لیڈر قومی لباس کا انتخاب کریں

میاں شہباز شریف نے اپنی حکومت میں جو عوامی انداز اپنایا اس پر عمران خان ان کا مذاق اڑایا اور تنقید کیا کرتے تھے

m_saeedarain@hotmail.com

پنجاب میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران خود کو وزیر اعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ کہلانے والے میاں شہباز شریف نے ملک کے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد کراچی میں مزار قائد پر حاضری دی اور مہمانوں کی کتاب میں لکھے گئے اپنے ریمارکس کے آخر میں خود کو وزیر اعظم پاکستان کے بجائے خادم پاکستان لکھا اور اپنے تاثرات میں بانی پاکستان سے شرمندگی کا اظہار کیا کہ ہم بانی پاکستان کے نظریے کا پاکستان نہیں بنا سکے ہیں۔

میاں شہباز شریف مزار قائد پر حاضری کے دوران سوٹ میں ملبوس تھے اور جن کے مزار پر آئے تھے ان بانی پاکستان نے گورنر جنرل بننے کے بعد کبھی سوٹ نہیں پہنا تھا اور قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران سوٹ پہننا چھوڑ دیا تھا وہ قومی لباس میں ملبوس ہوتے تھے اور وکالت کرنے کے دوران سوٹ پہنا کرتے تھے مگر تحریک پاکستان میں وہ برصغیر میں عوامی رہنما کے طور پر ابھرے اور لوگ ان کی انگریزی میں کی جانے والی تقریر سننے اور اپنے قائد کی صرف جھلک دیکھنے دور دور سے بہت بڑی تعداد میں آتے تھے۔ قائد اعظم کی مادری زبان اردو نہیں تھی مگر اپنے آخری ایام میں ان کی تقاریر اردو میں بھی ہوتی تھیں اور وہ عوامی لباس میں ہوتے اور سوٹ نہیں پہنتے تھے۔

میاں شہباز شریف ملک کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے جو خود کو خادم اعلیٰ پنجاب کہلواتے تھے۔ میاں شہباز شریف بھٹو صاحب کی طرح عوامی آدمی نہیں تھے مگر اپنے دوروں میں وہ عوامی رہنما نظر آتے تھے۔

دھوپ اور گرمی میں خادم اعلیٰ ہیٹ استعمال کرتے اور بارشوں میں لانگ بوٹ پہن کر دورے کرنے میں مشہور تھے۔ انھوں نے موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھ کر دورہ کرنے کا بھی ریکارڈ قائم کیا اور وہ اکثر سفاری سوٹ پہن کر بھی عوامی اجتماعات میں آتے تھے۔

میاں شہباز شریف نے اپنی حکومت میں جو عوامی انداز اپنایا اس پر عمران خان ان کا مذاق اڑایا اور تنقید کیا کرتے تھے۔ عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اپنے پونے چار سالہ دور میں وہ کبھی ملک میں سوٹ میں نظر آئے نہ انھوں نے کبھی سوٹ پہن کر غیر ملکی دورہ کیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ قومی اور عوامی لباس استعمال کرتے تھے اور غیر ملکی دوروں میں اپنے ملک کی مشہور پشاوری چپل پہنتے اور سوٹ پہننا ترک کر چکے ہیں۔


پاکستان کے اکثر حکمران غیر ممالک کے دوروں میں سوٹ پہننے کے شوقین تھے مگر سب سے طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے جنرل محمد ضیا الحق فوجی وردی کے علاوہ قومی لباس پہنا کرتے تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شیروانی پہن کر وہ خطاب کرتے اور ملک کے دورے میں جنرل ضیا الحق قومی لباس میں ہوتے اور انھیں شہادت بھی فوجی وردی میں نصیب ہوئی۔

پاکستان کے ایک وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی قومی لباس کا انتخاب کرتے تھے اور ان کے بعد آنے والے مرد وزرائے اعظم میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف زرداری بھی سوٹوں کے شوقین تھے اور بعض وزرائے اعظم اور صدور میں مہنگے سے مہنگے قیمتی غیر ملکی سوٹ پہننے کا مقابلہ بھی ملک میں دیکھا گیا۔ تقریباً دس ماہ وزیر اعظم رہنے والے مسلم لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی بھی سوٹ سے دور رہے اور شلوار قمیص، کوٹ یا جیکٹ پہنتے تھے۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی عوامی لباس کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے اقتدار میں آتے ہی چائنا جیسا لباس پہنا جس کی تقلید دیگر حکومتی عہدیداروں نے کی تھی مگر بھٹو صاحب عوامی اجتماعات میں ہمیشہ عوامی شلوار قمیص میں ہی شریک ہوتے اور ان کا عوامی انداز ملک بھر میں مشہور تھا اور وہ عوام میں جا کر گھل مل جایا کرتے تھے۔

دنیا بھر میں بھارت کے وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ بھی اپنا قومی لباس پہننے اور عوامی طرز پر زندگی گزارنے میں مشہور تھے اور وہ غیر ملکی دورے سوٹوں میں نہیں کرتے بلکہ اپنے قومی لباس میں ہی کرتے ہیں۔

سوٹ انگریزوں کا قومی لباس ہے۔ عربی اپنے قومی لباس کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں بیورو کریسی، جج حضرات اور بعض سیاستدان سوٹ پہنتے ہیں اور تاثر یہ ہے کہ سوٹ پہننے والا اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کے لیے سوٹ پہننے کو ترجیح دیتا ہے اور عوام بھی اپنے رہنماؤں کی تقلید کرتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں میں بعض کو سوٹ جچتا بھی نہیں تھا۔

میاں شہباز شریف بھی سابق حکمرانوں کی طرح سوٹ کے شوقین ہیں اور قومی لباس کم ہی پہنتے ہیں۔ عوامی لباس پہننے والوں کو عوام اپنے جیسا سمجھتے ہیں۔ سوٹ عوامی نہیں مخصوص لباس ہے اور خادم سوٹ نہیں پہنا کرتے بلکہ عوامی لباس پہنتے ہیں۔ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے قومی یا عوامی لباس حکمرانوں کی ترجیح ہونی چاہیے جس کی ایک مثال عمران خان ضرور ہیں۔
Load Next Story