تیل مہنگا کرنے کی شرط پر آئی ایم ایف 18مئی کو مذاکرات کیلیے تیار
تیل پر وفاقی کابینہ میں اختلافات، مشکلات پر قابو پانے کے لیے دوست ملکوں سے فوری امداد کے امکانات بھی محدود
حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی سطح کے مذاکرات 18 مئی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے کا امکان ہے لیکن اس کے لیے حکومت پاکستان کو 15 مئی سے تیل پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینا ہو گی۔
حکومت پاکستان کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کیلیے 3دوست ملکوں سے فوری بیل آؤٹ پیکیج ملنے کی امید بھی فوری نظر نہیں آرہی۔ اگر حکومت پاکستان عالمی ادارے کی شرائط پوری کردیتی ہے تو وہ 8 ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی پر تیار ہوگا۔
ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے حکومت کو پیغام مل چکا ہے کہ اس کا وفد18مئی کو دوحہ پہنچ رہا ہے۔مذاکرات میں جانے سے قبل وزیراعظم شہبازشریف کو اپنی کابینہ کو اعتماد میں لینا ہوگا اورپروگرام کی راہ میں حائل رکاوٹیں دورکرنا ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے وزارت خزانہ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک بار پھر آئی ایم ایف سے درخواست کریں کہ وہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی شرط میں جزوی طورپر نرمی کرے ،پاکستان چین کے 2.3 ارب ڈالر کمرشل قرضہ کو مؤخرکیے جانے کا بھی انتظار کررہا ہے۔پاکستان نے چین کے اس قرضہ میں ایک ارب ڈالر اسی ماہ ادا کرنا ہیں۔
پاکستان نے چین کو2.3 ارب ڈالرگزشتہ مارچ میں اس امید کے ساتھ واپس کردیئے تھے کہ اسے یہ رقم اپریل میں واپس مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ چین اس کیلئے شرط لگا رہاہے کہ اس رقم کو زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم کرنے کے سوا کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس قرضہ کو کم ازکم چینی درآمدات کی ادائیگی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دیدی جائے۔
یہ معاملہ ابھی تک زیرالتوا ہے،وزیراعظم شہبازشریف کے پہلے دورہ چین کی بھی تاریخیں طے نہیں کی جارہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان اس قرضہ کے ضمن میں کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پا رہا۔وزارت خزانہ کے ذرائع اس پر خاموش ہیں۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے قبل سعودی عرب سے بھی کسی فوری امداد کے امکانات بھی بہت زیادہ نہیں تاہم ایک بات کا امکان موجودہے کہ سعودی عرب پاکستان کے خزانے میں رکھے گئے اپنے تین ارب ڈالر واپس لینے کا تقاضا نہیں کرے گا۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران اس کے 6 ارب ڈالر قرضہ پروگرام کی مدت جوستمبر2022ء میں ختم ہورہی ہے میں ایک سال توسیع اور قرضہ کا حجم بھی6 سے بڑھا کر8 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی تھی۔پاکستان کو اس قرضہ کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس اس وقت 10.5ارب ڈالر موجود ہیں ان میں بھی4 ارب ڈالر چین، 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور 2.5 ارب ڈالر متحدہ عرب امارات کے ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے پاکستانی روپے کوسہارا دینے کیلئے اربوں ڈالر ایکسچینج مارکیٹ میں جھونکے لیکن وہ زرمبادلہ کو مستحکم رکھنے کی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
حکومت پاکستان کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کیلیے 3دوست ملکوں سے فوری بیل آؤٹ پیکیج ملنے کی امید بھی فوری نظر نہیں آرہی۔ اگر حکومت پاکستان عالمی ادارے کی شرائط پوری کردیتی ہے تو وہ 8 ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی پر تیار ہوگا۔
ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے حکومت کو پیغام مل چکا ہے کہ اس کا وفد18مئی کو دوحہ پہنچ رہا ہے۔مذاکرات میں جانے سے قبل وزیراعظم شہبازشریف کو اپنی کابینہ کو اعتماد میں لینا ہوگا اورپروگرام کی راہ میں حائل رکاوٹیں دورکرنا ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے وزارت خزانہ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک بار پھر آئی ایم ایف سے درخواست کریں کہ وہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی شرط میں جزوی طورپر نرمی کرے ،پاکستان چین کے 2.3 ارب ڈالر کمرشل قرضہ کو مؤخرکیے جانے کا بھی انتظار کررہا ہے۔پاکستان نے چین کے اس قرضہ میں ایک ارب ڈالر اسی ماہ ادا کرنا ہیں۔
پاکستان نے چین کو2.3 ارب ڈالرگزشتہ مارچ میں اس امید کے ساتھ واپس کردیئے تھے کہ اسے یہ رقم اپریل میں واپس مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ چین اس کیلئے شرط لگا رہاہے کہ اس رقم کو زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم کرنے کے سوا کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس قرضہ کو کم ازکم چینی درآمدات کی ادائیگی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دیدی جائے۔
یہ معاملہ ابھی تک زیرالتوا ہے،وزیراعظم شہبازشریف کے پہلے دورہ چین کی بھی تاریخیں طے نہیں کی جارہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان اس قرضہ کے ضمن میں کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پا رہا۔وزارت خزانہ کے ذرائع اس پر خاموش ہیں۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے قبل سعودی عرب سے بھی کسی فوری امداد کے امکانات بھی بہت زیادہ نہیں تاہم ایک بات کا امکان موجودہے کہ سعودی عرب پاکستان کے خزانے میں رکھے گئے اپنے تین ارب ڈالر واپس لینے کا تقاضا نہیں کرے گا۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران اس کے 6 ارب ڈالر قرضہ پروگرام کی مدت جوستمبر2022ء میں ختم ہورہی ہے میں ایک سال توسیع اور قرضہ کا حجم بھی6 سے بڑھا کر8 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی تھی۔پاکستان کو اس قرضہ کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس اس وقت 10.5ارب ڈالر موجود ہیں ان میں بھی4 ارب ڈالر چین، 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور 2.5 ارب ڈالر متحدہ عرب امارات کے ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے پاکستانی روپے کوسہارا دینے کیلئے اربوں ڈالر ایکسچینج مارکیٹ میں جھونکے لیکن وہ زرمبادلہ کو مستحکم رکھنے کی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔