جب لوگ خواب دیکھنا بند کردیتے ہیں

کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ انسانی تاریخ میں قومیں کیوں ناکام ہوئی ہیں،وہ اس لیے ناکام ہوئیں،جب ان کے لوگ ناامید ہوگئے

aftabkhanzada2@yahoo.com

عظیم منصف بین اوکری کے ناول ''بھوکی سڑک ''میں دو کردار ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

''کیا تم سمجھتے ہو کہ چوہے کیا کہہ رہے ہیں۔''

''نہیں''

''کیا تم ان سے باتیں کرسکتے ہو ۔''

''نہیں!مگر میں ان کو مارسکتا ہوں۔ ''

''کیوں ؟''

'' کیونکہ ان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ وہ برے سیاست دانوں اورسامراجیوں اور امیر لوگوں کی طرح ہوتے ہیں''

'' کیسے؟''

''وہ لوگوں کی چیزیں کھا جاتے ہیں، ان کے سامنے جو کچھ آتا ہے اسے ہڑپ کرجاتے ہیں اور ایک دن جب وہ بہت بھوکے ہوں گے تو ہم کو بھی کھاجائیں گے ۔''


'' میں چپ ہوگیا۔ ''

آج پاکستان ایک مکمل Elite Caputreریاست میں تبدیل ہوکے رہ گیا ہے جہاں بڑے اور طاقتور لوگوں نے ریاست کے سب وسائل پر قبضہ کرلیا ہے اور باقی طبقات کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا ۔ جہاں یہ لوگ ملک کی ہر چیز کو کھا رہے ہیں، ان کی بھوک '' بھوکی سڑک'' میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اب بس باری ہماری رہ گئی ہے جو بس آنے کو ہی ہے یہ لوگ ایک نہ ایک دن ہم سب کو بھی کھا جائیں گے اور ملک کی شاہرائوں، گلیوں میں ہماری ہڈیاں چاروں طرف بکھری پڑی ہوئی ہونگی اس لیے کہ وہ کھائی نہیں جاسکتی ہیں ورنہ یہ لوگ اس کو بھی کھا جائیں ۔ آج بھی ہم اگر غور سے شاہرائوں اور گلیوں کو دیکھیں تو ان میں کروڑوں خواب ، کروڑں خواہشیں ، تمنائیں کچلی ہوئیں ،روندی ہوئی آپ کو باآسانی دکھائی دے دیں گی۔

انسان تین طریقوں سے سوچتا ہے (1) دل سے (2) دماغ سے (3) پیٹ سے ۔ ہم ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگئے ہیں، جو صرف پیٹ سے سوچتے ہیں اور جنھیں اپنے سوا اور کوئی دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ شیکسپیئر نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے Merchant of Venice میں ایک یہودی تاجر شائی لاک کا بھیانک کردار پیش کیا ہے جو تاجر کے ذہن کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ تاجر کس طرح انسانیت کے مقام سے گر جاتا ہے اور اپنے قرض خواہ کے جسم کا گو شت کا ٹکڑا لینے پر بضد نظرآتا ہے۔ دوسری طرف فاوسٹ دنیاوی آسائشوں اور عیاشیوں کے لیے اپنی روح شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیتا ہے یہ کہانی جتنی پرانی ہے اتنی ہی سچی ہے جو زندگی میں باربار دہرائی جاتی ہے اور اب ہمارے ملک میں دہرائی جارہی ہے۔

آج پاکستان میں انسان مکمل طورپر ہارچکا ہے اور انسان دشمن ذہنیت کی مکمل طورپر جیت ہوچکی ہے اس لیے ہمارے ملک کے صاحب اقتدار و اختیار اور رئیسوں اور امیروں کو مبارک ہو کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہو ۔ اب پاکستان کے لوگ کھو کھلے ،مردہ ، بے بس اوربے حس ہوچکے ہیں اب وہ اپنی بیچارگی ، ذلت ، بھوک ، بیماریوں اور گالیوں کو اپنا نصیب اور مقدر مان چکے ہیں ۔ اب ان کا مقصد اور جدوجہد صرف اور صرف اپنی سانسیں برقرار رکھنا ہوچکا ہے، اسی لیے آپ کو پورے ملک میں چار سو خاموشی ہی خاموشی نظرآتی ہے کیونکہ مردے کبھی نہیں بولتے اور چلاتے ہیں۔

کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ انسانی تاریخ میں قومیں کیوں ناکام ہوئی ہیں،وہ اس لیے ناکام ہوئیں،جب ان کے لوگ ناامید ہوگئے۔ انھوں نے خواب دیکھنا بند کر دیے اور جب سماجی ناانصافی کے عدم وجود کے بھوت نے ان کے سماجوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور یہ بھی کہ پرامن تبدیلی کے تمام راستے بند ہوگئے اورریاست کے تمام وسائل ، دولت، طاقت اور اختیار چند ہزارلوگوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ،ناکام قوموں کی فہرست میں اب ہمارا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔ کسی بھی ریاست کے جواز کا سب سے بڑا جواز عوام کی بہبود ہوتا ہے یعنی خوشحالی ، آزادی کو فروغ دینا انھیں طاقتور اور بااختیار بنانا اور ان کی غیر ضروری تکلیفوں میں کمی کی کوشش کرنا۔

ارکے بادشاہ ارنمو نے جس نے لگ بھگ 2100 قبل از مسیح میں حکومت کی اپنی رعایا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سر زمین پر انصاف قائم کرے گااور دکھ ، تکلیف اور تشدد کا خاتمہ کرے گا۔ اس کے ہزار وں سال بعد عہد جدید میں بھی مغربی حکومتیں اپنے لوگوں سے تحفظ ، خوشحالی ، فلاح و بہود ، انصاف ، سائنس اور تعلیم کی صورت میں علم فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہیں ، انتخابی معرکے اکثر و بیشتر تحفظ کے تقدم اوربہبود کے تقدم کے حق میں بحث و مباحثوں میں بدل جاتے ہیں ۔ یہ تمام اصول ہر ریاست کی کامیابی ، خوشحالی ، ترقی اور استحکام کا باعث بنتے ہیں ، جب کہ ہماری سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے ایک مربوط زاویہ نگاہ کھو دیا ہے، زندگی ہمارے لیے اس قدر پیچیدہ ہوگئی ہے کہ ہم اس کی وحدت اور اہمیت کی تھاہ نہیں لاسکتے۔

زندگی کے ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنی ہوکے رہ گئی ہے ۔ البرٹ شوائٹزر نے نوبیل انعام وصول کرتے وقت اپنے خطبے میں کہا تھا '' ایک دن امن اور خو شحالی کا راج ضرور ہوگا۔'' یہ الفاظ دسویں صدی قبل مسیح کے Amos نامی پیغمبر کے الفاظ میںپہلی بار ملے تھے اور یہودی اور عیسائی مذاہب میں یہ خدا کی سلطنت پر یقین کے معنوں میں لیا جاتا رہا ہے ،یہ چھٹی صدی قبل مسیح کے عظیم چینی مفکر ین کنفیو شس اور لا وتسے، پانچویں صدی قبل مسیح کے مائی تسے اور چوتھی صدی قبل مسیح کے منگ تسے کے نظر ئیے میں پایا جاتاہے۔

ٹو لسٹو ئے اور دوسرے ہم عصر مفکر ین میں یہ دوبارہ نمودار ہوتا ہے لوگوں نے اس کو یو ٹو پیا بھی کہا ہے مگر آج کے حالات ایسے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس کو حقیقت بننا چاہیے ورنہ انسانیت مکمل طور نیست و نابود ہوجائے گی۔ نوبیل انعام یافتہ پروفیسر رالف بنش اپنے بچپن کے بارے میں لکھتے ہیں ،جب ان کی نانی جسے وہ نانا کہتے تھے اور اس کی چار بالغ اولاد، اپنے اہل خاندان کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہا کرتے تھے ،یہ ایک باہم گتھا ہوا مادر سری خاندان تھا جس میں نانی غالب شخصیت تھیں ایک عورت جو غلامی میں پیدا ہوئی تھی حقیقی معنوں میں ایک غیرمعمولی شخصیت رہی ہوگی اس نے ہم سب کو سکھایا تھا اڑجانا ،اپنے حق کے لیے ،ذلت کی قبولیت سے انکار کردینا مگر کسی سے عداوت نہ رکھنا کہ یہ ہماری شخصیتوں میں بگاڑ پیدا کردیتی ہے وہ فلسفہ جو نانی نے ہمیں سکھایا تھا میں نے اپنے بچوں تک پہنچا دیا ہے۔

وہ کہا کرتی تھیں کہ برابری کی بنیاد پر سلوک ہرانسان کا پیدائشی حق ہے کبھی کسی کو اور طرح کے سلوک کی اجازت نہ دینا ۔ ہمارے سامنے بڑی اور بہت بڑی رکاوٹیں آئیں گی اور زندگی اسی طرح چلتی ہے مگر رکاوٹوں کے مقابل صرف وہ ہی ہتھیار ڈالتے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں راست باز رہو اور اپنے آپ سے اور ہمیشہ دنیا سے صاف گوئی کرو۔ جس کو تم صحیح سمجھتے ہو اس پر کبھی مصالحت نہ کرو۔ خود کبھی لڑائی مول نہ لو مگر جب تمہارے اصول دائو پر لگ جائیں تو فرار اختیار نہ کرو ۔ دنیا میں سر اونچا کرکے چلو اور اس کو ہمیشہ اونچا ہی رکھو۔ '' دنیا میں سر اونچا کرکے داخل ہو،حق کے لیے لڑو ایک آدمی کے لیے یہ کتنے قیمتی الفاظ ہوتے ہیں اس بات کو وہ ہی انسان سمجھ سکتے ہیں، جنھیں اپنے انسان ہونے پر فخر ہو تاہے۔

یاد رکھو میرے ہم وطنو ! تم بھی پہاڑ جیسی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہو تم میں بھی اتنی ہی صلاحیتیں اور قابلیتیں ہیں جو دوسروں میں ہیں اس لیے ذرا خود کو پہچانو اپنے آپ کی عزت کرو۔ اپنے آپ سے محبت کرو ، اپنا سر اونچا کرکے جیو۔ برابری کی بنیاد پر سلوک تمہارا پیدائشی حق ہے اپنے حق کے لیے لڑو۔
Load Next Story