جام ساقی کمیونسٹ سازش کیس
جنرل ضیاء الحق کی ہدایات پر کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آپریشن شروع ہوا
LONDON:
متحدہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی مگر برطانوی ہند کی تربیت یافتہ بیوروکریسی اور خفیہ ایجنسیوں نے کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ تنظیموں کے خلاف کارروائیاں شروع کردی تھیں۔
کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر ، عظیم شاعر فیض احمد فیض اور محمد حسین عطاء سمیت کئی افراد کے خلاف راول پنڈی سازش کیس قائم کیا گیا۔ ہندوستان کے آزادی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے رہنماؤں کو امتناعی قوانین کے تحت نظربندکیا گیا۔ سیاسی کارکنوں کے علاوہ مزدور رہنماؤں، صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کو لاہورکے شاہی قلعہ میں تھرڈ ڈگری تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان 1954میں امریکا، برطانیہ سے معاہدہ بغداد میں شامل ہوا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا حصہ بن گیا۔ کمیونسٹ پارٹی نے امریکی سامراج کے تسلط ، خود مختار معیشت، انسانی حقوق کی بالادستی اور صوبوں کے حقوق کے لیے رائے عامہ ہموار کی۔
امریکا کے ایماء پر 1954 میں کمیونسٹ پارٹی ، طلبہ کی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن، ادیبوں کی تنظیم انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی عائد کردی۔ کمیونسٹ پارٹی زیر زمین کام کرنے پر مجبور ہوئی۔
جنرل ایوب خان کے دور میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سید حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعہ میں شہید کیا گیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو نے تجزیہ کیا کہ حزب اختلاف کے پاکستان قومی اتحاد PNA کو استعماری قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔
پھر جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو اقتدار پر قبضہ کیا تو افغانستان کے عوامی انقلاب کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی تو کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی۔
کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ترجمان ''سرخ پرچم'' کے ذریعہ آگہی کی مہم شروع کی۔ جنرل ضیاء الحق کی ہدایات پر کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آپریشن شروع ہوا۔ اسلم خواجہ ایک پیچیدہ شخصیت کے حامل ہیں۔ ایک زمانہ میں صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا ، پھرکتابیں لکھنا شروع کیں۔ وہ تینوں زبانوں سندھی، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اسلم ہمیشہ مشکل موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔
دسمبر 1978میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جام ساقی کو گرفتار کیا گیا۔ پھر جولائی 1978کو پروفیسر جمال نقوی، بدر جمال ابڑو، سہیل سانگی ، احمد کمال وارثی، شبیر شر ، امر لال اور نذیر عباسی کو نامعلوم افراد نے گرفتار کیا۔ نذیر عباسی کراچی کے نامعلوم اذیت خانہ میں بد ترین تشدد کا شکار ہوگئے اور زندگی کی جنگ ہار گئے۔ باقی افراد پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یہ مقدمہ جام ساقی سازش کیس کے نام سے معروف ہوا۔
مقدمہ کی روداد ایک تاریخی دستاویز ہے۔ ترقی پسند کارکن نثار حسین نے ملزمان کے بیانات پر مشتمل دستاویز کو ایک کتاب کی شکل دی تھی مگر اب اسلم خواجہ نے کئی برسوں کی ریاضت کر کے اس مقدمہ کی عدالتی کارروائی حاصل کی جس میں ملزمان، سرکاری گواہوں اور صفائی کے گواہوں کے بیان شامل ہیں اور کتاب میں اس وقت کے اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے تراشے جمع کیے۔
عدالتی کارروائی کی یہ تمام دستاویزات انگریزی زبان میں تھیں۔ ان کا آسان اور سادہ زبان میں ترجمہ کیا گیا اور اسیروں کی سندھ کی مختلف جیلوں میں اس وقت کھینچی گئی تصاویر جمع کیں اور 733 سے زیادہ صفحات پر مشتمل کتاب مرتب کی۔
کتاب کے آخری صفحات میں ریاض سہیل کی ایک مختصر اور دل کے تار ہلانے والی تحریر ہے۔ صبح کا وقت ہے۔ ایم اے جناح روڈ سے ایک عورت دس سالہ بچہ کو ساتھ لے کر پیدل چلتی آئی ہے۔ اس کی منزل ایم پی اے ہاسٹل ہے جہاں باہر سیمنٹ کے بنچوں پر کئی لوگ ہاتھوں میں درخواستیں لیے بیٹھے ہیں۔
ایک خاکی لباس میں افسر درخواستیں لینا شروع کرتا ہے، یوں چلتے چلتے وہ ان کے بیٹے کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ یہ خاتون اپنے شوہر کی رہائی کی درخواست کرتی ہے تو وہ تلخی سے جواب دیتا ہے کہ وہ غدار ہے۔
بچہ حیران سی آنکھوں سے دیکھتا ہے کیونکہ اس نے تو میر جعفر جیسے لوگوں کے بارے میں نصاب میں پڑھا تھا۔ اس کا والد کیسے غدار ہوا۔ یہ عورت پھر خاموش رہتی ہے۔ پھر درخواست واپس لے کر کہتی ہے کہ وہ غدار نہیں ، اس ملک کے غریب اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ خاتون کلثوم تھیں اور غداری کا الزام ان کے شوہر سہیل سانگی پر عائد تھا۔ سہیل سانگی کا شمار سندھ کی جدید صحافت کے معماروں میں ہوتا ہے۔ اسلم خواجہ نے سازش کے مقدمہ کا پس منظر بیان کیا ہے۔
انھوں نے اس باب میں معروف دانشور ڈاکٹر ناصر محمود کے والد ارشاد محمود کی پی این اے مخالفت کا ذکرکیا ہے ، وہ معروف دانشور مشتاق گزدر اور سید سبط حسن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے تناظر میں کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کسی طور پر بھٹو کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے اور مزدور ، طلبہ ، کسان عوامی رابطہ کمیٹی کے کسی پختون خواہ پوسٹ کی ایک پریس ریلیز کا حوالہ دیتے ہیں۔
یہ پریس ریلیز اگست 1977میں ہفت روزہ الفتح میں شایع ہوا تھا جس میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا تھا ، وہ مزید تحقیق کرتے تو یہ حقائق ان کے سامنے آجاتے کہ کمیونسٹ پارٹی کا سیاسی محاذ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نہیں تھا بلکہ افراسیاب خٹک کی قیادت میں پروگریسو پارٹی قائم ہوئی تھی اور وہ کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان ''سرخ پرچم'' کے بھٹو دور میں آخری حصہ کے شماروں پر توجہ دیتے۔
سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اخبارات میں شایع ہونے والے پریس ریلیز کا مطالعہ کرتے تو یہ پیرا گراف نہ لکھتے کیونکہ کمیونسٹ پارٹی اس سے ملحقہ تنظیموں نے پی این اے کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ حیدرآباد سے کراچی آنے والے طالب علم رہنما رفیق پٹیل اس طلبہ ایکشن کمیٹی میں شامل ہوئے تھے جو پی این اے کی حمایت کررہی تھی۔ سندھ این ایس ایف کی قیادت نے رفیق پٹیل کو اس ایکشن کمیٹی سے علیحدہ کرلیا تھا۔
(جاری ہے)
متحدہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی مگر برطانوی ہند کی تربیت یافتہ بیوروکریسی اور خفیہ ایجنسیوں نے کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ تنظیموں کے خلاف کارروائیاں شروع کردی تھیں۔
کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر ، عظیم شاعر فیض احمد فیض اور محمد حسین عطاء سمیت کئی افراد کے خلاف راول پنڈی سازش کیس قائم کیا گیا۔ ہندوستان کے آزادی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے رہنماؤں کو امتناعی قوانین کے تحت نظربندکیا گیا۔ سیاسی کارکنوں کے علاوہ مزدور رہنماؤں، صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کو لاہورکے شاہی قلعہ میں تھرڈ ڈگری تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان 1954میں امریکا، برطانیہ سے معاہدہ بغداد میں شامل ہوا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا حصہ بن گیا۔ کمیونسٹ پارٹی نے امریکی سامراج کے تسلط ، خود مختار معیشت، انسانی حقوق کی بالادستی اور صوبوں کے حقوق کے لیے رائے عامہ ہموار کی۔
امریکا کے ایماء پر 1954 میں کمیونسٹ پارٹی ، طلبہ کی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن، ادیبوں کی تنظیم انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی عائد کردی۔ کمیونسٹ پارٹی زیر زمین کام کرنے پر مجبور ہوئی۔
جنرل ایوب خان کے دور میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سید حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعہ میں شہید کیا گیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو نے تجزیہ کیا کہ حزب اختلاف کے پاکستان قومی اتحاد PNA کو استعماری قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔
پھر جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو اقتدار پر قبضہ کیا تو افغانستان کے عوامی انقلاب کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی تو کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی۔
کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ترجمان ''سرخ پرچم'' کے ذریعہ آگہی کی مہم شروع کی۔ جنرل ضیاء الحق کی ہدایات پر کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آپریشن شروع ہوا۔ اسلم خواجہ ایک پیچیدہ شخصیت کے حامل ہیں۔ ایک زمانہ میں صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا ، پھرکتابیں لکھنا شروع کیں۔ وہ تینوں زبانوں سندھی، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اسلم ہمیشہ مشکل موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔
دسمبر 1978میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جام ساقی کو گرفتار کیا گیا۔ پھر جولائی 1978کو پروفیسر جمال نقوی، بدر جمال ابڑو، سہیل سانگی ، احمد کمال وارثی، شبیر شر ، امر لال اور نذیر عباسی کو نامعلوم افراد نے گرفتار کیا۔ نذیر عباسی کراچی کے نامعلوم اذیت خانہ میں بد ترین تشدد کا شکار ہوگئے اور زندگی کی جنگ ہار گئے۔ باقی افراد پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یہ مقدمہ جام ساقی سازش کیس کے نام سے معروف ہوا۔
مقدمہ کی روداد ایک تاریخی دستاویز ہے۔ ترقی پسند کارکن نثار حسین نے ملزمان کے بیانات پر مشتمل دستاویز کو ایک کتاب کی شکل دی تھی مگر اب اسلم خواجہ نے کئی برسوں کی ریاضت کر کے اس مقدمہ کی عدالتی کارروائی حاصل کی جس میں ملزمان، سرکاری گواہوں اور صفائی کے گواہوں کے بیان شامل ہیں اور کتاب میں اس وقت کے اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے تراشے جمع کیے۔
عدالتی کارروائی کی یہ تمام دستاویزات انگریزی زبان میں تھیں۔ ان کا آسان اور سادہ زبان میں ترجمہ کیا گیا اور اسیروں کی سندھ کی مختلف جیلوں میں اس وقت کھینچی گئی تصاویر جمع کیں اور 733 سے زیادہ صفحات پر مشتمل کتاب مرتب کی۔
کتاب کے آخری صفحات میں ریاض سہیل کی ایک مختصر اور دل کے تار ہلانے والی تحریر ہے۔ صبح کا وقت ہے۔ ایم اے جناح روڈ سے ایک عورت دس سالہ بچہ کو ساتھ لے کر پیدل چلتی آئی ہے۔ اس کی منزل ایم پی اے ہاسٹل ہے جہاں باہر سیمنٹ کے بنچوں پر کئی لوگ ہاتھوں میں درخواستیں لیے بیٹھے ہیں۔
ایک خاکی لباس میں افسر درخواستیں لینا شروع کرتا ہے، یوں چلتے چلتے وہ ان کے بیٹے کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ یہ خاتون اپنے شوہر کی رہائی کی درخواست کرتی ہے تو وہ تلخی سے جواب دیتا ہے کہ وہ غدار ہے۔
بچہ حیران سی آنکھوں سے دیکھتا ہے کیونکہ اس نے تو میر جعفر جیسے لوگوں کے بارے میں نصاب میں پڑھا تھا۔ اس کا والد کیسے غدار ہوا۔ یہ عورت پھر خاموش رہتی ہے۔ پھر درخواست واپس لے کر کہتی ہے کہ وہ غدار نہیں ، اس ملک کے غریب اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ خاتون کلثوم تھیں اور غداری کا الزام ان کے شوہر سہیل سانگی پر عائد تھا۔ سہیل سانگی کا شمار سندھ کی جدید صحافت کے معماروں میں ہوتا ہے۔ اسلم خواجہ نے سازش کے مقدمہ کا پس منظر بیان کیا ہے۔
انھوں نے اس باب میں معروف دانشور ڈاکٹر ناصر محمود کے والد ارشاد محمود کی پی این اے مخالفت کا ذکرکیا ہے ، وہ معروف دانشور مشتاق گزدر اور سید سبط حسن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے تناظر میں کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کسی طور پر بھٹو کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے اور مزدور ، طلبہ ، کسان عوامی رابطہ کمیٹی کے کسی پختون خواہ پوسٹ کی ایک پریس ریلیز کا حوالہ دیتے ہیں۔
یہ پریس ریلیز اگست 1977میں ہفت روزہ الفتح میں شایع ہوا تھا جس میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا تھا ، وہ مزید تحقیق کرتے تو یہ حقائق ان کے سامنے آجاتے کہ کمیونسٹ پارٹی کا سیاسی محاذ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نہیں تھا بلکہ افراسیاب خٹک کی قیادت میں پروگریسو پارٹی قائم ہوئی تھی اور وہ کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان ''سرخ پرچم'' کے بھٹو دور میں آخری حصہ کے شماروں پر توجہ دیتے۔
سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اخبارات میں شایع ہونے والے پریس ریلیز کا مطالعہ کرتے تو یہ پیرا گراف نہ لکھتے کیونکہ کمیونسٹ پارٹی اس سے ملحقہ تنظیموں نے پی این اے کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ حیدرآباد سے کراچی آنے والے طالب علم رہنما رفیق پٹیل اس طلبہ ایکشن کمیٹی میں شامل ہوئے تھے جو پی این اے کی حمایت کررہی تھی۔ سندھ این ایس ایف کی قیادت نے رفیق پٹیل کو اس ایکشن کمیٹی سے علیحدہ کرلیا تھا۔
(جاری ہے)