مسجد نبوی میں ہونے والا واقعہ
اللہ کریم ہمارے دلوں میں بھی ایسا عشق مصطفیﷺ بھر دے جو ہمارے اسلاف میں موجود تھا
RAWALPINDI:
جو دل اللہ کے رسولﷺ کے ادب اور احترام سے خالی ہے، وہ دراصل تقویٰ سے خالی ہے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے، صحابہ کرامؓ آپ کے ارد گرد بیٹھے تھے، آپس میں محوِ گفتگو صحابہ کرامؓ میں سے کچھ کی آوازیں بے خیالی میں معمول سے اونچی ہو گئیں۔
یہ عمل جان بوجھ کر نہیں ہوا بلکہ بے خیالی میں ہوا، ورنہ صحابہ کرامؓ تو حضورﷺکے ادب و احترام کا بہت خیال رکھتے تھے، لیکن ربّ ذوالجلال کو اپنے محبوب کی موجودگی میں آواز کی یہ بے احتیاطی بھی پسند نہ آئی اور جبرائیل امینؑ، اللہ کا حکم لے کر حاضر ہو گئے فرمایا ''اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبیﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیﷺ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو'' (سورۃ الحجرات)۔ اس آیت کے نزول پر صحابہ کرامؓ، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے مزید محتاط ہو گئے۔
حضرت ثابت بن قیسؓ کی آواز قدرتی طور پر بھاری تھی اور بلند بھی، اس حکم خداوندی کے آنے کے بعد اْنہوں نے خود کو گھر میں گوشہ نشین کر لیا اورباہر نکلنا بند کر دیا۔ تنہائی میں اتنا روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو جاتی، حتیٰ کہ کھانا پینا بھی تَرک کر دیا۔ حضور نبی کریمﷺ اپنے صحابہؓ کے حال احوال سے باخبر رہا کرتے تھے، جب کئی دن گزر گئے اور حضرت ثابت بن قیسؓ نظر نہ آئے، تو آپﷺ نے حضرت سعد بن معاذؓ سے دریافت فرمایا ''ثابتؓ کا کیا حال ہے؟''، حضرت سعدؓ نے جواباً عرض کیا''یارسول اللہؓ! وہ میرے پڑوسی ہیں، مگر مجھے اْن کی بیماری وغیرہ کا تو کوئی علم نہیں، البتہ ابھی جا کر اْن کی کیفیت معلوم کر کے آپﷺ کو مطلع کرتا ہوں۔'' حضرت سعدؓ جب اْن کے گھر گئے، تو وہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔
حضرت سعدؓ نے پوچھا'' اے ثابتؓ! کیا حال ہے؟'' جس پر اْنہوں نے جواب دیا'' بْرا حال ہے۔ (میری آواز سب سے بلند اور بھاری ہے) بعض اوقات (غیر ارادی طور پر) میری آواز،رسول اللہﷺ کی آواز سے بلند ہو جاتی تھی، لہٰذا (اس آیت کے نزول کے بعد) اب میرے سب اعمال ضایع ہو گئے اور اسی غم نے مجھے نڈھال کر رکھا ہے۔'' حضرت سعدؓ نے واپس جا کر نبی کریم ﷺکو مطلع کیا، تو آپﷺ نے فرمایا''تم اْن کے پاس جاؤ اور اْن سے کہو کہ وہ جنتی ہیں''(بخاری)۔ یہ ہے اللہ کے رسولﷺ کی عظمت کہ صحابہ کرامؓ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ نبیﷺ کی مجلس میں بات کرو، تو ادب اور قرینے کے ساتھ، دھیمے لہجے میں کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی عْمر بھر کی کمائی ضایع کر دے اور یہی حکم بعد کے لوگوں کے لیے بھی ہے۔
مسجد نبوی میں ستائیسویں شب جو ہوا وہ پاکستانی مسلمانوں ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ ہر صاحب ایمان شدید مضطرب ہے۔ایسی پستی۔ اللہ کی پناہ۔ ان بدنصیبوں کو ایک لمحے کے لیے خیال نہیں آیا کہ ان کے اس عمل سے مسلمانوں کے دل کتنے دکھی ہوئے ہوں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد میں شامل خواتین و حضرات کے خلاف نازیبا نعرے لگائے گئے، گالیاں دی گئیں، ان کے ساتھ دست درازی کی گئی، بال نوچے گئے۔ ہمارے دین اور معاشرے میں خواتین کے احترام کو شرافت کی دلیل سمجھا جاتا ہے، جو جتنا احترام خواتین کا کرتا ہے وہ اتنا مہذب اور شریف کہلاتا ہے مگر ان بدزبان لوگوں کا شرافت و تہذیب کے ساتھ کیا تعلق۔ حکومتی وفد میں شامل ایک خاتون کے ساتھ بد تمیزی کی گئی۔
وہ تو اللہ کریم جزائے خیر دے شاہ زین بگٹی کو، جس نے اپنے بزرگوں کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے اس خاتون کے آگے دیوار بن گئے اور اس کی جانب بڑھنے والے ہاتھوں کو روکتے رہے، دھکے برداشت کیے لیکن اس خاتون پر آنچ نہ آنے دی۔ مگر ان بد نصیبوں کا مرض اتنا بڑھ چکا تھا کہ اب ان کے شر سے بچنے کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
آقاکریمﷺ کس قدر مضطرب ہوں گے، فرشتے بھی دم بخود ہونگے، کہہ رہے ہونگے کہ حکم کریں تو ایسے بد بختوں سے زمین کو پاک کر دیں اور میرے کریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اداس دل کے ساتھ فرما رہے ہونگے۔ الھم اغفرلی قومی فانھم لا یعلمون... لیکن اللہ اس معاملے میں بہت حساس ہے۔ وہ شرک اور اپنے نبی کی توہین معاف نہیں کرتا۔ وہ آیات تو یاد ہونگی۔
اسے تو اپنے محبوب کے سامنے کسی کی بلند آواز بھی پسند نہیں، پھر اس ہلڑ بازی اور طوفان بد تمیزی کو کیسے برداشت کرے گا۔ اسی لیے واضح اور دوٹوک فرمان جاری کردیاکہ''میرے محبوب کی موجودگی میں اپنی آوازیں بلند مت کرنا ورنہ اعمال ضایع کر دیے جائیں گے اور تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔'' یہ جو پتا بھی نہیں چلے گا کی تفسیر ہے نا، اللہ اکبر، اللہ اکبر... ایک تو یہ ہے کہ گناہ کا پتا چل جائے اور بندہ معافی مانگ لے، یہاں یہ ہے کہ پتا بھی نہیں چلے گا اور ساری عمر کی عبادات منہ پہ مار دی جائیں گی۔
بحیثیت مسلمان ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ کس نے کس کے خلاف نعرے لگائے؟ اور کس نے کس کو گالیاں دیں؟ کیونکہ آج کل سب کی زندگی کا مقصد ہی ایک دوسرے کو گالیاں بکنا ہے اور پوری یکسوئی سے یہ کام سب کر رہے ہیں۔
کسی کی جرات نہیں کہ ان کے اس عمل میں خلل ڈالے۔ بلکہ سیاستدانوں کی غلیظ زبانوں اور بد اخلاقی کی وجہ سے گالم گلوچ ہمارے معاشرے میں سرائیت کرگئی ہے۔ مجھ سمیت سب کو دکھ اس مرض کے شدت پر ہے کہ حرمین شریفین کی معطر و مطہر روحانی ماحول اور وجہ تخلیق کائنات محبوب الٰہی کا روضہ اقدس اور سیکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آخری آرام گاہوں کے حرمت کا خیال نہیں رکھا گیا اور اپنی سیاسی غلاظت کو وہاں انڈیل کر پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے گئے۔ اپنی اپنی سیاسی کالک کو پاکستان اور بے گناہ پاکستانیوں کے منہ پر ملا۔
ان ظالموں نے امت مسلمہ کے ہر ذی شعور فرد کو بہت درد پہنچایا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ رمضان المبارک کی 27 ویں شب مسلمان ان بد زبانوں کو بدعائیں دیتے رہے۔
مسلمان تو بندہ صرف کلمہ طیبہ پڑھنے سے ہوجاتا ہے مگر ایمان برقرار رکھنے کے لیے بسم اللہ کے ''ب'' سے لے کر والناس کے ''س'' تک ہر لفظ کو ماننا پڑیگا۔ ایک لفظ کے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اگریہ ظالم روضہ رسول پر حاضری اور نماز کی نیت سے گئے ہوتے تو ان کو روضہ اطہر کی جالیوں پر لکھی آیت قرآنی کا تو خیال ہوتا۔ مگر جو لوگ اس گناہ کے بعد اس پر فخر کریں تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اور ان کے منہ لگنے کے بجائے ان سب اور ان کے ہمنواؤں اور ساتھ دینے والوں کا معاملہ اللہ رب العزت کے سپردکرنا چاہیے۔
میں جب جب اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیسے بد بخت لوگ ہیں، جو اپنے ہاتھوں سے اپنے اعمال و ایمان کے دشمن بن گئے اور تاریخ کے اوراق کو پلٹتا ہوں تو ایسی ایسی عظیم شخصیات بھی ملتی ہیں جو تعظیم حرمت رسولﷺ میں لازوال مثالیں چھوڑ گئے ہیں، ان میں سے ایک نام سرخیل علماء دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ علیہ کا ہے جو عشق نبوی میں اس مقام پر فائز تھے کہ جس سرزمین پر نبی اکرمﷺکے قدم مبارک پڑے ہیں۔
ان کی عظمت ومحبت بھی ان کے دل میں اس قدر راسخ تھی کہ جب آپ حج کے لیے تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ سے کئی میل کی دوری پر ہی پاؤں سے جوتے اتار لیے، اور آپ کے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا کہ سرزمین رسول پر جوتے پہن کر چلیں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ علیہ جو سرتاج اولیاء تھے، ان کے عشق رسول میں فنائیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ کی کھجورکی گٹھلیاں پیس کر صبح وشام کھایا کرتے تھے،کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم گٹھلیوں کی بات کرتے ہو،مجھے تو یقین ہے کہ مدینہ کی مٹی میں بھی شفا ہے۔
مدینہ کی مٹی بھی خاک شفا ہے
یہاں تک ہے دل میں وقار مدینہ
لگائیں گے آنکھوں میں سرمہ سمجھ کر
ملے گر ہمیں کچھ غبار مدینہ
انھیں علماء میں علم وفن میں ممتاز مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ بھی ہیں جنھوں نے اٹھارہ سال تک مسجد نبوی میں درس حدیث دیا، اور پھر ایک وقت وہ آیا جب اس دیار محبوب سے جدائی پر مجبور ہونا پڑا توروضہ اقدس کی جالی کو دیکھتے ہوئے پرنم آنکھوں کے ساتھ یہ اشعار کہتے ہوئے رخصت ہوئے:
چمکتا رہے تیرے روضے کا منظر
سلامت رہے تیرے روضے کی جالی
ہمیں بھی عطا ہووہ شوق ابوبکر
ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبہ بلالی
اللہ کریم ہمارے دلوں میں بھی ایسا عشق مصطفیﷺ بھر دے جو ہمارے اسلاف میں موجود تھا۔ (آمین)
جو دل اللہ کے رسولﷺ کے ادب اور احترام سے خالی ہے، وہ دراصل تقویٰ سے خالی ہے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے، صحابہ کرامؓ آپ کے ارد گرد بیٹھے تھے، آپس میں محوِ گفتگو صحابہ کرامؓ میں سے کچھ کی آوازیں بے خیالی میں معمول سے اونچی ہو گئیں۔
یہ عمل جان بوجھ کر نہیں ہوا بلکہ بے خیالی میں ہوا، ورنہ صحابہ کرامؓ تو حضورﷺکے ادب و احترام کا بہت خیال رکھتے تھے، لیکن ربّ ذوالجلال کو اپنے محبوب کی موجودگی میں آواز کی یہ بے احتیاطی بھی پسند نہ آئی اور جبرائیل امینؑ، اللہ کا حکم لے کر حاضر ہو گئے فرمایا ''اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبیﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیﷺ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو'' (سورۃ الحجرات)۔ اس آیت کے نزول پر صحابہ کرامؓ، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے مزید محتاط ہو گئے۔
حضرت ثابت بن قیسؓ کی آواز قدرتی طور پر بھاری تھی اور بلند بھی، اس حکم خداوندی کے آنے کے بعد اْنہوں نے خود کو گھر میں گوشہ نشین کر لیا اورباہر نکلنا بند کر دیا۔ تنہائی میں اتنا روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو جاتی، حتیٰ کہ کھانا پینا بھی تَرک کر دیا۔ حضور نبی کریمﷺ اپنے صحابہؓ کے حال احوال سے باخبر رہا کرتے تھے، جب کئی دن گزر گئے اور حضرت ثابت بن قیسؓ نظر نہ آئے، تو آپﷺ نے حضرت سعد بن معاذؓ سے دریافت فرمایا ''ثابتؓ کا کیا حال ہے؟''، حضرت سعدؓ نے جواباً عرض کیا''یارسول اللہؓ! وہ میرے پڑوسی ہیں، مگر مجھے اْن کی بیماری وغیرہ کا تو کوئی علم نہیں، البتہ ابھی جا کر اْن کی کیفیت معلوم کر کے آپﷺ کو مطلع کرتا ہوں۔'' حضرت سعدؓ جب اْن کے گھر گئے، تو وہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔
حضرت سعدؓ نے پوچھا'' اے ثابتؓ! کیا حال ہے؟'' جس پر اْنہوں نے جواب دیا'' بْرا حال ہے۔ (میری آواز سب سے بلند اور بھاری ہے) بعض اوقات (غیر ارادی طور پر) میری آواز،رسول اللہﷺ کی آواز سے بلند ہو جاتی تھی، لہٰذا (اس آیت کے نزول کے بعد) اب میرے سب اعمال ضایع ہو گئے اور اسی غم نے مجھے نڈھال کر رکھا ہے۔'' حضرت سعدؓ نے واپس جا کر نبی کریم ﷺکو مطلع کیا، تو آپﷺ نے فرمایا''تم اْن کے پاس جاؤ اور اْن سے کہو کہ وہ جنتی ہیں''(بخاری)۔ یہ ہے اللہ کے رسولﷺ کی عظمت کہ صحابہ کرامؓ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ نبیﷺ کی مجلس میں بات کرو، تو ادب اور قرینے کے ساتھ، دھیمے لہجے میں کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی عْمر بھر کی کمائی ضایع کر دے اور یہی حکم بعد کے لوگوں کے لیے بھی ہے۔
مسجد نبوی میں ستائیسویں شب جو ہوا وہ پاکستانی مسلمانوں ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ ہر صاحب ایمان شدید مضطرب ہے۔ایسی پستی۔ اللہ کی پناہ۔ ان بدنصیبوں کو ایک لمحے کے لیے خیال نہیں آیا کہ ان کے اس عمل سے مسلمانوں کے دل کتنے دکھی ہوئے ہوں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد میں شامل خواتین و حضرات کے خلاف نازیبا نعرے لگائے گئے، گالیاں دی گئیں، ان کے ساتھ دست درازی کی گئی، بال نوچے گئے۔ ہمارے دین اور معاشرے میں خواتین کے احترام کو شرافت کی دلیل سمجھا جاتا ہے، جو جتنا احترام خواتین کا کرتا ہے وہ اتنا مہذب اور شریف کہلاتا ہے مگر ان بدزبان لوگوں کا شرافت و تہذیب کے ساتھ کیا تعلق۔ حکومتی وفد میں شامل ایک خاتون کے ساتھ بد تمیزی کی گئی۔
وہ تو اللہ کریم جزائے خیر دے شاہ زین بگٹی کو، جس نے اپنے بزرگوں کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے اس خاتون کے آگے دیوار بن گئے اور اس کی جانب بڑھنے والے ہاتھوں کو روکتے رہے، دھکے برداشت کیے لیکن اس خاتون پر آنچ نہ آنے دی۔ مگر ان بد نصیبوں کا مرض اتنا بڑھ چکا تھا کہ اب ان کے شر سے بچنے کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
آقاکریمﷺ کس قدر مضطرب ہوں گے، فرشتے بھی دم بخود ہونگے، کہہ رہے ہونگے کہ حکم کریں تو ایسے بد بختوں سے زمین کو پاک کر دیں اور میرے کریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اداس دل کے ساتھ فرما رہے ہونگے۔ الھم اغفرلی قومی فانھم لا یعلمون... لیکن اللہ اس معاملے میں بہت حساس ہے۔ وہ شرک اور اپنے نبی کی توہین معاف نہیں کرتا۔ وہ آیات تو یاد ہونگی۔
اسے تو اپنے محبوب کے سامنے کسی کی بلند آواز بھی پسند نہیں، پھر اس ہلڑ بازی اور طوفان بد تمیزی کو کیسے برداشت کرے گا۔ اسی لیے واضح اور دوٹوک فرمان جاری کردیاکہ''میرے محبوب کی موجودگی میں اپنی آوازیں بلند مت کرنا ورنہ اعمال ضایع کر دیے جائیں گے اور تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔'' یہ جو پتا بھی نہیں چلے گا کی تفسیر ہے نا، اللہ اکبر، اللہ اکبر... ایک تو یہ ہے کہ گناہ کا پتا چل جائے اور بندہ معافی مانگ لے، یہاں یہ ہے کہ پتا بھی نہیں چلے گا اور ساری عمر کی عبادات منہ پہ مار دی جائیں گی۔
بحیثیت مسلمان ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ کس نے کس کے خلاف نعرے لگائے؟ اور کس نے کس کو گالیاں دیں؟ کیونکہ آج کل سب کی زندگی کا مقصد ہی ایک دوسرے کو گالیاں بکنا ہے اور پوری یکسوئی سے یہ کام سب کر رہے ہیں۔
کسی کی جرات نہیں کہ ان کے اس عمل میں خلل ڈالے۔ بلکہ سیاستدانوں کی غلیظ زبانوں اور بد اخلاقی کی وجہ سے گالم گلوچ ہمارے معاشرے میں سرائیت کرگئی ہے۔ مجھ سمیت سب کو دکھ اس مرض کے شدت پر ہے کہ حرمین شریفین کی معطر و مطہر روحانی ماحول اور وجہ تخلیق کائنات محبوب الٰہی کا روضہ اقدس اور سیکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آخری آرام گاہوں کے حرمت کا خیال نہیں رکھا گیا اور اپنی سیاسی غلاظت کو وہاں انڈیل کر پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے گئے۔ اپنی اپنی سیاسی کالک کو پاکستان اور بے گناہ پاکستانیوں کے منہ پر ملا۔
ان ظالموں نے امت مسلمہ کے ہر ذی شعور فرد کو بہت درد پہنچایا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ رمضان المبارک کی 27 ویں شب مسلمان ان بد زبانوں کو بدعائیں دیتے رہے۔
مسلمان تو بندہ صرف کلمہ طیبہ پڑھنے سے ہوجاتا ہے مگر ایمان برقرار رکھنے کے لیے بسم اللہ کے ''ب'' سے لے کر والناس کے ''س'' تک ہر لفظ کو ماننا پڑیگا۔ ایک لفظ کے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اگریہ ظالم روضہ رسول پر حاضری اور نماز کی نیت سے گئے ہوتے تو ان کو روضہ اطہر کی جالیوں پر لکھی آیت قرآنی کا تو خیال ہوتا۔ مگر جو لوگ اس گناہ کے بعد اس پر فخر کریں تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اور ان کے منہ لگنے کے بجائے ان سب اور ان کے ہمنواؤں اور ساتھ دینے والوں کا معاملہ اللہ رب العزت کے سپردکرنا چاہیے۔
میں جب جب اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیسے بد بخت لوگ ہیں، جو اپنے ہاتھوں سے اپنے اعمال و ایمان کے دشمن بن گئے اور تاریخ کے اوراق کو پلٹتا ہوں تو ایسی ایسی عظیم شخصیات بھی ملتی ہیں جو تعظیم حرمت رسولﷺ میں لازوال مثالیں چھوڑ گئے ہیں، ان میں سے ایک نام سرخیل علماء دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ علیہ کا ہے جو عشق نبوی میں اس مقام پر فائز تھے کہ جس سرزمین پر نبی اکرمﷺکے قدم مبارک پڑے ہیں۔
ان کی عظمت ومحبت بھی ان کے دل میں اس قدر راسخ تھی کہ جب آپ حج کے لیے تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ سے کئی میل کی دوری پر ہی پاؤں سے جوتے اتار لیے، اور آپ کے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا کہ سرزمین رسول پر جوتے پہن کر چلیں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ علیہ جو سرتاج اولیاء تھے، ان کے عشق رسول میں فنائیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ کی کھجورکی گٹھلیاں پیس کر صبح وشام کھایا کرتے تھے،کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم گٹھلیوں کی بات کرتے ہو،مجھے تو یقین ہے کہ مدینہ کی مٹی میں بھی شفا ہے۔
مدینہ کی مٹی بھی خاک شفا ہے
یہاں تک ہے دل میں وقار مدینہ
لگائیں گے آنکھوں میں سرمہ سمجھ کر
ملے گر ہمیں کچھ غبار مدینہ
انھیں علماء میں علم وفن میں ممتاز مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ بھی ہیں جنھوں نے اٹھارہ سال تک مسجد نبوی میں درس حدیث دیا، اور پھر ایک وقت وہ آیا جب اس دیار محبوب سے جدائی پر مجبور ہونا پڑا توروضہ اقدس کی جالی کو دیکھتے ہوئے پرنم آنکھوں کے ساتھ یہ اشعار کہتے ہوئے رخصت ہوئے:
چمکتا رہے تیرے روضے کا منظر
سلامت رہے تیرے روضے کی جالی
ہمیں بھی عطا ہووہ شوق ابوبکر
ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبہ بلالی
اللہ کریم ہمارے دلوں میں بھی ایسا عشق مصطفیﷺ بھر دے جو ہمارے اسلاف میں موجود تھا۔ (آمین)