عمران خان کا ممکنہ احتجاجی مارچ… ایک جائزہ
عمران خان نے مئی میں جلسوں کا اعلان کر دیا ہے
اسلام آباد:
عمران خان نے مئی میں جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا فوکس بھی پنجاب نظر آرہا ہے۔ وہ میانوالی کے بعد سیالکوٹ جہلم اور پنجاب کے دیگر شہروں میں جلسے کر نے جا رہے ہیں۔ ادھر مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔
یوں عمران خان اور مریم نواز کے درمیان جلسوں کا ایک مقابلہ شروع ہونے والا ہے۔ دونوں کے اہداف مختلف ہیں، مریم نواز کے جلسے حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ہیں جب کہ عمران خان کے جلسے حکومت کو گرانے کے لیے ہیں۔
کیا عمران خان واقعی مئی کے آخر میں اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے؟ انھوں نے جلسوں کا شیڈول تو جاری کر دیا ہے لیکن اسلام آباد مارچ کی تاریخ نہیں دی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مئی کے آخر میں کال دیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مئی کے آخر میں اگست کی کال دے دیں، ستمبر کی کال دے دیں، جولائی کے کال دے دیں۔ لیکن کیا وہ مئی اور جون میں اسلام آباد مارچ کر سکتے ہیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے بھی یہی ہے کہ مئی، جون، جولائی شدید گرمی اور حبس کے مہینے ہیں، اس موسم میں احتجاجی مارچ عمران خان کے لیے سیاسی خود کشی بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مئی میں عوامی جلسے ہوسکتے ہیں تو مارچ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر رمضان میں جلسے ہو سکتے ہیں تو مارچ کیوں نہیں ہو سکتا۔ سا دہ سی بات ہے ابھی جلسے رات کو کیے جارہے ہیں، آج کل دن گرم اور راتیں نسبتا ٹھنڈی ہوتی ہیں لیکن جولائی میں حبس کا موسم آتا ہے تو راتیں بھی مشکل ہو جاتی ہیں۔ پنجاب میں جی ٹی روڈ کے شہروں میں تو مئی جون میں سورج سوا نیزے پر آجاتا ہے۔
اس گرمی میں لوگ دن میں نکلنے سے اجتناب ہی کرتے ہیں۔ اس لیے مئی، جون، جولائی میں احتجاجی مارچ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ باقی اگر عمران خان اس کو ممکن سمجھتے ہیں تو اور بات ہے۔
کیا عمران خان کے پاس ایسا کارکن موجود ہے جو سخت موسم سے لڑبھیڑ جائے ؟ کیا عوام عمران خان کے لیے آگ برساتے موسم سے لڑنے کے لیے تیار ہیں؟کیا عمران خان کے پاس واقعی مزاحمتی کارکن موجود ہے؟ کیا ایسے کارکن موجود ہیں جو حکومتی طاقت کا مقابلہ کر سکیں؟ابھی تک تاثر یہی ہے کہ عمران خان کے پاس سوشل اور ڈیجٹل میڈیا پر بیٹھ کر لڑنے والا کارکن تو موجود ہے لیکن سڑکوں پر حقیقی جنگ لڑنے والا کار کن موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے جواب میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ لوگ صرف ٹوئٹر پر ہی نہیں ہیں بلکہ جلسوں میں بھی آتے ہیں۔
اس پر بھی دوسری رائے یہی ہے کہ عمران خان کے جلسوں میں ابھی تک کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ڈی جے لگا ہوتا ہے۔ لوگ انجوائے کرنے بھی آتے ہیں۔ سیاسی جلسوں میں آنا تب معنی رکھتا ہے جب آگے سے ریاست روک رہی ہو۔ جب راستے بند ہوں۔ جب گرفتاریاں ہو رہی ہوں۔ جب پولیس سے مقابلہ ہو۔ جب کنٹینر لگے ہوں۔ جب پولیس لسٹیں بنا کر جلسے سے پہلے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کرتی ہے۔
اور یہ سب کوئی پہلی دفعہ نہیں ہونا ہے۔ عمران خان بھی اپنے مخالفین کے خلاف یہ سب کچھ کرتے رہے ہیں۔ بلکہ وہ تو اس سے زیادہ کرتے رہے ہیں۔ وہ تو دیگر اداروں کو بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ آج میڈیا سے گلے کرنے و الے عمران خان اپنے مخالفین کے سیاسی جلسوں اور مارچ کی میڈیا کوریج بھی رکواتے رہے ہیں۔ اس لیے شاید عمران خان کے حامیوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ جب حکومت احتجاج کو روکتی ہے تو کیا ہوتاہے۔
انھوں نے تو ہمیشہ ریاست کی ڈارلنگ کے طو رپرہی احتجاج کیا ہے۔ آج تک عمران خان کے کسی جلسے جلو س اور احتجاج پر لاٹھی چارج بھی نہیں ہوا ہے بلکہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ 2014میں ان کے مارچ اور دھرنے سے پہلے ریاستی ادارو ں کی جانب سے ایسے ٹو ئٹ بھی آئے تھے کہ حکومت طاقت کا استعمال مت کرے۔
اس طرح حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر عمران خان کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا۔ لیکن وہ تب بھی ہاتھ پاؤں بندھی حکومت کو بھی گرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ کنٹینر کے سامنے کرسیاں خالی ہی ہوتی تھیں، لیکن میڈیا کو دکھانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن شاید اس بار میڈیا وہ سب سہولت کاری نہیں کرے گا جو تب کی گئی تھی۔
عمران خان کو سوشل میڈیا کی لڑائی اور سڑکوں کی لڑائی میں فرق سمجھنا ہوگا۔ سوشل اور ڈیجٹل میڈیا کے محاذ پر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھا ایک نوجوان ایک کلک سے سیکڑوں ٹوئٹ کر سکتا ہے۔لیکن سڑک پر ایک آدمی، ایک آدمی ہی ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیرون ملک پاکستانی زیادہ رونق لگاتے ہیں۔ انھیں کسی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں۔ ان پر پاکستان کا کوئی قانون بھی لاگو نہیں ہوتا۔ان کے لیے یہ تفریح ہے لیکن وہ پاکستان میں سڑکوں پر آکر پولیس کی مار نہیں کھا سکتے۔ سوشل میڈیا پر لڑائی دفتروں میں بیٹھے بیٹھے بھی لڑی جاتی ہے۔ سڑکوں کی لڑائی دفاتر سے چھٹی کر کے لڑنی پڑتی ہے۔
ٹوئٹ کی لڑائی میں موسم کی کوئی رکاوٹ نہیں۔ سوشل میڈیا کے جنگجو گرمیوں میں بھی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر گرم ٹوئٹ کرتے ہیں۔ جب کہ سڑکوں کی لڑائی میں شدید گرمی میں سڑک پر آکر ہی لڑنا ہوگی ۔ ٹوئٹر پر مار نہیں پڑتی، سڑک پر مار پڑنے کے بھی قوی امکانا ت ہوتے ہیں۔ اس لیے ٹوئٹر کے لوگ کیا سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کامیابی کا نشان ہے۔
سڑک پر کامیابی کے میڈل نہیں ہیں۔ بڑی بڑی قربانیاں بھی رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ آپ ٹوئٹر پر جتنے مرضی ٹوئٹ کریں، لیکن ایک گرفتاری کے بعد سڑک پر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ضمانت اور دیگر قانونی پیچیدگیاں مشکل سے مشکل بن جاتی ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا کامیاب جلسے کامیاب مارچ کی ضمانت ہو سکتے ہیں؟ کیا جلسوں میں آنے والے لوگ مارچ میں بھی آئیں گے؟کیا جلسوں میں ڈی جے پر چلنے والے گانوں اور ترانوں پر جھومنے والے ریاستی رکاوٹوں کو بھی عبور کر سکتے ہیں؟ عمران خان کو یہ تمام محرکات ذہن میں رکھنے ہوںگے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جلدی نہیں انھیں آہستہ چلنا چاہیے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ان کے پاس وقت کم ہے۔
اگر انھوں نے جلدی کچھ نہ کیا تو کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اگر سال نکل گیا تو عمران خان کو بھی علم ہے کہ ان کی واپسی مشکل ہو جائے گی۔ اس لیے جو کرنا ہے جلدی کرنا ہے۔ ایسا بھی لگ رہا ہے کہ عمران خان کو ڈر ہے کہ اقتدار سے بیدخلی کے خلاف انھوں نے جو بیانیہ بنایا ہے اسے زیادہ عرصہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ لوگ ناامید ہو گئے تو سب ختم ہوجائے گا، اس لیے جو کرنا ہے جلدی کرنا ہے ۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر عمران خان اس بار بھی احتجاجی مارچ سے حکو مت گرانے میں ناکام ہو گئے تو کیا ہوگا؟ ویسے جب وہ گزشتہ بار ناکام ہوئے تھے تو انھیں کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا۔ انھیں پھر بھی اقتدار مل گیا تھا۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی۔ لیکن اس بار ایسا کوئی امکان نظر آرہا ہے۔ اس لیے اس بار ناکامی کے اثرات مختلف ہوںگے۔ سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوگا۔پارٹی کو نقصان ہوگا ۔ اس لیے عمران خان کو مارچ کی کال کافی سوچ سمجھ کر دینا ہوگی۔ موسم اور حکومت دونوں سے بیک وقت لڑنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی حقیقت ہے۔
عمران خان نے مئی میں جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا فوکس بھی پنجاب نظر آرہا ہے۔ وہ میانوالی کے بعد سیالکوٹ جہلم اور پنجاب کے دیگر شہروں میں جلسے کر نے جا رہے ہیں۔ ادھر مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔
یوں عمران خان اور مریم نواز کے درمیان جلسوں کا ایک مقابلہ شروع ہونے والا ہے۔ دونوں کے اہداف مختلف ہیں، مریم نواز کے جلسے حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ہیں جب کہ عمران خان کے جلسے حکومت کو گرانے کے لیے ہیں۔
کیا عمران خان واقعی مئی کے آخر میں اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے؟ انھوں نے جلسوں کا شیڈول تو جاری کر دیا ہے لیکن اسلام آباد مارچ کی تاریخ نہیں دی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مئی کے آخر میں کال دیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مئی کے آخر میں اگست کی کال دے دیں، ستمبر کی کال دے دیں، جولائی کے کال دے دیں۔ لیکن کیا وہ مئی اور جون میں اسلام آباد مارچ کر سکتے ہیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے بھی یہی ہے کہ مئی، جون، جولائی شدید گرمی اور حبس کے مہینے ہیں، اس موسم میں احتجاجی مارچ عمران خان کے لیے سیاسی خود کشی بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مئی میں عوامی جلسے ہوسکتے ہیں تو مارچ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر رمضان میں جلسے ہو سکتے ہیں تو مارچ کیوں نہیں ہو سکتا۔ سا دہ سی بات ہے ابھی جلسے رات کو کیے جارہے ہیں، آج کل دن گرم اور راتیں نسبتا ٹھنڈی ہوتی ہیں لیکن جولائی میں حبس کا موسم آتا ہے تو راتیں بھی مشکل ہو جاتی ہیں۔ پنجاب میں جی ٹی روڈ کے شہروں میں تو مئی جون میں سورج سوا نیزے پر آجاتا ہے۔
اس گرمی میں لوگ دن میں نکلنے سے اجتناب ہی کرتے ہیں۔ اس لیے مئی، جون، جولائی میں احتجاجی مارچ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ باقی اگر عمران خان اس کو ممکن سمجھتے ہیں تو اور بات ہے۔
کیا عمران خان کے پاس ایسا کارکن موجود ہے جو سخت موسم سے لڑبھیڑ جائے ؟ کیا عوام عمران خان کے لیے آگ برساتے موسم سے لڑنے کے لیے تیار ہیں؟کیا عمران خان کے پاس واقعی مزاحمتی کارکن موجود ہے؟ کیا ایسے کارکن موجود ہیں جو حکومتی طاقت کا مقابلہ کر سکیں؟ابھی تک تاثر یہی ہے کہ عمران خان کے پاس سوشل اور ڈیجٹل میڈیا پر بیٹھ کر لڑنے والا کارکن تو موجود ہے لیکن سڑکوں پر حقیقی جنگ لڑنے والا کار کن موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے جواب میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ لوگ صرف ٹوئٹر پر ہی نہیں ہیں بلکہ جلسوں میں بھی آتے ہیں۔
اس پر بھی دوسری رائے یہی ہے کہ عمران خان کے جلسوں میں ابھی تک کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ڈی جے لگا ہوتا ہے۔ لوگ انجوائے کرنے بھی آتے ہیں۔ سیاسی جلسوں میں آنا تب معنی رکھتا ہے جب آگے سے ریاست روک رہی ہو۔ جب راستے بند ہوں۔ جب گرفتاریاں ہو رہی ہوں۔ جب پولیس سے مقابلہ ہو۔ جب کنٹینر لگے ہوں۔ جب پولیس لسٹیں بنا کر جلسے سے پہلے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کرتی ہے۔
اور یہ سب کوئی پہلی دفعہ نہیں ہونا ہے۔ عمران خان بھی اپنے مخالفین کے خلاف یہ سب کچھ کرتے رہے ہیں۔ بلکہ وہ تو اس سے زیادہ کرتے رہے ہیں۔ وہ تو دیگر اداروں کو بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ آج میڈیا سے گلے کرنے و الے عمران خان اپنے مخالفین کے سیاسی جلسوں اور مارچ کی میڈیا کوریج بھی رکواتے رہے ہیں۔ اس لیے شاید عمران خان کے حامیوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ جب حکومت احتجاج کو روکتی ہے تو کیا ہوتاہے۔
انھوں نے تو ہمیشہ ریاست کی ڈارلنگ کے طو رپرہی احتجاج کیا ہے۔ آج تک عمران خان کے کسی جلسے جلو س اور احتجاج پر لاٹھی چارج بھی نہیں ہوا ہے بلکہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ 2014میں ان کے مارچ اور دھرنے سے پہلے ریاستی ادارو ں کی جانب سے ایسے ٹو ئٹ بھی آئے تھے کہ حکومت طاقت کا استعمال مت کرے۔
اس طرح حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر عمران خان کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا۔ لیکن وہ تب بھی ہاتھ پاؤں بندھی حکومت کو بھی گرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ کنٹینر کے سامنے کرسیاں خالی ہی ہوتی تھیں، لیکن میڈیا کو دکھانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن شاید اس بار میڈیا وہ سب سہولت کاری نہیں کرے گا جو تب کی گئی تھی۔
عمران خان کو سوشل میڈیا کی لڑائی اور سڑکوں کی لڑائی میں فرق سمجھنا ہوگا۔ سوشل اور ڈیجٹل میڈیا کے محاذ پر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھا ایک نوجوان ایک کلک سے سیکڑوں ٹوئٹ کر سکتا ہے۔لیکن سڑک پر ایک آدمی، ایک آدمی ہی ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیرون ملک پاکستانی زیادہ رونق لگاتے ہیں۔ انھیں کسی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں۔ ان پر پاکستان کا کوئی قانون بھی لاگو نہیں ہوتا۔ان کے لیے یہ تفریح ہے لیکن وہ پاکستان میں سڑکوں پر آکر پولیس کی مار نہیں کھا سکتے۔ سوشل میڈیا پر لڑائی دفتروں میں بیٹھے بیٹھے بھی لڑی جاتی ہے۔ سڑکوں کی لڑائی دفاتر سے چھٹی کر کے لڑنی پڑتی ہے۔
ٹوئٹ کی لڑائی میں موسم کی کوئی رکاوٹ نہیں۔ سوشل میڈیا کے جنگجو گرمیوں میں بھی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر گرم ٹوئٹ کرتے ہیں۔ جب کہ سڑکوں کی لڑائی میں شدید گرمی میں سڑک پر آکر ہی لڑنا ہوگی ۔ ٹوئٹر پر مار نہیں پڑتی، سڑک پر مار پڑنے کے بھی قوی امکانا ت ہوتے ہیں۔ اس لیے ٹوئٹر کے لوگ کیا سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کامیابی کا نشان ہے۔
سڑک پر کامیابی کے میڈل نہیں ہیں۔ بڑی بڑی قربانیاں بھی رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ آپ ٹوئٹر پر جتنے مرضی ٹوئٹ کریں، لیکن ایک گرفتاری کے بعد سڑک پر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ضمانت اور دیگر قانونی پیچیدگیاں مشکل سے مشکل بن جاتی ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا کامیاب جلسے کامیاب مارچ کی ضمانت ہو سکتے ہیں؟ کیا جلسوں میں آنے والے لوگ مارچ میں بھی آئیں گے؟کیا جلسوں میں ڈی جے پر چلنے والے گانوں اور ترانوں پر جھومنے والے ریاستی رکاوٹوں کو بھی عبور کر سکتے ہیں؟ عمران خان کو یہ تمام محرکات ذہن میں رکھنے ہوںگے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جلدی نہیں انھیں آہستہ چلنا چاہیے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ان کے پاس وقت کم ہے۔
اگر انھوں نے جلدی کچھ نہ کیا تو کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اگر سال نکل گیا تو عمران خان کو بھی علم ہے کہ ان کی واپسی مشکل ہو جائے گی۔ اس لیے جو کرنا ہے جلدی کرنا ہے۔ ایسا بھی لگ رہا ہے کہ عمران خان کو ڈر ہے کہ اقتدار سے بیدخلی کے خلاف انھوں نے جو بیانیہ بنایا ہے اسے زیادہ عرصہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ لوگ ناامید ہو گئے تو سب ختم ہوجائے گا، اس لیے جو کرنا ہے جلدی کرنا ہے ۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر عمران خان اس بار بھی احتجاجی مارچ سے حکو مت گرانے میں ناکام ہو گئے تو کیا ہوگا؟ ویسے جب وہ گزشتہ بار ناکام ہوئے تھے تو انھیں کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا۔ انھیں پھر بھی اقتدار مل گیا تھا۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی۔ لیکن اس بار ایسا کوئی امکان نظر آرہا ہے۔ اس لیے اس بار ناکامی کے اثرات مختلف ہوںگے۔ سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوگا۔پارٹی کو نقصان ہوگا ۔ اس لیے عمران خان کو مارچ کی کال کافی سوچ سمجھ کر دینا ہوگی۔ موسم اور حکومت دونوں سے بیک وقت لڑنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی حقیقت ہے۔