بچہ سقہ اور امان اللہ کے مذاکرات

علم اور پھر خاص طور پر تاریخ کا علم پھیلانے کے لیے ہم نے آج ایک تاریخی موضوع کا انتخاب کیا

barq@email.com

سننے اور دیکھنے والوں کے بے حد اصرار پر وقت کے مطالبے اور پبلک کی ڈیمانڈ پر آج ہم اپنے ٹاک شو ''چونچ بہ چونچ'' میں کچھ علمی فلمی اور تاریخی موضوعات پربھی ہاتھ ڈال رہے ہیں کیونکہ چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' کی ''بدانتظامیہ'' نے محسوس کیا ہے کہ آج کل لوگ علم سے زیادہ فلم اور تاریخ سے زیادہ تاریکی کے رسیا ہوتے جارہے ہیں بلکہ مملکت ناپرساں میں ایسی کوئی چیز، نہ ہوا میں بچی ہے نہ پانی میں اور نہ زمین پر... جو کمرشلائز نہ ہو گئی ہو، ہر کوئی ہر کام ہر سطح پر ''دو پیسے'' کمانے کے جذبے سے کرتا ہے، اس لیے علم اور فلم اور تاریخ اور تاریکی سب کے سب تاجروں اور دکانداروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں غالباً اس منحوس یہودی کی روح مملکت ناپرساں پر مسلط ہو گئی ہے جس سے کسی نے پوچھا کہ تم جنت میں جانا پسند کرو گے یا جہنم میں، تو اس نے نہایت ہی تاجرانہ ''معصومیت'' سے کہا کہ ہم تو تاجر لوگ ہیں جہاں دو پیسے کا نفع ہو گا وہیں جائیں گے، چنانچہ علم اور پھر خاص طور پر تاریخ کا علم پھیلانے کے لیے ہم نے آج ایک تاریخی موضوع کا انتخاب کیا، موضوع ہے ''بچہ سقہ اور غازی امان اللہ خان کے درمیان جنگ بندی'' پروگرام کے دو ماہرین کو تو آپ جانتے ہیں وہی دو کم بخت بدبخت زربخت ہیں جو دنیا کے ہر موضوع پر اتنے زیادہ ماہر ہو گئے ہیں کہ اب ان کی بات ان کی بیویاں بھی نہیں سنتیں، چشم گل چشم عرف ڈینگی مچھر عرف قہر خداوندی کی بیوی تو خیر دنیا کی نعمت عظمیٰ (بقول علامہ بریانی) یعنی گونگی اور بہری ہے لیکن علامہ بریانی عرف برڈ فلو کی زوجہ محترمہ یعنی علامنی بھلکڑ بہت ہے، اس لیے بھول گئی ہے کہ خدا نے اسے صرف زبان نہیں دی ہے بلکہ دوکان بھی دے رکھے ہیں۔ ہمارے مہمان خصوصی تاریخ کے مشہور و معروف پروفیسر ''بے خبر'' ہیں جو لگ بھگ چالیس سال سے اسکولوں کالجوں اور مباحثوں لوگوں سے تاریخ بھلانے کی کوشش میں مصروف ہیں، اس دھن میں ان کو صرف اپنی تنخواہ کی تاریخ یاد رہ گئی ہے باقی سب کچھ بھول چکے ہیں بلکہ مملکت ناپرساں کے تمام لوگوں کی طرح ان کا بھی کہنا ہے کہ مہینے میں دوسری تاریخوں کی کیا ضرورت ہے صرف پہلی تاریخ ہی کافی ہے،

اینکر : ہاں تو جناب پروفیسر صاحب... یہ بتایئے کہ یہ بچہ سقہ کون تھا اور امیر امان اللہ خان سے اس کی جنگ کیا تھی جس کی جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا ٹٹو چلایا گیا ہے۔

بے خبر : تمہارا یہ ایک سوال تو مجھے لگتا ہے، مملکت ناپرساں کا کوئی منتخب نمائندہ ہے جو ہوتا تو ایک ہے لیکن اس کے پیٹ کے اندر ان کے پورا خاندان بلکہ قبیلہ ہوتاہے جو سب کے سب ایک ہی ٹکٹ میں مزے لیتے ہیں۔

چشم : واہ کیا بات کہی ہے گویا ایک منتخب نمائندہ انار ہوتا ہے جس کے ایچک بھی دانہ ہوتا ہے بیچک بھی اور دانے اوپر دانہ... واقعی ہم نے دیکھا ہے بلکہ بھگت رہے ہیں کہ ایک منتخب نمائندہ اتنا زیادہ نمائندہ نہیں ہوتا جتنے اس کے بھائی بیٹے سالے بھانجے بھانجیاں داماد اور سالے وغیرہ ہوتے ہیں۔

علامہ : تم اپنا منہ بند رکھو بدبو پھیلتی ہے۔

چشم : ہاں ہاں آپ تو کہیں گے ہی کیونکہ آپ بھی تو ایک منتخب نمائندے کے سالے کے سالے کے سالے ہیں۔

اینکر : پلیز اپنی چونچیں بند رکھیں ہاں توبے خبر صاحب۔

بے خبر : میرا مطلب ہے کہ آپ کے اس ایک سوال میں سوالات کی ایک مرغی انڈوں پر بیٹھی ہوئی ہے تو میں کس کس چوزے کو نکالوں۔

اینکر : چلیے آپ کوئی سا بھی چوزہ پکڑ لیجیے۔

بے خبر : تو چلیے پہلا چوزہ نکالتے ہیں، یہ جو ''بچہ سقہ'' تھا وہ اصل میں ''سقے'' کا بچہ نہیں تھا بلکہ ''بچے کا سقہ'' تھا۔

بے خبر : اس کا نظام سقے سے تو کوئی تعلق نہیں تھا جس نے ہمایوں کے وقت میں چمڑے کے سکے چلائے تھے۔

بے خبر : جائز یا ناجائز... لیکن کوئی تعلق تھا ضرور، کیونکہ ''بچہ سقہ'' بھی لوگوں کی کھال کھنیچ کر اس کے سکے بناتا تھا۔

اینکر : انسانوں کی کھال کے سکے کیسے ہوتے ہیں۔

بے خبر : کمال ہے آجکل یہ سکے عام ہیں، حکومتیں انسانوں کی کھال سے کاغذ اور پھر ''نوٹ'' بناتی ہیں۔

بے خبر : اچھا ... مطلب اس کا یہ ہوا کہ ''سقے'' کے بچے اور کھال کے سکے آج کل بھی...

بے خبر : لیکن تھوڑا فرق ہے، بچہ سقہ جو سکے بناتا تھا وہ انگریز دیتے تھے اور آج یہ کام امریکا کرتا ہے۔

اینکر : سنا ہے بچہ سقہ پہلے ڈاکو تھا پھر بادشاہ بن گیا۔

بے خبر : نئی کیا بات ہے، ہمیشہ ڈاکو ہی بادشاہ بنتے ہیں۔

اینکر : کیا یہ سچ ہے کہ ''بچہ سقہ'' کے پاس صرف چند آدمی اور سرکار سے چھینی ہوئی چند بندوقیں تھیں لیکن پھر بھی اس نے حکومت کو ناکوں چنے چبوائے۔

بے خبر : اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، آج کل بھی ایسا ہوتا ہے۔


اینکر : حیرت ہے کہ امان اللہ غازی بھی تھا امیر بھی اور آئینی بادشاہ بھی لیکن پھر بھی ایک سقے کے بچے سے ہار گیا۔

چشم : میں کچھ عرض کروں۔ اینکر : ہاں ہاں فرمایئے۔

علامہ : یہ یک چشم منحوس کیا فرمائے گا...

چشم : دیکھو علامہ منہ نہ کھلواؤ میرا ورنہ...

علامہ : ورنہ کیا... میں کوئی تم سے ڈرتا ہوں۔

چشم : ٹھیک ہے میں ''علامنی'' سے کہہ دوں گا کہ علامہ ساتویں نکاح کی فکر میں ہے۔ علامہ : ایسا غضب نہ کرنا۔

اینکر : آپ لوگ چپ رہیں۔بے خبر صاحب! سنا ہے امان اللہ خان کی حکومت نے مذاکرات کی بھی کوشش کی تھی۔

بے خبر : یہی تو اس کی غلطی تھی، اس نے مذاکرات کے لیے ''ملائے شور بازار'' کے بھائی کو بھیجا... جس نے بچہ سقہ کو اور بھی سان پر چڑھایا کہ ڈٹ جاؤ امان اللہ ڈر گیا ہے۔

اینکر : اچھا یہ تو ہمیں پتہ ہی نہیں تھا

بے خبر : دراصل یہ سارا چکر اس زمانے کے امریکا کا تھا۔ انھوں نے ہی ''بچہ سقہ'' کو تعمیر کیا تھا اور چاندی کے کلہ دار روپے دے دے کر پیش کیا تھا کہ لگے رہو ورنہ وہ تو مرغی چوزے کا چور تھا۔

اینکر : امریکا اس زمانے میں بھی تھا کیا۔

بے خبر : امریکا ہر زمانے میں ہوتا ہے صرف نام دوسرا ہوتا ہے ،کام سب کا ایک ہی ہوتا ہے، اس زمانے کے امریکا کا نام فرنگی تھا۔

اینکر : اور یہ ملائے شور بازار کون تھا؟

بے خبر : ایک ملا تھا جو سب کی طرح شور کا بازار گرم کرتا تھا، اسی نے امان اللہ کی ٹانگ کفر کے فتوے سے کھنیچی تھی اور بچہ سقہ کو اس پر سوار کرایا تھا ۔

اینکر : وہ مذاکرات کی بات کیجیے

بے خبر : دراصل امان اللہ کو غلط فہمی تھی کہ بچہ سقہ صرف ایک ڈاکو تھا ،کچھ لے دے کر رفع دفع ہو جائے گا لیکن وہ تو اینٹھ گیا اور ایک ڈاکو ہوتے ہوئے بھی اس نے حکومت کے ساتھ ''برابری'' کی سطح پر مذاکرات کیے اور مولانائے شور بازار کے بھائی شیر آغا کی حوصلہ افزائی پر اس نے آئینی اور حقیقی حکومت کو ایسا نچایا ایسا نچایا کہ حکومت اپنی آئینی حیثیت، اتنی بڑی فوج اور اتنے دعوؤں کے باوجود اس کے پیروں میں پڑ گئی۔

اینکر : یہ ملائے شور بازار چیز کیا تھا۔

بے خبر : یوں سمجھو کہ اس زمانے کا شریف الدین پیر زادہ تھا، چند سال کے اندر اندر اس نے آٹھ دس بادشاہوں کی تاج پوشی کرائی تھی حتیٰ کہ بچہ سقہ کی دستار بندی بھی اسی کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی۔بے خبر : کمال ہے۔

بے خبر : کمال کا کمال کہئے کہ چند روز پیشتر اس نے امان اللہ کے دستبردار ہونے پر اس کے بھائی کی دستار بندی کی اور تین دن بعد بچہ سقہ کو خیر و برکت کی دعا دے رہا تھا۔

اینکر : آپ کا مطلب ہے کہ حکومت کو ایک ڈاکو کو برابری کی سطح نہیں دینا چاہیے تھا؟

بے خبر : بالکل باغی اور ڈاکو کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنا ہی اس کی غلطی تھی۔
Load Next Story