نئے وزیر صحت اور صحت کارڈ کا مستقبل

عبدالقادر پٹیل صاحب کو وزیر صحت تو بنا دیا گیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محکمے کی اپنی صحت خاصی کمزور ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

ISLAMABAD:
وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی نئی حکومت میں عبدالقادر پٹیل صاحب کو پاکستان کا نیا وزیر صحت بنایا گیا ہے ۔ پٹیل صاحب کا تعلق کراچی کے حلقہ لیاری سے ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ لیاری میں یا تو فٹ بال کھلاڑیوں کی نرسری بکثرت پائی جاتی ہے یا لیاری میں پیپلز پارٹی کا جیالا ووٹ پایا جاتا ہے ۔عبدالقادر پٹیل صاحب پیپلز پارٹی کے کمٹڈ، تجربہ کار، جیالے رکن اور پُرجوش سیاستدان ہیں ۔ انھیں سسرال کی طرف سے بھی سیاست ورثے میں ملی ہے ۔پہلے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے تھے اور پھر آپ نے قدم آگے بڑھائے اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے ۔

پیپلز پارٹی کے اُن ارکانِ اسمبلی میں سے ایک اور نمایاں ہیں جو جرأت سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے سامنے سینہ ٹھونک کر بات کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔ عبدالقادر پٹیل (سابق وزیر اعظم) جناب عمران خان کی حکومت کے دوران اُن مشہور ارکانِ قومی اسمبلی میں سے تھے جنھوں نے اسمبلی کے فلور پر پی ٹی آئی کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ عمران خان کے چاہنے والے اسمبلی میں اُن کی تقاریر سے خاصے اور اکثر اوقات نالاں رہتے تھے ۔

عمران خان کی حکومت میں وفاقی صحت کی وزارت ڈاکٹر فیصل سلطان کے پاس تھی ۔ شنید ہے کہ فیصل سلطان صاحب نے اپنے باس کی ہدایات کی روشنی میں کئی اچھے اقدامات بھی کیے ۔ مبینہ طور پر کووڈ 19کی وبا کا بہادری اور کامیابی سے مقابلہ کرنا ۔ شہباز شریف کی نئی حکومت میں مگر ان مبینہ کامیابیوں کے بطن سے کوئی نئی شئے نکالی جا رہی ہے چنانچہ ڈاکٹر فیصل سلطان کی کامیابیوں کی مستند تصدیق ہونا ابھی باقی ہے ۔

جناب عبدالقادر پٹیل کو ڈاکٹر فیصل سلطان کی جگہ بٹھایا گیا ہے تو بعض اطراف سے مخالفت اور طنز کی آوازیں بھی اُٹھی ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ صحت کی وفاقی وزارت کا قلمدان کسی پروفیشنل رکنِ اسمبلی کو دینا چاہیے تھا۔ سب سے بڑا اعتراض یہ اُٹھایا گیا ہے کہ پٹیل صاحب چونکہ ، ڈاکٹر فیصل سلطان کے برعکس، پروفیشنل ڈاکٹر نہیں ہیں، اس لیے صحت کی وفاقی وزارت انھیں سونپ دینا سنجیدگی کا مظہر نہیں ہے۔

ممکن ہے یہ اعتراضات کسی قدر بجا بھی ہوں ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ جس رُکن اسمبلی کو جو وفاقی وزارت دی جائے ، وہ اس وزارت کے لیے پروفیشنل تعلیم اور تجربے کا بھی حامل ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر خان صاحب کی حکومت میں جناب پرویز خٹک کو وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پرویز خٹک صاحب کو دفاعی اُمور کا کتنا اور کہاں تک تجربہ اور مشاہدہ حاصل تھا ؟ اِسی ضمن میں کئی مزید مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں ۔

عبدالقادر پٹیل صاحب کو وزیر صحت تو بنا دیا گیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محکمے کی اپنی صحت خاصی کمزور ہے ۔ وفاقی وزارتِ صحت کو کئی گمبھیر مسائل و مصائب کاسامنا بھی ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ اتھارٹی اور فنڈز کی فراہمی کا ہے ۔ جب سے ، اٹھارویں ترمیم کے تحت ، صحت اور تعلیم کی وزارتیں مرکزی طور پر صوبوں کو دی گئی ہیں ، ان شعبوں کے وفاقی وزرا کی طاقت بھی نسبتاً کم ہو گئی ہے۔

ان لاتعداد مسائل کے باوصف اُمید یہی کی جارہی ہے کہ عبدالقادر پٹیل صاحب اپنے وزیر اعظم اور اپنے پارٹی چیئرمین کی قیادت اور ہدایات کی روشنی میں عوامی خدمت کی سنجیدہ سعی کرینگے ۔

پاکستان بھر کے میڈیکل کالجوں کے اُلجھے اور سنگین مسائل بھی پٹیل صاحب کو ورثے میں ملے ہیں ۔سب سے بڑا مسئلہ اُن کے سامنے مگر یہ ہے کہ آیا شہباز شریف کی حکومت میں وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل صاحب ''قومی صحت کارڈ'' کی جاری سہولتوں کو ، حسبِ سابق، جاری رکھ سکیں گے ؟ صحت کارڈ بارے کچھ اسپتالوں والے بھی افواہیں پھیلا رہے ہیں ۔


تاریخی طور پرکہنے کو تو یہ بات درست ہے کہ ''صحت کارڈ'' کی بنیاد رکھنے والے دراصل جناب نواز شریف تھے ۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ صحت کارڈ کو پی ٹی آئی کے پرچم میں رنگ کر عملی طور پر عمران خان کی حکومت نے متعارف کروایا ۔

اس کا کامیاب اور بھرپور تجربہ سب سے پہلے کے پی کے میں کیا گیا ۔ اس بارے پی ٹی آئی حکومت نے خوب تشہیر بھی کی ۔ اور پھر اس کامیاب تجربے کو پنجاب بھر میں بھی آزمایا گیا ۔ خان صاحب حکومت کا زوروں سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ اُس نے پنجاب کے ہر بڑے شہر میں قومی صحت کارڈ عوام تک پہنچا دیا ۔ اور یہ کہ '' لاتعداد '' لوگ اب اس صحت سہولت کارڈ سے مستفید اور فیضیاب ہو رہے ہیں ۔

کسی کے پاس بھی مگر صحیح تر ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ لمحہ موجود میں کتنے لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ صحت کارڈ سے بلا شبہ بہت سے لوگ استفادہ کررہے ہیں اور یہ کارڈ بہت سے تہی دستوں کے لیے کسی نعمت کبریٰ کے طور پر ظہور میں آیا ہے ۔

خصوصاً دل ، گردہ اور کینسر کے مہلک امراض زدگان کے لیے یہ کارڈ غریبوں کی دستگیری کررہا ہے ۔ یہ بات بھی مگر حقیقت ہے کہ صحت کارڈ استعمال کرنے والے اس کی بہت سی خامیوں بارے شاکی بھی ہیں ۔ اس کارڈ کی مبینہ سہولتوں کو آئیڈیل شکل بننے میں ابھی وقت لگے گا۔

وہ آئیڈیل وقت آنے سے قبل ہی مگر یہ آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کی نئی حکومت میں شاید اس صحت کارڈ کو بند کیا جارہا ہے ۔ اور یہ بھی کہ اب اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت گئی تو صحت کارڈ بھی اُن کے ساتھ ہی گیا۔

پچھلے چند ہفتوں کے دوران اِس پروپیگنڈہ کو خوب ہوا دی گئی ہے ۔ ایسی خبروں سے صحت کارڈ کی سہولتوں سے مستفید ہونیوالے سبھی مریض فطری طور پر پریشان ہیں۔

اس منفی پروپیگنڈہ کی بازگشت وزیر اعظم اور وزیر صحت کے کانوں تک بھی پہنچی ہے چنانچہ اس منفی فضا کو تحلیل اور زائل کرنے کے لیے خود عبدالقادر پٹیل کو سامنے آنا پڑا ہے ۔پٹیل صاحب گزشتہ روز اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے دَورے پر پہنچے تو صحافیوں نے انھیں گھیرلیا۔

سب کی زبان پر ایک ہی مشترکہ سوال تھا: کیا وزیر اعظم شہباز شریف کی نئی حکومت میں ''صحت سہولت کارڈ'' بند کیا جارہا ہے؟ عبدالقادر پٹیل صاحب نے تسلی سے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:'' اگرچہ صحت کارڈ کے بارے میں بہت سی شکایات موصول ہو رہی ہیں لیکن ہم صحت کارڈ کو بند نہیں کررہے ۔اس کارڈ کی فراہم کردہ سہولیات جاری رہیں گی ۔''

اِن غیر مبہم الفاظ سے صحت کارڈ کے استعمال کرنیوالوں کو شاید کچھ اطمینان ملاہو لیکن شکوک و شبہات کی تلوار ہنوز لٹک رہی ہے ۔ ضرورت مگر اس امر کی ہے کہ موجود شکوک کا ازالہ کرنے اور صحت کارڈ کے مستقبل بارے یقینی فضا پیدا کرنے کے لیے کسی روز خود وزیر اعظم جناب شہباز شریف قوم کے سامنے آئیں۔
Load Next Story