محترمہ مریم نواز کی پُر جوش سیاسی سرگرمیاں
نواز شریف اور شہباز شریف کی ایما پر مریم نواز بھرپور سیاسی سرگرمیاں شروع کررہی ہیں
نون لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف کا نام ، طویل عرصہ کی پُر صعوبت آزمائشوں کے بعد، ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے ۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی ایما پر مریم نواز بھرپور سیاسی سرگرمیاں شروع کررہی ہیں۔
انھوں نے 26اپریل 2022 کی شام لاہور (این اے 128) میں ایک خاصے بڑے جلسے سے نہایت پُر جوش خطاب کیا ہے ۔اب وہ اٹک میں بھی جلسہ کررہی ہیں اور 8مئی کو اوکاڑہ کے فٹ بال گراؤنڈ میں عوام سے خطاب کریںگی ۔ سیاسی اور زرعی اعتبار سے اوکاڑہ بہت زرخیز خطہ ہے ۔ یہاں کے کسانوں اور کھیت مزدوروں نے متعدد احتجاجات میں کئی بار طوفان اُٹھائے ہیں ۔ ان طوفانوں کی باز گشت ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں بلند آہنگی سے سنائی دیتی رہی ہے ۔
اوکاڑہ کی سرزمین نے ایک وزیر اعلیٰ کو بھی جنم دیا۔یہ سابق وزیر اعلیٰ صاحب خاصے متنازع ماحول میں منتخب ہُوئے اور آج تک متنازع ہی خیال کیے جاتے ہیں۔ یہ صاحب کبھی میاں محمد نواز شریف کے معتمد خیال کیے جاتے تھے لیکن اب یہ نواز شریف سے دُور جا چکے ہیں۔ اوکاڑہ اور اس کا مضافات ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کا سابق سسرال بھی رہا ہے۔ اِس خاندان کی کئی مبینہ ہوشربا داستانیں سوشل میڈیا میں سنائی دے رہی ہیں ۔
نہیں معلوم ان داستانوں میں کتنی سچائی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دستِ راست ، راؤ سکندر اقبال، بھی اوکاڑہ ہی سے تھے ۔ ہمارے دوست اور سابق پی آئی او، راؤ تحسین علی خان، بھی اوکاڑہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ طارق فاطمی اور پرویز رشید کے ساتھ راؤ تحسین کو بھی '' ڈان لیکس'' کی نظر لگ گئی تھی۔راؤ تحسین مگر اب بھی ملک بھر کے اخبار نویسوں اور اینکروں میں مقبول و محبوب ہیں۔ شنید ہے طارق فاطمی کو وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت میں کچھ ذمے داریاں مل چکی ہیں۔ راؤ تحسین کی بھیprestigeبحال ہونی چاہیے اور پرویز رشید صاحب کی بھی۔
پرویز رشید صاحب تو محترمہ مریم نواز کے اتالیق خیال کیے جاتے ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ جناب شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے بڑے جلسے کے لیے اوکاڑہ ہی کا انتخاب کیوں کیا ہے ؟ اس کا مناسب جواب تو نون لیگ کے رہنما، اور حال ہی میں بننے والے وفاقی وزیر، میاں جاوید لطیف، ہی دے سکتے ہیں۔
جس وقت میاں جاوید لطیف کے بطورِ وفاقی وزیر حلف اُٹھانے کا وقت تھا، اُس وقت وہ اوکاڑہ میں مریم نواز صاحبہ کے جلسے کے ابتدائی انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اوکاڑہ سے نون لیگی ایم این اے، چوہدری ریاض الحق جج صاحب، نے مریم نواز کے جلسے کی کمپین اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔ اوکاڑہ میں ہونے والے اس جلسے سے اس لیے بھی بلند توقعات وابستہ کی جارہی ہیں کہ اس میں مریم نواز شریف اکیلے ہی پہلی بار مرکزی کردار ادا کررہی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مریم نواز نے گزرے چند برسوں میں اپنی شخصیت کا منفرد تاثر قائم کیا ہے۔
اُن کی غیر مبہم، للکارتی اور جرأتمندانہ گفتگو نے سننے اور دیکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کررکھی ہے۔اُن کی شخصیت میں وہ سیاسی جادو پیدا ہو چکا ہے جو سیاست کے لیے ناگزیر بھی ہے اور جس کے سحر سے سیاسی کارکنان اپنے پسندیدہ لیڈر کی جانب از خود کھنچتے چلے آتے ہیں۔
مریم نواز جیلوں، عدالتوں اور کچہریوں کی سخت آزمائشوں میں سرخرو رہی ہیں۔ یہ آزمائشیں انھیں کندن بنا گئی ہیں ۔ آج وہ ایک جینوئن لیڈر کی حیثیت میں ہمارے سامنے ہیں ۔ واقعی معنوں میں وہ Crowd Pulle سیاستدان بن چکی ہیں۔ جناب عمران خان نے پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسے کرکے نون لیگ ، پی ڈی ایم اور شہباز شریف کی حکومت کو جس طرح چیلنج کیا ہے ، ان جلسوں اور چیلنجوں کا درست جواب صرف مریم نواز ہی دے سکتی ہیں۔
اٹک اور اوکاڑہ میں مریم نواز شریف کے یہ جلسے ایسے وقت میں منعقد ہورہے ہیں جب مریم صاحبہ کے چچا جان وزیر اعظم اور اُن کے ایک فرسٹ کزن پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں۔ ہمیں اُمید کرنی چاہیے کہ اٹک اور اوکاڑہ میں بلند ہونے والی مریم نواز کی آواز اِس بار ہمارے نیشنل میڈیا میں دبائی نہیں جا سکے گی۔ خان صاحب کے دَور میں مریم نواز اور اُن کے والد صاحب کی آواز ہر جگہ دبانے کی کوشش کی گئی۔ یہ تونون لیگی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا کمال ہے جن کے طفیل نواز شریف اور نون لیگ کی نائب صدر ، مریم نواز، کی آواز مسلسل لوگوں تک پہنچتی رہی۔
اٹک اوراوکاڑہ کے جلسوں سے قبل نون لیگی سوشل میڈیا کو جتنی قوت سے متحرک ہونا چاہیے ، ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ مریم نواز شریف سوشل میڈیا کی طاقت، اس کے مکینکس اور اس کی متنوع سماجی افادیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔
وہ اپنے والد صاحب کے تیسرے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں سوشل میڈیا کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے خود بھی تجربات کر چکی ہیں ۔ انھیں یقیناً یہ بھی احساس اور ادراک ہوگا کہ سوشل میڈیا کی حرکیات کو صحیح سمت میں بروئے کار لا کر کس طرح سیاسی اور اقتداری مفادات سمیٹے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا جنگجوؤں نے جس طرح کے نقوش اور اثرات چھوڑے ہیں، مریم نواز کو ان کا بھی سامنا ہے ؛ چنانچہ نون لیگی ورکرز توقعات رکھتے ہیں کہ مریم نواز خود قائدانہ کردار ادا کرتے ہُوئے نون لیگی سوشل میڈیا کو کیسے پارٹی مفادات کے تحفظ میں بروئے کار لاتی ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اٹک اور اوکاڑہ کے جلسے، سوشل میڈیا کے میدان میں بھی، مریم نواز کا ایک نیا امتحان ہے ۔
مریم نواز شریف کی مقبولیت، ہمت اورسیاسی جدوجہد کو ''گلف نیوز'' اپنے ایک مفصل تجزیے میں خراجِ تحسین پیش کر چکا ہے ۔خلیجی عرب ملک سے شایع ہونے والے اس ممتاز ترین اخبار کے تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ مریم نواز آج سیاسی مقبولیت کے اُسی مقام پر فائز ہیں جہاں کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو فائزہُوا کرتی تھیں۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ مریم نواز پاکستانی سیاست کا ایک ایسا نام بن چکا ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا ۔ وہ بولتی ہیں تو اُن کے ہر لفظ سے خبر بنتی ہے۔ وہ خاموش ہوتی ہیں تو بھی یہ خبر کا موضوع بنتا ہے۔
اُن کی ٹویٹ اخبار کے صفحہ اوّل پر جگہ پاتی ہے۔ مریم نواز ایسے موزوں ماحول میں اوکاڑہ اور اٹک کے جلسے کرنے جا رہی ہیں جب اُن کی دوست ، ہم نام اور معتمد ، محترمہ مریم اورنگزیب، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بن چکی ہیں۔مریم اورنگزیب صاحبہ نے خصوصاً پچھلے پونے چار برسوں کے دوران نون لیگ اور اپنے قائدین کی جو جنگ لڑی ہے ، اس کی تحسین نہ کرنا انصاف نہیں ہوگا۔
انھوں نے یہ جنگ محترمہ مریم نواز شریف کے سنگ لڑی ہے ۔ اب جب کہ مریم نواز اٹک اور اوکاڑہ کے ''میدانِ جنگ'' میں اُترنے جارہی ہیں ، ہمیں اُمید ہے کہ مریم اورنگزیب کی بھرپور حمایت اور اعانت بھی انھیں حاصل ہوگی ۔ اس اعانت کا مظاہرہ پی ٹی وی اور دیگر نجی ٹی ویوں پر بھی اُس وقت دیکھا جائے گا جب اٹک اور اوکاڑہ میں مریم نواز اپنے سامعین سے مخاطب ہورہی ہوں گی ۔ اٹک اور اوکاڑہ کے کامیاب جلسوں کی بنیاد پر مریم نواز کی آیندہ سیاسی سرگرمیوں کی اساس رکھی جائے گی ۔
انھوں نے 26اپریل 2022 کی شام لاہور (این اے 128) میں ایک خاصے بڑے جلسے سے نہایت پُر جوش خطاب کیا ہے ۔اب وہ اٹک میں بھی جلسہ کررہی ہیں اور 8مئی کو اوکاڑہ کے فٹ بال گراؤنڈ میں عوام سے خطاب کریںگی ۔ سیاسی اور زرعی اعتبار سے اوکاڑہ بہت زرخیز خطہ ہے ۔ یہاں کے کسانوں اور کھیت مزدوروں نے متعدد احتجاجات میں کئی بار طوفان اُٹھائے ہیں ۔ ان طوفانوں کی باز گشت ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں بلند آہنگی سے سنائی دیتی رہی ہے ۔
اوکاڑہ کی سرزمین نے ایک وزیر اعلیٰ کو بھی جنم دیا۔یہ سابق وزیر اعلیٰ صاحب خاصے متنازع ماحول میں منتخب ہُوئے اور آج تک متنازع ہی خیال کیے جاتے ہیں۔ یہ صاحب کبھی میاں محمد نواز شریف کے معتمد خیال کیے جاتے تھے لیکن اب یہ نواز شریف سے دُور جا چکے ہیں۔ اوکاڑہ اور اس کا مضافات ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کا سابق سسرال بھی رہا ہے۔ اِس خاندان کی کئی مبینہ ہوشربا داستانیں سوشل میڈیا میں سنائی دے رہی ہیں ۔
نہیں معلوم ان داستانوں میں کتنی سچائی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دستِ راست ، راؤ سکندر اقبال، بھی اوکاڑہ ہی سے تھے ۔ ہمارے دوست اور سابق پی آئی او، راؤ تحسین علی خان، بھی اوکاڑہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ طارق فاطمی اور پرویز رشید کے ساتھ راؤ تحسین کو بھی '' ڈان لیکس'' کی نظر لگ گئی تھی۔راؤ تحسین مگر اب بھی ملک بھر کے اخبار نویسوں اور اینکروں میں مقبول و محبوب ہیں۔ شنید ہے طارق فاطمی کو وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت میں کچھ ذمے داریاں مل چکی ہیں۔ راؤ تحسین کی بھیprestigeبحال ہونی چاہیے اور پرویز رشید صاحب کی بھی۔
پرویز رشید صاحب تو محترمہ مریم نواز کے اتالیق خیال کیے جاتے ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ جناب شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے بڑے جلسے کے لیے اوکاڑہ ہی کا انتخاب کیوں کیا ہے ؟ اس کا مناسب جواب تو نون لیگ کے رہنما، اور حال ہی میں بننے والے وفاقی وزیر، میاں جاوید لطیف، ہی دے سکتے ہیں۔
جس وقت میاں جاوید لطیف کے بطورِ وفاقی وزیر حلف اُٹھانے کا وقت تھا، اُس وقت وہ اوکاڑہ میں مریم نواز صاحبہ کے جلسے کے ابتدائی انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اوکاڑہ سے نون لیگی ایم این اے، چوہدری ریاض الحق جج صاحب، نے مریم نواز کے جلسے کی کمپین اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔ اوکاڑہ میں ہونے والے اس جلسے سے اس لیے بھی بلند توقعات وابستہ کی جارہی ہیں کہ اس میں مریم نواز شریف اکیلے ہی پہلی بار مرکزی کردار ادا کررہی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مریم نواز نے گزرے چند برسوں میں اپنی شخصیت کا منفرد تاثر قائم کیا ہے۔
اُن کی غیر مبہم، للکارتی اور جرأتمندانہ گفتگو نے سننے اور دیکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کررکھی ہے۔اُن کی شخصیت میں وہ سیاسی جادو پیدا ہو چکا ہے جو سیاست کے لیے ناگزیر بھی ہے اور جس کے سحر سے سیاسی کارکنان اپنے پسندیدہ لیڈر کی جانب از خود کھنچتے چلے آتے ہیں۔
مریم نواز جیلوں، عدالتوں اور کچہریوں کی سخت آزمائشوں میں سرخرو رہی ہیں۔ یہ آزمائشیں انھیں کندن بنا گئی ہیں ۔ آج وہ ایک جینوئن لیڈر کی حیثیت میں ہمارے سامنے ہیں ۔ واقعی معنوں میں وہ Crowd Pulle سیاستدان بن چکی ہیں۔ جناب عمران خان نے پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسے کرکے نون لیگ ، پی ڈی ایم اور شہباز شریف کی حکومت کو جس طرح چیلنج کیا ہے ، ان جلسوں اور چیلنجوں کا درست جواب صرف مریم نواز ہی دے سکتی ہیں۔
اٹک اور اوکاڑہ میں مریم نواز شریف کے یہ جلسے ایسے وقت میں منعقد ہورہے ہیں جب مریم صاحبہ کے چچا جان وزیر اعظم اور اُن کے ایک فرسٹ کزن پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں۔ ہمیں اُمید کرنی چاہیے کہ اٹک اور اوکاڑہ میں بلند ہونے والی مریم نواز کی آواز اِس بار ہمارے نیشنل میڈیا میں دبائی نہیں جا سکے گی۔ خان صاحب کے دَور میں مریم نواز اور اُن کے والد صاحب کی آواز ہر جگہ دبانے کی کوشش کی گئی۔ یہ تونون لیگی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا کمال ہے جن کے طفیل نواز شریف اور نون لیگ کی نائب صدر ، مریم نواز، کی آواز مسلسل لوگوں تک پہنچتی رہی۔
اٹک اوراوکاڑہ کے جلسوں سے قبل نون لیگی سوشل میڈیا کو جتنی قوت سے متحرک ہونا چاہیے ، ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ مریم نواز شریف سوشل میڈیا کی طاقت، اس کے مکینکس اور اس کی متنوع سماجی افادیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔
وہ اپنے والد صاحب کے تیسرے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں سوشل میڈیا کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے خود بھی تجربات کر چکی ہیں ۔ انھیں یقیناً یہ بھی احساس اور ادراک ہوگا کہ سوشل میڈیا کی حرکیات کو صحیح سمت میں بروئے کار لا کر کس طرح سیاسی اور اقتداری مفادات سمیٹے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا جنگجوؤں نے جس طرح کے نقوش اور اثرات چھوڑے ہیں، مریم نواز کو ان کا بھی سامنا ہے ؛ چنانچہ نون لیگی ورکرز توقعات رکھتے ہیں کہ مریم نواز خود قائدانہ کردار ادا کرتے ہُوئے نون لیگی سوشل میڈیا کو کیسے پارٹی مفادات کے تحفظ میں بروئے کار لاتی ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اٹک اور اوکاڑہ کے جلسے، سوشل میڈیا کے میدان میں بھی، مریم نواز کا ایک نیا امتحان ہے ۔
مریم نواز شریف کی مقبولیت، ہمت اورسیاسی جدوجہد کو ''گلف نیوز'' اپنے ایک مفصل تجزیے میں خراجِ تحسین پیش کر چکا ہے ۔خلیجی عرب ملک سے شایع ہونے والے اس ممتاز ترین اخبار کے تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ مریم نواز آج سیاسی مقبولیت کے اُسی مقام پر فائز ہیں جہاں کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو فائزہُوا کرتی تھیں۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ مریم نواز پاکستانی سیاست کا ایک ایسا نام بن چکا ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا ۔ وہ بولتی ہیں تو اُن کے ہر لفظ سے خبر بنتی ہے۔ وہ خاموش ہوتی ہیں تو بھی یہ خبر کا موضوع بنتا ہے۔
اُن کی ٹویٹ اخبار کے صفحہ اوّل پر جگہ پاتی ہے۔ مریم نواز ایسے موزوں ماحول میں اوکاڑہ اور اٹک کے جلسے کرنے جا رہی ہیں جب اُن کی دوست ، ہم نام اور معتمد ، محترمہ مریم اورنگزیب، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بن چکی ہیں۔مریم اورنگزیب صاحبہ نے خصوصاً پچھلے پونے چار برسوں کے دوران نون لیگ اور اپنے قائدین کی جو جنگ لڑی ہے ، اس کی تحسین نہ کرنا انصاف نہیں ہوگا۔
انھوں نے یہ جنگ محترمہ مریم نواز شریف کے سنگ لڑی ہے ۔ اب جب کہ مریم نواز اٹک اور اوکاڑہ کے ''میدانِ جنگ'' میں اُترنے جارہی ہیں ، ہمیں اُمید ہے کہ مریم اورنگزیب کی بھرپور حمایت اور اعانت بھی انھیں حاصل ہوگی ۔ اس اعانت کا مظاہرہ پی ٹی وی اور دیگر نجی ٹی ویوں پر بھی اُس وقت دیکھا جائے گا جب اٹک اور اوکاڑہ میں مریم نواز اپنے سامعین سے مخاطب ہورہی ہوں گی ۔ اٹک اور اوکاڑہ کے کامیاب جلسوں کی بنیاد پر مریم نواز کی آیندہ سیاسی سرگرمیوں کی اساس رکھی جائے گی ۔