خود پے بات آئی تو پتہ چلا
تحریک انصاف کے قائدین لپیٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کو توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کا خیال آیا ہے
شیخ رشید سیاسی مخالفین کے بارے میں ذومعنی اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ جب وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کا اعلان ہوا تو انھوں نے کہا تھا کہ ان چوروں کو وہاں بھی جوتے پڑیں گے۔
یہی بیان ان کے گلے پڑا ہوا ہے کیونکہ سعودی عرب میں جب پاکستانی وفد مسجد نبوی میں حاضری کے لیے گیا تو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وفاقی وزیر شاہ زین بگٹی سب سے آخر میں چل رہے تھے۔ زائرین کے روپ میں وہاں موجود پاکستانیوں کے ایک گروہ نے چور، چور کے نعرے لگائے۔ شاہ زین بگٹی کے بالوں کو کھینچا۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی حکام نے پانچ پاکستانیوں کو گرفتار بھی کر لیا۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے الزام لگایا کہ عمران خان کے کہنے پر پاکستانی وفد کے خلاف نعرے لگے۔ یہ لوگ مسجد نبوی کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔
پنجاب کے کئی شہروں میں عمران خان، شیخ رشید اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے الزامات میں مقدمات درج ہوئے۔ شیخ رشید کے بھتیجے اور رکن قومی اسمبلی شیخ راشد کو جدہ سے واپسی پر اسلام آباد ایئر پورٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے لال حویلی کے سامنے مظاہرہ کیا۔ سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی جنھیں 2018 میں نارکوٹکس کے ایک مقدمہ میں ملوث کر کے انتخاب کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا اور طویل عرصہ وہ جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے تھے اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے انھیں بری کر دیا تھا، انھوں نے ایک عجیب و غریب اعلان کیا کہ جو شخص شیخ رشید کی وگ اتار کر لائے گا اس کو 50 ہزار روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں کئی ایسے قوانین نافذ کیے گئے جنھیں مخصوص انتہاپسند گروپوں اور طاقت ور مافیا نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ۔ بیگناہ اور کمزور لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرائے جاتے رہے۔ پاکستان میں ویسے ہی تمام قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت نے انتخابی قوانین کی تیاری کے لیے قومی اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی تھی۔
تحریک انصاف کے شفقت محمود بھی اس کمیٹی میں شامل تھے ، کمیٹی نے متفقہ طور پر قوانین تیار کیے۔ جب قوانین منظور ہوگئے تو اس وقت شیخ رشید نے مذہبی بنیادوں پر ان قوانین میں خرابی کا شور مچایا تھا جس پر ملک میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی۔ تحریک انصاف والوں نے بھی احتجاج شروع کیے۔
راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر ہفتوں دھرنا دیا گیا پھر ایک معاہدہ ہوا جسکے نتیجے میں دھرنا ختم ہوگیا لیکن پاکستان کے معاشرے پر اس کے اثرات بہت گہرے تھے، وفاقی وزیر احسن اقبال پر ان کے حلقہ انتخاب میں ایک مشتعل نوجوان نے گولی چلائی۔ ان کی جان بچ گئی اور وہ کئی ہفتے اسپتال میں رہے۔
میاں نواز شریف لاہور کے ایک مدرسہ میں گئے ،ان پر وہاں جوتا پھینکا گیا۔ گزشتہ 42 برسوں میں پاکستان میں انتہا پسند بیانئے کو بڑھاوا دیا گیا۔ ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں چپ رہیں حتیٰ کے ماڈریٹ اور معتدل کہلانے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی اقتدار کا کھیل کھیلنے میں مصروف رہیں۔
اب تحریک انصاف کے قائدین لپیٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کو توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کا خیال آیا ہے۔ ان کی پھرتیاں دیکھیں کہ عمران خان کی ہدایت پر شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کے نمایندہ خصوصی کو فوراً ایک خط تحریر کرڈالا ہے۔ شیریں مزاری کو یاد ہونا چاہیے کہ فیض آباد دھرنا کے فورا بعد ان کی صاحبزادی دعا مزاری ایڈووکیٹ نے مذہبی کارڈ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی تھی تو وہ چراغ پا ہوگئی تھیں۔
حال ہی میں عمران خان نے اپنے احتجاج کو مقدس بنانے کے لیے امر باالمعروف کی قرانی آیت کا استعمال کیا، حالانکہ تحریک انصاف کے قائدین کی عملی زندگی انتہائی ماڈرن ہے لیکن وہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کارڈ کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ فیض آباد دھرنا کے تناظر میں سپریم کورٹ کے فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ نے تاریخی فیصلہ دیا تھا۔ سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان اس فیصلہ کی بناء پر قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کو تیار ہوئے تھے۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد انھوں نے اسے اپنی غلطی تسلیم کیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے عید کی تعطیلات کے دوران تحریک انصاف کی عرض داشت پر ان کے قومی اسمبلی کے اراکین کی گرفتاری کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اجازت سے مشروط کیا ہے۔ تحریک انصاف والے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ یعنی اب تپش چونکہ خاص طبقے تک پہنچی ہے تو چیخیں بلند ہورہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے غلط استعمال پر مقدمات درج کرنے کی مذمت کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اﷲ بابر کا مؤقف بھی یہی ہے۔ عید کے دن اخبارات میں چھپنے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے بھی ان مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ کسی حکومت یا گروہ کو مذہب کو مخالفین کو معتوب کرنے کے لیے استعمال کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال پر کم سے کم قوم سے معذرت ضروری کرنی چاہیے۔
یہی بیان ان کے گلے پڑا ہوا ہے کیونکہ سعودی عرب میں جب پاکستانی وفد مسجد نبوی میں حاضری کے لیے گیا تو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وفاقی وزیر شاہ زین بگٹی سب سے آخر میں چل رہے تھے۔ زائرین کے روپ میں وہاں موجود پاکستانیوں کے ایک گروہ نے چور، چور کے نعرے لگائے۔ شاہ زین بگٹی کے بالوں کو کھینچا۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی حکام نے پانچ پاکستانیوں کو گرفتار بھی کر لیا۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے الزام لگایا کہ عمران خان کے کہنے پر پاکستانی وفد کے خلاف نعرے لگے۔ یہ لوگ مسجد نبوی کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔
پنجاب کے کئی شہروں میں عمران خان، شیخ رشید اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے الزامات میں مقدمات درج ہوئے۔ شیخ رشید کے بھتیجے اور رکن قومی اسمبلی شیخ راشد کو جدہ سے واپسی پر اسلام آباد ایئر پورٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے لال حویلی کے سامنے مظاہرہ کیا۔ سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی جنھیں 2018 میں نارکوٹکس کے ایک مقدمہ میں ملوث کر کے انتخاب کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا اور طویل عرصہ وہ جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے تھے اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے انھیں بری کر دیا تھا، انھوں نے ایک عجیب و غریب اعلان کیا کہ جو شخص شیخ رشید کی وگ اتار کر لائے گا اس کو 50 ہزار روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں کئی ایسے قوانین نافذ کیے گئے جنھیں مخصوص انتہاپسند گروپوں اور طاقت ور مافیا نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ۔ بیگناہ اور کمزور لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرائے جاتے رہے۔ پاکستان میں ویسے ہی تمام قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت نے انتخابی قوانین کی تیاری کے لیے قومی اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی تھی۔
تحریک انصاف کے شفقت محمود بھی اس کمیٹی میں شامل تھے ، کمیٹی نے متفقہ طور پر قوانین تیار کیے۔ جب قوانین منظور ہوگئے تو اس وقت شیخ رشید نے مذہبی بنیادوں پر ان قوانین میں خرابی کا شور مچایا تھا جس پر ملک میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی۔ تحریک انصاف والوں نے بھی احتجاج شروع کیے۔
راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر ہفتوں دھرنا دیا گیا پھر ایک معاہدہ ہوا جسکے نتیجے میں دھرنا ختم ہوگیا لیکن پاکستان کے معاشرے پر اس کے اثرات بہت گہرے تھے، وفاقی وزیر احسن اقبال پر ان کے حلقہ انتخاب میں ایک مشتعل نوجوان نے گولی چلائی۔ ان کی جان بچ گئی اور وہ کئی ہفتے اسپتال میں رہے۔
میاں نواز شریف لاہور کے ایک مدرسہ میں گئے ،ان پر وہاں جوتا پھینکا گیا۔ گزشتہ 42 برسوں میں پاکستان میں انتہا پسند بیانئے کو بڑھاوا دیا گیا۔ ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں چپ رہیں حتیٰ کے ماڈریٹ اور معتدل کہلانے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی اقتدار کا کھیل کھیلنے میں مصروف رہیں۔
اب تحریک انصاف کے قائدین لپیٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کو توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کا خیال آیا ہے۔ ان کی پھرتیاں دیکھیں کہ عمران خان کی ہدایت پر شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کے نمایندہ خصوصی کو فوراً ایک خط تحریر کرڈالا ہے۔ شیریں مزاری کو یاد ہونا چاہیے کہ فیض آباد دھرنا کے فورا بعد ان کی صاحبزادی دعا مزاری ایڈووکیٹ نے مذہبی کارڈ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی تھی تو وہ چراغ پا ہوگئی تھیں۔
حال ہی میں عمران خان نے اپنے احتجاج کو مقدس بنانے کے لیے امر باالمعروف کی قرانی آیت کا استعمال کیا، حالانکہ تحریک انصاف کے قائدین کی عملی زندگی انتہائی ماڈرن ہے لیکن وہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کارڈ کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ فیض آباد دھرنا کے تناظر میں سپریم کورٹ کے فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ نے تاریخی فیصلہ دیا تھا۔ سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان اس فیصلہ کی بناء پر قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کو تیار ہوئے تھے۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد انھوں نے اسے اپنی غلطی تسلیم کیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے عید کی تعطیلات کے دوران تحریک انصاف کی عرض داشت پر ان کے قومی اسمبلی کے اراکین کی گرفتاری کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اجازت سے مشروط کیا ہے۔ تحریک انصاف والے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ یعنی اب تپش چونکہ خاص طبقے تک پہنچی ہے تو چیخیں بلند ہورہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے غلط استعمال پر مقدمات درج کرنے کی مذمت کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اﷲ بابر کا مؤقف بھی یہی ہے۔ عید کے دن اخبارات میں چھپنے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے بھی ان مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ کسی حکومت یا گروہ کو مذہب کو مخالفین کو معتوب کرنے کے لیے استعمال کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال پر کم سے کم قوم سے معذرت ضروری کرنی چاہیے۔