دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔۔۔۔

اسلام سے پہلے جتنے بھی الہامی مذاہب آئے ان میں سے کسی کے لیے بھی مکمل دین ہونے کی شہادتِ خداوندی نہیں ملتی

فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
ارشادِ خداوندی کا مفہوم: ''آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا۔'' (سورۃ المائدہ)

اسلام سے پہلے جتنے بھی الہامی مذاہب آئے ان میں سے کسی کے لیے بھی مکمل دین ہونے کی شہادتِ خداوندی نہیں ملتی۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش کرتا اور جامع اور مکمل دین ہونے کے ناتے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں راہ نمائی اور واضح ہدایات فراہم کرتا ہے۔ خالقِ کائنات اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے ہمیں اَن گنت نعمتوں سے نوازا ہے پھر راہ نمائی بھی فرما دی ہے کہ نعمتوں کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔

مال و دولت بھی اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت اور امانت ہے۔ معاشی معاملات بھی دین کا اہم حصہ ہیں اور دین اس میں بھی ہماری راہ نمائی فرماتا ہے۔ سورۃ بقرہ کی ابتدا ہی میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بتائی گئی کہ مومن اﷲ کے دیے ہوئے رزق میں سے اﷲ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں اﷲ رب العزت نے بڑی تفصیل کے ساتھ مال داروں کو غرباء کے حقوق کی ادائی کی تاکید کی ہے۔

ارشاد ربانی کا مفہوم: ''اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی دو، اور اپنا مال فضول خرچی سے مت اُڑاؤ، بے شک! فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے، اگر تمہیں تنگ دستی کے باعث ان سے منہ پھیر لینا پڑے، اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں، جس کی تُو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انھیں سمجھا دے۔

اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ سب کچھ ہی دے ڈالو اور پھر تمہیں خود ملامت زدہ تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔ بے شک! تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک! وہ اپنے بندوں کے اعمال و احوال کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے۔''

مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اﷲ عزوجل نے قرابت داروں، محتاجوں اور مسافروں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی ہے اور ان کی امداد کرکے احسان جتلانے کی مخالفت کی ہے۔ دراصل اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اصحابِ مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا حصہ رکھا ہے۔ اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرتا تو وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں مجرم شمار ہو گا۔

ساتھ ہی یہ بھی تاکید کردی گئی کہ اگر اﷲ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اسے فضول خرچی کے کاموں میں ضایع نہ کرو۔ فضول خرچ کو شیطان سے مماثلت دی گئی ہے کیوں کہ فضول خرچ اﷲ کا ایسا ہی ناشکرا ہے جیسا کہ شیطان اﷲ کا ناشکرا ہے لہٰذا انسان کے لیے لازم ہے کہ فضول خرچی سے بچے۔ مزید اس آیت میں اﷲ رب العزت مالی استطاعت کے فقدان کی صورت میں انکار کرنے کا ادب سکھا رہا ہے کہ اگر اظہارِ معذرت کرنا پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کرو، لہجے میں ترشی اور سختی نہ ہو، جیسا کہ لوگ عام طور پر ضرورت مندوں اور غریبوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے خرچ کرنے کے انداز میں مکمل راہ نمائی فرمائی ہے اگر اﷲ تعالیٰ نے مالی وسعت و فراوانی دی ہے اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا جذبہ بھی ہو تو اپنا ہاتھ نہ اتنا کھلا کرو کہ سب کچھ لٹا دو اور پھر تنگ دستی کا شکوہ کرو اور نہ اپنا ہاتھ اتنا تنگ کرو کہ بالکل گلے سے لگا لو بل کہ درمیانی روش یعنی اعتدال کا راستہ اپناؤ۔

اسی طرح کے احکامات کی سورۃ البقرہ میں تاکید فرمائی ہے، مفہوم: ''اﷲ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں ، یتیموں، غریبوں، محتاجوں اور عام لوگوں کے ساتھ بات اچھی طرح خوش خلقی سے کرنا۔'' مذکورہ آیت مبارکہ میں اﷲ کی عبادت کے فوراً بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے۔

اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں اس کے بعد رشتہ داروں، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک اور حسن گفتار کے ساتھ مدد کرنے کی تلقین ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، مفہوم: ''تمام مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے۔ سو ان میں سے اﷲ تعالیٰ کو پیارا وہ شخص ہے جو اس کے عیال کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔''

سورہ بقرہ، مفہوم: ''حقیقی نیکی یہ ہے کہ مال کی محبت کے باوجود اقرباء کو دے۔ یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے۔ غلاموں کو آزاد کرے۔''

جب ہم اپنا محبوب مال اﷲ کی راہ میں خرچ کریں تو سب سے پہلے نظر دوڑائیں کہ ہمارا کوئی عزیز رشتہ دار مالی تنگی کے پیش نظر مستحق تو نہیں۔ اگر کوئی رشتہ دار تنگ دست ہے تو سب سے پہلے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی ضروریات پوری کرنے کی تاکید کی ہے۔


یعنی مصارف فی سبیل اﷲ کی اس فہرست میں سب سے پہلے تاکید رشتے داروں کی ہے۔ حضورؐ کے ارشاد مبارک کا مفہوم: ''رشتہ داروں سے بدلے کے طور پر سلوک کرنے والا صحیح معنوں میں صلہ رحمی کرنے والا نہیں، اصل صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ رشتے دار اس سے قطع تعلق بھی کرلیں پھر بھی وہ ان سے تعلق باقی رکھے اور ان کے حقوق ادا کرے۔''

یعنی رشتے دار اگر کسی بات پر ناراض بھی ہو جائیں اور قطع تعلق بھی کرلیں تو خود ایسا ہرگز نہ کریں ایک وقت آئے گا کہ وہ ہماری بے پناہ محبت اور تعاون کو محسوس کرکے خود شرمندہ ہو جائیں گے۔

حضورؐ کے ارشادِ مبارک کا مفہوم: ''جس کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو، اسے صلہ رحمی کرنا چاہیے۔'' (بخاری شریف)

اسلامی عبادات اور نظام کا یہ کمال ہے کہ وہ انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر زیورِ انسانیت سے آراستہ کرتی ہیں۔ اگر انسان اپنی زندگی کے شب و روز کو اسلام کی ہدایات کی روشنی میں ادا کرے تو جہاں وہ ایک مومن کامل بنتا ہے وہاں ایک مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جہاں مسلمانوں کو رشتہ داروں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کے لیے ابھارا ہے، وہیں گداگری کی مذمت اور دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کی تاکید بھی کی ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو معزز پیدا کیا ہے۔ اشرف المخلوقات بنایا ہے اگر وہ سب کے آگے ہاتھ پھیلانے لگے تو ساری عزت و وقار برباد ہو جائے گا۔ اس بارے میں ہادیٔ برحق نبی آخر الزماںؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جس شخص نے اپنی ذات کے لیے ایک مرتبہ سوال کا دروازہ کھولا، اﷲ اس کے لیے فقر و احتیاج کا دروازہ کھول دیتا ہے۔'' یعنی جو انسان خود اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کرتا ہے خدا بھی اس پر ذلت و رسوائی مسلط کر دیتا ہے اور اس کے لیے تنگی و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

دراصل معاشرے کی صحت اور حسن کا دار و مدار احسن اور پُرخلوص طریقے سے حقوق کی ادائیگی پر منحصر ہے۔ حقوق اﷲ کے مقابلے میں حقوق العباد کی زیادہ اہمیت ہے کیوں کہ مخلوق تو اﷲ کی عیال ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنی مخلوق سے پیار و محبت کرتا ہے لہٰذا جو اس کی مخلوق کی مدد کرے گا اﷲ بھی اس کو محبوب رکھے گا۔ اب ضروری ہے کہ مخلوقِ خدا کی خدمت کرتے ہوئے کسی چھوٹی سی نیکی کو بھی حقیر سمجھ کر یہ موقع گنوانا نہیں چاہیے جیسا کہ آقائے دو عالم آنحضرتؐ کا فرمان ہے: ''آگ سے بچو، اگرچہ کھجور کا کچھ حصہ کسی ضرورت مند کو دے کر ہی سہی۔''

سورہ بقرہ میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرو۔''

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، مفہوم: ''جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کو دور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، جو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے۔''

ایک صحت مند فلاحی معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے حقوق و فرائض کا جائزہ قرآن و حدیث کی روشنی میں لیتے رہیں اور خود ہی اپنی اصلاح کرتے رہیں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''بے شک! مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔''

اگر آج بھی تمام مسلمان اس آیت پر عمل پیرا ہو جائیں تو مسلمان دنیا کی کسی طاقت کے محتاج نہ رہیں۔ خاص طور پر عصر حاضر میں جہاں عالمی معیشت بحران کا شکار ہے۔ پوری دنیا میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اس کے اثرات پاکستان کی معاشی صورت حال پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ایسے میں معاشرے کے خوش حال افراد کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

ضرورت مند، مصیبت زدہ افراد کی مدد کے علاوہ سفید پوش لوگوں کی بھی اس خوب صورتی سے مدد کریں کہ ان کو اپنی غربت کا احساس بھی نہ ہو اور نہ ہی ان کی عزتِ نفس مجروح ہو۔ کسی غریب طالب علم کی حصولِ علم میں مالی اعانت کرنا وسائل فراہم کرنا یہ سب اﷲ کی مخلوق کے حقوق ہیں۔ اس طرح اسلامی اخوت اور برادری کا تقاضا بھی پورا ہوتا رہے گا اور دولت کی گردش بھی ہوتی رہے گی۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں ان حقوق کی ادائیگی میں خلوص کا جذبہ اور دکھاوے سے نجات دے۔ ان کے ساتھ ہم دردی، غم خواری اور شفقت کا رویہ اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے کیوں کہ یہ ہمارا دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔ آمین یا رب العالمین
Load Next Story