مظلومیت اور محرومی قسمت نہیں مگر

66برسوں میں کوئی حکومت بھی زرعی پالیسی بناکراسے رائج کروانے کی اہل ثابت نہیں ہو سکی ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے فکروفلسفے اور ان کے نظریے کے مطابق خوشحال مزدور ہی دراصل ملک کو مستحکم اور ترقی یاقتہ بنانے میں پل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ لہٰذا ان کی اس سوچ کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے 28فروری 1987 کو ایم کیو ایم نے لیبر ڈویژن کے قیام کا اعلان کیا تاکہ قائد تحریک کی فکر کو اس ملک کے محنت کشوں تک پہنچایا جاسکے ۔ جن کا استحصال کرکے ملک کی ترقی کو معکوس کیا جارہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے والے معاشروں میں جب سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کرتا ہے تو ساتھ ساتھ شہر، دیہاتوں کا... پڑھے لکھے لوگ ان پڑھوں کا، طاقتور کمزوروں کا جب کہ مرد، عورتوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں دنیا کے عظیم مفکر ارسطو کا یہ کہنا سولہ آنے سچ ہے کہ '' طبقاتی نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے '' جب کہ ارسطو کی اس فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کارل مارکس نے کہا کہ ''سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے '' اور یہ تاریخ اس بات کی گواہ بنتی رہی ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار تقریباً ہر دور میں غلاموں، کسانوں اور مزدوروں کا سماجی اور معاشی استحصال کرتے چلے آرہے ہیں اور یہ سب وہ اپنی طاقت اور دولت کے بل پر کرتے ہیں۔ لہٰذا غریبوں کا خون چوس چوس کر اپنے سرمایہ میں اضافہ کرنا ہی ان کی زندگی کا اولین مقصد بن جاتا ہے۔

خود ہمارا ملک 66برسوں سے اس ناانصافی کی بدترین مثال پیش کررہا ہے جہاں مزدوروں اور کسانوں کے استحصال کے باعث ایک جانب دو فی صد مراعات یافتہ طبقہ اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے تیار تو دوسری جانب غربت و افلاس کے شکار ساٹھ، ستر فی صد عوام کی فوج تیار ہوگئی۔ آج پاکستان کا شمار ایسے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں کیا جاتا ہے جہاں پر کسان، مزدور/محنت کش اپنے اپنے حصولِ رزق اورتعمیرِ پاکستان کے لیے کوشاں تو رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ملک میں موجود ظالمانہ، جاگیردارنہ اور وڈیرانہ نظام کی بدولت ان کی رات دن کی محنت اور تعمیرِ وطن کے لیے کی جانے والی کوششوں اور خدمات پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب کسان، مزدور/اور عام محنت کشوں کو ان کی جان توڑ محنت کے بدلے میں مناسب اور پوری اجرت ادا نہیں کی جاتی کہ جس بناء پر وہ اپنے گھر والوں کی کفالت صحیح اور باعزت طریقے سے کرنے کے قابل ہوسکیں۔ حالاں کہ مظلومیت اور محرومیت ان کی قسمت نہیں ہے تاہم جاگیردارنہ نظام کے تحت کام کرنے والے اس نیم جمہوری معاشرہ لکھ دی گئی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ فرسودہ جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام کے تحت طبقاتی جبر سے کام لے کر کسان، مزدور اور محنت کشوں کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ اس سفاکانہ حقیقت کی کھل کر نشاندھی اگر کسی نے کی ہے تو وہ الطاف حسین ہیں۔ جن کا اس ضمن میں یہ کہنا سو فی صد درست ہے کہ اس ملک کے زمیندار، جاگیردار، وڈیرے اور ارباب اختیار ملک کو زرعی ملک تو تسلیم کرتے ہیں لیکن 66برسوں میں کوئی حکومت بھی زرعی پالیسی بناکراسے رائج کروانے کی اہل ثابت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی سب سے قابل ذکر اور اصل وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ اقتدار میں دراصل اسی زرعی استحصال کاروں کا اکثریتی گرہ براجمان نظر آتا ہے۔


ایم کیو ایم کے قائد ملک کے وہ واحد رہنماء ہیں جنہوں نے عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کا نظریہ پیش کرکے اس ملک کے استحصال زدہ طبقے کے اندر یہ صور پھونک دیا ہے کہ پاکستان میں فلسفۂ محنت صرف اور صرف آنحضرتؐ کی اس حدیثِ اقدس کے ماتحت ہونا چاہیے کہ '' مزدوروں کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو ''۔ اس حدیثِ مبارک کا صاف اور واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ محنت کشوں کا استحصال نہ کیا جائے۔ کیونکہ لیبر سرگرمیاں دراصل فلسفۂ محنت سے ماخوذ ہوتی ہیں اور اگر یہ فلسفۂ محنت جبروزیادتی اور ظلم پر مبنی ہوتا ہے تو اس کے نتائج ملک و قوم اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیںجیسا کہ آج ہمارے ملک و قوم اور معاشرے کی ترقی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

عہدِ حاضر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سیاسی اور جمہوری معاشرت کو جانچنے کا پیمانہ بھی ان ملکوں کی اقتصادی اور صنعتی ترقی و پیداواری طاقت و استعداد کو سمجھا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے انبار سرحدی نگہبانی کے لیے اپنی افادیت شو کرتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں معاشی استحصال کو ختم کردینے کے لیے نہ صرف قوانین وضع کیے جاتے ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کروایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے جیسے جاگیردارانہ نظام کے آہنی شکنجے میں جکڑے ملک اور انتہاء پر پہنچی ہوئی لاقانونیت کے باعث صورت حال بلکل الٹ دکھائی دیتی ہے۔ جس کے خلاف ایم کیو ایم کی جدوجہد کل بھی جاری تھی، آج بھی جاری ہے اور آنے والے کل میں بھی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس ملک میں جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام کی بساط لیپٹ نہیں جاتی۔
Load Next Story