وکٹ پر رُکو خان صاحب
خان صاحب در اصل لاڈلے تھے وہ کھیلنے کے لیے چاند مانگ رہے تھے۔ قرضے در قرضے چڑھاتے گئے
کیا یہ خان صاحب کو پتا نہیں ہے کہ سیاست میں سب سے طاقتور دھڑا اسٹبلشمنٹ ہے۔ یہ نواز شریف کے ساتھ ہوںتو وہ طاقتور،بے نظیر کے ساتھ ہوں تو وہ طاقتور۔بھٹو انکے ساتھ کھڑے ہوئے تو وہ طاقتور۔
خان صاحب نے کون سے کام کیے جس سے امریکا ناراض ہوگیا اور سازش کر ڈالی؟ بات اگر پاکستان کو کمزور کرنے کی ہے تو یہ کام تو خان صاحب نے خود ہی کیا اور خوب کیا۔ وہ ہمیں آزاد نہیں بلکہ دو چوہدریوں کی لڑائی میں ایک کا ساتھ دیکر دوسرے کی دشمنی مول لینے والی خارجہ پالیسی میں پھنسا رہے تھے۔ہماری اسٹبلشمنٹ کے لیے خان صاحب کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ کسی کی بھی نہیں ہے، اس نے جو کرنا تھا، جس کی ضرورت تھی ، وہ کرلیا ۔ انھوں نے باہری دنیا کا اعتماد جیتنا تھا ، وہ جیت لیا۔
خان صاحب در اصل لاڈلے تھے وہ کھیلنے کے لیے چاند مانگ رہے تھے۔ قرضے در قرضے چڑھاتے گئے، مہنگائی در مہنگائی ہوتی گئی، اقربا پروری کے بازار لگ گئے۔ گوگی صاحبہ کا قصہ الگ اور اوپر سے اسٹبلشمنٹ سے جھگڑا کر بیٹھے۔ یہ بات چوہدری پرویز الٰہی، فواد چوہدری اور شیخ رشید ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں تو پھر... تو پھر امریکی سازش کہاں ہے؟آپ نت نہ بھٹو کی طرح ملک کو ایٹمی طاقت بنایا، نہ اسلامی سربراہی کانفرنس کی، نہ کشمیر پر واضح اور ڈٹ کے کھڑے ہوئے، نہ ایٹمی دھماکے کیے تو پھر سازش کیسی؟
نہ اقامہ کے ذریعے ان کو نکالا گیا، نہ استعفیٰ پر مجبور کیا گیا جس طرح جنرل کاکڑ نے نواز شریف اور اسحاق خان کے جھگڑے کے وقت کیا تھا۔ نہ ٹرپل ون بریگیڈ نے انکی دہلیز پر دستک دی ، نہ کسنجر کی طرح وزیر خارجہ آیا اور بھٹو کو جس طرح کہا کہ '' ایٹم بم نہ بنائو''، نہ پرویز مشرف کی طرح دھمکی والی فون کال آئی ۔ خان صاحب کے اتحادی انھیں چھوڑ گئے، انکے نمبر پورے نہ ہوئے، وہ گر گئے۔ ان کی پارٹی کے باغیوں کے ووٹ کی نوبت ہی نہ آئی تو پھر شاہ زین بگٹی، اختر مینگل، ایم کیو ایم وغیرہ لوٹے کیسے ہوئے، وہ انکی پارٹی کے ممبر تھوڑی تھے۔
ہندوستان کی تاریخ میں کئی تحاریک عدم اعتماد آئیں،کچھ کامیاب ہوئیں، کچھ نہیں، یہی کچھ برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں بار بار ہوا، یہ تو جمہوریت کا حسن ہے۔ عین آئین کے مطابق ہے۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عین آئین کے مطابق بھی جو کام ہو، وہ بھی سازش ہے۔
خان صاحب کی پرفارمنس ہوتی تو وہ اپوزیشن کو بہت کمزور کرچکے ہوتے جس طرح شیخ حسینہ واجدنے بنگلہ دیش میں کیا ۔ سب کو پتہ ہے آپ کی کامیابی کا راز آر ٹی ایس سسٹم ناکام ہونے کا عمل تھا۔ تب ہی تو آصف زرداری نے ہائوس کے فلور پرتین سال پہلے کہا تھا ''ہم نے آپ کو گرانا نہیں ہے، گرنا آپ نے خود ہے۔'' اور خان صاحب نے جو بھی تین چار سال پورے کیے وہ اسٹبلشمنٹ کی مدد کی وجہ سے کیے ، اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی ، خان صاحب گر پڑے۔
امریکی سازشیں، آزاد خارجہ پالیسی آپ کا استحقاق ہی نہیں، نہ ہی آپ محمد خان جونیجو ہیں جنھوں نے ضیاء الحق کی پالیسی کے خلاف جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیے تو پھر جو ان کا جو حشر ہوا، وہ بھی آپ کو پتا ہے اور نہ ہی یہ ظفر اللہ جمالی کی مد میں آتا تھا۔ آپ بھی شوکت عزیز وغیرہ جیسی ایک شکل تھے ،فرق یہ ہے کہ اربن پاکستان میں آپ کے مداحوں کی طویل لسٹ ہے اور وہ جلسے جلوس کر سکتے ہیں، احتجاج وغیرہ بھی لیکن 2018 کی طرح آپ اب جیتنے سے قاصر ہیں،آپ اتنے ہی ہیں جتنے 2013 میں تھے یا شاید اس سے بھی کم۔
خان صاحب کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو سب سے پہلے مضبوط کرنا ہوگا، مگر خان صاحب پہلے سویلین سربراہ جنھوں نے آئین توڑا ، وکٹیں اکھاڑ کے میدان سے بھاگ گئے۔ اس میں امریکی سازش کا کیا کرنا۔
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسمان کیوں ہو
خان صاحب اس عدم اعتماد کے نتیجے پر جس طرح غصے میں ہیں وہ کسی اور کے لیے نقصان دہ ہو نہ ہو مگر یہ غصہ انھیں اور ان کی پارٹی کو ایک بند گلی میں لاچکا ہے۔ ان کے ساتھ کوئی بھی پارٹی بیٹھنے کو تیار نہیں۔اسٹبلیشمنٹ بھی ان سے بہت دور نکل چکی، ان کی مبینہ بے نامی فرح گوگی کے خلاف بہت سے مقد مات تیار ہورہے ہیں، وہ ایک بہت بڑے عتاب سے گذر رہے ہیں، ایسے وقتوں میں جو عوام میں جڑیں رکھتے ہیں ،وہ برداشت کرسکتے ہیں۔
1997 کی انتخابات کے بعد بے نظیر اس قومی اسمبلی میں 35 سیٹوں سے بیٹھی تھی۔ دور دور تک اقتدار کی جھلک نظر نہیں آئی تھی ان کو مگر وہ کھیلیں اور آج ان کا بیٹا وزیر خارجہ ہے۔ یہ جو دائیں بازو کا پاپولرازم ہے وہ زیادہ دیر نہیں چلے گا، بھلے وہ کیوں نہ بائیں بازو کا پاپولرازم ہو، اس ملک کی مخصوص تاریخ ہے۔ آپ سے بڑے بڑے مذہب کے دعویدار بیٹھے، یہ ضیاء الحق والا ورثہ آپ کے ہتھے نہیں چڑھنے والا، نہ طالبان کا کوئی مستقبل ہے جن کے ساتھ اس وقت نہ سعودی عرب ہے نہ متحدہ عرب امارات۔ بس ایک روس ہے جنھوں نے انکے ساتھ ایک طرح سے سفارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔
یورپی یونین اور امریکا نے جو آپ کے دورہ روس کے دورے پر احتجاج کیا وہ فطری عمل تھا اس بڑھتی ہوئی سرد جنگ میں۔ آپ کا روس کے ساتھ کوئی دفاعی معاہدہ ساز و سامان نہیں، لیکن ہندوستا ن کا ہے۔ اس پر بھی امریکا نے یورپی یونین نے پریشر بڑھادیا ہے، آج کل وہ بھی ہوا کا رخ دیکھ کر جرمنی اور یورپ کی یاترا پر نکل پڑے ہیں۔ یقینا ہندوستان جو امریکا کا اس خطے میں اتحادی ہے۔ اسے اپنی معیشت ،دفاعی حوالے روس کے طرف فطری جھکائو ہے وہ کم کرنا پڑے گا تو کیا امریکا ہندوستان میں مداخلت کررہا ہے؟
بہتر یہی ہے خان صاحب کے لیے کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے اتنا ٹکرائو مت لیں، آپ کی پارٹی واحد پارٹی ہے جس میں موروثی چھاپ نہیں کل اس پارٹی کا نیا لیڈر ہوسکتا ہے فواد چوہدری ہو یا اسد عمر ہو ان کے لیے کچھ اسی طرح سے چیزیں رکھ کے چلے جائیں جس طرح بے نظیر اپنے بیٹے بلاول کے لیے رکھ کر گئی ہے ،ورنہ سندھ میں اس وقت کھپے کھپے پاکستان کھپے کا نعرہ لگانا مشکل تھا۔
یہ نہیں کہ پارٹی کو اتنا شدید نقصان پہنچے جس طرح الطاف حسین کے انتہا پرست رویے نے متحدہ کو ایک بند گلی میں لاکے کھڑا کردیا۔
خان صاحب نے کون سے کام کیے جس سے امریکا ناراض ہوگیا اور سازش کر ڈالی؟ بات اگر پاکستان کو کمزور کرنے کی ہے تو یہ کام تو خان صاحب نے خود ہی کیا اور خوب کیا۔ وہ ہمیں آزاد نہیں بلکہ دو چوہدریوں کی لڑائی میں ایک کا ساتھ دیکر دوسرے کی دشمنی مول لینے والی خارجہ پالیسی میں پھنسا رہے تھے۔ہماری اسٹبلشمنٹ کے لیے خان صاحب کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ کسی کی بھی نہیں ہے، اس نے جو کرنا تھا، جس کی ضرورت تھی ، وہ کرلیا ۔ انھوں نے باہری دنیا کا اعتماد جیتنا تھا ، وہ جیت لیا۔
خان صاحب در اصل لاڈلے تھے وہ کھیلنے کے لیے چاند مانگ رہے تھے۔ قرضے در قرضے چڑھاتے گئے، مہنگائی در مہنگائی ہوتی گئی، اقربا پروری کے بازار لگ گئے۔ گوگی صاحبہ کا قصہ الگ اور اوپر سے اسٹبلشمنٹ سے جھگڑا کر بیٹھے۔ یہ بات چوہدری پرویز الٰہی، فواد چوہدری اور شیخ رشید ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں تو پھر... تو پھر امریکی سازش کہاں ہے؟آپ نت نہ بھٹو کی طرح ملک کو ایٹمی طاقت بنایا، نہ اسلامی سربراہی کانفرنس کی، نہ کشمیر پر واضح اور ڈٹ کے کھڑے ہوئے، نہ ایٹمی دھماکے کیے تو پھر سازش کیسی؟
نہ اقامہ کے ذریعے ان کو نکالا گیا، نہ استعفیٰ پر مجبور کیا گیا جس طرح جنرل کاکڑ نے نواز شریف اور اسحاق خان کے جھگڑے کے وقت کیا تھا۔ نہ ٹرپل ون بریگیڈ نے انکی دہلیز پر دستک دی ، نہ کسنجر کی طرح وزیر خارجہ آیا اور بھٹو کو جس طرح کہا کہ '' ایٹم بم نہ بنائو''، نہ پرویز مشرف کی طرح دھمکی والی فون کال آئی ۔ خان صاحب کے اتحادی انھیں چھوڑ گئے، انکے نمبر پورے نہ ہوئے، وہ گر گئے۔ ان کی پارٹی کے باغیوں کے ووٹ کی نوبت ہی نہ آئی تو پھر شاہ زین بگٹی، اختر مینگل، ایم کیو ایم وغیرہ لوٹے کیسے ہوئے، وہ انکی پارٹی کے ممبر تھوڑی تھے۔
ہندوستان کی تاریخ میں کئی تحاریک عدم اعتماد آئیں،کچھ کامیاب ہوئیں، کچھ نہیں، یہی کچھ برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں بار بار ہوا، یہ تو جمہوریت کا حسن ہے۔ عین آئین کے مطابق ہے۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عین آئین کے مطابق بھی جو کام ہو، وہ بھی سازش ہے۔
خان صاحب کی پرفارمنس ہوتی تو وہ اپوزیشن کو بہت کمزور کرچکے ہوتے جس طرح شیخ حسینہ واجدنے بنگلہ دیش میں کیا ۔ سب کو پتہ ہے آپ کی کامیابی کا راز آر ٹی ایس سسٹم ناکام ہونے کا عمل تھا۔ تب ہی تو آصف زرداری نے ہائوس کے فلور پرتین سال پہلے کہا تھا ''ہم نے آپ کو گرانا نہیں ہے، گرنا آپ نے خود ہے۔'' اور خان صاحب نے جو بھی تین چار سال پورے کیے وہ اسٹبلشمنٹ کی مدد کی وجہ سے کیے ، اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی ، خان صاحب گر پڑے۔
امریکی سازشیں، آزاد خارجہ پالیسی آپ کا استحقاق ہی نہیں، نہ ہی آپ محمد خان جونیجو ہیں جنھوں نے ضیاء الحق کی پالیسی کے خلاف جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیے تو پھر جو ان کا جو حشر ہوا، وہ بھی آپ کو پتا ہے اور نہ ہی یہ ظفر اللہ جمالی کی مد میں آتا تھا۔ آپ بھی شوکت عزیز وغیرہ جیسی ایک شکل تھے ،فرق یہ ہے کہ اربن پاکستان میں آپ کے مداحوں کی طویل لسٹ ہے اور وہ جلسے جلوس کر سکتے ہیں، احتجاج وغیرہ بھی لیکن 2018 کی طرح آپ اب جیتنے سے قاصر ہیں،آپ اتنے ہی ہیں جتنے 2013 میں تھے یا شاید اس سے بھی کم۔
خان صاحب کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو سب سے پہلے مضبوط کرنا ہوگا، مگر خان صاحب پہلے سویلین سربراہ جنھوں نے آئین توڑا ، وکٹیں اکھاڑ کے میدان سے بھاگ گئے۔ اس میں امریکی سازش کا کیا کرنا۔
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسمان کیوں ہو
خان صاحب اس عدم اعتماد کے نتیجے پر جس طرح غصے میں ہیں وہ کسی اور کے لیے نقصان دہ ہو نہ ہو مگر یہ غصہ انھیں اور ان کی پارٹی کو ایک بند گلی میں لاچکا ہے۔ ان کے ساتھ کوئی بھی پارٹی بیٹھنے کو تیار نہیں۔اسٹبلیشمنٹ بھی ان سے بہت دور نکل چکی، ان کی مبینہ بے نامی فرح گوگی کے خلاف بہت سے مقد مات تیار ہورہے ہیں، وہ ایک بہت بڑے عتاب سے گذر رہے ہیں، ایسے وقتوں میں جو عوام میں جڑیں رکھتے ہیں ،وہ برداشت کرسکتے ہیں۔
1997 کی انتخابات کے بعد بے نظیر اس قومی اسمبلی میں 35 سیٹوں سے بیٹھی تھی۔ دور دور تک اقتدار کی جھلک نظر نہیں آئی تھی ان کو مگر وہ کھیلیں اور آج ان کا بیٹا وزیر خارجہ ہے۔ یہ جو دائیں بازو کا پاپولرازم ہے وہ زیادہ دیر نہیں چلے گا، بھلے وہ کیوں نہ بائیں بازو کا پاپولرازم ہو، اس ملک کی مخصوص تاریخ ہے۔ آپ سے بڑے بڑے مذہب کے دعویدار بیٹھے، یہ ضیاء الحق والا ورثہ آپ کے ہتھے نہیں چڑھنے والا، نہ طالبان کا کوئی مستقبل ہے جن کے ساتھ اس وقت نہ سعودی عرب ہے نہ متحدہ عرب امارات۔ بس ایک روس ہے جنھوں نے انکے ساتھ ایک طرح سے سفارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔
یورپی یونین اور امریکا نے جو آپ کے دورہ روس کے دورے پر احتجاج کیا وہ فطری عمل تھا اس بڑھتی ہوئی سرد جنگ میں۔ آپ کا روس کے ساتھ کوئی دفاعی معاہدہ ساز و سامان نہیں، لیکن ہندوستا ن کا ہے۔ اس پر بھی امریکا نے یورپی یونین نے پریشر بڑھادیا ہے، آج کل وہ بھی ہوا کا رخ دیکھ کر جرمنی اور یورپ کی یاترا پر نکل پڑے ہیں۔ یقینا ہندوستان جو امریکا کا اس خطے میں اتحادی ہے۔ اسے اپنی معیشت ،دفاعی حوالے روس کے طرف فطری جھکائو ہے وہ کم کرنا پڑے گا تو کیا امریکا ہندوستان میں مداخلت کررہا ہے؟
بہتر یہی ہے خان صاحب کے لیے کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے اتنا ٹکرائو مت لیں، آپ کی پارٹی واحد پارٹی ہے جس میں موروثی چھاپ نہیں کل اس پارٹی کا نیا لیڈر ہوسکتا ہے فواد چوہدری ہو یا اسد عمر ہو ان کے لیے کچھ اسی طرح سے چیزیں رکھ کے چلے جائیں جس طرح بے نظیر اپنے بیٹے بلاول کے لیے رکھ کر گئی ہے ،ورنہ سندھ میں اس وقت کھپے کھپے پاکستان کھپے کا نعرہ لگانا مشکل تھا۔
یہ نہیں کہ پارٹی کو اتنا شدید نقصان پہنچے جس طرح الطاف حسین کے انتہا پرست رویے نے متحدہ کو ایک بند گلی میں لاکے کھڑا کردیا۔