’’گفتگو‘‘ کا معنویاتی تجزیہ
نظم ایک مرکزی مگر انتہائی اہم خیال کے گرد گردش کرتی ہے کہ ’گفتگو‘ دراصل تکلم اور ’خاموشی‘ کی وحدت کا استعارا ہے
چند روز قبل الیاس بابر اعوان کی نظموں کا مسودہ موصول ہوا۔ ان کی شعری فکر کو دریافت کرنے کے لیے میں نے ان کی نظم بعنوان ''گفتگو'' کا انتخاب کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سات مصرعوں پر مشتمل یہ مختصر نظم معنوی اعتبار سے عصر حاضر کے ایک انتہائی متعلقہ اورگہرے اور پیچیدہ فلسفیانہ قضیے کو پیش کرتی ہے ، جو ویسے تو ان کی مابعد الطبیعاتی طبع اور 'معنی' کی تعین کی خواہش کے تحت ان کی تمام نظموں میں موجود ہے، مگر عہدِ مابعد جدید کی غالب اصطلاحات کے تحت 'گفتگو' کے تصور کی تفہیم اسے اس لسانی علمیات کے لیے بہت متعلقہ بنا دیتی ہے، جس کے تحت عصرِ مابعد جدید کی فکری و نظری، سماجی و سیاسی اور فنی و ثقافتی جہات کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔
مقصد شاعری کو تھیوری کا تابع کرنا نہیں اور نہ ہی تھیوری کو شاعری کے تابع لانا ہے،بلکہ تفہیم و تشریح کے عمل سے گزرتے ہوئے شاعر کے فکری مزاج سے ہم آہنگ ہونا ہے اور چند ایک تضادات کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے، جو شعری متن میں شاعر کی منشا کے برعکس در آتے ہیں۔ الیاس بابر اعوان کی دیگر نظموں میں معنی کی تعین کے سلسلے میں موجود بے چینی و اضطراب بہت نمایاں ہے، مگر جس طرح ''نئے حکم نامے کی شرح، نوآبادیاتِ حیاتیات اور اذیت کے پھندے'' وغیرہ جیسی نظموں میںعالمی سامراج کے غاصبانہ کردار، کمزور اقوام کی بے بسی اور اقدار کا انہدام، فکری درستی کے حوالے سے عدم تیقن اور متضاد سیاسی و سماجی عمل کا شعور توبہت نمایاں ہے،مگر ان تضادات کی تحلیل سے قبل ہی نظموں کا اختتام اور شاعر کی خاموشی فکری شعور کی تحدید کے قضیے کو اجاگر کرتی ہے۔ تاہم ان کی نظم 'گفتگو' جو قدرے دھیمے آہنگ میں اور فکری سطح پر قدرے محتاط انداز میں لکھی گئی ہے، اس میں تضاد کی تحلیل کا عمل بھی دکھائی دیتاہے۔
نظم ایک مرکزی مگر انتہائی اہم خیال کے گرد گردش کرتی ہے کہ 'گفتگو' دراصل تکلم اور 'خاموشی' کی وحدت کا استعارا ہے ، اور تکلم اور خاموشی کے باہمی ربط سے ہی' گفتگو' کا بامعنی تصور تشکیل پاسکتا ہے۔ویسے تو یہ خیال بالکل عام اور سادہ سا محسوس ہوتا ہے، مگر لسانی ساختیات کی تشکیل و ارتقا اور بعد ازاں اس پر لاتشکیلی نظریے کی تنقید سے تکلم اور خاموشی کے تصورات کے ساتھ جڑی ہوئی ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدار اور تصورات کی شکست و ریخت کا سلسلہ بھی ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے، جس سے نظم کا بظاہر سادہ دکھائی دینے والا خیال بہت اہمیت اختیار کرلیتاہے۔'گفتگو' محض دو افراد کے درمیان الفاظ کی بے معنی تکرار نہیں ہے، یہ معنی کی تشکیل اور اس کے التوا سے عبارت ہے۔ تاہم اس نظم میں ایک مخصوص ثقافتی اور سماجی پسِ منظر کے باعث ' معنی ' کی احتیاج کو محسوس کرایا گیاہے جس سے شاعر کی اپنی آئیڈیالوجی کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔
ہر نوع کی اقدار کی درجہ بندی اور معنی کی تشکیل ''گفتگو'' کی لازمی صفت ہے اور گفتگو'موجودگی' کی علامت ہے ، جب کہ 'موجودگی' کسی بھی صورت معنویت سے مبرا نہیں ہوسکتی ۔معنی کو پس منظر میں رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ 'موجودگی' جن تصورات پر قائم ہے، ان کے درمیان تضادات کو دکھایا جائے، مگر یہ نظم کا غالب فکری رجحان نہیں ہے۔ ''گفتگو'' زندگی کی علامت ہے، اور زندگی معنویت سے عبارت ہے۔'موجودگی' یعنی زندگی کی بنیاد پر نوعِ انسانی کی تمام فکری تاریخ 'معنی' سے ہم آہنگ ہونے کی تاریخ ہے۔ اور یہی خیال اس نظم میں پنہاں ہے۔ نظم کچھ یوں ہے :
''ہمارے درمیاں ہزار لفظ آگئے / تو یک بیک ٹھہر گیا /سماعت و کلام کا یہ سلسلہ /چہار سمت خامشی ٹھہر گئی /اِسے نہ موت جانیے /یہ خامشی! /یہ خامشی تو گفتگو کا ربط ہے''
نظم کے پہلے مصرعے میں تکلم موجود ہے۔ دوسرے مصرعے میں خاموشی کو دکھایا گیا ہے، مگر خاموشی کے اس تصور کی تشکیل اپنے مخصوص پسِ منظر اور شاعر کی مابعد الطبیعاتی طبع کے تحت ہوئی ہے، یعنی خاموش خود شاعر نہیں ہوا بلکہ خاموشی کو ''دوسرے سے ہی منسوب کیا گیا ہے۔ الٰہیات، منطق اور علم الوجود 'پہلے' کی افضلیت کے تصور کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ازل سے انھی مفاہیم کی تشکیل کرتے رہے ہیں۔یہ تصورات خیال پرستی کی آماجگاہ ہیں، جن کے تحت 'معنی' کو یا تو خارجیت یا مادیت سے منقطع کرکے پیش کیا جاتا ہے،یا پھر خارجیت کی اس انداز میں تخفیف کرکے معنی کی تشکیل کی جاتی ہے کہ جس سے 'دوسرے' کا وجود خطرے میں پڑا رہتا ہے ، مقصود صرف 'پہلے' کی فوقیت کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس مابعد الطبیعاتی خیال ،جو کہ شاعر کی آئیڈیالوجی ہے، کی نفی ہوتی ہے یا نہیں؟ پہلے مصرعے کی ساخت پر توجہ مرکوز کرنے ہی سے عیاں ہوجاتا ہے کہ خاموشی کا تصور اس کے اندر ہی موجود ہے۔ جب شاعر یہ کہتا ہے کہ ''ہمارے درمیاں ہزاروں لفظ آگئے'' تو اس کا واضح مفہوم یہ نکلتا ہے کہ دو لوگوں کے درمیان' گفتگو' جاری تھی، مگر 'دوسرا' خاموش ہوگیا۔ خاموشی کا مفہوم معنی کا التوا ہے، جسے شاعر نے 'دوسرے' سے منسوب کیا ہے ۔تاہم تکلم کے آغاز سے پہلے جو خاموشی تھی، اسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
اور خاموشی چونکہ تکلم سے 'ربط' میں رہتی ہے اس لیے تکلم کے باقاعدہ آغاز سے پہلے کی خاموشی کے تصور کے بغیر تکلم کا کوئی بھی واضح مفہوم نہیں نکلتا۔ اگر شاعر اپنی خواہش کے تحت تکلم کا آغاز کرتا ہے تو اس تکلم سے پہلے کی خاموشی کے تصور کا اطلاق خود شاعر پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ خاموشی جہاں تکلم کا اگلا مرحلہ ہے وہاں تکلم کے آغاز کی شرط بھی ہے۔اور اگر خاموشی کو 'دوسرے' کا وصف تسلیم کرلیا جائے تو یہ 'پہلے' کے وجود کی لازمی شرط بن جاتا ہے۔ اس طرح شاعر بھی اسی سطح پر آکھڑا ہوتا ہے، جس سطح پر وہ 'دوسرے' کو لانا چاہتا ہے۔ 'خاموشی' کا تصورباہمی تکلم کی شرط ہے۔ اور شاعر کا 'دوسرے' کا حوالہ محض اس لیے دیتا ہے کہ خود گفتگو کا نمایندہ بن کر 'دوسرے' سے خاموشی کومنسوب کرے اور بعد ازاں 'خامشی' کو 'گفتگو' کا ربط محض اس لیے کہہ سکے کہ اپنے وجود کو بحال کرسکے، یہ ایک ایسا تضاد ہے جو پہلے ہی مصرعے میں موجود ہے، مگر اس کا احساس دوسرے مصرعے میں جاگزین ہوتا ہے، پہلے مصرعے کا یہ تضاد شاعر کی نظر سے اوجھل رہا ہے۔اور اس کو عیاں کرنے سے 'دوسرے' کو 'پہلے' اور 'پہلے' کو 'دوسرے' کی سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ مصنف اور قاری کے مابین ثنویت کے تصور سے اسی عدم تیقن کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
اگر تو محض ثقافتی پس منظر کو دیکھیں تو 'خامشی' کو موت کی علامت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، تاہم نظم کی اجتماعی ساخت میں 'خامشی' گفتگو سے الگ ہونے کا تصور نہیں، بلکہ یہ 'خامشی' گفتگو کے تصور میں متحرک رہ کر موت کی علامت کی بجائے زندگی کا استعارا بن جاتی ہے۔ یعنی خاموشی ایک ایسا لمحہ نہیں ہے جو عدم ارتباط کی علامت ہو کہ جو وجودی یا نظری خلیج میں اضافہ کرے اور جس سے 'معنی' کے انہدام کا خدشہ ہو، بلکہ یہ تو 'گفتگو' کی تکمیل کی صورت ہے۔ 'ارتباط' ایک فلسفیانہ مقولہ ہے، جو جدلیاتی نقطۂ نظر سے ثنویت کی بنیاد پر قائم کی گئی داخلیت اور خارجیت کے تصورات کو مسترد کرتا ہے۔چونکہ شاعر کا مقصد 'معنی' پرقادر رہنا ہے، جو سماج کے اجتماعی شعور کا عکاس بھی ہے، اس لیے 'خاموشی'کو 'گفتگو' کے ایک ایسے' ضمیمے' کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو اپنے فیصلہ کن کردار سے دست بردار ہوتا نظر آتا ہے۔ نظم کی امتیازی خصوصیت بہرحال یہ ہے کہ اس میں تکلم اور خاموشی کی ثنویت کے حوالے سے تشکیک کا اظہار کیا گیا ہے، جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ معنی کی تشکیل کے لیے تکلم اور خاموشی میں 'ربط' لازمی ہے، یعنی جب دونوں تصورات ایک دوسرے کی نفی کرنے کے ساتھ اپنا اثبات بھی کرائیں تو' گفتگو' کے بامعنی تصور کی تشکیل ہوسکتی ہے۔آخری مصرعے میں 'خامشی' کو 'گفتگو' سے 'ربط' میں محض اس لیے رکھا گیا تا کہ معنی کا تسلسل قائم رہے۔ تاہم' گفتگو' کی بجائے تکلم کو 'خامشی' سے ربط میں رکھنے سے' گفتگو' اس منطقی غلطی سے مبرّا ٹھہرتی۔
مقصد شاعری کو تھیوری کا تابع کرنا نہیں اور نہ ہی تھیوری کو شاعری کے تابع لانا ہے،بلکہ تفہیم و تشریح کے عمل سے گزرتے ہوئے شاعر کے فکری مزاج سے ہم آہنگ ہونا ہے اور چند ایک تضادات کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے، جو شعری متن میں شاعر کی منشا کے برعکس در آتے ہیں۔ الیاس بابر اعوان کی دیگر نظموں میں معنی کی تعین کے سلسلے میں موجود بے چینی و اضطراب بہت نمایاں ہے، مگر جس طرح ''نئے حکم نامے کی شرح، نوآبادیاتِ حیاتیات اور اذیت کے پھندے'' وغیرہ جیسی نظموں میںعالمی سامراج کے غاصبانہ کردار، کمزور اقوام کی بے بسی اور اقدار کا انہدام، فکری درستی کے حوالے سے عدم تیقن اور متضاد سیاسی و سماجی عمل کا شعور توبہت نمایاں ہے،مگر ان تضادات کی تحلیل سے قبل ہی نظموں کا اختتام اور شاعر کی خاموشی فکری شعور کی تحدید کے قضیے کو اجاگر کرتی ہے۔ تاہم ان کی نظم 'گفتگو' جو قدرے دھیمے آہنگ میں اور فکری سطح پر قدرے محتاط انداز میں لکھی گئی ہے، اس میں تضاد کی تحلیل کا عمل بھی دکھائی دیتاہے۔
نظم ایک مرکزی مگر انتہائی اہم خیال کے گرد گردش کرتی ہے کہ 'گفتگو' دراصل تکلم اور 'خاموشی' کی وحدت کا استعارا ہے ، اور تکلم اور خاموشی کے باہمی ربط سے ہی' گفتگو' کا بامعنی تصور تشکیل پاسکتا ہے۔ویسے تو یہ خیال بالکل عام اور سادہ سا محسوس ہوتا ہے، مگر لسانی ساختیات کی تشکیل و ارتقا اور بعد ازاں اس پر لاتشکیلی نظریے کی تنقید سے تکلم اور خاموشی کے تصورات کے ساتھ جڑی ہوئی ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدار اور تصورات کی شکست و ریخت کا سلسلہ بھی ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے، جس سے نظم کا بظاہر سادہ دکھائی دینے والا خیال بہت اہمیت اختیار کرلیتاہے۔'گفتگو' محض دو افراد کے درمیان الفاظ کی بے معنی تکرار نہیں ہے، یہ معنی کی تشکیل اور اس کے التوا سے عبارت ہے۔ تاہم اس نظم میں ایک مخصوص ثقافتی اور سماجی پسِ منظر کے باعث ' معنی ' کی احتیاج کو محسوس کرایا گیاہے جس سے شاعر کی اپنی آئیڈیالوجی کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔
ہر نوع کی اقدار کی درجہ بندی اور معنی کی تشکیل ''گفتگو'' کی لازمی صفت ہے اور گفتگو'موجودگی' کی علامت ہے ، جب کہ 'موجودگی' کسی بھی صورت معنویت سے مبرا نہیں ہوسکتی ۔معنی کو پس منظر میں رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ 'موجودگی' جن تصورات پر قائم ہے، ان کے درمیان تضادات کو دکھایا جائے، مگر یہ نظم کا غالب فکری رجحان نہیں ہے۔ ''گفتگو'' زندگی کی علامت ہے، اور زندگی معنویت سے عبارت ہے۔'موجودگی' یعنی زندگی کی بنیاد پر نوعِ انسانی کی تمام فکری تاریخ 'معنی' سے ہم آہنگ ہونے کی تاریخ ہے۔ اور یہی خیال اس نظم میں پنہاں ہے۔ نظم کچھ یوں ہے :
''ہمارے درمیاں ہزار لفظ آگئے / تو یک بیک ٹھہر گیا /سماعت و کلام کا یہ سلسلہ /چہار سمت خامشی ٹھہر گئی /اِسے نہ موت جانیے /یہ خامشی! /یہ خامشی تو گفتگو کا ربط ہے''
نظم کے پہلے مصرعے میں تکلم موجود ہے۔ دوسرے مصرعے میں خاموشی کو دکھایا گیا ہے، مگر خاموشی کے اس تصور کی تشکیل اپنے مخصوص پسِ منظر اور شاعر کی مابعد الطبیعاتی طبع کے تحت ہوئی ہے، یعنی خاموش خود شاعر نہیں ہوا بلکہ خاموشی کو ''دوسرے سے ہی منسوب کیا گیا ہے۔ الٰہیات، منطق اور علم الوجود 'پہلے' کی افضلیت کے تصور کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ازل سے انھی مفاہیم کی تشکیل کرتے رہے ہیں۔یہ تصورات خیال پرستی کی آماجگاہ ہیں، جن کے تحت 'معنی' کو یا تو خارجیت یا مادیت سے منقطع کرکے پیش کیا جاتا ہے،یا پھر خارجیت کی اس انداز میں تخفیف کرکے معنی کی تشکیل کی جاتی ہے کہ جس سے 'دوسرے' کا وجود خطرے میں پڑا رہتا ہے ، مقصود صرف 'پہلے' کی فوقیت کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس مابعد الطبیعاتی خیال ،جو کہ شاعر کی آئیڈیالوجی ہے، کی نفی ہوتی ہے یا نہیں؟ پہلے مصرعے کی ساخت پر توجہ مرکوز کرنے ہی سے عیاں ہوجاتا ہے کہ خاموشی کا تصور اس کے اندر ہی موجود ہے۔ جب شاعر یہ کہتا ہے کہ ''ہمارے درمیاں ہزاروں لفظ آگئے'' تو اس کا واضح مفہوم یہ نکلتا ہے کہ دو لوگوں کے درمیان' گفتگو' جاری تھی، مگر 'دوسرا' خاموش ہوگیا۔ خاموشی کا مفہوم معنی کا التوا ہے، جسے شاعر نے 'دوسرے' سے منسوب کیا ہے ۔تاہم تکلم کے آغاز سے پہلے جو خاموشی تھی، اسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
اور خاموشی چونکہ تکلم سے 'ربط' میں رہتی ہے اس لیے تکلم کے باقاعدہ آغاز سے پہلے کی خاموشی کے تصور کے بغیر تکلم کا کوئی بھی واضح مفہوم نہیں نکلتا۔ اگر شاعر اپنی خواہش کے تحت تکلم کا آغاز کرتا ہے تو اس تکلم سے پہلے کی خاموشی کے تصور کا اطلاق خود شاعر پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ خاموشی جہاں تکلم کا اگلا مرحلہ ہے وہاں تکلم کے آغاز کی شرط بھی ہے۔اور اگر خاموشی کو 'دوسرے' کا وصف تسلیم کرلیا جائے تو یہ 'پہلے' کے وجود کی لازمی شرط بن جاتا ہے۔ اس طرح شاعر بھی اسی سطح پر آکھڑا ہوتا ہے، جس سطح پر وہ 'دوسرے' کو لانا چاہتا ہے۔ 'خاموشی' کا تصورباہمی تکلم کی شرط ہے۔ اور شاعر کا 'دوسرے' کا حوالہ محض اس لیے دیتا ہے کہ خود گفتگو کا نمایندہ بن کر 'دوسرے' سے خاموشی کومنسوب کرے اور بعد ازاں 'خامشی' کو 'گفتگو' کا ربط محض اس لیے کہہ سکے کہ اپنے وجود کو بحال کرسکے، یہ ایک ایسا تضاد ہے جو پہلے ہی مصرعے میں موجود ہے، مگر اس کا احساس دوسرے مصرعے میں جاگزین ہوتا ہے، پہلے مصرعے کا یہ تضاد شاعر کی نظر سے اوجھل رہا ہے۔اور اس کو عیاں کرنے سے 'دوسرے' کو 'پہلے' اور 'پہلے' کو 'دوسرے' کی سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ مصنف اور قاری کے مابین ثنویت کے تصور سے اسی عدم تیقن کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
اگر تو محض ثقافتی پس منظر کو دیکھیں تو 'خامشی' کو موت کی علامت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، تاہم نظم کی اجتماعی ساخت میں 'خامشی' گفتگو سے الگ ہونے کا تصور نہیں، بلکہ یہ 'خامشی' گفتگو کے تصور میں متحرک رہ کر موت کی علامت کی بجائے زندگی کا استعارا بن جاتی ہے۔ یعنی خاموشی ایک ایسا لمحہ نہیں ہے جو عدم ارتباط کی علامت ہو کہ جو وجودی یا نظری خلیج میں اضافہ کرے اور جس سے 'معنی' کے انہدام کا خدشہ ہو، بلکہ یہ تو 'گفتگو' کی تکمیل کی صورت ہے۔ 'ارتباط' ایک فلسفیانہ مقولہ ہے، جو جدلیاتی نقطۂ نظر سے ثنویت کی بنیاد پر قائم کی گئی داخلیت اور خارجیت کے تصورات کو مسترد کرتا ہے۔چونکہ شاعر کا مقصد 'معنی' پرقادر رہنا ہے، جو سماج کے اجتماعی شعور کا عکاس بھی ہے، اس لیے 'خاموشی'کو 'گفتگو' کے ایک ایسے' ضمیمے' کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو اپنے فیصلہ کن کردار سے دست بردار ہوتا نظر آتا ہے۔ نظم کی امتیازی خصوصیت بہرحال یہ ہے کہ اس میں تکلم اور خاموشی کی ثنویت کے حوالے سے تشکیک کا اظہار کیا گیا ہے، جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ معنی کی تشکیل کے لیے تکلم اور خاموشی میں 'ربط' لازمی ہے، یعنی جب دونوں تصورات ایک دوسرے کی نفی کرنے کے ساتھ اپنا اثبات بھی کرائیں تو' گفتگو' کے بامعنی تصور کی تشکیل ہوسکتی ہے۔آخری مصرعے میں 'خامشی' کو 'گفتگو' سے 'ربط' میں محض اس لیے رکھا گیا تا کہ معنی کا تسلسل قائم رہے۔ تاہم' گفتگو' کی بجائے تکلم کو 'خامشی' سے ربط میں رکھنے سے' گفتگو' اس منطقی غلطی سے مبرّا ٹھہرتی۔