انگریز نے کیا لیا اور ہمیں کیا دیا
بدنصیبی یہ ہےکہ ہماری تاریخ میں ایسےسرکٹےسروں کی تعدادبہت ہے،جن میں سےکچھ کاماتم توہم کرتے ہیں،باقی کاذکربھی نہیں کرتے
کچھ ہفتے پہلے انگریزی کے ایک روزنامے میں ہفتہ وار کالم لکھنے والے دانشور نے لکھا کہ انگریزوں نے ہم سے آزادی جیسی نعمت چھین لی۔ انھوں نے اگر بجلی کا نظام، ریلیں، پل، دنیا بھر کا بڑے سے بڑے نظامِ آب پاشی، بیراج، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، اسپتال وغیرہ بنائے تو ہمارے لیے نہیں بلکہ اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے۔ بیشک یہ انتہائی اہم موضوع ہے۔
سب سے پہلے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی انھوں نے چھینی یا ہم نے پلیٹ میں رکھ کر ان کو دی۔ جس انگریزی ڈاکٹر نے ہندوستان کے مغل شہنشاہ کی بیٹی کو صحت دلوائی، اس نے معاوضہ کے طور پر پیسے نہیں مانگے، بلکہ ہندوستان کے ایک شہر میں اپنی دکان کھولنے کی اجازت مانگی۔ اگر وہ پیسے مانگتا تو اسے سونے میں تول دیا جاتا، لیکن اس کی نظر مستقبل کے 100 سالوں پر تھی، جس چیز کا ادراک اس شہنشاہ کے امراء، درباری اور دوسرے لوگ کر ہی ناں پائے۔ ہمارے شہنشاہ عمارات بنواتے رہے اور ان کے امیر امراء، درباریوں کو خوشامد اور ایک دوسرے کی کاٹ کرنے سے فرصت نہیں تھی۔ جب یہاں تاج محل بن رہا تھا، وہاں آکسفورڈ یونیورسٹی بن رہی تھی۔
انگریز قوم کی خصوصیت تھی کہ وہ بڑے نبض شناس تھے۔ ان کے کارندے جس ملک میں بھی جاتے، اس کی زبان، تاریخ، سیاست، ماضی اور حال، مستقبل، معاشرے، اور دیگر امور سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ ہر ملک پرحکومت کے دوران جس جس صوبے یا علاقے میں ان کے افسران کی تعیناتی کرنی ہوتی تھی، اسے وہاں کی زبان سکھائی جاتی تھی (جو چیز ہم نے نہیں کی)۔ دوران حکومت بہت سارے افسران تو اس ملک کے شعراء کا کلام بھی پڑھتے تھے، بلکہ کچھ افسران نے تو شعراء کے کلام کے ترجمے بھی کیے۔ صاف ظاہر ہے کہ کسی شاعر کے کلام کا ترجمہ کرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس زبان کی باریکیاں بھی معلوم ناں ہوں۔ سندھ کے ایک ضلعے کے کلکٹر (اس زمانے میں آج کے ڈپٹی کمشنر کو کلکٹر کہا جاتا تھا)، نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کے کچھ سْروں (ابواب) کا ترجمہ سندھی میں کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے اردو اور دوسری زبانوں کے ادب میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔
بہرحال ہندوستان کے سیاسی حالات اورنگزیب کے زمانے سے زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ وہ صاحب جس طرح سریر آرائے تخت ہوئے، وہ اظہر من الشمس ہے، اپنے مقید باپ کو اس کے ایک بیٹے کا کٹا ہوا سرتھالی میں رکھواکر تحفتاً بجھوایا (بد نصیبی یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسے سر کٹے سروں کی تعداد بہت ہے، جن میں سے کچھ کا ماتم تو ہم کرتے ہیں، باقی کا ذکربھی نہیں کرتے ) اکبراعظم نے تو بھانپ لیا تھا کہ مغل اور اس کے حمایتی، جو بابر کے ساتھ آئے تھے، اقلیت میں تھے اور ہندوستان کے اصلی باشندے اکثریت میں تھے، مغل سلطنت کا اقتدار تب ہی قائم رکھا جاسکتا ہے جب ملک کے لوگوں کے جذبات اورضروریات کا خیال رکھا جائے۔ ایک طرف اس نے ہندوؤں کو جزیہ معاف کر دیا، دوسری طرف مذہبی ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے تمام مذاہب اور ان کے فرقوں کے لوگوں سے مشورہ کر کے ایک لائحہ عمل تیار کروایا، جس کا خاص جز تھا۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا اور برداشت کرنا۔ ہمارے کچھ لوگ اس کے اس عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، لیکن وہ اس وقت کی ضرورت تھی۔ اور نگزیب نے ایک طرف ہندوؤں پر جزیہ دوبارہ نافذ کر دیا، دوسری طرف مسلمانوں کے ایک طبقہ خیال کے لوگوں سے زیادتیاں برتنا شروع کردیں، جس کے نتیجے میں وہ لوگ اس کے مخالف ہو گئے۔ اس کے علاوہ وہ خود زیادہ تر اپنا وقت دکن میں مغلیہ سلطنت کے خلاف بغاوتیں کچلنے میں صرف کرنے لگے۔ اس نے اپنے ایک بیٹے یا بیٹوں میں اتنی صلاحیت پیدا نہیں کی، کہ وہ اس کا ہاتھ بٹاتا یا بٹاتے (اکبر اعظم شہزادہ سلیم کو میدان جنگ میں بھیجتے تھے)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ بہت سارے صوبیداروں نے خود مختاری اختیار کر لی۔ اس طرح ہندوستان کے حصے بخرے ہوگئے، کوئی مرکزی حکومت نہ رہی۔
اس چیزکو مغربی قوموں نے بھانپ لیا اور ولندیزی، پرتگیزی اور فرینچوں نے ہندوستان کا رخ کیا، لیکن انگریز نے اپنا ہوم ورک خوب کیا ہوا تھا، اس لیے اس نے ان سب قوموں کے پاؤں جمنے ہی نہیں دیے اور وہ یکے بعد دیگرے بوریا بستر لپیٹ کرچلتے بنے۔ ایک فرینچ قوم نے ٹیپو سلطان کا ساتھ دینے کی کوشش کی، لیکن میسور کے اپنے ہی غداروں نے ٹیپو کو شہید کرا کے ہی دم لیا۔ اس طرح مسلمانوں کی حکومت اور ہندوستان کی آزادی کا خاتمہ باالخیر ہوا۔
انگریزوں نے اس پوری صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور ہندوستان پر اپنا مکمل اقتدار قائم کر لیا۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ہم سے آزادی کی نعمت انھوں نے چھینی یا ہم نے خود ان کو اپنی آزادی پلیٹ میں رکھ کر دی۔ قارئین حضرات مجھے انگریزوں کا طرفدار یا نوآبادیت کا حامی قرار نہ دیں۔ جب آپ نے خود ہی اپنی قیمتی متاع بیچ سڑک رکھ دی اور کسی نے وہ اچک لی، تو غلطی آپ کی ہے یا اچکنے والے کی؟
اب آتے ہیں انگریز کی طرف کہ اس نے یہ بجلی کا نظام، ریلیں، پل، دنیا بھر کا بڑے سے بڑا نظامِ آب پاشی، بیراج، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، اسپتال وغیرہ اپنی حکومت کو دوام دینے کے لیے مکمل کرائے۔ بیشک اس نے سب سے پہلے کراچی سے کوٹری (سندھ) تک ریلوے لائین بچھائی، تاکہ وہ افغانستان کی جنگ کے سامان رسد پہنچا سکیں اور آگے چل کر وہ لائن پشاور تک لے گئے۔
چلو، یوں ہی سہی کہ انھوں نے یہ سب کچھ اپنے اقتدار کو دائم رکھنے کے لیے کیا، لیکن کیا وہ یہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے؟ ریل کی پٹریاں اکھاڑ کر لے گئے؟ ان کے زمانے میں امن و امان فقیدالمثال تھا۔ آج بھی اگر آپ کو کوئی طویل العمرآدمی ملے، جس نے انگریزکا دور دیکھا تھا، وہ یہ بتائے گا کہ اس وقت امن و امان کی صورت حال کیا تھی، ریل گاڑی اگر لیٹ ہوتی تھی تو گارڈ کا محاسبہ کیا جاتا تھا، آج اسے اوورٹائم ملتا ہے۔ بجلی کا کیا حال ہے؟ اور تو اورانگریزوں نے 18 ویں صدی میں بلدیاتی نظام دیا تھا، جو گزشتہ 10 سالوں تک بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا۔ وہ نظام غیر سیاسی ہوتا تھا، جس کی وجہ سے اچھے اچھے لوگ آتے تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ نظام صوبائی حکومتوں کے تحت تھا، لیکن پورے ہندوستان میں (اور آزادی کے بعد بھی پورے پاکستان میں یکساں ہوتا تھا)۔ ٹھیک ہے، اگر اس نظام میں کوئی سقم تھا تو اس میں ترمیمیں کی جا سکتی تھیں، لیکن اب ہر صوبے نے الگ الگ ایکٹ پاس کرکے، اپنی مرضی سے الگ الگ نظام قائم کیے ہیں( اب تو بالکل یہ ہوا ہے کہ کچھ اندھوں کے ہاتھ ایک ہاتھی آ گیا۔ ہر ایک ہاتھی کے کسی نہ کسی عضو کو ہاتھ لگا کر کہتا رہا کہ ہاتھی ایسا ہے) اس پر طرہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبہ انتخابات کرانا نہیں چاہ رہا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ ایک آئینی ضرورت ہے اور عدالت عالیہ کے بھی احکامات ہیں، لیکن حیلے بہانوں سے ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ بلوچستان، جہاں کے حالات دگرگوں بتائے جاتے ہیں، وہاں تو انتخابات کرالیے گئے۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیزیں ہم کو انگریز دے گئے، کیا ہم نے ان سب چیزوں کو سنبھالا؟ بیلجیم نے جب افریقی ملک کانگو کو آزادی دی تواسکولوں سے بنچ بھی لے گئے، تو کیا انگریز ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ کر لے گئے یا سکھر بیراج بھی لپیٹ کر، جیب میں ڈال کر لے گئے؟ آج 67 سالوں کے بعد بھی آپ کی صنعتوں میں برطانیہ کی انوسٹمینٹ سب سے زیادہ ہے اور دولت مشترکہ میں امداد بھی آپ کو زیادہ ملتی ہے، جس کے تحت آپ کے ملک کے لوگوں کو تعلیم اور دیگر شعبوں میں وظائف بھی آپ کو بڑی تعداد میں ملتے ہے۔ چلیے، اگر کہتے ہیں کہ انگریز نے ہمیں جو کچھ دیا وہ اپنے مفاد کے لیے، تو آپ اس انویسٹمنٹ اور امداد کو واپس کردیں۔
ناروا کہیے نا سزا کہیے
کہیے کہیے 'انھیں' برا کہیے
سب سے پہلے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی انھوں نے چھینی یا ہم نے پلیٹ میں رکھ کر ان کو دی۔ جس انگریزی ڈاکٹر نے ہندوستان کے مغل شہنشاہ کی بیٹی کو صحت دلوائی، اس نے معاوضہ کے طور پر پیسے نہیں مانگے، بلکہ ہندوستان کے ایک شہر میں اپنی دکان کھولنے کی اجازت مانگی۔ اگر وہ پیسے مانگتا تو اسے سونے میں تول دیا جاتا، لیکن اس کی نظر مستقبل کے 100 سالوں پر تھی، جس چیز کا ادراک اس شہنشاہ کے امراء، درباری اور دوسرے لوگ کر ہی ناں پائے۔ ہمارے شہنشاہ عمارات بنواتے رہے اور ان کے امیر امراء، درباریوں کو خوشامد اور ایک دوسرے کی کاٹ کرنے سے فرصت نہیں تھی۔ جب یہاں تاج محل بن رہا تھا، وہاں آکسفورڈ یونیورسٹی بن رہی تھی۔
انگریز قوم کی خصوصیت تھی کہ وہ بڑے نبض شناس تھے۔ ان کے کارندے جس ملک میں بھی جاتے، اس کی زبان، تاریخ، سیاست، ماضی اور حال، مستقبل، معاشرے، اور دیگر امور سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ ہر ملک پرحکومت کے دوران جس جس صوبے یا علاقے میں ان کے افسران کی تعیناتی کرنی ہوتی تھی، اسے وہاں کی زبان سکھائی جاتی تھی (جو چیز ہم نے نہیں کی)۔ دوران حکومت بہت سارے افسران تو اس ملک کے شعراء کا کلام بھی پڑھتے تھے، بلکہ کچھ افسران نے تو شعراء کے کلام کے ترجمے بھی کیے۔ صاف ظاہر ہے کہ کسی شاعر کے کلام کا ترجمہ کرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس زبان کی باریکیاں بھی معلوم ناں ہوں۔ سندھ کے ایک ضلعے کے کلکٹر (اس زمانے میں آج کے ڈپٹی کمشنر کو کلکٹر کہا جاتا تھا)، نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کے کچھ سْروں (ابواب) کا ترجمہ سندھی میں کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے اردو اور دوسری زبانوں کے ادب میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔
بہرحال ہندوستان کے سیاسی حالات اورنگزیب کے زمانے سے زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ وہ صاحب جس طرح سریر آرائے تخت ہوئے، وہ اظہر من الشمس ہے، اپنے مقید باپ کو اس کے ایک بیٹے کا کٹا ہوا سرتھالی میں رکھواکر تحفتاً بجھوایا (بد نصیبی یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسے سر کٹے سروں کی تعداد بہت ہے، جن میں سے کچھ کا ماتم تو ہم کرتے ہیں، باقی کا ذکربھی نہیں کرتے ) اکبراعظم نے تو بھانپ لیا تھا کہ مغل اور اس کے حمایتی، جو بابر کے ساتھ آئے تھے، اقلیت میں تھے اور ہندوستان کے اصلی باشندے اکثریت میں تھے، مغل سلطنت کا اقتدار تب ہی قائم رکھا جاسکتا ہے جب ملک کے لوگوں کے جذبات اورضروریات کا خیال رکھا جائے۔ ایک طرف اس نے ہندوؤں کو جزیہ معاف کر دیا، دوسری طرف مذہبی ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے تمام مذاہب اور ان کے فرقوں کے لوگوں سے مشورہ کر کے ایک لائحہ عمل تیار کروایا، جس کا خاص جز تھا۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا اور برداشت کرنا۔ ہمارے کچھ لوگ اس کے اس عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، لیکن وہ اس وقت کی ضرورت تھی۔ اور نگزیب نے ایک طرف ہندوؤں پر جزیہ دوبارہ نافذ کر دیا، دوسری طرف مسلمانوں کے ایک طبقہ خیال کے لوگوں سے زیادتیاں برتنا شروع کردیں، جس کے نتیجے میں وہ لوگ اس کے مخالف ہو گئے۔ اس کے علاوہ وہ خود زیادہ تر اپنا وقت دکن میں مغلیہ سلطنت کے خلاف بغاوتیں کچلنے میں صرف کرنے لگے۔ اس نے اپنے ایک بیٹے یا بیٹوں میں اتنی صلاحیت پیدا نہیں کی، کہ وہ اس کا ہاتھ بٹاتا یا بٹاتے (اکبر اعظم شہزادہ سلیم کو میدان جنگ میں بھیجتے تھے)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ بہت سارے صوبیداروں نے خود مختاری اختیار کر لی۔ اس طرح ہندوستان کے حصے بخرے ہوگئے، کوئی مرکزی حکومت نہ رہی۔
اس چیزکو مغربی قوموں نے بھانپ لیا اور ولندیزی، پرتگیزی اور فرینچوں نے ہندوستان کا رخ کیا، لیکن انگریز نے اپنا ہوم ورک خوب کیا ہوا تھا، اس لیے اس نے ان سب قوموں کے پاؤں جمنے ہی نہیں دیے اور وہ یکے بعد دیگرے بوریا بستر لپیٹ کرچلتے بنے۔ ایک فرینچ قوم نے ٹیپو سلطان کا ساتھ دینے کی کوشش کی، لیکن میسور کے اپنے ہی غداروں نے ٹیپو کو شہید کرا کے ہی دم لیا۔ اس طرح مسلمانوں کی حکومت اور ہندوستان کی آزادی کا خاتمہ باالخیر ہوا۔
انگریزوں نے اس پوری صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور ہندوستان پر اپنا مکمل اقتدار قائم کر لیا۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ہم سے آزادی کی نعمت انھوں نے چھینی یا ہم نے خود ان کو اپنی آزادی پلیٹ میں رکھ کر دی۔ قارئین حضرات مجھے انگریزوں کا طرفدار یا نوآبادیت کا حامی قرار نہ دیں۔ جب آپ نے خود ہی اپنی قیمتی متاع بیچ سڑک رکھ دی اور کسی نے وہ اچک لی، تو غلطی آپ کی ہے یا اچکنے والے کی؟
اب آتے ہیں انگریز کی طرف کہ اس نے یہ بجلی کا نظام، ریلیں، پل، دنیا بھر کا بڑے سے بڑا نظامِ آب پاشی، بیراج، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، اسپتال وغیرہ اپنی حکومت کو دوام دینے کے لیے مکمل کرائے۔ بیشک اس نے سب سے پہلے کراچی سے کوٹری (سندھ) تک ریلوے لائین بچھائی، تاکہ وہ افغانستان کی جنگ کے سامان رسد پہنچا سکیں اور آگے چل کر وہ لائن پشاور تک لے گئے۔
چلو، یوں ہی سہی کہ انھوں نے یہ سب کچھ اپنے اقتدار کو دائم رکھنے کے لیے کیا، لیکن کیا وہ یہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے؟ ریل کی پٹریاں اکھاڑ کر لے گئے؟ ان کے زمانے میں امن و امان فقیدالمثال تھا۔ آج بھی اگر آپ کو کوئی طویل العمرآدمی ملے، جس نے انگریزکا دور دیکھا تھا، وہ یہ بتائے گا کہ اس وقت امن و امان کی صورت حال کیا تھی، ریل گاڑی اگر لیٹ ہوتی تھی تو گارڈ کا محاسبہ کیا جاتا تھا، آج اسے اوورٹائم ملتا ہے۔ بجلی کا کیا حال ہے؟ اور تو اورانگریزوں نے 18 ویں صدی میں بلدیاتی نظام دیا تھا، جو گزشتہ 10 سالوں تک بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا۔ وہ نظام غیر سیاسی ہوتا تھا، جس کی وجہ سے اچھے اچھے لوگ آتے تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ نظام صوبائی حکومتوں کے تحت تھا، لیکن پورے ہندوستان میں (اور آزادی کے بعد بھی پورے پاکستان میں یکساں ہوتا تھا)۔ ٹھیک ہے، اگر اس نظام میں کوئی سقم تھا تو اس میں ترمیمیں کی جا سکتی تھیں، لیکن اب ہر صوبے نے الگ الگ ایکٹ پاس کرکے، اپنی مرضی سے الگ الگ نظام قائم کیے ہیں( اب تو بالکل یہ ہوا ہے کہ کچھ اندھوں کے ہاتھ ایک ہاتھی آ گیا۔ ہر ایک ہاتھی کے کسی نہ کسی عضو کو ہاتھ لگا کر کہتا رہا کہ ہاتھی ایسا ہے) اس پر طرہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبہ انتخابات کرانا نہیں چاہ رہا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ ایک آئینی ضرورت ہے اور عدالت عالیہ کے بھی احکامات ہیں، لیکن حیلے بہانوں سے ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ بلوچستان، جہاں کے حالات دگرگوں بتائے جاتے ہیں، وہاں تو انتخابات کرالیے گئے۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیزیں ہم کو انگریز دے گئے، کیا ہم نے ان سب چیزوں کو سنبھالا؟ بیلجیم نے جب افریقی ملک کانگو کو آزادی دی تواسکولوں سے بنچ بھی لے گئے، تو کیا انگریز ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ کر لے گئے یا سکھر بیراج بھی لپیٹ کر، جیب میں ڈال کر لے گئے؟ آج 67 سالوں کے بعد بھی آپ کی صنعتوں میں برطانیہ کی انوسٹمینٹ سب سے زیادہ ہے اور دولت مشترکہ میں امداد بھی آپ کو زیادہ ملتی ہے، جس کے تحت آپ کے ملک کے لوگوں کو تعلیم اور دیگر شعبوں میں وظائف بھی آپ کو بڑی تعداد میں ملتے ہے۔ چلیے، اگر کہتے ہیں کہ انگریز نے ہمیں جو کچھ دیا وہ اپنے مفاد کے لیے، تو آپ اس انویسٹمنٹ اور امداد کو واپس کردیں۔
ناروا کہیے نا سزا کہیے
کہیے کہیے 'انھیں' برا کہیے