’’صدر ایوب ہمیں چین کی جاسوسی کرنے دیں‘‘

امریکا اور پاکستان کے برسوں پرانے تعلقات کی تاریخ سے ایک دلچسپ و ڈرامائی باب کا دلچسپ احوال

امریکا اور پاکستان کے برسوں پرانے تعلقات کی تاریخ سے ایک دلچسپ و ڈرامائی باب کا دلچسپ احوال ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
شام کا وقت ہے۔ دریائے پوٹومیک سے آنے والی ٹھنڈی ہوا دل و دماغ کو طراوت بخش رہی ہے۔

آج امریکا کے پہلے صدر، جارج واشنگٹن کی رہائش گاہ ''ماؤنٹ ورنون'' پر بہت چہل پہل ہے۔ اس رہائش گاہ کو حال ہی میں ''قومی یادگار'' کا درجہ دیا گیا ہے۔ دراصل آج رات ماؤنٹ ورنون میں مہمان پاکستانی صدر، ایوب خان کے اعزاز میں سرکاری عشائیے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

یہ امریکا کی تاریخ میں پہلا اور آخری موقع تھا کہ بانی صدر جارج واشنگٹن کی رہائش گاہ پر عشائیے کا اہتمام ہوا۔ یہ خوبصورت اور شاندار قومی یادگار امریکی ریاست ورجینیا کی فیئرفیکس کاؤنٹی میں واقع ہے۔



صدرایوب خان کے میزبان امریکی صدر، جان ایف کینیڈی تھے جنھوں نے محض چھ ماہ قبل حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ تاہم ان کے اقتدار کا آغاز کچھ اچھا نہیں ہوا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے معاصر ملک،کیوبا پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ مگر وہ بری طرح سے ناکامی کا شکار ہوا۔ پھر ویانا، آسٹریا میں سوویت وزیراعظم، نکتیا خروشیف کے ساتھ نوجوان امریکی صدر کی ملاقات بھی سودمند ثابت نہ ہوئی۔

صدر کینیڈی پر یہ شدید دباؤ

ان ناکامیوں کے باعث صدر کینیڈی پر یہ شدید دباؤ تھا کہ وہ کوئی نمایاں کارنامہ کر دکھائے۔ آخر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے صدر نے امریکا کا دورہ کیا، تو صدر کینیڈی کو اپنے جوہر دکھانے کا سنہرا موقع مل گیا۔

صدر ایوب خان 11 جولائی 1961ء کو امریکا پہنچے۔ اسی دن بروز منگل ماؤنٹ ورنون میں پاکستانی مہمانوں کے لیے زبردست عشائیے کا بندوبست کیا گیا۔ اس موقع پر امریکی صدر اپنے پاکستانی معاصر سے ایک اہم مطالبہ منوانا چاہتے تھے۔

صدرایوب خان کو ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیہ دینے کا خیال امریکی صدر کی حسین و جمیل بیگم، جیکولین کینیڈی کو آیا۔ دراصل ایک ماہ قبل ہی وہ آسٹریا کے دورے پر شون برون محل (Schönbrunn Palace)میں دیے گئے سرکاری عشائیے میں شریک ہوئی تھیں۔

یہ شاہی محل آسٹریا کے سابق ہپسابرگ بادشاہوں کی رہائش گاہ تھا جو سترہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ شاہی محل کی شان و شوکت اور چکاچوند نے امریکی خاتون اوّل کو ازحد متاثر کیا۔ایک ہفتے بعد امریکی جوڑا فرانس پہنچا۔ وہاں بھی فرانسیسیوں نے ورسائے کے عظیم الشان محل میں امریکی جوڑے کو دعوت عشائیہ دی۔ فرانسیسی شاہی محل کے تزک و احتشام نے بھی خاتون اول پر گہرا تاثر چھوڑا۔

امریکا میں کوئی شاہی محل یا اسی قسم کی پرشکوہ عمارت نہیں تھی، تاہم جیکولین کینیڈی کی نظریں پہلے امریکی صدر کے خوبصورت مینشن پر جا ٹکیں۔ دریائے پوٹومیک کے کنارے واقع یہ وسیع و عریض مینشن امریکی قصرصدارت ،وائٹ ہاؤس سے چند میل دور ہے۔ خاتون اوّل کو محسوس ہو گیا کہ اس تاریخی رہائش گاہ کی شاندار تاریخ اور دریا کا ساتھ شام کے وقت کا ماحول پاکستانی و مقامی مہمانوں پر سحر طاری کر دے گا۔

پاکستانی مہمانوں کے لیے خاص اہتمام

جیکولین کینیڈی نے پھرجون1961ء میں ماؤنٹ ورنون کا دورہ کیا۔ وہ قرب و جوار کا مشاہدہ کر کے جاننا چاہتی تھیں کہ کیا وہاں سرکاری عشائیے کی اہم تقریب منعقد ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے رہائش گاہ کے منتظم سے بھی مشورہ کیا۔ منتظم نے انھیں بتایا کہ اسی تجویز پر عمل درآمد کے لیے کئی چیلنجوں سے عہدہ براں ہونا پڑے گا۔

دراصل مینشن اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس کے اندر سرکاری عشائیے جیسی بڑی تقریب منعقد ہو سکے۔ لہٰذا نشستوں کا اہتمام برآمدے میں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پھر اس زمانے میں ماؤنٹ ورنون میں بجلی نہیں تھی۔ نیز اس کا سامان بھی قدیم نوعیت کا تھا۔



اس میں جدید سہولیات سے لیس باورچی خانہ تھا اور نہ ریفریجریٹر! چناںچہ فیصلہ ہوا کہ کھانا وائٹ ہاؤس میں تیار کرا کے یہاں لایا جائے۔ وائٹ ہاؤس کے ملازمین ہی کو مہمان نوازی بھی کرنا تھی۔

غرض ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیے کی تقریب منعقد کرنے کی خاطر بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے۔ چونکہ امریکی خاتون اوّل کی یہی خواہش تھی لہٰذا منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں اور بحریہ کے دستوں نے علاقوں کی سکیورٹی سنبھال لی۔ جبکہ فورٹ مائرز سے امریکی بری فوج کا ایک دستہ بھی ماؤنٹ ورنون آ پہنچا۔ اس دستے نے فوجی بینڈ بجا کر مہمانان گرامی کا شاندار استقبال کرنا تھا۔

امریکی خاتون اوّل نے نیشنل سیمفونی آرکسٹرا کو بھی سرکاری عشائیے کے لیے بلوایا۔ کھانے کے بعدارکان آرکسٹرا نے اپنے کمالات سے پاکستانی مہمانوں کو محظوظ کرنا تھا۔ نیز برآمدے میں پنڈال بنانے کے لیے آرائش وزیبائش کرنے والی مشہور کمپنی، ٹفنی اینڈ کمپنی(Tiffany's) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے پھولوں اور دیگر آرائشی اشیا کی مدد سے نہایت خوبصورت پنڈال تیار کیا جہاں بیٹھ کر سبھی نے کھانا کھایا۔

تاریخی تقریب

مہمان کشتیوں کے چھوٹے سے جلوس کی صورت ماؤنٹ ورنون پہنچے۔ سب سے آگے صدارتی کشتی ''ہنی فٹنر'' خراماںخراماں تیر رہی تھی۔ اس کے بعد امریکی بحریہ کے وزیر (سیکرٹری) کی کشتی تھی۔ کشتیوں کا یہ قافلہ واشنگٹن میں واقع بندرگاہ سے روانہ ہوا۔ دریائے پوٹومیک میں سفر کرتا پندرہ میل طے کر کے ماؤنٹ ورنون پہنچا۔

مہمانوں میں جو نوجوان تھے، وہ کشتیوں سے اتر کر پیدل ہی ماؤنٹ ورنون کی سمت چل پڑے۔ ان میں سب سے نمایاں امریکی صدر کے چھوٹے بھائی اور اٹارنی جنرل، رابرٹ کینیڈی تھے۔ پاکستانی صدر ،ان کی دختر اور میزبان لیموزین میں بیٹھ کر اپنی منزل تک پہنچے۔

مہمانوں کی فہرست میں سب سے اوپر صدر مملکت پاکستان اور ان کی دختر، بیگم نثار اختر اورنگ زیب کا نام تھا۔ دیگر مہمانوںمیں پاکستانی وزیرخارجہ، وزیرخزانہ اور تب امریکا میں پاکستانی سفیر، عزیز احمد شامل تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عزیز احمد نے جب یہ سنا کہ سرکاری عشائیہ وائٹ ہاؤس نہیں ماؤنٹ ورنون میں ہو رہا ہے، تو وہ کچھ پریشان ہو گئے۔ انھیں محسوس ہوا جیسے امریکی پاکستانی مہمانوں کو کمتر سمجھ رہے ہیں۔ لیکن امریکیوں نے انھیں سمجھایا کہ پاکستانی مہمانوں کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون میں عشائیہ دینا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقتاً یہ تقریب تاریخی درجہ حاصل کر لے گی۔ جب بات پاکستانی سفیر سمجھ گئے، تو ان کی جان میں جان آئی۔

واشنگٹن کی ''کریم''

اس سرکاری عشائیے میں نئی امریکی حکومت کے سبھی نمایاں اور درخشندہ ستارے شریک ہوئے۔ صدر، نائب صدر اور اٹارنی جنرل تو بیگمات کے ساتھ آئے ہی، سیکرٹری خارجہ، ڈین رسک، سیکرٹری دفاع، رابرٹ میکنامارا اور سیکرٹری بحریہ، جان کونلے بھی اپنی بیویوں کے ساتھ آئے۔

امریکی افواج کے کمانڈر، چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل لیمن لمنتز بھی بیگم کے ساتھ عشائیے میں تشریف لائے۔ غرض یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستانی مہمانوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں واشنگٹن کی ''کریم'' جمع ہو گئی۔وہاں امریکی حکمران طبقے کا ہر اہم رکن موجود تھا۔

اس تقریب میں سب سے زیادہ پرجوش ہستی سی آئی اے کے ڈائریکٹر، ایلن ڈیولاس کی تھی۔ وہ کینیڈی خاندان کے پرانے واقف کار تھے۔ اسی لیے صدر کینیڈی برسراقتدار آئے، تو انھوں نے ایلن کو بدستور ڈائریکٹر سی آئی اے بنائے رکھا، حالانکہ ان کی تقرری سابقہ ریپبلکن صدر نے کی تھی۔



یہ ایلن ڈیولاس ہی ہیں جنھوں نے کیوبا پر ناکام حملے (بے آف پگ معاملے) کی منصوبہ بندی انجام دی تھی۔ یہ پلان کامیاب نہ ہو سکا تاہم امریکی صدر اب بھی اپنے ڈائریکٹر پر اعتماد کرتے تھے۔ اسی لیے پاکستان سمیت دیگر بیرون ممالک میں جاری سی آئی اے کے خفیہ آپریشن بدستور اپنا کام کرتے رہے۔ پاکستان میں جاری امریکی خفیہ ایجنسی کے خفیہ آپریشنوں کو صدرایوب خان کی منظوری حاصل تھی۔

دو خفیہ اور اہم آپریشن

کھانے کا وقت رات آٹھ بجے تھا۔ اس سے قبل مہمانان گرامی نے پہلے امریکی صدر کے مینشن کا دورہ کیا۔ اس دوران مہمان مالٹے اور دیگر پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہوئے۔ دونوں صدور موقع کی مناسب سے رسمی لباس میں ملبوس تھے۔ جب یہ مرحلہ ختم ہوا، تو صدر کینیڈی نے پاکستانی صدر کو ساتھ لیا اور دونوں تنہا باغ میں چہل قدمی کرنے لگے۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکی صدر نے اپنا مطالبہ ایوب خان کے سامنے پیش کیا۔

اس زمانے میں سی آئی اے نے پاکستان میں دو نہایت خفیہ اور اہم آپریشن شروع کر رکھے تھے۔ ایک آپریشن تو سال بھر پہلے ہی طشت ازبام ہو گیا جب سوویت یونین نے امریکا کا یوٹو طیارہ مار گرایا۔ یہ طیارہ سوویت یونین کی جاسوسی کر رہا تھا۔ اس کو پشاور میں پاک فضائیہ کی ائیربیس،بڈھ بیر سے اڑایا جاتا تھا۔ اس خفیہ منصوبے کا نام ''آپریشن گرینڈ سلام'' تھا۔

یوٹو طیارہ گرانے کے کچھ عرصے بعد پیرس میں امریکی صدر آئزن ہاور اور سوویت وزیراعظم خروشیف کے مابین ملاقات ہوئی۔ سوویت لیڈر یوٹو طیارہ سے جاسوسی کرانے پر امریکی صدر سے معذرت چاہتے تھے۔ جب آئزن ہاور نے انکار کیا، تو بدمزگی پیدا ہو گئی اور ملاقات کا انجام اچھا نہیں ہوا۔

اس واقعے کے بعد سی آئی اے نے سوویت یونین کی فضاؤں میں پاکستان سے بھیجے گئے یوٹو طیارے بھجوانے بند کر دیے، تاہم پاکستانی سرزمین پہ ایک اور خفیہ آپریشن جاری رہا۔ یہ آپریشن بھی سابقہ امریکی صدر، آئزن ہاور کے زمانے میں شروع ہوا اور اب تک انجام پا رہا تھا۔ اس کے ذریعے چین کے خلاف سرگرمیاں جاری تھیں۔

چین تبت کو اپنا حصہ سمجھتا تھا۔اس لیے 1951ء میں کمیونسٹ چین نے تبت پہ قبضہ کر لیا۔تاہم تبتی اپنے ملک کو آزاد و خودمختار مانتے تھے۔وہ چین کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے لگے۔ امریکا ان تبتیوں کا حامی تھا۔ چناںچہ مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ کے قریب ایک ہوائی اڈے سے امریکی ان تبتیوں کو اسلحہ اور دیگر ضروری سامان بذریعہ ہوائی جہاز بھجوانے لگے۔


بعدازاں سی آئی اے امریکی ریاست کولوریڈو میں تبتیوں کو چھاپہ مار جنگ کی تربیت دینے لگی۔ یہ تبتی گوریلے بھی مشرقی پاکستان کے راستے ہی بذریعہ ہوائی جہاز تبت میں اتارے جاتے۔کچھ عرصے بعد سی آئی اے نے یوٹو طیارے بھی پاکستانی ائیربیس پر پہنچا دیے۔ یہ طیارے پھر چین کی فضاؤں میں اڑ کر مختلف عسکری مقامات کی تصاویر لینے لگے۔

امریکی حکومت کی مدد

سی آئی اے کے اس آپریشن کو بھی صدر ایوب خان کی منظوری حاصل تھی۔ دراصل تب پاکستانی سوویت یونین اور چین، دونوں کو بھارت کا دوست سمجھتے تھے۔ دشمن کا دوست بھی مخالف ہوتا ہے کہ مصداق پاکستانی حکومت دونوں ممالک کو اپنا حریف تصور کرتی تھی۔ پھر وہ ان کے کمیونسٹ نظریات سے بھی متفق نہ تھی۔اِدھر امریکا پچھلے دس سال سے پاکستان کو بھاری مالی وعسکری امداد دے رہا تھا۔

اس مالی تعاون سے کئی اہم نوعیت کے سرکاری منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔1954ء میں سیبر طیارے دئیے جن کی وجہ سے پاک فضائیہ طاقتور ہو گئی۔1960ء میں امریکا کی بھاگ دوڑ کے باعث سند ھ طاس معاہدہ انجام پایا جس سے پانی کا مسئلہ طے ہوا۔ غرض اس زمانے میں امریکی حکومت کئی لحاظ سے پاکستان کی مالی ،عسکری و معاشی مدد کر رہی تھی۔چناں چہ پاکستانی حکومت نے بھی ضروری سمجھا کہ کمیونسٹ ممالک کے خلاف امریکی مہمات میں اس کا ساتھ دیا جائے۔

مشرقی پاکستان میں چینیوں کی جاسوسی کا خفیہ مشن جاری تھا کہ ایک رکاوٹ آڑے آ گئی۔جب جنوری 1961ء میں صدر کینیڈی برسراقتدار آئے، تو انھوں نے بھارتیوں کی خوشنودی کے لیے اعلان کیا کہ بھارت کو نصف ارب ڈالر کی معاشی مدد دی جائے گی۔ اس اعلان نے صدر پاکستان، ایوب خان کو برافروختہ کر دیا۔ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت نہیں پاکستان کو امریکا کا قریب ترین اتحادی سمجھتے تھے۔ اسی لیے ناراض ہو کر انھوں نے ڈھاکہ ائیربیس سے امریکی طیاروںکے اڑنے پر پابندی لگا دی۔ یہ دو ماہ پہلے کا واقعہ تھا۔

تنہائی میں ملاقات کریں

آج کے برعکس اس زمانے میں پاکستان سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے اہم ملک سمجھا جاتا تھا۔ نیز صدر ایوب خان خارجہ امور میں آزادی سے فیصلے کرتے تھے کیونکہ پاکستان معاشی طور پہ خاصا مضبوط تھا۔اس نے عالمی و مقامی مالی اداروں کے قرض نہیں دینے تھے جن میں سے بیشتر امریکی وبرطانوی بینکار چلاتے ہیں۔ لہٰذا امریکی جہازوں کی اڑان پر پابندی لگا کر انھوں نے اپنی ناراضی ظاہر کر دی۔ وہ صدر کینیڈی کی بھارت نوازی پر خوش نہیں تھے۔

تاہم پاکستانی صدر نے یہ ضرور خیال رکھا کہ دونوں مملکتوں کے مابین شکر رنجی پس پردہ ہی رہے اور عوام کے سامنے نہیں آنے پائے۔ بس وہ امریکیوں کو بتانا چاہتے تھے کہ بھارت کی طرف ان کا جھکاؤ پاکستان کو پسند نہیں آیا اور یہ منفی عوامل کا حامل بھی ہے۔

جب یہ طے پا گیا کہ پاکستانی صدر کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون پر سرکاری عشائیہ ہوگا، تو سی آئی اے کے ڈائریکٹر، ایلن ڈیولاس اپنے صدر سے ملے۔ انھوں نے صدر کینیڈی کو مشورہ دیا کہ وہ ایوب خان سے تنہائی میں ملاقات کریں اور تب اپنی مانگیں سامنے رکھیں۔ مسٹرایلن کو یقین تھا کہ صدرکینیڈی اپنی پُرکشش شخصیت اور رومانوی ماحول کے بل بوتے پر پاکستانی حکمران سے اپنا مطالبہ منوا لیں گے۔ ان کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔

صدرکینیڈی چاہتے تھے کہ ایوب خان امریکی طیاروں کی اڑان پر لگائی پابندی واپس لے لیں ۔ پاکستانی صدر نے کچھ مزاحمت کرنے کے بعد میزبان کی بات مان لی۔ یوں چین کے خلاف جاری امریکی سرگرمیوں میں پاکستان پھر اس کا اتحادی بن گیا۔ یہی وجہ تھی کوہ اس زمانے میں چینی حکومت پاکستان کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔

اپنی یہ بات منوا لی

تاہم ایک تجربے کار لیڈر ہونے کے باعث صدر ایوب خان نے مفت میں امریکی صدر کا مطالبہ قبول نہیں کیا... انھوں نے بھی اپنی یہ بات منوا لی کہ مستقبل میں کبھی امریکا نے بھارت کو اسلحہ فروخت کیا، تو وہ پہلے پاکستان سے ضرور مشورہ کرے گا۔ افسوس کہ بظاہر خود کو سچا اور مخلص کہنے والے امریکی حکمران اس وعدے پر پورے نہیں اترے۔ جب اگلے سال چین اوربھارت کی جنگ ہوئی، تو صدرکینیڈی نے ایوب خان سے کیا گیا اپنا عہد توڑا اور بالابالا بھارتیوں کو اسلحہ بھجوا دیا۔ امریکیوں کی اس بدعہدی نے ایوب خان کو بہت مایوس کر ڈالا۔

لیکن ابھی ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیہ آب و تاب سے جاری تھا۔ مقررہ وقت پاکستانی مہمان گرامی کی خدمت میں چکن کا خصوصی فرانسیسی سالن ''پولٹ چاسر'' (Poulet Chasseur) چاولوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ پھلوں کے رس تھے۔ میٹھے کے طور پر کریم میں ڈوبی رس بھریاں کھائی گئیں۔

کمیونسٹوں کے جال میں

صدرکینیڈی جس میز پر براجمان ہوئے وہاں سفید ساڑھی میں ملبوس بیگم اورنگ زیب بھی بیٹھی تھیں۔ جبکہ صدر ایوب خان جس میز پر بیٹھے وہاں حسین و جمیل جیکولین کینیڈی تشریف فرما تھیں۔ اس موقع پر پاکستانی صدر نے خطاب کرتے ہوئے دنیا والوں کو خبردار کیا: ''ایشیا میں کوئی بھی ملک سیدھی راہ پر نہیں چلا، تو وہ کمیونسٹوں کے جال میں پھنس سکتا ہے۔'' صدرکینیڈی نے اپنی تقریر میں ایوب خان کو ''پاکستان کا جارج واشنگٹن'' قرار دیا۔ سرکاری عشائیہ رات بارہ بجے ختم ہوا۔ اب مہمانان گرامی کو سڑک کے راستے واپس واشنگٹن پہنچایا گیا۔

صدرکینیڈی کی کابینہ میں بعض وزیر تبت میں جاری سی آئی اے آپریشن کے خلاف تھے۔ بھارت میں امریکی سفیر، جان کینتھ گلبرٹ کا بھی خیال تھا ''اس آپریشن سے امریکا کو فائدہ نہیں ہوگا، الٹا میلے کچیلے تبتی قبائلی ہمارے گلے پڑ جائیں گے۔'' بعض کا کہنا تھا کہ جواباً چینی بھی امریکیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔

ان خدشات کے باوجود صدرکینیڈی نے سی آئی اے آپریشن جاری رکھا اور اس سے امریکیوں کو فوائد بھی ملے۔ مثال کے طور پر تبتی گوریلوں نے چین کے سرکاری دفاتر پر حملے کیے، تو وہاں سے انھیں ڈھیروں سرکاری دستاویزات ملیں۔ انھوں نے دستاویز امریکا کے حوالے کر دیں۔ اس زمانے میں امریکی کمیونسٹ چین کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ لہٰذا ان دستاویز سے امریکی حکومت کو چینی حکومت کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں۔

چین کی فضاؤں میں امریکی یوٹو طیارے کی اڑانیں بھی کامیاب رہیں۔ ان کی مدد سے امریکیوں کو چینی ایٹمی منصوبے کے متعلق معلومات ملیں جو لوپ نور ٹیسٹ فیسلٹی میں خفیہ طور پر جاری تھا۔ تاہم آپریشن کے مخالف امریکیوں کی ایک پیشین گوئی نے حقیقت کا چولا پہن لیا۔

پاکستان نہیں بھارت

چین کا حکمران طبقہ پاکستان نہیں بھارت کو اپنا حقیقی دشمن سمجھتا تھا۔وجہ یہ کہ تبت میں خانہ جنگی بنیادی طور پہ بھارت کی پشت پناہی کی وجہ سے جاری تھی۔ بھارت کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعات بھی تھے۔ اس لیے جب امریکا اور بھارت کے مابین دوستی بڑھنے لگی، تو چینی حکومت کو سخت تاؤ آیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ نہرو حکومت امریکیوں کی آشیرباد سے چینی سرحدی علاقے پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ چناںچہ چین نے دونوں قوتوں کو سبق سکھانے کے واسطے اکتوبر 1962ء میں بھارت پر حملہ کر دیا۔

یہ حملہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ اول اس کی وجہ سے چین اور بھارت کی دشمنی کا آغاز ہوا جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ دوم پاکستان اور چین قریب آ گئے۔ بعدازاں ان کے مابین ایسی مستحکم دوستی نے جنم لیا جو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ گویا 1962ء کا سال جنوبی ایشیا کے لیے کایا پلٹ دینے والا ثابت ہوا۔

اگلے سال ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے چین کا دورہ کیا۔وہ چینی رہنما، ماوزے تنگ اور وزیراعظم، چو این لائی سے ذاتی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب رہے۔جلد ہی دونوں ممالک نے باہمی مسائل حل کیے اور ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔1965ء میں صدر ایوب خان نے چین کا دورہ کیا اور یوں دونوں پڑوسیوں کے مابین ایسے تعلق کا آغاز ہوا جسے ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے گہرا قرار دیا گیا۔

اعزاز جو پاکستانی صدر کو ملا مگر...

ابھی مگرجولائی 1961ء چل رہا ہے جب پاکستانی صدر امریکی میزبانوں کی شاندار مہمان نوازی سے لطف اندوز وہو رہے تھے۔ماؤنٹ ورنون میں پاکستانی مہمانوں کو جو سرکاری عشائیہ دیا گیا، اسے امریکی اخبارات نے نمایاں جگہ دی۔ کینیڈی جوڑا اس تقریب کے ذریعے جو کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ انھیں پانے میں کامیاب رہا۔ سیاسی طور پر صدرکینیڈی کو یہ کامیابی ملی کہ مشرقی پاکستان میں جاری خفیہ تبت آپریشن کو نئی زندگی مل گئی جسے نئی حکومت کی بڑی فتح سمجھا گیا۔ جبکہ عشائیے کے ذریعے کینیڈی جوڑے کو دارالحکومت میں اپنے معاشرتی تعلقات بڑھانے میں مدد ملی۔

جیسا کہ بتایا گیا، یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کے صدر نے کسی مہمان حکمران کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون جیسی تاریخی جگہ پر سرکاری عشائیہ دیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر ہی کو نصیب ہوا۔ یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ محض ساٹھ برس قبل عالمی سطح پر پاکستان کو عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

اس زمانے میں جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائشیا جیسے نوآزاد ایشیائی ملک ترقی کا اپنا ماڈل پاکستانی ماڈل کے مطابق استوار کر رہے تھے۔ان ملکوں کے محب وطن ، دیانت دار اور اچھے منتظم حکمرانوں نے تو پاکستانی ماڈل پہ عمل کرتے ہوئے اپنے ممالک کو خوشحال اور ترقی یافتہ ریاستوں میں بدل دیا جہان شہریوں کو ہر قسم کی سہولیات میسّر ہیں۔صد افسوس کہ پاکستان میں حکمران طبقہ جلد ذاتی مفادات، کرپشن اور نااہلی کا نشانہ بن کر نہ صرف منزل کھو بیٹھا بلکہ اس نے ملک وقوم کو تنزلی کے گڑھے میں دکھیل دیا۔امجد اسلام امجد ہمیں یاد دلاتے ہیں:

کروڑوں لوگ تھے جن کا

نہ کوئی نام لیتا تھا، نہ کچھ پہچان باقی تھی

ہر اک رستے میں وحشت تھی

سبھی آنکھوں میں حسرت تھی

نہ آباء سی ہنر مندی، نہ اگلی شان باقی تھی

کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا

تو ان کی جاں میں جاں آئی

دہن میں پھر زباں آئی

بہتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو

خدا کی خاص رحمت ہے یہ، "پاکستان" مت بھولو
Load Next Story