خبردار رہا جائے
سرکاری اعداد و شمار کی برعکس ہندوستان میں 10گنا اور پاکستان میں 8 گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں
ISLAMABAD:
آج سے تقریبا30 ماہ قبل ایک وائرس اچانک نمودار ہوا اور پوری دنیا پر حملہ آور ہوگیا۔ اس وقت کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ نظر نہ آنے والا یہ وائرس آناً فاناً ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کرکے پوری دنیا کو مفلوج کر دے گا۔
یہ وائرس چونکہ 2019 کے آخری مہینے میں سامنے آیا تھا اس لیے اسے کووڈ۔ 19 کا نام دیا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ دنیا میں پہلے وبائیں نہیں آتی تھیں۔ 20ویں صدی میں ہیضے ، طاعون اور چیچک سے کروڑوں انسان ہلاک ہوئے تھے۔
صرف چیچک نامی بیماری نے 30 کروڑ انسانوں کو ہلاک کردیا تھا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کورونا کی حالیہ وبا ماضی کی وباؤں کے مقابلے میں زیادہ ہلاکت خیز نہیں تھی لیکن اس کے باوجود اس وبا نے دنیا کو گزشتہ کی صدی کی وباؤں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا۔
ماضی کی صدی اور 21 ویں صدی کی کورونا وبا میں اصل اور بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلے کی وبائیں بعض ملکوں یا خطوں تک محدود ہوا کرتی تھیں اور انھوں نے عالمی وبا کی شکل اختیار نہیں کی تھی جب کہ کورونا کی وبا چند ماہ کے اندر ہی ایک عالمی وبا بن گئی اور دنیا کا تقریباً ہر ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اس عالمی وبا نے دنیا کو معاشی، معاشرتی، سیاسی اور جذباتی طور پر جو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آج ایک عام انسان بھی بخوبی لگا سکتا ہے۔
جب کورونا ، عالمی وبا میں تبدیلی ہوئی تو سب کو یہ محسوس ہوگیا تھا کہ اس مہک وبا پر قابو پانے کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے عوامی شعور اور آگاہی کو عام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھی قلم کے ذریعے اس وائرس کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مارچ 2020 میں اس موضوع پر میں نے قلم اٹھایا ار پھر نہ جانے کیوں لکھتی ہی چلی گئی۔ اپنے پہلے کالم میں میں نے لکھا تھا:
'' کورونا نے دنیا کو آج بڑی شدت سے یہ احساس دلایا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ نہ سوچا جائے کہ یہ یا اس نوعیت کی کوئی بھی وبا کسی ایک ملک تک محدود رہے گی۔
اگر سب ملکوں کو محفوظ رہنا تو انھیں آپس کی دشمنیاں اور تلخیاں بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون کرنا پڑے گا۔ یہ ایک خوش آیند خبر ہے کہ ایران کے حکام کورونا وائرس کی اس ویکسین کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں جو امکانی طور پر جلد ہی اسرائیل کی جانب سے متعارف کرائی جاسکتی ہے۔ گویا کورونا '' دائمی دشمن'' کے پرانے تصور کو بھی ختم کر رہا ہے۔ اب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو تباہ کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا کیونکہ 21 ویں صدی ایک دوسرے پر انحصار اور بقائے باہمی کی صدی ہے۔ سازشی مفروضوں کا وقت گزر چکا ہے۔
اب امریکا اور چین ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں اور دونوں نے آپس میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ایک کی تباہی دوسرے کی تباہی اور دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں کی تباہی عالمی معیشت کی تباہی ثابت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا نہ ایسا ہوگا ، نہ کوئی ایسا ہونے دے گا۔ کورونا سے دنیا کہ پیغام ملا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ انسان آپس میں مل کر ہی اس کو ختم کرسکتے ہیں۔''
مجھے خود یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس موضوع پر اتنا زیادہ لکھ سکوں گی۔ ڈاکٹر جعفر کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ انھوں نے تمام مضامین کو یکجا کرکے ایک کتابی شکل میں شایع کرنے کی تجویز دی تاکہ قارئین اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشناس ہوسکیں۔ یہ کتاب '' عجب فتنہ ہوا کا تھا '' کے عنوان سے شایع ہوئی۔ گوتم حیات نے بڑی محنت سے تمام کالموں کو ترتیب وار یکجا کیا۔ ڈاکٹر جعفر نے اپنے پیش لفظ میں لکھا:
''ماضی کی سب وباؤں کی طرح اس وبا نے بھی ادیبوں اور تخلیق کاروں کو نت نئے موضوعات سمجھائے ہیں۔ عالمی ادبیات پر نظر ڈالیں تو اس کا معتد بہ حصہ ان تخلیقات پر مشتمل ہے جو وباؤں کے تناظر میں لکھی گئیں یا جن میں تخلیق کاروں نے اپنے پلاٹ میں کسی خیالی وبا کو بنیاد بناکر کہانی کو آگے بڑھایا۔ حالیہ وبا کے تناظر میں بھی بے شمار کتابیں، ناول، کہانیاں صرف ایک سال کے عرصے میں منظر عام پر آچکی ہیں۔
انٹرنیٹ پر جاکر دیکھیں تو آئے روز کسی نئے ناول کیا اشاعت کی اطلاع مل رہی ہے۔ آیندہ ڈکشنریوں کے لیے نئے الفاظ بھی بہم ہورہے ہیں۔ آیندہ ڈکشنریوں میں لکھا جائے گا کہ ''سماجی فاصلہ کیا ہوتا ہے، لاک ڈاؤن کس کو کہتے ہیں اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کس بلا کا نام ہے۔''
پاکستان میں بھی کووڈ 10 کے حوالے سے سیکڑوں مضامین، تحقیقی رپورٹیں اور اخباری کالم شایع ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور شاید اس وقت تک جاری رہے جب تک اس وبا سے جان نہیں چھوٹتی بلکہ لکھنے والے تو شاید اس کے بعد بھی اس پر لکھتے رہیں گے۔
روزنامہ '' ایکسپریس'' میں زاہدہ حنا صاحبہ جو برسہا برس سے کالم لکھ رہی ہیں اور جو بالعموم تہذیبی، علمی و ادبی اور سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں، ان کے لیے اس موضوع پر تعرض ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے گردش و پیش بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اس وبا پر مختلف زاویوں سے قلم اٹھایا۔ جب وہ یہ کالم لکھ رہی تھیں تو اندازہ نہیں تھا کہ ان کالموں کی تعداد کس رفتار سے بڑھ رہی ہے ، لیکن جب وہ یکجا ہوکر سامنے آئے تو یک گونہ حیرت بھی ہورہی ہے کہ صرف ایک موضوع پر انھوں نے اتنے زیادہ کالم سپرد قلم کر دیے ہیں۔
ان کالموں میں انسانی زندگی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان میں حکومتوں کی ترجیحات اور پالیسیوں پر تنقید، سائنس کی افادیت پر زور دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان میں انسان کے، بحیثیت مجموعی وباؤں کا مقابلہ کرنے کے حوصلے کی تحسین نظر آتی ہے۔
وقت کا سفر جارہی ہے ہم 2022 میں زندہ ہیں۔ چند دنوں بعد یہ مہینہ بھی ہمیں الوداع کہہ دے گا۔ بہ ظاہر نظر یہی آرہا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا اپنے آخری مرحلے میں ہے، تاہم، یہ وائرس جو چین میں پہلی بار نمودار ہوا تھا۔ وہاں اب بھی تباہی پھیلا رہا ہے اس ملک کے کئی بڑی شہروں میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہاں کورونا کی جو نئی لہر اٹھی ہے اس پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ دنیا کے باقی حصوں میں زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ پابندیوں کے خاتمے کے بعد لوگوں نے لا پرواہی کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ یہ غالبا 30 ماہ کے شدید نفسیاتی ، معاشی دباؤ کا ایک ردعمل ہے۔
حکومتوں اور ذرایع ابلاغ کو چاہے کہ وہ لوگوں کو خبردار کرتے رہیں کہ جب تک دنیا کے ہر فرد کو ویکسین نہیں لگ جاتی اس وقت تک یہ وائرس شکل بدل کر آتا رہے گا اور اس کی کوئی بھی نئی قسم عالمی وبا میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ دنیا کی حکومتیں لوگوں کو اعتماد میں لینے سے گریزاں رہی ہیں۔ سیاسی مصلحتوں اور مخصوص مفادات کے باعث سچ کو چھپانے کی شعوری کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو مختلف ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے بتائی گئی ہے۔
اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کی برعکس ہندوستان میں 10گنا اور پاکستان میں 8 گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہی صورت حال دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں بھی پائی گئی ہے۔ حکومتیں اس عالمی ادارے کی رپورٹ کو مسترد کررہی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ درست اعداد و شمار کو جمع کرنے کے نظام میں کافی خامیاں پائی جاتی ہیں جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کیا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ کورونا کی صورت حال پر کڑی نظر رکھے، ٹیسٹ کی تعداد میں اضافہ کرے اور اس کے ساتھ ویکسین مہم کو بھی تیز تر کرے۔
آج سے تقریبا30 ماہ قبل ایک وائرس اچانک نمودار ہوا اور پوری دنیا پر حملہ آور ہوگیا۔ اس وقت کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ نظر نہ آنے والا یہ وائرس آناً فاناً ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کرکے پوری دنیا کو مفلوج کر دے گا۔
یہ وائرس چونکہ 2019 کے آخری مہینے میں سامنے آیا تھا اس لیے اسے کووڈ۔ 19 کا نام دیا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ دنیا میں پہلے وبائیں نہیں آتی تھیں۔ 20ویں صدی میں ہیضے ، طاعون اور چیچک سے کروڑوں انسان ہلاک ہوئے تھے۔
صرف چیچک نامی بیماری نے 30 کروڑ انسانوں کو ہلاک کردیا تھا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کورونا کی حالیہ وبا ماضی کی وباؤں کے مقابلے میں زیادہ ہلاکت خیز نہیں تھی لیکن اس کے باوجود اس وبا نے دنیا کو گزشتہ کی صدی کی وباؤں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا۔
ماضی کی صدی اور 21 ویں صدی کی کورونا وبا میں اصل اور بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلے کی وبائیں بعض ملکوں یا خطوں تک محدود ہوا کرتی تھیں اور انھوں نے عالمی وبا کی شکل اختیار نہیں کی تھی جب کہ کورونا کی وبا چند ماہ کے اندر ہی ایک عالمی وبا بن گئی اور دنیا کا تقریباً ہر ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اس عالمی وبا نے دنیا کو معاشی، معاشرتی، سیاسی اور جذباتی طور پر جو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آج ایک عام انسان بھی بخوبی لگا سکتا ہے۔
جب کورونا ، عالمی وبا میں تبدیلی ہوئی تو سب کو یہ محسوس ہوگیا تھا کہ اس مہک وبا پر قابو پانے کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے عوامی شعور اور آگاہی کو عام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھی قلم کے ذریعے اس وائرس کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مارچ 2020 میں اس موضوع پر میں نے قلم اٹھایا ار پھر نہ جانے کیوں لکھتی ہی چلی گئی۔ اپنے پہلے کالم میں میں نے لکھا تھا:
'' کورونا نے دنیا کو آج بڑی شدت سے یہ احساس دلایا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ نہ سوچا جائے کہ یہ یا اس نوعیت کی کوئی بھی وبا کسی ایک ملک تک محدود رہے گی۔
اگر سب ملکوں کو محفوظ رہنا تو انھیں آپس کی دشمنیاں اور تلخیاں بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون کرنا پڑے گا۔ یہ ایک خوش آیند خبر ہے کہ ایران کے حکام کورونا وائرس کی اس ویکسین کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں جو امکانی طور پر جلد ہی اسرائیل کی جانب سے متعارف کرائی جاسکتی ہے۔ گویا کورونا '' دائمی دشمن'' کے پرانے تصور کو بھی ختم کر رہا ہے۔ اب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو تباہ کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا کیونکہ 21 ویں صدی ایک دوسرے پر انحصار اور بقائے باہمی کی صدی ہے۔ سازشی مفروضوں کا وقت گزر چکا ہے۔
اب امریکا اور چین ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں اور دونوں نے آپس میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ایک کی تباہی دوسرے کی تباہی اور دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں کی تباہی عالمی معیشت کی تباہی ثابت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا نہ ایسا ہوگا ، نہ کوئی ایسا ہونے دے گا۔ کورونا سے دنیا کہ پیغام ملا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ انسان آپس میں مل کر ہی اس کو ختم کرسکتے ہیں۔''
مجھے خود یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس موضوع پر اتنا زیادہ لکھ سکوں گی۔ ڈاکٹر جعفر کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ انھوں نے تمام مضامین کو یکجا کرکے ایک کتابی شکل میں شایع کرنے کی تجویز دی تاکہ قارئین اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشناس ہوسکیں۔ یہ کتاب '' عجب فتنہ ہوا کا تھا '' کے عنوان سے شایع ہوئی۔ گوتم حیات نے بڑی محنت سے تمام کالموں کو ترتیب وار یکجا کیا۔ ڈاکٹر جعفر نے اپنے پیش لفظ میں لکھا:
''ماضی کی سب وباؤں کی طرح اس وبا نے بھی ادیبوں اور تخلیق کاروں کو نت نئے موضوعات سمجھائے ہیں۔ عالمی ادبیات پر نظر ڈالیں تو اس کا معتد بہ حصہ ان تخلیقات پر مشتمل ہے جو وباؤں کے تناظر میں لکھی گئیں یا جن میں تخلیق کاروں نے اپنے پلاٹ میں کسی خیالی وبا کو بنیاد بناکر کہانی کو آگے بڑھایا۔ حالیہ وبا کے تناظر میں بھی بے شمار کتابیں، ناول، کہانیاں صرف ایک سال کے عرصے میں منظر عام پر آچکی ہیں۔
انٹرنیٹ پر جاکر دیکھیں تو آئے روز کسی نئے ناول کیا اشاعت کی اطلاع مل رہی ہے۔ آیندہ ڈکشنریوں کے لیے نئے الفاظ بھی بہم ہورہے ہیں۔ آیندہ ڈکشنریوں میں لکھا جائے گا کہ ''سماجی فاصلہ کیا ہوتا ہے، لاک ڈاؤن کس کو کہتے ہیں اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کس بلا کا نام ہے۔''
پاکستان میں بھی کووڈ 10 کے حوالے سے سیکڑوں مضامین، تحقیقی رپورٹیں اور اخباری کالم شایع ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور شاید اس وقت تک جاری رہے جب تک اس وبا سے جان نہیں چھوٹتی بلکہ لکھنے والے تو شاید اس کے بعد بھی اس پر لکھتے رہیں گے۔
روزنامہ '' ایکسپریس'' میں زاہدہ حنا صاحبہ جو برسہا برس سے کالم لکھ رہی ہیں اور جو بالعموم تہذیبی، علمی و ادبی اور سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں، ان کے لیے اس موضوع پر تعرض ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے گردش و پیش بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اس وبا پر مختلف زاویوں سے قلم اٹھایا۔ جب وہ یہ کالم لکھ رہی تھیں تو اندازہ نہیں تھا کہ ان کالموں کی تعداد کس رفتار سے بڑھ رہی ہے ، لیکن جب وہ یکجا ہوکر سامنے آئے تو یک گونہ حیرت بھی ہورہی ہے کہ صرف ایک موضوع پر انھوں نے اتنے زیادہ کالم سپرد قلم کر دیے ہیں۔
ان کالموں میں انسانی زندگی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان میں حکومتوں کی ترجیحات اور پالیسیوں پر تنقید، سائنس کی افادیت پر زور دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان میں انسان کے، بحیثیت مجموعی وباؤں کا مقابلہ کرنے کے حوصلے کی تحسین نظر آتی ہے۔
وقت کا سفر جارہی ہے ہم 2022 میں زندہ ہیں۔ چند دنوں بعد یہ مہینہ بھی ہمیں الوداع کہہ دے گا۔ بہ ظاہر نظر یہی آرہا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا اپنے آخری مرحلے میں ہے، تاہم، یہ وائرس جو چین میں پہلی بار نمودار ہوا تھا۔ وہاں اب بھی تباہی پھیلا رہا ہے اس ملک کے کئی بڑی شہروں میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہاں کورونا کی جو نئی لہر اٹھی ہے اس پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ دنیا کے باقی حصوں میں زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ پابندیوں کے خاتمے کے بعد لوگوں نے لا پرواہی کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ یہ غالبا 30 ماہ کے شدید نفسیاتی ، معاشی دباؤ کا ایک ردعمل ہے۔
حکومتوں اور ذرایع ابلاغ کو چاہے کہ وہ لوگوں کو خبردار کرتے رہیں کہ جب تک دنیا کے ہر فرد کو ویکسین نہیں لگ جاتی اس وقت تک یہ وائرس شکل بدل کر آتا رہے گا اور اس کی کوئی بھی نئی قسم عالمی وبا میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ دنیا کی حکومتیں لوگوں کو اعتماد میں لینے سے گریزاں رہی ہیں۔ سیاسی مصلحتوں اور مخصوص مفادات کے باعث سچ کو چھپانے کی شعوری کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو مختلف ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے بتائی گئی ہے۔
اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کی برعکس ہندوستان میں 10گنا اور پاکستان میں 8 گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہی صورت حال دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں بھی پائی گئی ہے۔ حکومتیں اس عالمی ادارے کی رپورٹ کو مسترد کررہی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ درست اعداد و شمار کو جمع کرنے کے نظام میں کافی خامیاں پائی جاتی ہیں جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کیا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ کورونا کی صورت حال پر کڑی نظر رکھے، ٹیسٹ کی تعداد میں اضافہ کرے اور اس کے ساتھ ویکسین مہم کو بھی تیز تر کرے۔