گلوکار سلیم شہزاد گائیکی کی دنیا کا سرمایہ ہے

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر سینئر گلوکار سلیم شہزاد کی درد میں ڈوبی ہوئی ایک اپیل نظر سے گزری

hamdam.younus@gmail.com

QUETTA:
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر سینئر گلوکار سلیم شہزاد کی درد میں ڈوبی ہوئی ایک اپیل نظر سے گزری اور ایک تصویر بھی جس میں وہ بہت ہی بوجھل اور دل شکستہ دکھائی دے رہا تھا اور اس نے بتایا کہ اب اس کی بینائی بھی اس کا ساتھ چھوڑتی جا رہی ہے۔

یہ سب جان کر بڑا دکھ سا ہوا، اس نے بتایا کہ اب اس کی گزر بسر اس کے بس میں نہیں رہی ہے، اس وقت کراچی میں بہت سے ادارے فنکاروں کی ویلفیئر کے نام سے قائم ہیں اور وہ فنکاروں کی خدمت کے نام پر ہی عطیات اور فنڈ بھی خوب جمع کرتے ہیں، وہ فنکاروں کے ہمدرد بھی خود کو بتاتے ہیں مگر ان کو کہیں غریب فنکار نظر نہیں آتے بلکہ وہ ان فنکاروں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے جنھیں زندگی گزارنے کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک آدھ کوئی ویلفیئر آرگنائزیشن ہی ہوگی جو فنکاروں کا کچھ خیال رکھتی ہوگی، مگر گلوکار سلیم شہزاد کی حالیہ امداد کی اپیل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب ایک ایسے باصلاحیت اور اپنے وقت کے مشہور گلوکار کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوئی تو پھر غریب اور بے سہارا فنکاروں کو کون پوچھتا ہوگا؟ سلیم شہزاد ایک بڑا گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم فنکار بھی ہے اور ہند و پاک کے لیجنڈ قوال عظیم پریم راگی کا صاحبزادہ بھی ہے۔

سلیم شہزاد اس وقت کا گلوکار ہے جب کراچی کی فلم انڈسٹری ابتدائی مراحل میں تھی اور آہستہ آہستہ اپنے قدم جما رہی تھی۔ سلیم شہزاد نے وحید مراد کی فلم ''ہیرا اور پتھر'' کے علاوہ بھی کئی فلموں کے لیے گیت گائے، جن میں السلام علیکم، اکیلے نہ جانا، رستم، فنٹوش، کے ٹو، بھائی جان، کردار، رشتے اور راستے، ہمدم، محبت ہو تو ایسی ہو، شہزادی اور غریبوں کا بادشاہ کے ساتھ ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم ''خوش نصیب'' کے لیے بھی گیت گائے تھے۔

اس نے اس دور کے مشہور جنگلز (کمرشل گیت) بھی گائے ہیں اور بہت سی پروڈکٹ کے لیے اس کے گائے ہوئے گیتوں کو بڑی شہرت ملی تھی۔ پانی کی آلودگی سے متعلق میری لکھی ہوئی ایک فلم کا تھیم سانگ بھی جس کا عنوان تھا ''دریا کی فریاد'' سلیم شہزاد کی آواز میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ پھر سلیم شہزاد نے لاہور کی کئی فلموں میں بھی گیت گائے تھے۔ ہدایت کار پرویز ملک کی فلم ''سوغات'' میں اس کی گائی ہوئی قوالی کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی جس کے بول تھے۔

زندگی تو آپ کی رعنائیوں کا نام ہے

آپ ہی سے یہ سحر ہے آپ ہی سے شام ہے

مسرور انور کے لکھے ہوئے اس گیت کی موسیقی سہیل رعنا نے دی تھی۔ہدایت کار پرویز ملک کی فلم ''تلاش'' میں سلیم شہزاد کا گایا ہوا گیت جس کی موسیقی نثار بزمی صاحب نے دی تھی، آج بھی سنو تو دل پر بڑا اثر کرتا ہے، جو ایک سپرہٹ گیت تھا، جس کے بول تھے۔

پیار کی یاد نگاہوں میں سجائے رکھنا

ان چراغوں کو ہوا میں بھی جلائے رکھنا

اس کے علاوہ ایک اور گیت بھی اپنے دور کا مشہور ترین گیت تھا، جس کے بول تھے۔

محبت کے دیے جلا لو

وفا کے گیت گنگنا لو

سلیم شہزاد اونچی آواز میں گانے والا وہ سنگر ہے جس کی آواز میں لیجنڈ گلوکار محمد رفیع کی آواز کی جھلک ملتی ہے۔ اس کی آواز میں سروں کا رچاؤ بھی ہے اور سوز و گداز بھی ہے اس نے ابتدائی موسیقی کی تعلیم اپنے والد عظیم پریم راگی سے حاصل کی پھر نامور گلوکار محمد رفیع کو اپنا آئیڈیل بنایا اور کراچی کے فنکشنوں اور موسیقی کی محفلوں میں رفیع کے مشہور گیتوں کو سلیم شہزاد بڑی خوش اسلوبی سے گاتا رہا ہے اس نے کلاسیکل سنگر استاد بڑے غلام علی خاں کو سن کر بھی اپنی گائیکی کا ریاض کیا ہے۔


یہ بمبئی فلم انڈسٹری میں بھی کچھ وقت گزار کر آیا ہے وہاں اس کی ملاقات موسیقار نوشاد، دلیپ کمار اور محمد رفیع سے بھی ہوئی تھی۔ اس کی آواز کی ممبئی کے فلمی حلقوں میں بھی بڑی تعریف ہوتی رہی ہے۔ وہاں اس نے فلم ساز و اداکار راج ببر کی فلم ''جیون دھارا'' کے لیے بھی گیت گائے تھے۔ سلیم شہزاد ہمیشہ سے ایک خوددار فنکار رہا ہے اور اس کے والد عظیم پریم راگی بھی ایک نامور قوال کے طور پر سارے برصغیر میں مشہور تھے۔

ہندوستان میں ان کی قوالیوں کی بڑی دھوم تھی، بڑا نام تھا اور لاکھوں لوگ ان کی قوالیوں کے دیوانے تھے۔ ان کی شہرت کو کیش کرانے کے لیے اس وقت کی مشہور گراموفون کمپنی نے ان کو ایک بڑی آفر کی پیشکش کی اور ان کی قوالیوں کے ریکارڈ کے حقوق حاصل کرنے چاہے تو عظیم پریم راگی نے اس کمپنی سے کہا کہ آپ اپنے ریکارڈ پر کتے کا مونوگرام ہٹا دیں تو میں آپ سے معاہدہ کروں گا۔

کمپنی نے کہا کہ کتے کا مونوگرام تو ہماری کمپنی کی پہچان ہے یہ تو ہم کسی طرح نہیں ہٹا سکتے تو عظیم پریم راگی نے جواب دیا تھا کہ میں اپنی پاکیزہ قوالیاں آپ کی کمپنی کو پھر کسی صورت میں بھی ریکارڈ نہیں کرا سکتا اور اس طرح اس دور میں عظیم پریم راگی نے ایک بہت بڑی آفر ٹھکرا دی تھی اور اپنی خودداری کا بھرم قائم رکھا تھا۔

آج ان کے بیٹے سلیم شہزاد جس نے کبھی کسی کی مدد حاصل نہیں کی، زندگی کی ہر لڑائی کو خود ہی ہمت سے لڑتا رہا ہے، مگر اب اپنے انتہائی مخدوش حالات کی وجہ اور اپنی آنکھوں کی بینائی کے آہستہ آہستہ ختم ہونے پر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اسے حکومت کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ اسے فنکاروں کے نام پر بنائی گئی ویلفیئر ایسوسی ایشنوں سے بھی بڑا شکوہ ہے کہ وہ زبانی جمع خرچی تو بہت کرتی ہیں مگر فنکاروں کے برے وقت پر ان کے کام نہیں آتیں اور نہ ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ سلیم شہزاد ایک ایسا ہٹ گلوکار ہے جس نے پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن کے لیے گیت گائے ہیں۔

کراچی ریڈیو کے علاوہ لاہور اور پشاور ریڈیو تک یہ ریکارڈنگ کے لیے جایا کرتا تھا۔ ٹیلی وژن پر بے شمار گیت گائے ان میں قومی گیت بھی ہیں، اگر دیکھا جائے تو سلیم شہزاد کی گائیکی میں بے شمار غزلیں، گیت، قوالیاں اور نعتیں اس کی آواز میں ریکارڈ کی ہوئی ریڈیو کی لائبریری میں موجود ہوں گی اور اب تک یہ کئی ہزار گیت گا چکا ہے۔ سلیم شہزاد نے ندیم، کویتا کی فلم خوش نصیب میں میرے لکھے ہوئے بھی کئی گیت گائے ہیں۔ یہ گیت عالم گیر اور حمیرا چنا کے ساتھ بھی گائے ہوئے ہیں۔ عالمگیر اور سلیم شہزاد کا گایا ہوا یہ گیت خاص طور پر مشہور ہوا تھا جو ندیم اور بہروز سبزواری پر فلمایا گیا تھا۔

دوستی تیری میری دوستی

اس پر آنچ کبھی نہ آئے

چاہے جان ہماری جائے

چاہے لینی پڑے دنیا سے دشمنی

سلیم شہزاد اور میں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ میری اس سے بڑی بے تکلفی بھی تھی، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ گرمیوں کی راتوں میں ہماری بلڈنگ کے کئی دوست فٹ پاتھ پر دری بچھا کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر سلیم شہزاد کو اس کے گھر سے بلا کر لاتا تھا اور پھر رات گئے تک موسیقی کی محفل جمتی تھی۔

سلیم شہزاد کئی گھنٹوں محمد رفیع کے گیت اپنی جادو بھری آواز میں ہم سب دوستوں کو جم کر سناتا تھا، ایک دوست پیتل کی ایک پرات لے آتا تھا اور کبھی کوئی لڑکا وہ پرات طبلے کی طرح بجاتا تھا اور کبھی سلیم شہزاد خود پرات بجا کر گیت گاتا تھا۔ محمد رفیع کے بہت سے مشہور گیت اس کو خوب یاد ہوتے تھے، اس کا حافظہ بھی لاجواب تھا۔ پھر آخر میں یہ میری فرمائش پر محمد رفیع کا گایا ہوا بہت اونچے سروں میں گایا ہوا گیت گا کر محفل کا اختتام کرتا تھا اور وہ گیت تھا۔

او دنیا کے رکھوالے

سن درد بھرے میرے نالے

ہم سب دوست آنکھیں بند کرکے جب یہ گیت سنتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے ہم محمد رفیع کا کوئی ریکارڈ سن رہے ہیں۔ سلیم شہزاد بہت ہی نفیس طبیعت کا مالک ہے۔ سیدھا سادا، بھولا بھالا یہ فنکار گائیکی کی دنیا کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ہمارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس فنکار کی قدر کریں۔

اس کی آرٹس کونسل کراچی بھی مدد کرنے میں پہل کرے اور حکومت سندھ کو بھی چاہیے کہ اس فنکار کی پہلی فرصت میں مالی امداد کا بندوبست کرکے اسے کسی طرح بھی بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے۔ یہ فنکار ملک کے بیرونی ملکوں میں سفیر بھی ہوتے ہیں اور ملک کا اثاثہ بھی ہوتے ہیں۔
Load Next Story