یقینی فتح
سحروطلسمات وہ علم ہیں جو آسمانی شریعتوں میں حرام ہیں چونکہ ان علوم کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے
آج جس موضوع پرمیں نے لکھنے کا ارادہ کیا ہے اس کی وجہ عرصہ دراز سے آنے والی ای میلز ہیں، ان میلز میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ میں جنات وطلسم پر ایک بھرپور کالم لکھوں، اس سے پہلے میں نے کئی سال قبل جو کالم لکھے تھے میرے کالم کے قارئین نے اس سے استفادہ کیا اور مزید جاننے کی خواہش کی، اس کی وجہ موجودہ حالات ہیں، سحر کے اثرات نے لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا ہے اور حاسدین انھیں نقصان پہنچانے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ جن کے کرنے سے جادو کرنے والا دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، لیکن نفرت و دشمنی کی آگ نے عقل و شعور پر غلبہ پالیا ہے، تو بس تسکین دل کے لیے شاید یہ ہی ایک راستہ بچا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کفرکا کام کیا جائے۔ حسد نیکیوں کو ہی نہیں جلاتا بلکہ ذہنی سکون بھی غارت ہوجاتا ہے ہے، حاسد دوسرے کی خوشی اور کامیابی سے جلتا ہے اور اسے طرح طرح سے اذیت پہنچانے کے در پر رہتا ہے۔
سحروطلسمات وہ علم ہیں جو آسمانی شریعتوں میں حرام ہیں چونکہ ان علوم کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور پھر ان میں غیر اللہ، مثال کے طور پر ستاروں اور دوسری اشیا کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے ظہور اسلام کے بعد ایسے علوم کی کتابیں مفقود کردی گئیں، البتہ عہد موسوی سے پہلے کی کتابیں ضرور ملتی ہیں، ایسی کتابوں کے تراجم بھی بہت کم ہوئے مثلاً الفلاحتہ النبطیہ (اوضاع اہل بابل کے بارے میں) کا ترجمہ ملتا ہے، بے شمار جادوگروں نے اسی سے جادو سیکھا اور نئے نئے جادو بھی اس ترجمے میں شامل کیے پھر اوضاع وضع جس طرح نبیوں کے نفسوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں معرفت ربانیہ اور فرشتوں سے باتیں کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور ان کے اثرات کائنات پر بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ کائنات میں تصرفات و تاثیرات پیدا کرنے کے لیے ستاروں کی روحانیت سے مدد لینا روحانی قوت سے بھی ممکن ہے اور شیطانی قوت سے بھی، کاہن غیب کی باتوں پر شیطانی قوتوں کی وجہ سے مطلع ہوجاتے ہیں، جادوگروں کے نفسوں کے تین مراتب ہیں، بعض لوگ اپنی ہمت سے بغیر کسی آلے یا معاون کی مدد سے اثر انداز ہوتے ہیں، فلاسفہ اسی اثر کو جادو کہتے ہیں، بعض معاون کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً افلاک، عناصر یا خواص اعداد سے مدد لیتے ہیں، اس اثرکو طلسم کہتے ہیں، جادو کی تیسری قسم خیالی قویٰ پر اثرانداز ہونا ہے ایسا جادوگر ہر شکل صورت دوسروں کے خیال میں ڈال دیتا ہے پھر روحانی قوت کے ذریعے وہ شکل و صورت محسوسات میں اتار لاتا ہے اور وہ چیز دوسروں کو نظر آنی شروع ہوجاتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خارج میں موجود ہے، جب کہ ایسا نہیں ہوتا ہے، فلاسفہ اس قسم کے جادو کو شعبدہ کہتے ہیں اس صلاحیت کو کام میں لانے کے لیے سخت محنت و ریاضت کی ضرورت پیش آتی ہے، ستاروں یا ارواح علویہ اور شیطانوں کی طرف قسم قسم کی تعظیموں اور اطاعتوں کے ساتھ متوجہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں غیر اللہ سے مدد اور عبادت لازمی جزو ہے، اسی وجہ سے یہ کفر و شرک ہے، قرآن پاک میں جادو کا ذکر موجود ہے کہ بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر محض ان کی آزمائش کے لیے جادو نازل کیا گیا تھا، جادو کرنے والوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی جادو کیا گیا تھا، ساحر نے جادو کنگھی میں اور کنگھی سے جڑے بالوں میں اور نر کھجور کے خوشہ میں کرکے زروان نامی کنوئیں میں دفن کردیا تھا اس کو کھولنے کے لیے (معوذتین) سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نازل ہوئیں ۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں بابل و مصر میں جادو کا بڑا زور تھا۔ اسی لیے حضرت موسیٰؑ کو اسی جنس کا معجزہ دیا گیا۔
ابن خلدون فرماتے ہیں کہ مصر کے علاقے میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک جادوگر نے اس شخص کا پتلا بنایا جس پر وہ جادوکرنا چاہتا تھا پھر ایک خاص قسم کا منتر پڑھ کر اس پتلے کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور بار بار وہی منتر پڑھتا رہا، اس ڈھانچے اور گندے کلموں کی ایک خبیث روح ہوتی ہے جو جادوگر کے تھوک کے ساتھ لپٹ کر اس پتلے میں پہنچ جاتی ہے اس کے پاس اور بھی ارواح خبیثہ ہوتی ہیں جو جادوگر کے احکام کو بلا چوں و چرا ماننے کی پابند ہوتی ہیں یہ روحیں وہی کرتی ہیں جو جادوگر چاہتا ہے، ایسے جادوگر بھی موجود تھے اور بعض جگہوں پر اب بھی ہیں جو کسی کپڑے یا چمڑے کی طرف دل ہی دل میں کچھ پڑھ کر اشارہ کرتے ہیں وہ تار تار ہوجاتا ہے، اسی طرح ہندوستان میں ایک ایسا شخص موجود ہے کہ وہ اگر کسی آدمی کی طرف اشارہ کردے تو فوراً اس کا دل پاش پاش ہوجائے اور وہ مرجائے سوڈان اور ترکمانستان میں ایسے جادوگر پائے جاتے ہیں کہ بادلوں پر جادو کرکے جہاں چاہتے ہیں بارش برسوا دیتے ہیں۔
شریعت کے نزدیک سحر و طلسم میں کوئی فرق نہیں، دونوں جادو ہیں دونوں کا سیکھنا سکھانا حرام ہے، سحر اللہ کے کلام کی موجودگی میں اپنا اثر ختم کردیتا ہے مورخین کے مطابق درخش کاویانی جو کسریٰ کا جھنڈا تھا، اس پر سو کا نقش اوضاع فلکیہ کی سعد ساعت میں سونے کے تاروں سے بنایا گیا تھا، جس دن رستم جنگ قادسیہ میں قتل کیا گیا تو یہ جھنڈا زمین پر سرنگوں پڑا ہوا تھا۔ اس دن اہل فارس کو مسلمانوں کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی تھی اہل طلسمات سو کے نقش کو کامیابی کا ضامن سمجھتے ہیں ان کا یہ یقین تھا کہ یہ جھنڈا جس بھی لشکر کے پاس ہوگا ۔اسے شکست ہرگز نہ ہوگی لیکن صحابہ کرام کے ایمانوں کی بدولت اللہ کی مدد آئی تو اس سے جادو کی گرہ کھل گئی اور ان کا یہ طلسم رائیگاں گیا۔ جادو اور طلسم کی طرح علم نجوم میں بھی ضرر ہے اس کی وجہ لوگ ستاروں سے اچھے برے کاموں کا عقیدہ رکھنے لگتے ہیں اور اپنے عقائد بگاڑ بیٹھے ہیں۔ اللہ کے تقرب کی خاطر اس کا چھوڑنا ضروری ہے۔ جس طرح طلسم و جادو کا وجود ہے، اسی طرح جنات بھی موجود ہیں قرآن پاک میں سورۃ جن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر جنوں کو مسلمان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں انھیں تعلیم دیا کرتے تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرکش جنوں کے نام ایک خط بھی لکھا تھا جس میں مخلوق خدا کو تنگ کرنے سیمنع فرمایا ہے، اس خط کے بارے میں حضرت ابو دجاجہؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ میں بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ میں نے اپنے گھر میں چرچراہٹ کی آواز اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی بھی آواز سنائی دی اور بجلی کی چمک کی طرح بھی نظر آئی میں نے گھر کے صحن میں ایک سایہ دیکھا جو بلند اور لمبا ہو رہا تھا، میں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا، اس کی جلد کو چھوا تو اس کی جلد خاردار چوہے کی طرح تھی، اس چیز نے میرے چہرے پر شعلے جیسی کوئی چیز پھینکی تو مجھے گمان ہوا کہ اس ہیولے نے مجھے اور میرے گھر کو جلادیا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے گھر میں رہنے والے سرکش جن ہیں اور کہا ابودجاجہؓ! رب کعبہ کی قسم کیا تیرے جیسے آدمی کو بھی اذیت دی جاسکتی ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے خط لکھوایا۔ اور مجھے دے دیا۔ خط کو تکیے کے نیچے رکھا تو وہ جن اذیت میں مبتلا ہوکر چیخنے لگے اور خط کو وہاں سے ہٹانے کی درخواست کی ۔ چنانچہ حضرت ابو دجاجہؓ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورے کے بعد ہٹا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک یہ قیامت تک تکلیف پاتے رہیں گے۔ یہ خط آج بھی بزرگان دین کے پاس موجود ہے اور لوگ اپنے گھروں میں لے جاکر لٹکا دیتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات سے دوری کے نتیجے میں اس قسم کے مسائل بے شمار گھرانوں میں موجود ہیں ان سے بچنے کے لیے معوذتین کا ہر دم ورد کرنا ضروری ہے۔ جیسے ہی پڑھنا شروع کریں گے اسی وقت کلام ربانی کا اثر ظاہر ہوجائے گا۔ یہی وہ کلام ہے جس کی بدولت ہر کام میں فتح یقینی ہے۔
سحروطلسمات وہ علم ہیں جو آسمانی شریعتوں میں حرام ہیں چونکہ ان علوم کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور پھر ان میں غیر اللہ، مثال کے طور پر ستاروں اور دوسری اشیا کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے ظہور اسلام کے بعد ایسے علوم کی کتابیں مفقود کردی گئیں، البتہ عہد موسوی سے پہلے کی کتابیں ضرور ملتی ہیں، ایسی کتابوں کے تراجم بھی بہت کم ہوئے مثلاً الفلاحتہ النبطیہ (اوضاع اہل بابل کے بارے میں) کا ترجمہ ملتا ہے، بے شمار جادوگروں نے اسی سے جادو سیکھا اور نئے نئے جادو بھی اس ترجمے میں شامل کیے پھر اوضاع وضع جس طرح نبیوں کے نفسوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں معرفت ربانیہ اور فرشتوں سے باتیں کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور ان کے اثرات کائنات پر بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ کائنات میں تصرفات و تاثیرات پیدا کرنے کے لیے ستاروں کی روحانیت سے مدد لینا روحانی قوت سے بھی ممکن ہے اور شیطانی قوت سے بھی، کاہن غیب کی باتوں پر شیطانی قوتوں کی وجہ سے مطلع ہوجاتے ہیں، جادوگروں کے نفسوں کے تین مراتب ہیں، بعض لوگ اپنی ہمت سے بغیر کسی آلے یا معاون کی مدد سے اثر انداز ہوتے ہیں، فلاسفہ اسی اثر کو جادو کہتے ہیں، بعض معاون کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً افلاک، عناصر یا خواص اعداد سے مدد لیتے ہیں، اس اثرکو طلسم کہتے ہیں، جادو کی تیسری قسم خیالی قویٰ پر اثرانداز ہونا ہے ایسا جادوگر ہر شکل صورت دوسروں کے خیال میں ڈال دیتا ہے پھر روحانی قوت کے ذریعے وہ شکل و صورت محسوسات میں اتار لاتا ہے اور وہ چیز دوسروں کو نظر آنی شروع ہوجاتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خارج میں موجود ہے، جب کہ ایسا نہیں ہوتا ہے، فلاسفہ اس قسم کے جادو کو شعبدہ کہتے ہیں اس صلاحیت کو کام میں لانے کے لیے سخت محنت و ریاضت کی ضرورت پیش آتی ہے، ستاروں یا ارواح علویہ اور شیطانوں کی طرف قسم قسم کی تعظیموں اور اطاعتوں کے ساتھ متوجہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں غیر اللہ سے مدد اور عبادت لازمی جزو ہے، اسی وجہ سے یہ کفر و شرک ہے، قرآن پاک میں جادو کا ذکر موجود ہے کہ بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر محض ان کی آزمائش کے لیے جادو نازل کیا گیا تھا، جادو کرنے والوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی جادو کیا گیا تھا، ساحر نے جادو کنگھی میں اور کنگھی سے جڑے بالوں میں اور نر کھجور کے خوشہ میں کرکے زروان نامی کنوئیں میں دفن کردیا تھا اس کو کھولنے کے لیے (معوذتین) سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نازل ہوئیں ۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں بابل و مصر میں جادو کا بڑا زور تھا۔ اسی لیے حضرت موسیٰؑ کو اسی جنس کا معجزہ دیا گیا۔
ابن خلدون فرماتے ہیں کہ مصر کے علاقے میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک جادوگر نے اس شخص کا پتلا بنایا جس پر وہ جادوکرنا چاہتا تھا پھر ایک خاص قسم کا منتر پڑھ کر اس پتلے کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور بار بار وہی منتر پڑھتا رہا، اس ڈھانچے اور گندے کلموں کی ایک خبیث روح ہوتی ہے جو جادوگر کے تھوک کے ساتھ لپٹ کر اس پتلے میں پہنچ جاتی ہے اس کے پاس اور بھی ارواح خبیثہ ہوتی ہیں جو جادوگر کے احکام کو بلا چوں و چرا ماننے کی پابند ہوتی ہیں یہ روحیں وہی کرتی ہیں جو جادوگر چاہتا ہے، ایسے جادوگر بھی موجود تھے اور بعض جگہوں پر اب بھی ہیں جو کسی کپڑے یا چمڑے کی طرف دل ہی دل میں کچھ پڑھ کر اشارہ کرتے ہیں وہ تار تار ہوجاتا ہے، اسی طرح ہندوستان میں ایک ایسا شخص موجود ہے کہ وہ اگر کسی آدمی کی طرف اشارہ کردے تو فوراً اس کا دل پاش پاش ہوجائے اور وہ مرجائے سوڈان اور ترکمانستان میں ایسے جادوگر پائے جاتے ہیں کہ بادلوں پر جادو کرکے جہاں چاہتے ہیں بارش برسوا دیتے ہیں۔
شریعت کے نزدیک سحر و طلسم میں کوئی فرق نہیں، دونوں جادو ہیں دونوں کا سیکھنا سکھانا حرام ہے، سحر اللہ کے کلام کی موجودگی میں اپنا اثر ختم کردیتا ہے مورخین کے مطابق درخش کاویانی جو کسریٰ کا جھنڈا تھا، اس پر سو کا نقش اوضاع فلکیہ کی سعد ساعت میں سونے کے تاروں سے بنایا گیا تھا، جس دن رستم جنگ قادسیہ میں قتل کیا گیا تو یہ جھنڈا زمین پر سرنگوں پڑا ہوا تھا۔ اس دن اہل فارس کو مسلمانوں کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی تھی اہل طلسمات سو کے نقش کو کامیابی کا ضامن سمجھتے ہیں ان کا یہ یقین تھا کہ یہ جھنڈا جس بھی لشکر کے پاس ہوگا ۔اسے شکست ہرگز نہ ہوگی لیکن صحابہ کرام کے ایمانوں کی بدولت اللہ کی مدد آئی تو اس سے جادو کی گرہ کھل گئی اور ان کا یہ طلسم رائیگاں گیا۔ جادو اور طلسم کی طرح علم نجوم میں بھی ضرر ہے اس کی وجہ لوگ ستاروں سے اچھے برے کاموں کا عقیدہ رکھنے لگتے ہیں اور اپنے عقائد بگاڑ بیٹھے ہیں۔ اللہ کے تقرب کی خاطر اس کا چھوڑنا ضروری ہے۔ جس طرح طلسم و جادو کا وجود ہے، اسی طرح جنات بھی موجود ہیں قرآن پاک میں سورۃ جن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر جنوں کو مسلمان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں انھیں تعلیم دیا کرتے تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرکش جنوں کے نام ایک خط بھی لکھا تھا جس میں مخلوق خدا کو تنگ کرنے سیمنع فرمایا ہے، اس خط کے بارے میں حضرت ابو دجاجہؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ میں بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ میں نے اپنے گھر میں چرچراہٹ کی آواز اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی بھی آواز سنائی دی اور بجلی کی چمک کی طرح بھی نظر آئی میں نے گھر کے صحن میں ایک سایہ دیکھا جو بلند اور لمبا ہو رہا تھا، میں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا، اس کی جلد کو چھوا تو اس کی جلد خاردار چوہے کی طرح تھی، اس چیز نے میرے چہرے پر شعلے جیسی کوئی چیز پھینکی تو مجھے گمان ہوا کہ اس ہیولے نے مجھے اور میرے گھر کو جلادیا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے گھر میں رہنے والے سرکش جن ہیں اور کہا ابودجاجہؓ! رب کعبہ کی قسم کیا تیرے جیسے آدمی کو بھی اذیت دی جاسکتی ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے خط لکھوایا۔ اور مجھے دے دیا۔ خط کو تکیے کے نیچے رکھا تو وہ جن اذیت میں مبتلا ہوکر چیخنے لگے اور خط کو وہاں سے ہٹانے کی درخواست کی ۔ چنانچہ حضرت ابو دجاجہؓ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورے کے بعد ہٹا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک یہ قیامت تک تکلیف پاتے رہیں گے۔ یہ خط آج بھی بزرگان دین کے پاس موجود ہے اور لوگ اپنے گھروں میں لے جاکر لٹکا دیتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات سے دوری کے نتیجے میں اس قسم کے مسائل بے شمار گھرانوں میں موجود ہیں ان سے بچنے کے لیے معوذتین کا ہر دم ورد کرنا ضروری ہے۔ جیسے ہی پڑھنا شروع کریں گے اسی وقت کلام ربانی کا اثر ظاہر ہوجائے گا۔ یہی وہ کلام ہے جس کی بدولت ہر کام میں فتح یقینی ہے۔