جبر و ظلم کی حوصلہ افزائی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔
ہمارے عسکریت پسند دوست کہتے ہیں کہ ہمیں تشدد کا راستہ اس لیے اختیار کرنا پڑ رہا ہے کہ 66 سال گزرنے کے باوجود کسی حکومت نے ملک میں شریعت کے نفاذ کی کوشش نہیں کی؟ یہ سوال اور جواز دونوں درست ہیں لیکن ہمارے محترم دوستوں کو یہ سمجھنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے کہ آخر 66 سال سے یہ اہم کام کیوں انجام نہیں دیا گیا ہمارے حکمرانوں میں ضیا الحق کو ایک دین دار حکمراں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور ضیا الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شریعت کے نفاذ میں مخلص تھا لیکن جب اس ''مخلص'' شخص نے صرف زکوٰۃ کے ایک قانون کو نافذ کرنا چاہا تو ایسا تنازعہ کھڑا ہو گیا کہ زکوٰۃ کا قانون دو حصوں میں بٹ گیا جس کا کوئی مذہبی جواز تو نہیں لیکن اس سے یہ اندازہ بہرحال ہو جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بٹا ہوا ہے ۔ہمارے عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اجازت دے تو ہم چار ہفتوں میں شمالی وزیرستان کوناپسندیدہ لوگوں سے کلیئر کر دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذرایع اس بات کی یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں کہ بے گناہ لوگوں کو کارروائی کے دوران نقصان سے بچانے کے لیے انھیں انخلا کی پوری سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ اس موقف اور یقین دہانی سے وہ شکوک و شبہات بھی ختم ہو جاتے ہیں جن کا شکار عوام ہو رہے تھے کہ ریاست عسکریت پسندوں کے آگے کمزور پڑ رہی ہے۔ بہرحال اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مذاکرات کا وقت گزر گیا اب سخت کارروائی کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں۔ ہماری مذہبی قیادت اب بھی آپریشن کے خلاف اور مذاکرات کے حق میں ہے۔ اگر ایسا کوئی آپشن باقی ہے تو اس کے حامیوں کو بلا تاخیر آگے بڑھ کر عسکریت پسندوں کو آئین کی حدود میں رکھ کر مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے۔ یہ بڑا نیک کام ہو گا۔
اب تک فضائیہ نے کارروائی کر کے کئی اہم ٹھکانے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے ذخائر کے علاوہ بعض بم بنانے والی فیکٹریاں تباہ کر دیں۔ ان F-16 اور گن شپ حملوں میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے جن میں ایک بڑی تعداد ازبک تاجک وغیرہ کی تھی۔ اس کارروائی میں بنوں اور کراچی کے حملے بڑے محرک تھے لیکن سب سے بڑا محرک اور حکومت کو مشتعل کرنے والا واقعہ ان 23 ایف سی اہلکاروں کا بہیمانہ قتل تھا جو 4 سال سے شدت پسندوں کی قید میں تھے، چار سال پہلے انھیں اغوا کر کے قیدی بنا لیا گیا تھا۔ ان مظلوم اور چار سال تک اپنے خاندانوں سے بچھڑے ایف سی اہلکاروں کو اس بیدردی سے قتل کیا گیا کہ ان کے سر کاٹے گئے اور اس ہولناک جرم کا ارتکاب افغانستان کی سرزمین پر کیا گیا، جس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی ان وحشت ناک کارروائیوں میں افغانستان کی سرزمین کو کتنی آزادی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ سرحدوں پر امریکا اور نیٹو کی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے۔امریکا اور بھارت کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور ان دہشت گردوں کے اڈوں پر پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو نظرانداز کر کے ڈرون حملے بھی کیے جاتے رہے لیکن اس بدنما حقیقت کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا کہ افغانستان دہشت گردوں کا دوسرا ٹھکانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا بڑا مرکز ہے۔
حکومت کی طرف سے جس فضائی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے اگر اس کا مقصد ان علاقوں سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہے تو پھر اس کارروائی کو تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے بلکہ اس کا دائرہ وسیع کر کے ان تمام علاقوں کو اس میں شامل کرنا چاہیے جہاں جہاں عسکریت پسندوں کے اڈے موجود ہیں۔ یہ کارروائی کسی حوالے سے انتقامی نہیں کہلائی جا سکتی بلکہ اس کارروائی کی نوعیت دفاعی ہی ہو گی۔یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے کیونکہ اس سوال کے جواب ہی سے وہ حقائق سامنے آتے ہیں جو اس بے لگام بے سمت قتل و غارت گردی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ فضائیہ کی کارروائیوں کے باوجود عسکریت پسندوں نے اپنا یہ موقف نہیں بدلا کہ وہ پاکستان کے آئین کو ریاستی اداروں اور جمہوریت اور حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ جو اہل خرد عسکریت پسندوں کے اس موقف کی گیرائی اور گہرائی کا ادراک رکھتے تھے وہ روز اول سے کہہ رہے تھے اس واضح موقف کے بعد مذاکرات کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اس حقیقت پسندانہ دلیل کو سمجھنے اور اس کی گیرائی اور گہرائی کو محسوس کرنے کے بجائے ان لوگوں پر الزام لگایا گیا کہ یہ عناصر مذاکرات کو سبوتاژ کر کے امن کی کوششوں کو ناکام بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔
آج حکومت وہی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی ہے جسے کل وہ امن دشمنی کا نام دے رہی تھی۔ ایسا کیوں؟ایک سوال جس کا جواب عوام اور خواص کوششوں کے باوجود تلاش نہ کر سکے وہ یہ ہے کہ دنیا کی مذہبی تاریخ میں اگرچہ تبلیغ دین کی کوششیں اور تحریکیں قدم قدم پر ملتی ہیں اور ہر مذہب کے مبلغین اپنے مذہب کی تبلیغ آج بھی کر رہے ہیں لیکن ان کوششوں میں کہیں جبر نہیں ملتا ترغیب ضرور ملتی ہے اور ترغیب کا مطلب اپنے مذہب کے اچھے پہلوؤں کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے سامنے پیش کر کے انھیں اپنے مذہب کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے پاکستان میں درجنوں مذہبی جماعتیں اس حوالے سے 66 سال سے کام کر رہی ہیں ان کا مقصد بھی ملک میں شریعت کا نفاذ ہے لیکن یہ کوششیں ہمیشہ ملکی آئین اور قانون کے اندر رہی ہیں جبر کے بجائے ہمیشہ ترغیب کا راستہ ہی اختیار کیا گیا۔دین میں جبر نہیں کے واضح حکم کے بعد ایک اور اہم حکم یہ ہے کہ ''مسلمان کا خون مسلمان پر حرام ہے اور ایک انسان کا قتل سارے عالم کے قتل کے برابر ہے''۔ اس واضح ہدایت کے باوجود جبر اور قتل و غارت کے ذریعہ شریعت کے نفاذ کی منطق کو ہم دین سے نافرمانی بلکہ بغاوت کے علاوہ کیا نام دے سکتے ہیں۔ اس طرز فکر کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ ہماری محترم مذہبی جماعتیں اور مذہبی قیادت یہ تو تسلسل کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ دین میں جبر نہیں اور ایک انسان کا خون سارے عالم کا خون ہے، لیکن اس حکم اور ہدایت کی کھلی نافرمانی کرنے والوں کے خلاف وہ ایک واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے مبہم اور دوغلی پالیسیوں پر کاربند نظر آتی ہیں جس کا نتیجہ جبر و ظلم کی حوصلہ افزائی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔
ہمارے عسکریت پسند دوست کہتے ہیں کہ ہمیں تشدد کا راستہ اس لیے اختیار کرنا پڑ رہا ہے کہ 66 سال گزرنے کے باوجود کسی حکومت نے ملک میں شریعت کے نفاذ کی کوشش نہیں کی؟ یہ سوال اور جواز دونوں درست ہیں لیکن ہمارے محترم دوستوں کو یہ سمجھنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے کہ آخر 66 سال سے یہ اہم کام کیوں انجام نہیں دیا گیا ہمارے حکمرانوں میں ضیا الحق کو ایک دین دار حکمراں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور ضیا الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شریعت کے نفاذ میں مخلص تھا لیکن جب اس ''مخلص'' شخص نے صرف زکوٰۃ کے ایک قانون کو نافذ کرنا چاہا تو ایسا تنازعہ کھڑا ہو گیا کہ زکوٰۃ کا قانون دو حصوں میں بٹ گیا جس کا کوئی مذہبی جواز تو نہیں لیکن اس سے یہ اندازہ بہرحال ہو جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بٹا ہوا ہے ۔ہمارے عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اجازت دے تو ہم چار ہفتوں میں شمالی وزیرستان کوناپسندیدہ لوگوں سے کلیئر کر دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذرایع اس بات کی یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں کہ بے گناہ لوگوں کو کارروائی کے دوران نقصان سے بچانے کے لیے انھیں انخلا کی پوری سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ اس موقف اور یقین دہانی سے وہ شکوک و شبہات بھی ختم ہو جاتے ہیں جن کا شکار عوام ہو رہے تھے کہ ریاست عسکریت پسندوں کے آگے کمزور پڑ رہی ہے۔ بہرحال اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مذاکرات کا وقت گزر گیا اب سخت کارروائی کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں۔ ہماری مذہبی قیادت اب بھی آپریشن کے خلاف اور مذاکرات کے حق میں ہے۔ اگر ایسا کوئی آپشن باقی ہے تو اس کے حامیوں کو بلا تاخیر آگے بڑھ کر عسکریت پسندوں کو آئین کی حدود میں رکھ کر مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے۔ یہ بڑا نیک کام ہو گا۔