نئی حکومت اور صحافت
وفاقی وزیر اطلاعات پہلے بھی (ن) لیگ کی حکومت میں محکمہ اطلاعات کی وزیر مملکت رہ چکی ہیں
اتحادی حکومت کی نئی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے چارج سنبھالتے ہی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ختم، ڈیجیٹل میڈیا ونگ بند اور پیکا پر نظرثانی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کسی سے انتقام نہیں لیں گے ، اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ پوری قوت سے نافذ کریں گے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے مل کر میڈیا کے مسائل حل کریں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پہلے بھی (ن) لیگ کی حکومت میں محکمہ اطلاعات کی وزیر مملکت رہ چکی ہیں اور پونے چار سال اپنی پارٹی کی ترجمان ہوتے ہوئے میڈیا کے معاملات قریب سے دیکھ چکی ہیں۔ پیکا قانون اگرچہ (ن) لیگ کی حکومت نے بنایا تھا جس کی آڑ میں سابق حکومت نے میڈیا پر کنٹرول اور اپنی ذاتی آمریت اور تشہیر کے لیے ماضی کی آمرانہ حکومتوں تک کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور ثابت کردیا تھا کہ وہ میڈیا کی آزادی بالکل نہیں چاہتے ۔
عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل آزادی صحافت کے بڑے دعویدار اور میڈیا پرسنز کی اکثریت کے لاڈلے تھے اور ان کے طویل دھرنے کو ضرورت سے زیادہ کوریج پہلے کسی حکومت میں اپوزیشن کی نہیں ہوئی تھی۔ عمران خان پہلے صحافیوں کے بہت قریب ہوتے تھے اور بڑے بڑے سینئر صحافی ان سے دوستی کا دعویٰ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ یہ بھی کہتے تھے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت میں بے شمار اخبارات اور بعض چینلز بند ہوئے، سیکڑوں صحافی بے روزگار ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اور میڈیا میں دوری پیدا ہوگئیاور پی ٹی آئی کے حامی صحافی بھی حکومت سے دور ہوگئے مگر سابق وزیر اعظم عمران خان خاموش تماشائی بنے رہے۔ فواد چوہدری نے ہی میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی اور پیکا کو مزید سخت کرکے صحافیوں پر وہ پابندیاں لگانا چاہیں جو کبھی فوجی آمروں کے دور میں بھی نہیں لگائی تھیں۔
صحافت کی آزادی میں (ن) لیگی حکومتوں میں بھی میڈیا پالیسی متنازع رہی، اب اتحادی حکومت میں دیکھا جائے گا کہ بیانات اور اعلانات پر کتنا اور کب تک عمل ہوتا ہے یا وہ بھی ماضی کی طرح اپنی پرانی میڈیا پالیسی دوبارہ اختیار نہ کرلیں کیونکہ ماضی سے اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔
ماضی میں پی ٹی آئی نے میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کی آزادی اور تحفظ و بہبود کو اپنے منشور میں شامل کیا تھا مگر اقتدار میں آ کر انھوں نے سب کچھ بھلا دیاحالانکہ پی ٹی آئی کی حکومت سے میڈیا اور صحافیوں کو بہت اچھی توقعات تھیں جو پوری نہ ہوسکیں ۔ (ن) لیگ نے بھی ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے اور نئی وزیر اطلاعات نے بہت اچھے فیصلے کیے ہیں جن پر عمل سے ماضی کے اقدامات کا ازالہ ممکن اور آزاد صحافت یقینی بنائی جاسکے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات پہلے بھی (ن) لیگ کی حکومت میں محکمہ اطلاعات کی وزیر مملکت رہ چکی ہیں اور پونے چار سال اپنی پارٹی کی ترجمان ہوتے ہوئے میڈیا کے معاملات قریب سے دیکھ چکی ہیں۔ پیکا قانون اگرچہ (ن) لیگ کی حکومت نے بنایا تھا جس کی آڑ میں سابق حکومت نے میڈیا پر کنٹرول اور اپنی ذاتی آمریت اور تشہیر کے لیے ماضی کی آمرانہ حکومتوں تک کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور ثابت کردیا تھا کہ وہ میڈیا کی آزادی بالکل نہیں چاہتے ۔
عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل آزادی صحافت کے بڑے دعویدار اور میڈیا پرسنز کی اکثریت کے لاڈلے تھے اور ان کے طویل دھرنے کو ضرورت سے زیادہ کوریج پہلے کسی حکومت میں اپوزیشن کی نہیں ہوئی تھی۔ عمران خان پہلے صحافیوں کے بہت قریب ہوتے تھے اور بڑے بڑے سینئر صحافی ان سے دوستی کا دعویٰ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ یہ بھی کہتے تھے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت میں بے شمار اخبارات اور بعض چینلز بند ہوئے، سیکڑوں صحافی بے روزگار ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اور میڈیا میں دوری پیدا ہوگئیاور پی ٹی آئی کے حامی صحافی بھی حکومت سے دور ہوگئے مگر سابق وزیر اعظم عمران خان خاموش تماشائی بنے رہے۔ فواد چوہدری نے ہی میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی اور پیکا کو مزید سخت کرکے صحافیوں پر وہ پابندیاں لگانا چاہیں جو کبھی فوجی آمروں کے دور میں بھی نہیں لگائی تھیں۔
صحافت کی آزادی میں (ن) لیگی حکومتوں میں بھی میڈیا پالیسی متنازع رہی، اب اتحادی حکومت میں دیکھا جائے گا کہ بیانات اور اعلانات پر کتنا اور کب تک عمل ہوتا ہے یا وہ بھی ماضی کی طرح اپنی پرانی میڈیا پالیسی دوبارہ اختیار نہ کرلیں کیونکہ ماضی سے اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔
ماضی میں پی ٹی آئی نے میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کی آزادی اور تحفظ و بہبود کو اپنے منشور میں شامل کیا تھا مگر اقتدار میں آ کر انھوں نے سب کچھ بھلا دیاحالانکہ پی ٹی آئی کی حکومت سے میڈیا اور صحافیوں کو بہت اچھی توقعات تھیں جو پوری نہ ہوسکیں ۔ (ن) لیگ نے بھی ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے اور نئی وزیر اطلاعات نے بہت اچھے فیصلے کیے ہیں جن پر عمل سے ماضی کے اقدامات کا ازالہ ممکن اور آزاد صحافت یقینی بنائی جاسکے گی۔