طاقت کا نشہ
اقتدار کے لیے ہم پاک فوج کے بارے میں اُلٹی سیدھی باتیں کہنے سے نہیں ڈرتے
ISLAMABAD:
کوئی بھی ملک عدم استحکام کا شکار اُس وقت ہوتا ہے جب وہاں کے اداروں میں ایک دوسرے کا احترام ختم ہوجائے۔ سیاسی استحکام والے ممالک کی فوج، عدلیہ، انتظامیہ یا میڈیا کبھی ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ لیکن اس کے برعکس وطن عزیز میں اگر اپوزیشن کو حکومت سے مسئلہ ہو تو وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔
حکومت نے اگر اپوزیشن سے کوئی پرانا حساب چکتا کرنا ہوتو وہ بھی عدالتوں کے ذریعے انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر ہر سیاستدان خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ اُس کو بار بار یہی بتانا پڑتا ہے کہ اُن کی جماعت اور پاک فوج ایک پیج پر ہیں اور پھر یہیں بس نہیں ہوتا بلکہ من پسند بیوروکریسی کو من پسند جگہوں پر تعینات کرکے انتظامیہ کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے اور پھر افسوسناک امر یہ ہے کہ ذاتی فائدے لینے کے لیے ہم عام عوام کو بھی اپنے پراپیگنڈوں کا حصہ بنانے سے نہیں ڈرتے۔ عوام کے ذریعے کسی کی بھی پگڑیاں اُچھالنے سے نہیں ڈرتے۔
اقتدار کے لیے ہم پاک فوج کے بارے میں اُلٹی سیدھی باتیں کہنے سے نہیں ڈرتے۔ تبھی تو پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کو ایک ماہ میں دوسری مرتبہ کہنا پڑا کہ قومی سلامتی کے اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ ایسا شاید وہ اس لیے بھی کہہ رہے ہیں کہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے اور سابقہ حکومت یعنی تحریک انصاف سے اقتدار چھڑوایا گیا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر بھرپور اور منظم انداز سے ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ اور یہ اُسی بات کا پیش خیمہ ہے جس کا چند ماہ قبل راقم نے ذکر بھی کیا تھا کہ پاکستان پر ففتھ جنریشن وار مسلط کردی گئی ہے۔
جسے ''ہائبرڈ وارفیئر'' بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے مطابق ففتھ جنریشن وار کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا ہتھیار استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا اور دیگر ٹولز یعنی ایپس کے ذریعے کسی بھی ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا جاتا ہے اور ملک آٹو میٹکلی عدم استحکام کی طرف چلا جاتا ہے۔
اب آپ اس کا ٹریلر ملاحظہ فرمائیں کہ وطن عزیز میں سیاستدان سیاستدانوں سے لڑ پڑے ہیں، سیاسی کارکن قومی سلامتی کے اداروں سے بھڑ پڑے ہیں، عوام حکومت کے ساتھ دست و گریباں ہے اور جب کہ انتظامی ادارے بیچ بچاؤ کرانے میں خود بھی پسے جا رہے ہیں۔ اور میری ذاتی رائے میں کہیں نہ کہیں بیٹھ کر یہ پورا پلان ترتیب دیا جا رہا ہے اور اس کے لیے زبردست انویسٹمنٹ کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان میں کبھی استحکام نہ آسکے۔
اس میں قصور کسی ایک سیاسی پارٹی ، ادارے یا عوام کا نہیں بلکہ ہم سب قصور وار ہیں۔ کیوں؟ اس کی مثال ہم دور سے نہیں بلکہ بھارت سے لیتے ہیں کہ وہاں پر ادارے ایک دوسرے پر کیوں نہیں چڑھ دوڑتے ۔ بھارت کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسیمہا راؤ کی حکومت میں یعنی 1991 سے 1996 تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔
بابری مسجد کی مسماری میں ان کی اعانت، اسٹاک ایکسچینج کے بروکروں سے رشوت اور حکومت بچانے کے لیے پارلیمان کے اراکین کی خرید و فروخت جیسے معاملوں نے ان کی شبیہ خاصی داغ دار کی۔بعد میں اراکین کی خرید و فروخت کے معاملے میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی اور ان کو سزا بھی سنائی گئی۔مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔
سیکیورٹی کے پیش نظر ان کے لیے خصوصی عدالت کی نشست وگیان بھون میں لگتی تھی، پھر کسی دن چیف جسٹس صاحبان سے پوچھا گیا کہ آخر انھوں نے نرسیمہا راؤ کو بے لگام کیوں چھوڑا تھا، جب کہ وہ ان پر قد غن لگا سکتے تھے؟ تو ان کا کہنا تھا ''وزیراعظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس، دباؤسے زیادہ وزیراعظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔اب اگر آئے دن اس کو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اس کی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کریگا؟ اور کیا کوئی افسر، سیکریٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اس کے احکامات بجا لائیںگے؟
دراصل بھارت میں مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر اور میڈیا بھی شامل ہے۔ اسی طرح جولائی 2000کو اس وقت کے وزیر قانون رام جیٹھ مالنی نے بنگلور میں کسی تقریب میں چیف جسٹس کے خلاف سخت کلامی سے کام لیا، تو اسٹیج سے اترتے ہی ان کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے فون کیا اور استعفیٰ دینے کے لیے کہہ دیا۔ بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شکایت بجا ہی سہی، لیکن حکومت چیف جسٹس کے ساتھ کوئی محا ذ کھولنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
حالانکہ وزیر قانون رام جیٹھ مالنی کا شمار خود بھی ملک کے جیدقانون دانوں میں کیا جاتا تھا، لیکن انھیں استعفیٰ دینا پڑا۔الغرض بھارت مذہب کے علاوہ ہمارا بھائی ہے، ہم صدیوں سے اکٹھے رہے ہیں، جتنے پسماندہ وہ ہیں ہم بھی اتنے ہی پسماندہ ہیں، ہمارے جینز ایک ہیں، لیکن وہاں کا سسٹم ہم سے مختلف کیوں ہے؟ جب کہ اس کے برعکس یہاں نہ تو اداروں کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے کی حدود و قیود کا خیال رکھتا ہے۔
اور پھر یہ ہمارے جینز میں ہے کہ جب ہمیں تھوڑی سی پاور ملتی ہے تو ہم اپنے آپ سے باہر ہو جاتے ہیں، جیسے آپ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک سبھی حکمرانوں کو دیکھ لیں جب جب اُن کے پاس عہدہ آیا ، طاقت کے نشے میں وہ اپنا آپ ہی بھول گئے۔ پھر آپ کسی سابق جج صاحبان کو دیکھ لیں۔اپنے عہدے پر ان کا جاہ جلال دیکھنے والا تھا۔ قصہ مختصر کہ پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی حکمران کو طاقت ملتی ہے، تو وہ متکبر ہو جاتا ہے۔
بہرکیف یہ سب شاید اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے اور جو تعلیم ہمیں دی جاتی ہے وہ بھی محض ڈگری کے ایک چھوٹے سے کاغذ کے لیے دی جاتی ہے۔ لہٰذاہم ذہنی طور پر اتنے میچور یا پختہ نہیں ہیں کہ اختیارات کو صحیح طرح سے استعمال نہیں کر پاتے، یعنی ہمیں عہدہ تو مل جاتا ہے مگر اُس کی تپش ہم سے نہیں سنبھلتی۔ اور یہ صرف اداروں کے سربراہوں پر ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جب ہم اقتدار میں آئیں تو کبھی واپس نہ جائیں۔
اور جب تک وہ اقتدار میں رہیں یا تو خود رہیں اور اُن کے جانے کے بعد یا تو اُن کا بیٹا اقتدار سنبھالے یا انھی کا خاندان ۔اور اس کے بعد بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں جس طرح آتی جاتی رہیں۔وہ عوام کو اس قدر ازبر ہو چکا ہے کہ اب ہم سو دفعہ یہ کہیں کہ ہم نے نہیں کیا ہم نے نہیں کیا تو شک آپ پر ہی جائے گا۔ لہٰذا اداروں کو اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے تبھی ملک ترقی کر سکتا ہے ورنہ ہماری اہمیت راستے میں پڑے پتھرسے زیادہ نہیں ہوگی۔
کوئی بھی ملک عدم استحکام کا شکار اُس وقت ہوتا ہے جب وہاں کے اداروں میں ایک دوسرے کا احترام ختم ہوجائے۔ سیاسی استحکام والے ممالک کی فوج، عدلیہ، انتظامیہ یا میڈیا کبھی ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ لیکن اس کے برعکس وطن عزیز میں اگر اپوزیشن کو حکومت سے مسئلہ ہو تو وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔
حکومت نے اگر اپوزیشن سے کوئی پرانا حساب چکتا کرنا ہوتو وہ بھی عدالتوں کے ذریعے انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر ہر سیاستدان خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ اُس کو بار بار یہی بتانا پڑتا ہے کہ اُن کی جماعت اور پاک فوج ایک پیج پر ہیں اور پھر یہیں بس نہیں ہوتا بلکہ من پسند بیوروکریسی کو من پسند جگہوں پر تعینات کرکے انتظامیہ کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے اور پھر افسوسناک امر یہ ہے کہ ذاتی فائدے لینے کے لیے ہم عام عوام کو بھی اپنے پراپیگنڈوں کا حصہ بنانے سے نہیں ڈرتے۔ عوام کے ذریعے کسی کی بھی پگڑیاں اُچھالنے سے نہیں ڈرتے۔
اقتدار کے لیے ہم پاک فوج کے بارے میں اُلٹی سیدھی باتیں کہنے سے نہیں ڈرتے۔ تبھی تو پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کو ایک ماہ میں دوسری مرتبہ کہنا پڑا کہ قومی سلامتی کے اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ ایسا شاید وہ اس لیے بھی کہہ رہے ہیں کہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے اور سابقہ حکومت یعنی تحریک انصاف سے اقتدار چھڑوایا گیا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر بھرپور اور منظم انداز سے ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ اور یہ اُسی بات کا پیش خیمہ ہے جس کا چند ماہ قبل راقم نے ذکر بھی کیا تھا کہ پاکستان پر ففتھ جنریشن وار مسلط کردی گئی ہے۔
جسے ''ہائبرڈ وارفیئر'' بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے مطابق ففتھ جنریشن وار کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا ہتھیار استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا اور دیگر ٹولز یعنی ایپس کے ذریعے کسی بھی ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا جاتا ہے اور ملک آٹو میٹکلی عدم استحکام کی طرف چلا جاتا ہے۔
اب آپ اس کا ٹریلر ملاحظہ فرمائیں کہ وطن عزیز میں سیاستدان سیاستدانوں سے لڑ پڑے ہیں، سیاسی کارکن قومی سلامتی کے اداروں سے بھڑ پڑے ہیں، عوام حکومت کے ساتھ دست و گریباں ہے اور جب کہ انتظامی ادارے بیچ بچاؤ کرانے میں خود بھی پسے جا رہے ہیں۔ اور میری ذاتی رائے میں کہیں نہ کہیں بیٹھ کر یہ پورا پلان ترتیب دیا جا رہا ہے اور اس کے لیے زبردست انویسٹمنٹ کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان میں کبھی استحکام نہ آسکے۔
اس میں قصور کسی ایک سیاسی پارٹی ، ادارے یا عوام کا نہیں بلکہ ہم سب قصور وار ہیں۔ کیوں؟ اس کی مثال ہم دور سے نہیں بلکہ بھارت سے لیتے ہیں کہ وہاں پر ادارے ایک دوسرے پر کیوں نہیں چڑھ دوڑتے ۔ بھارت کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسیمہا راؤ کی حکومت میں یعنی 1991 سے 1996 تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔
بابری مسجد کی مسماری میں ان کی اعانت، اسٹاک ایکسچینج کے بروکروں سے رشوت اور حکومت بچانے کے لیے پارلیمان کے اراکین کی خرید و فروخت جیسے معاملوں نے ان کی شبیہ خاصی داغ دار کی۔بعد میں اراکین کی خرید و فروخت کے معاملے میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی اور ان کو سزا بھی سنائی گئی۔مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔
سیکیورٹی کے پیش نظر ان کے لیے خصوصی عدالت کی نشست وگیان بھون میں لگتی تھی، پھر کسی دن چیف جسٹس صاحبان سے پوچھا گیا کہ آخر انھوں نے نرسیمہا راؤ کو بے لگام کیوں چھوڑا تھا، جب کہ وہ ان پر قد غن لگا سکتے تھے؟ تو ان کا کہنا تھا ''وزیراعظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس، دباؤسے زیادہ وزیراعظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔اب اگر آئے دن اس کو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اس کی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کریگا؟ اور کیا کوئی افسر، سیکریٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اس کے احکامات بجا لائیںگے؟
دراصل بھارت میں مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر اور میڈیا بھی شامل ہے۔ اسی طرح جولائی 2000کو اس وقت کے وزیر قانون رام جیٹھ مالنی نے بنگلور میں کسی تقریب میں چیف جسٹس کے خلاف سخت کلامی سے کام لیا، تو اسٹیج سے اترتے ہی ان کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے فون کیا اور استعفیٰ دینے کے لیے کہہ دیا۔ بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شکایت بجا ہی سہی، لیکن حکومت چیف جسٹس کے ساتھ کوئی محا ذ کھولنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
حالانکہ وزیر قانون رام جیٹھ مالنی کا شمار خود بھی ملک کے جیدقانون دانوں میں کیا جاتا تھا، لیکن انھیں استعفیٰ دینا پڑا۔الغرض بھارت مذہب کے علاوہ ہمارا بھائی ہے، ہم صدیوں سے اکٹھے رہے ہیں، جتنے پسماندہ وہ ہیں ہم بھی اتنے ہی پسماندہ ہیں، ہمارے جینز ایک ہیں، لیکن وہاں کا سسٹم ہم سے مختلف کیوں ہے؟ جب کہ اس کے برعکس یہاں نہ تو اداروں کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے کی حدود و قیود کا خیال رکھتا ہے۔
اور پھر یہ ہمارے جینز میں ہے کہ جب ہمیں تھوڑی سی پاور ملتی ہے تو ہم اپنے آپ سے باہر ہو جاتے ہیں، جیسے آپ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک سبھی حکمرانوں کو دیکھ لیں جب جب اُن کے پاس عہدہ آیا ، طاقت کے نشے میں وہ اپنا آپ ہی بھول گئے۔ پھر آپ کسی سابق جج صاحبان کو دیکھ لیں۔اپنے عہدے پر ان کا جاہ جلال دیکھنے والا تھا۔ قصہ مختصر کہ پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی حکمران کو طاقت ملتی ہے، تو وہ متکبر ہو جاتا ہے۔
بہرکیف یہ سب شاید اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے اور جو تعلیم ہمیں دی جاتی ہے وہ بھی محض ڈگری کے ایک چھوٹے سے کاغذ کے لیے دی جاتی ہے۔ لہٰذاہم ذہنی طور پر اتنے میچور یا پختہ نہیں ہیں کہ اختیارات کو صحیح طرح سے استعمال نہیں کر پاتے، یعنی ہمیں عہدہ تو مل جاتا ہے مگر اُس کی تپش ہم سے نہیں سنبھلتی۔ اور یہ صرف اداروں کے سربراہوں پر ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جب ہم اقتدار میں آئیں تو کبھی واپس نہ جائیں۔
اور جب تک وہ اقتدار میں رہیں یا تو خود رہیں اور اُن کے جانے کے بعد یا تو اُن کا بیٹا اقتدار سنبھالے یا انھی کا خاندان ۔اور اس کے بعد بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں جس طرح آتی جاتی رہیں۔وہ عوام کو اس قدر ازبر ہو چکا ہے کہ اب ہم سو دفعہ یہ کہیں کہ ہم نے نہیں کیا ہم نے نہیں کیا تو شک آپ پر ہی جائے گا۔ لہٰذا اداروں کو اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے تبھی ملک ترقی کر سکتا ہے ورنہ ہماری اہمیت راستے میں پڑے پتھرسے زیادہ نہیں ہوگی۔