لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

جو جتنا طاقت ور ہے معاشرے کا تمام نظام اس کے پیروں تلے ہے اور ایسے ہی ایک ’’طاقت ور‘‘ سے لڑنے ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں

ٹِک ٹِک ٹِک گھڑی کی سوئیاں ہمیشہ کی طرح اپنے راستے پر رواں دواں تھیں۔ ادھر ہم نیند سے قاصر مگر یہ آج پہلی بار تو نہیں ہورہا ہے۔ ہر بار ''اس خاص'' صبح سے پہلے ایسی ہی وحشت سوار ہوتی ہے۔ کیا ہوگا؟ یہ سوال دماغ میں کلِبلانے لگتاہے۔ ابھی فقط رات 1 بجے تھے ہم نے اپنی صبح کی تیاری کا از سر نو جائزہ لیا۔ کپڑوں کا بیگ بن چکا تھا مگر نیند پھر دور بہت دور تھی پھر کلمہ پڑھ کر آنکھ بند کی ماضی کے اس ڈراؤنے باب سے کیسے چھٹکارا پایاجائے۔ یہ میں سمجھ نہیں پارہی ہوں۔ اسی اثناء میں نیند آگئی۔ رات معمول سے پہلے اٹھ کر اپنے معاملات زندگی نمٹاکر اپنے دو بچوں کو لے کر 7بجے سپر ہائی وے پہنچ گئی۔ جہاں کراچی جانے والی کوچ کھڑی تھی اور میں اس میں سوار ہوگئی۔ سفر شروع ہوا ساتھ ہی آنسوؤں نے بھی بہنا شروع کردیا مگر کب کوچ تاج کمپلیکس پہنچی پتہ ہی نہیں چلا۔ کوچ سے اتر کر سامنے کھڑے رکشے میں بیٹھ کر سٹی کورٹ کی جانب چل دیے۔ کوئی دس سوا دس بجے ہم اپنی مطلوبہ عمارت میں پہنچ گئے۔ ہمیشہ کی طرح جج صاحب کو اپنی محترم سیٹ پر پایا۔ وکیل وغیرہ ہوں یا نہ ہوں پھر میری بھی باری آگئی۔ وہ بات جو میں عزت مآب جج صاحب کو 10منٹ میں کہہ سکتی تھی وہ شاید سماں بیت گیا کیوںکہ ہم روتے ہی جارہے تھے۔ اور بہت تحمل مزاجی سے جج صاحبہ نے سوالات کیے، جن کے ہم نے جواب دیے اور اسی ماہ کی آخر کی تاریخ لے کر آگئے۔ اب ہم واپس کمرہ عدالت سے نکل رہے تھے اور معاشرے میں ''ہمارا'' کیا مقام ہے؟ معاشرے میں عورت یا عورتوں کے حقوق کیا ہیں یہ ہم سے بہتر کون جان سکتاہے۔

جو جتنا طاقت ور ہے معاشرے کا تمام نظام اس کے پیروں تلے ہے اور ایسے ہی ایک ''طاقت ور'' سے لڑنے ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گو کہ اس ملک میں قاتلوں کو امان دی جاتی ہے یہاں کا معاشرہ چوروں، بد عنوان اور ظالموں کے لیے ڈھال ہے مگر کب تک جیسے کہ فیض صاحب نے کہاہے:

''ہم دیکھیں گے''
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے


اور اسی لیے ہم بھی اس کورٹ تک پہنچ گئے ہیں۔ یہاں ہر طرف ''کالے کوٹ'' والے چھائے ہوئے ہیں۔ کوٹ تو خیر اچھی چیز ہے سردی سے بچانے کے کام آتے ہیں مگر ''کالا'' ضرور ڈراتا ہے کیوںکہ جس چیز کے ساتھ ''کالا'' لگ جائے اس سے خیر کی امید نہیں، جیسے ''کالا جادو'' ہو یا ''کالا پانی''۔ میں بوجھل دل و دماغ کے ساتھ سبزے کی طرف آگئی، ان دو سوالوں میں، میں نے دیکھا ہے کہ ہر کمرہ عدالت میں جج صاحبان موجود ہوتے ہیں مگر اکثر و بیشتر وکلاء غیر حاضر ہوتے ہیں اور ان کے کیس کی تاریخ کوئی اسسٹنٹ لے رہا ہوتا ہے۔ اکثر کیس تقریباً اختتام کی طرف ہیں مگر عموماً اس کے لیے بھی وکلا کوشش نہیں کرتے۔ ایک ایک درخواست کے لیے 3،3، 4،4 مہینے کیس پڑا رہتا ہے۔ سائل سمجھتا ہے کہ اس کا کیس زور شور سے چل رہا ہے مگر وکیل صرف تاریخ پہ تاریخ لے رہے ہوتے ہیں۔ دور دراز سے آنے والے سائل اس لمحے بالکل لاچار ہوجاتے ہیں جب بعض وکیل گالی دے کر یہ بتاتے ہیں کہ فلاں کا بچہ آیا نہیں، اب ہم کیسے کیس آگے بڑھائیں۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھئی وکیل مخالف پارٹی سے پیسے لے کر خاموش ہوجاتے ہیں اور کیس میں تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔خود ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا کہ وکیل نے جتنی تیزی فیس لینے میں لگائی اتنی اور کسی چیز میں نہیں لگائی اور سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ معاشرے کے برتاؤ کے خلاف لوگ عدالت کی طرف رخ کرتے ہیں مگر وکلا کی کارکردگی کی فریاد کس سے کریں؟

بہر حال اس تجربے کے بعد ہم نے اپنی جیسی خاتون وکیل کو ہائر کیا، یہاں بھی صنف نازک کو مرد وکلاء کی نسبت زیادہ بہتر پایا ہے۔ بات کہاں سے کہاں جا نکلی اور یہ ہمارے بیٹے کے سوال کرنے پر خیال آیا کہ وہ پوچھ رہا تھا کہ ''اماں! اب کب آنا ہے؟'' میں نے کہا بس بیٹا دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری آزمائش جلد ختم کرے (آمین) اک آہ نکل گئی مگر اب توجہ برابر میں بیٹھی ہوئی خاتون پر چلی گئی جو زور زور سے رو رہی تھی اور ساتھ میں موجود صاحب شاید انھیں سمجھا رہے تھے یا ڈرا رہے تھے کہ ''اگر پیسے خرچ کروگی تو تمھارے بچے تمہیں ملیںگے بھلے فیصلہ تمہارے حق میں ہوا ہو مگر عمل کیسے کراؤگی؟''

عورت کے بین سامنے سے آنے والے قہقہوں میں دب گئے جہاں پانچ وکیل صاحبان اپنی خاتون وکیل کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک کسی ''ٹو پارٹی'' کا ذکر کرکے خاتون سے پوچھ رہا تھا کہ آپ کہاں تھیں اور خاتون کسی مصروفیت کا ذکر کررہی تھیں۔ شاید ہم جیسوں کا رونا ان کے لیے نیا نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی دنیا میں مگن تھے۔ اب دو سینئرز خاتون وکیل قریب آکر بیٹھ گئیں۔ ایک بتانے لگی کہ کل جج صاحبہ نے دونوں میاں بیوی کو بلایا تھا مصالحت کے لیے مگر دونوں اتنا لڑے کہ فوراً جج صاحبہ نے طلاق کا فیصلہ کردیا۔ بس کل تین پیشی ہوئی تھیں دوسری نے کہا۔ واہ بھئی واہ اور پہلی والی فاتحانہ قہقہہ لگا کر بولیں کہ دیکھ لو!

یہ ہے ہمارے معاشرے کا المیہ۔ جہاں انصاف کی تلاش میں ایک نسل سے دوسری نسل تک مقدمے چلتے ہیں، جہاں گھر بار سب مقدمہ بازی کی نذر ہو جاتا ہے وہاں فقط دو مہینے میں ''طلاق'' کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ یہ سوال لے کر ہم خالی ہاتھ پھر عدالت سے نکل کر گھر پہنچے اور اپنے تھکے ہوئے دماغ کو تازہ کرنے کی غرض سے اخبار کھولا تو اسی دن کے کالم میں کالم نویس راؤ منظر حیات کے کالم میں یہ پڑھ کر کہ ''اس ملک کے اصل مالک عدالت کے اندر جیل کے سنتری اور اس درجے کے اہلکار ہیں'' یہی وجہ ہمارے جیسے لوگوں کی خواری کی ہے اور اس لیے 61 سالہ ریٹائرڈ افسر کا زار و قطار رونا ہمیں پھر رلاگیا کیوںکہ دوسرے کا بھی وہ درد محسوس ہوتا ہے جس کے آپ خود بھی مریض ہوں ۔ ورنہ سانوں کی۔!
Load Next Story