ہوا…پانی اور آگ
اللہ کی بہت سی نعمتیں دو رخی ہیں… پانی کی مثال لے لیں ، میں سمجھتی ہوں کہ اللہ نے اس سے بڑی نعمت ہمیں کوئی نہیں دی
''ہمیں کس نے بنایا ہے... '' ایک کلاس سے ٹیچر کی آواز سن کر میرے ذہن میں اپنے بچپن کی یاد آ گئی۔
'' اللہ تعالی نے... '' تین سے چار سال کے درمیان کی عمروں کے ننھے ننھے بچوں کی مشترکہ آواز آئی۔
'' سورج ، چاند اور ستارے کس نے بنائے؟ ''
'' اللہ تعالی نے... '' بچوں نے یک آواز کہا۔
'' ہوا ، پانی، درخت، پودے، پہاڑ کس نے بنائے؟ '' ٹیچر کا اگلا سوال تھا۔ جواب مجھے بھی معلوم تھا اور جونہی میں نے کلاس کا دروازہ کھولا، بچوں کی آواز اور بھی بلند، واضع اور با اعتماد تھی۔
'' اللہ تعالی نے... '' ان کے جواب کے ساتھ ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ان سب نے کھڑے ہو کر اپنی ٹیچر کے ساتھ مجھے ایک آواز میں سلام کیا، ان کے سلام کا جواب ،اورشکریہ ادا کر کے انھیں کے بیچ ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
'' اچھا بچو سنو... '' میں نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا، '' آپ کے اتنے پیارے پیارے چہرے، پھول جیسے نازک وجود، روشن ماتھے، چمکتی ذہین آنکھیں ، موتیوں جیسے دانت، ریشم جیسے بال کس نے بنائے؟ '' ایسا پوچھتے ہوئے میں ننھی سی عظیمان کے گھنگھریالے بالوں سے کھیل رہی تھی۔
'' اللہ تعالی نے... '' بچوں نے اتنے طویل سوال پر کھلکھلا کر جواب دیا، ٹیچر حنا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی، وہ بے اختیاری میں بچوں کے ساتھ جواب میں شامل ہو گئی تھی۔
'' ہوں ... '' میں نے مسکرا کر سب کو داد دی، '' اچھا تو بتائیں کہ آپ کے اتنے پیارے پیارے اسکول بیگ، لنچ باکس، رنگوں کی پنسلیں، کاغذ جس پر آپ لکھتے ہو، کمپیوٹر جس پر آپ سیکھتے ہو... یہ سب کس نے بنائے؟ '' میں نے اگلا سوال کیا۔
'' اللہ تعالی نے... '' جواب میری توقع کے عین مطابق تھا اور اب ٹیچر کی ہنسی نکل گئی۔
'' نہیں پیارو... '' ٹیچر نے فوراً کہا، '' یہ سب تو انسان بناتے ہیں، ہم انسان ! ''
'' ہاں بچو... ٹیچر بالکل ٹھیک کہتی ہیں، یہ سب چیزیں انسان بناتے ہیں مگر انسان کو یہ سب بنانا کیسے آتا ہے، کیونکہ اس کے پاس دماغ ہے... اور ہمارا سب کا دماغ کس نے بنایا ہے؟ ''
'' اللہ تعالی نے... '' بچوں نے پورے وثوق سے کہا۔
'' بالکل درست... '' میں نے ان سب کو داد دی۔
'' اللہ نے ہمیں بہت سی نعمتیں دی ہیں، ہوا، پانی، آگ... '' ٹیچر بچوں کو اپنی آسان زبان میں سمجھا رہی تھی اور میں کلاس سے باہر نکلی تو مجھ پر سوچ کے کئی در وا تھے۔
ہم بچوں کو ابتدائی سبق سکھا کر کچھ سالوں کے بعد بھول جاتے ہیں کہ ان اسباق کو ہمیں عمر بھر ان کے لیے جاری رکھنا ہے... جوں جوں ان کے ذہن کی پرداخت ہوتی ہے اسی لحاظ سے، جب ہم کورس کی کتابوں کو درجہ وار مشکل کرتے چلے جاتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ استاد کی بات چیت کے درجات بھی بڑھتے چلے جانے چاہئیں... کتابی علم سے زیادہ جس بات کو بچے carry forward کرتے ہیں وہ استاد کا بچوں کے ساتھ گفتگو کا رابطہ ہے، اسی لیے ہمیشہ وہ استاد کامیاب رہتے ہیں جو بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی استعداد کے مطابق گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں۔ بچوں سے بات چیت کا رابطہ ہمیشہ قائم رکھیں اور اسے ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ پختہ کرتے جائیں، یہی کام ماں باپ کو بھی کرنا چاہیے... ان کی عمر کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن کی پرورش کریں، جوں جوں وہ بڑھتے ہیں ان کے سوال تبدیل ہوتے جاتے ہیں... مگر ہم خود جانتے ہیں کہ گفتگو کی عمر کے ساتھ پرورش کے ساتھ درجات کیا ہوتے ہیں؟
اللہ کی نعمتوں ہی کی مثال لے لیں، ہم انھیں ابتدائی سالوں میں ان کا ادراک دے کر فارغ ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں اس کی ضرورت نہیں سمجھتے ... مگر انھیں یہ بتانا لازم ہے کہ نعمتیں کیوں عطا کی جاتی ہیں ، ان کا استعمال کس طرح ہوتا ہے، منفی اور مثبت... نعمتیں چھین کیوں لی جاتی ہیں اور یہی نعمتیں اور رحمتیں ، زحمت کیوں اور کس طرح بن جاتی ہیں... فطری عناصر کے ساتھ جسمانی عناصر اور رویوں کا کیا ربط ہے۔
اللہ کی بہت سی نعمتیں دو رخی ہیں... پانی کی مثال لے لیں ، میں سمجھتی ہوں کہ اللہ نے اس سے بڑی نعمت ہمیں کوئی نہیں دی، پانی زندگی کی علامت اور اولین ضرورت ہے، مگر یہ پانی تب تک نعمت ہے جب تک یہ اس برتن کے پیندے سے ابل کر باہر نہیں آنے لگتا جو برتن اللہ تعالی نے اس کے لیے تخلیق کیا ہے، پیندے سے باہر آنیوالا پانی تباہی لاتا ہے ، خواہ وہ کسی پیندا کسی جھیل کا ہو، نالے کا، ندی کا ، دریا کا یا سمندر کا۔ سیلاب اور سونامی اس عظیم نعمت کے تباہ کن اثرات ہیں، جب دست قدرت ہمیں کوئی سبق سکھانے کا یا راہ پر لانے کا عزم کرتی ہے تو ہم پر ایسی آفات کا نزول ہوتا ہے، مگر قدرت کے اسے چھپے پیغام کو ہم کب سمجھ پاتے ہیں؟
قدرت کی عطا کردہ دوسری اہم نعمت ہوا ہے... اہمیت کے اعتبار سے ہوا اور پانی میں سے کسی ایک کا تعین کرنا مشکل ہے۔ ہوا ہماری اہم ضرورت ہے، سانس لینے سے لے کر جسمانی سکون کی خاطر... اسی کے زور پر زمانہ قدیم میں بادبانی کشتیاں چلتیں اور اسی کے وجود نے انسان کو اڑنے کا وہ تصور دیا جو بالآخر ہوائی جہاز کی ایجاد پر منتج ہوا...ہوائیں قدرت کے اصولوں کے مطابق پولن کی ترسیل کا کام کرتی ہیں جو پودوں کی افزائش کے لیے اہم ہے۔ ہوا جب تک نرم ہے، وجود کو سکون اور فرحت کا احساس دیتی ہے... یہی ہوا جہاں خوشبو کو پھیلا کر ہمیں فرحت کا سامان کرتی ہے تو ناگوار بو کو پھیلا کر ہمیں بیزار کرتی ہے۔ موسموں کے حساب سے ہی ہوا اچھی لگتی ہے، ہوا گرمیوں میں ہو تو باعث سکوں اور سردیوں میں ہو تو ہڈیوں میں گودا جمنے لگتا ہے، حبس ہو اور ہوا کی دعا مانگیں تو ٹھنڈی ہوا ہی مانگی جاتی ہے... لو کے چلنے کی دعا کوئی نہیں کرتا۔
یہی ہوا کبھی نعمت سے زحمت بن جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ قدرت ناراض ہے... نرم اور پرسکون ہوا جب آندھی، طوفان، بگولوں اور گردباد کا روپ دھار لے تو اس کے آگے کوئی انسانی طاقت نہیں ٹھہر سکتی، یہ ہر ایک شے کو لپیٹتی چلی جاتی ہے خواہ وہ انسان ہوں ، جانور، گھر، گاڑیاں ، ہوائی اور بحری جہاز یا بڑی بڑی عمارات... پانی اور آگ کی ممکنہ تباہی سے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی احتیاطی تدابیر کی جاسکتی ہیں... دریاؤں کے رخ موڑے جا سکتے ہیں، ڈیم اور بند بنائے جا سکتے ہیں۔ آگ سے بچاؤ کے لیے بھی عمارات میں آگ بجھانے کے آلات کی تنصیب اور فائر بریگیڈ کی ہنگامی سہولیات تیار ہوتی ہیں مگر ابھی تک انسان دماغ ایسا کچھ نہیں بنا سکا جو ہواؤں کو قابو کر سکے، ان کی رفتار کو کنٹرول کر سکے، ان کا رخ موڑ سکے یا ان سے ہونے والی تباہی کو روک سکے۔
آگ اللہ کی ایک اور ایسی نعمت ہے جس کا نام لیتے ہی خوف آتا ہے، نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھڑکائی ہوئی اس آگ کا تصور سوہان روح ہے جہاں کوئی جانا نہیں چاہتا... مگر کتنا اور کس طرح ہم اس آگ سے بچنے کا سامان اس دنیا میں کر پاتے ہیں؟ ثواب اور عذاب کے سارے طریقے ، ان کی سزائیں اور جزائیں ہمیں اللہ نے کتاب حکمت میں کھول کھول کر بیان کی ہیں... جنت اور جہنم کے مابین حد فاصل کیا ہے اور ان تک جانے کے راستوں کے نقشے بھی سمجھا دیے ہیں۔ اسی آگ کو جس سے ہم (بظاہر) خوف کھاتے ہیں ہمارے ماتحت کر دیا، ہم اسے احتیاط کے تقاضے مد نظر رکھ کر استعمال کریں تو یہ ہمارے کئی دنیاوی نظام چلاتی ہے جن میں مشینیں ، فیکٹریاں ، جہاز اور ریل گاڑیاں شامل ہیں۔
اب بچے بڑے ہو چکے ہیں تو اپنے سبق میں شامل کریں کہ انسانی مزاج اور فطرت بھی ان قدرتی عناصر کی طرح ہیں کیونکہ انسانی جسم میں یہ عناصر موجود ہیں... ہوا، پانی اور آگ!!!! ہوا جسم میں داخل بھی ہوتی ہے... جسم کو تازگی عطا کرتی ہے، سانس کے ذریعے ہم اسے جسم میں داخل اور خارج کرتے ہیں مگر بے اختیاری، اسے فطرت چلا رہی ہے، مگر ہمار ا مزاج ہوا کی طرح ہے، کبھی سرور بخش ہوتا ہے تو کبھی یکلخت برہم ہو جاتا ہے۔ ہوا کی آمد اور رفت کو ہم نہیں چلا رہے مگر مزاج کو ہم چلا سکتے ہیں۔
پانی پاکیزگی کا باعث...جسم میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے... انسانی جسم میں پانی تقریبا دو تہائی موجود ہوتا ہے... پانی کا ایک قطرہ ہماری ابتدا ہے... پانی ہم پیتے ہیں اور جسم سے کئی طریقوں سے خارج کرتے ہیں، پانی کی کمی اور زیادتی دونوں جسم کو مختلف طریقوں سے بیمار کر دیتی ہیں۔ پانی کا جسمانی کیمیا جذبات ہے، کبھی کبھی غصے سے ابلنے لگتے ہیں تو کبھی بے حسی سے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، کبھی اپنی حد میں رہتے ہیں تو کبھی حدیں توڑ کر باہر نکلنے لگتے ہیں، کبھی آنسو بن کر بہنے لگتے ہیں تو کبھی کسی کی سفاکی پر ہاتھوں سے ٹھنڈے پسینے بن کر پھوٹ نکلتے ہیں... کبھی پیار کی پھوار کی مانند برسنے لگتے ہیں تو کبھی کسی کی محبت سے متاثر ہو کر سرد جذبات کی برف پگھلنے لگتی ہے، کسی بات پر پانی پانی ہو جاتے ہیں تو کبھی ندامت سے چلو بھر پانی ڈھونڈتے ہیں۔
سب سے خطر ناک عنصر جسمانی کیمسٹری کے حساب سے آگ ہے... آگ جو ہے، تباہی ہے، غصہ ہے، برہمی ہے، سفاکی ہے، حسد ہے... خود بھی جلتی ہے اور سامنے والے کو بھی جلا کر راکھ کر دیتی ہے، اس پر قابو پانا سب سے اہم ہے... یہ انسانی شخصیت کی ہر خوب صورتی کو ماند کر دیتی اور اس کا چہرہ انتہائی کرخت کر دیتی ہے... کسی جن کی مانند حسد کرنیوالے پر بھی سوار ہو کر اسے کھوکھلا اور بد صورت کر دیتی ہے... اس سے بچیں اور اپنی شخصیت کے بہترین پہلوؤں کو اجاگر کریں!!!
'' اللہ تعالی نے... '' تین سے چار سال کے درمیان کی عمروں کے ننھے ننھے بچوں کی مشترکہ آواز آئی۔
'' سورج ، چاند اور ستارے کس نے بنائے؟ ''
'' اللہ تعالی نے... '' بچوں نے یک آواز کہا۔
'' ہوا ، پانی، درخت، پودے، پہاڑ کس نے بنائے؟ '' ٹیچر کا اگلا سوال تھا۔ جواب مجھے بھی معلوم تھا اور جونہی میں نے کلاس کا دروازہ کھولا، بچوں کی آواز اور بھی بلند، واضع اور با اعتماد تھی۔
'' اللہ تعالی نے... '' ان کے جواب کے ساتھ ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ان سب نے کھڑے ہو کر اپنی ٹیچر کے ساتھ مجھے ایک آواز میں سلام کیا، ان کے سلام کا جواب ،اورشکریہ ادا کر کے انھیں کے بیچ ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
'' اچھا بچو سنو... '' میں نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا، '' آپ کے اتنے پیارے پیارے چہرے، پھول جیسے نازک وجود، روشن ماتھے، چمکتی ذہین آنکھیں ، موتیوں جیسے دانت، ریشم جیسے بال کس نے بنائے؟ '' ایسا پوچھتے ہوئے میں ننھی سی عظیمان کے گھنگھریالے بالوں سے کھیل رہی تھی۔
'' اللہ تعالی نے... '' بچوں نے اتنے طویل سوال پر کھلکھلا کر جواب دیا، ٹیچر حنا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی، وہ بے اختیاری میں بچوں کے ساتھ جواب میں شامل ہو گئی تھی۔
'' ہوں ... '' میں نے مسکرا کر سب کو داد دی، '' اچھا تو بتائیں کہ آپ کے اتنے پیارے پیارے اسکول بیگ، لنچ باکس، رنگوں کی پنسلیں، کاغذ جس پر آپ لکھتے ہو، کمپیوٹر جس پر آپ سیکھتے ہو... یہ سب کس نے بنائے؟ '' میں نے اگلا سوال کیا۔
'' اللہ تعالی نے... '' جواب میری توقع کے عین مطابق تھا اور اب ٹیچر کی ہنسی نکل گئی۔
'' نہیں پیارو... '' ٹیچر نے فوراً کہا، '' یہ سب تو انسان بناتے ہیں، ہم انسان ! ''
'' ہاں بچو... ٹیچر بالکل ٹھیک کہتی ہیں، یہ سب چیزیں انسان بناتے ہیں مگر انسان کو یہ سب بنانا کیسے آتا ہے، کیونکہ اس کے پاس دماغ ہے... اور ہمارا سب کا دماغ کس نے بنایا ہے؟ ''
'' اللہ تعالی نے... '' بچوں نے پورے وثوق سے کہا۔
'' بالکل درست... '' میں نے ان سب کو داد دی۔
'' اللہ نے ہمیں بہت سی نعمتیں دی ہیں، ہوا، پانی، آگ... '' ٹیچر بچوں کو اپنی آسان زبان میں سمجھا رہی تھی اور میں کلاس سے باہر نکلی تو مجھ پر سوچ کے کئی در وا تھے۔
ہم بچوں کو ابتدائی سبق سکھا کر کچھ سالوں کے بعد بھول جاتے ہیں کہ ان اسباق کو ہمیں عمر بھر ان کے لیے جاری رکھنا ہے... جوں جوں ان کے ذہن کی پرداخت ہوتی ہے اسی لحاظ سے، جب ہم کورس کی کتابوں کو درجہ وار مشکل کرتے چلے جاتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ استاد کی بات چیت کے درجات بھی بڑھتے چلے جانے چاہئیں... کتابی علم سے زیادہ جس بات کو بچے carry forward کرتے ہیں وہ استاد کا بچوں کے ساتھ گفتگو کا رابطہ ہے، اسی لیے ہمیشہ وہ استاد کامیاب رہتے ہیں جو بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی استعداد کے مطابق گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں۔ بچوں سے بات چیت کا رابطہ ہمیشہ قائم رکھیں اور اسے ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ پختہ کرتے جائیں، یہی کام ماں باپ کو بھی کرنا چاہیے... ان کی عمر کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن کی پرورش کریں، جوں جوں وہ بڑھتے ہیں ان کے سوال تبدیل ہوتے جاتے ہیں... مگر ہم خود جانتے ہیں کہ گفتگو کی عمر کے ساتھ پرورش کے ساتھ درجات کیا ہوتے ہیں؟
اللہ کی نعمتوں ہی کی مثال لے لیں، ہم انھیں ابتدائی سالوں میں ان کا ادراک دے کر فارغ ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں اس کی ضرورت نہیں سمجھتے ... مگر انھیں یہ بتانا لازم ہے کہ نعمتیں کیوں عطا کی جاتی ہیں ، ان کا استعمال کس طرح ہوتا ہے، منفی اور مثبت... نعمتیں چھین کیوں لی جاتی ہیں اور یہی نعمتیں اور رحمتیں ، زحمت کیوں اور کس طرح بن جاتی ہیں... فطری عناصر کے ساتھ جسمانی عناصر اور رویوں کا کیا ربط ہے۔
اللہ کی بہت سی نعمتیں دو رخی ہیں... پانی کی مثال لے لیں ، میں سمجھتی ہوں کہ اللہ نے اس سے بڑی نعمت ہمیں کوئی نہیں دی، پانی زندگی کی علامت اور اولین ضرورت ہے، مگر یہ پانی تب تک نعمت ہے جب تک یہ اس برتن کے پیندے سے ابل کر باہر نہیں آنے لگتا جو برتن اللہ تعالی نے اس کے لیے تخلیق کیا ہے، پیندے سے باہر آنیوالا پانی تباہی لاتا ہے ، خواہ وہ کسی پیندا کسی جھیل کا ہو، نالے کا، ندی کا ، دریا کا یا سمندر کا۔ سیلاب اور سونامی اس عظیم نعمت کے تباہ کن اثرات ہیں، جب دست قدرت ہمیں کوئی سبق سکھانے کا یا راہ پر لانے کا عزم کرتی ہے تو ہم پر ایسی آفات کا نزول ہوتا ہے، مگر قدرت کے اسے چھپے پیغام کو ہم کب سمجھ پاتے ہیں؟
قدرت کی عطا کردہ دوسری اہم نعمت ہوا ہے... اہمیت کے اعتبار سے ہوا اور پانی میں سے کسی ایک کا تعین کرنا مشکل ہے۔ ہوا ہماری اہم ضرورت ہے، سانس لینے سے لے کر جسمانی سکون کی خاطر... اسی کے زور پر زمانہ قدیم میں بادبانی کشتیاں چلتیں اور اسی کے وجود نے انسان کو اڑنے کا وہ تصور دیا جو بالآخر ہوائی جہاز کی ایجاد پر منتج ہوا...ہوائیں قدرت کے اصولوں کے مطابق پولن کی ترسیل کا کام کرتی ہیں جو پودوں کی افزائش کے لیے اہم ہے۔ ہوا جب تک نرم ہے، وجود کو سکون اور فرحت کا احساس دیتی ہے... یہی ہوا جہاں خوشبو کو پھیلا کر ہمیں فرحت کا سامان کرتی ہے تو ناگوار بو کو پھیلا کر ہمیں بیزار کرتی ہے۔ موسموں کے حساب سے ہی ہوا اچھی لگتی ہے، ہوا گرمیوں میں ہو تو باعث سکوں اور سردیوں میں ہو تو ہڈیوں میں گودا جمنے لگتا ہے، حبس ہو اور ہوا کی دعا مانگیں تو ٹھنڈی ہوا ہی مانگی جاتی ہے... لو کے چلنے کی دعا کوئی نہیں کرتا۔
یہی ہوا کبھی نعمت سے زحمت بن جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ قدرت ناراض ہے... نرم اور پرسکون ہوا جب آندھی، طوفان، بگولوں اور گردباد کا روپ دھار لے تو اس کے آگے کوئی انسانی طاقت نہیں ٹھہر سکتی، یہ ہر ایک شے کو لپیٹتی چلی جاتی ہے خواہ وہ انسان ہوں ، جانور، گھر، گاڑیاں ، ہوائی اور بحری جہاز یا بڑی بڑی عمارات... پانی اور آگ کی ممکنہ تباہی سے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی احتیاطی تدابیر کی جاسکتی ہیں... دریاؤں کے رخ موڑے جا سکتے ہیں، ڈیم اور بند بنائے جا سکتے ہیں۔ آگ سے بچاؤ کے لیے بھی عمارات میں آگ بجھانے کے آلات کی تنصیب اور فائر بریگیڈ کی ہنگامی سہولیات تیار ہوتی ہیں مگر ابھی تک انسان دماغ ایسا کچھ نہیں بنا سکا جو ہواؤں کو قابو کر سکے، ان کی رفتار کو کنٹرول کر سکے، ان کا رخ موڑ سکے یا ان سے ہونے والی تباہی کو روک سکے۔
آگ اللہ کی ایک اور ایسی نعمت ہے جس کا نام لیتے ہی خوف آتا ہے، نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھڑکائی ہوئی اس آگ کا تصور سوہان روح ہے جہاں کوئی جانا نہیں چاہتا... مگر کتنا اور کس طرح ہم اس آگ سے بچنے کا سامان اس دنیا میں کر پاتے ہیں؟ ثواب اور عذاب کے سارے طریقے ، ان کی سزائیں اور جزائیں ہمیں اللہ نے کتاب حکمت میں کھول کھول کر بیان کی ہیں... جنت اور جہنم کے مابین حد فاصل کیا ہے اور ان تک جانے کے راستوں کے نقشے بھی سمجھا دیے ہیں۔ اسی آگ کو جس سے ہم (بظاہر) خوف کھاتے ہیں ہمارے ماتحت کر دیا، ہم اسے احتیاط کے تقاضے مد نظر رکھ کر استعمال کریں تو یہ ہمارے کئی دنیاوی نظام چلاتی ہے جن میں مشینیں ، فیکٹریاں ، جہاز اور ریل گاڑیاں شامل ہیں۔
اب بچے بڑے ہو چکے ہیں تو اپنے سبق میں شامل کریں کہ انسانی مزاج اور فطرت بھی ان قدرتی عناصر کی طرح ہیں کیونکہ انسانی جسم میں یہ عناصر موجود ہیں... ہوا، پانی اور آگ!!!! ہوا جسم میں داخل بھی ہوتی ہے... جسم کو تازگی عطا کرتی ہے، سانس کے ذریعے ہم اسے جسم میں داخل اور خارج کرتے ہیں مگر بے اختیاری، اسے فطرت چلا رہی ہے، مگر ہمار ا مزاج ہوا کی طرح ہے، کبھی سرور بخش ہوتا ہے تو کبھی یکلخت برہم ہو جاتا ہے۔ ہوا کی آمد اور رفت کو ہم نہیں چلا رہے مگر مزاج کو ہم چلا سکتے ہیں۔
پانی پاکیزگی کا باعث...جسم میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے... انسانی جسم میں پانی تقریبا دو تہائی موجود ہوتا ہے... پانی کا ایک قطرہ ہماری ابتدا ہے... پانی ہم پیتے ہیں اور جسم سے کئی طریقوں سے خارج کرتے ہیں، پانی کی کمی اور زیادتی دونوں جسم کو مختلف طریقوں سے بیمار کر دیتی ہیں۔ پانی کا جسمانی کیمیا جذبات ہے، کبھی کبھی غصے سے ابلنے لگتے ہیں تو کبھی بے حسی سے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، کبھی اپنی حد میں رہتے ہیں تو کبھی حدیں توڑ کر باہر نکلنے لگتے ہیں، کبھی آنسو بن کر بہنے لگتے ہیں تو کبھی کسی کی سفاکی پر ہاتھوں سے ٹھنڈے پسینے بن کر پھوٹ نکلتے ہیں... کبھی پیار کی پھوار کی مانند برسنے لگتے ہیں تو کبھی کسی کی محبت سے متاثر ہو کر سرد جذبات کی برف پگھلنے لگتی ہے، کسی بات پر پانی پانی ہو جاتے ہیں تو کبھی ندامت سے چلو بھر پانی ڈھونڈتے ہیں۔
سب سے خطر ناک عنصر جسمانی کیمسٹری کے حساب سے آگ ہے... آگ جو ہے، تباہی ہے، غصہ ہے، برہمی ہے، سفاکی ہے، حسد ہے... خود بھی جلتی ہے اور سامنے والے کو بھی جلا کر راکھ کر دیتی ہے، اس پر قابو پانا سب سے اہم ہے... یہ انسانی شخصیت کی ہر خوب صورتی کو ماند کر دیتی اور اس کا چہرہ انتہائی کرخت کر دیتی ہے... کسی جن کی مانند حسد کرنیوالے پر بھی سوار ہو کر اسے کھوکھلا اور بد صورت کر دیتی ہے... اس سے بچیں اور اپنی شخصیت کے بہترین پہلوؤں کو اجاگر کریں!!!