کاروباری برادری اور پولیس میں ہم آہنگی

ہم نے عموماً کاروباری طبقے اور پولیس کے درمیان اچھے تعلقات نہیں دیکھے ہیں

msuherwardy@gmail.com

MILAN:
ترقی اور خوشحالی کے لیے ملک میں امن و سکون کا ہونا ناگزیر ہے۔ امن صرف دہشت گردی کے خاتمے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ روایتی جرائم کی روک تھام بھی امن وامان میں شامل ہے۔ جس قدر جرائم کی شرح کم ہوگی ،اس قدر ہی ترقی و خوشحالی ممکن ہوگی۔

ملک کی معیشت اور کاروبار کی ترقی کے لیے امن و امان کا ہونا لازم ہے۔ اسٹریٹ کرائمز بھی کاروبار کو تباہ کر تا ہے۔ معاشرے میں عدم تحفظ کی فضا پیدا کرتاہے۔ کاروباری مراکز اور معاشرے کو محفوظ اور پرامن بنانے کے لیے اسٹریٹ کرائمز، کاروباری مراکز میں جیب تراشی اور نوسربازی کی وارداتیں اوراغوا برائے تاوان جیسے جرائم کا خاتمہ ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

ہم نے عموماً کاروباری طبقے اور پولیس کے درمیان اچھے تعلقات نہیں دیکھے ہیں۔ ویسے تو پولیس کے عمومی امیج کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ پولیس بحیثیت محکمہ اپنے امیج کو بہتر کرنے کے لیے کام نہیں کرتی بلکہ پولیس افسران انفرادی طو ر پر کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے کام اور رویے سے پولیس کے امیج کو بہتر کر سکیں۔ لیکن چند پولیس افسر ایسے بھی ہیں جو اپنے کام اور رویے سے یہی کوشش کرتے ہیں کہ پولیس کا امیج بہتر نہ ہو پائے۔

اس لیے جہاں پولیس اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں، وہاں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے امیج کو بہتر اور موثر بنانے کے لیے مربوط حکمت عملی پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ کچھ افسران سائلین سے ملنے اور ان کی شکایات سننا اور انھیں حل کرنا، اپنا قانونی فرض سمجھتے ہیں، ایسے افسر سائلین کے لیے اپنے دفاتر کے دروازے کھلے رکھتے ہیں جب کہ کچھ پولیس افسران اس طریقہ کار کو پسند نہیں کرتے ۔ اس لیے انھوں نے ملاقات کے سخت پروٹوکول بنائے ہوتے ہیں۔

ویسے تو پولیس اور امن و امان کے لیے پاکستان کا ہر شہر اور قصبہ اہم ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا گاؤں بھی امن وامان کے لیے اہم ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا جرم بھی جرم ہے اور اس کی سرکوبی ضروری ہے۔ لیکن پھر بھی بڑے شہروں کا امن وامان ملکی معیشت اور ملک کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں لاہور اور کراچی کا امن پاکستان کی معیشت اور امیج کے لیے بہت اہم ہے۔ کراچی میں تو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز بھی موجود ہیں۔

لیکن پھر بھی جب لاہور اور کراچی کے درمیان امن وا مان کا تقابلی جائزہ کیا جائے تو لاہور کا امن کراچی سے بہتر ہی نظر آتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ لاہور میں ہونے والے جرائم اور کراچی کے جرائم کی نوعیت میں بہت فرق ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی جو صورتحال ہے، وہ لاہور میں نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی لاہور کا امن و امان مثالی نہیں ہے بلکہ دن بدن چیلنج بنتا جا رہا ہے۔

میرے لیے یہ بات بہت خوش آیند تھی کہ لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ کیا اور شہر میں لاء اینڈ آرڈر،سیکیورٹی یقینی بنانے پر کاروباری شخصیات سے تفصیلی بات چیت کی۔ چیمبر عہدیداران اور ایگزیکٹو ارکان نے سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ اور سی ٹی او منتظر مہدی کو شہر میں سیکیورٹی، ٹریفک، پارکنگ، تجاوزات اور دیگر متعلقہ مسائل سے آگاہ کیا۔

لاہور پولیس کے سربراہ نے یقین دلایا کہ کاروباری برادری کا تحفظ،پر امن ماحول میں کاروباری و تجارتی سرگرمیوں کا فروغ پولیس کی اولین ترجیح ہے۔ بزنس کمیونٹی اور شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے باہمی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا۔اس موقعے پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کاروباری مراکز میں سیکیورٹی اقدامات میں مزید بہتری لانے کی تجاویز بھی زیر غور آئیں۔


سربراہ لاہور پولیس نے بزنس کمیونٹی کی مشاورت سے مسائل کے حل اور تاجر برادری اور لاہور پولیس کے درمیان روابط مزید مستحکم بنانے کے لیے لاہور کی اہم مارکیٹوں میں پولیس افسران فوکل پرسن مقرر اور سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی فعال کرنے کا اعلان کیا۔

میں سمجھتا ہوں یہ ایک مثبت قدم ہے۔ پولیس اور کاروباری برادری کے درمیان ہم آہنگی امن وامان اور معیشت کو بہتر بنائے گی۔پارکنگ اور تجاوزات کے مسائل کے حل کے لیے ضلع انتظامیہ کے تعاون سے لائحہ عمل تشکیل دیں گے۔انڈسٹریل اسٹیٹس، مارکیٹوں اور کاروباری مراکز کی سیکیورٹی میں مزیداضافہ کرنے پر اتفاق بھی اچھی بات ہے ۔

میں سمجھتا ہوں پولیس اور کاروباری برادری کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس سے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا امیج بھی بہتر ہوگا۔ مارکیٹو ں میں امن وامان عام آدمی کو بھی تحفظ فراہم کرے گا۔ بلال صدیق کمیانہ فیصل آباد پولیس کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہاں بھی انھوں نے پولیس اور کاروباری برادری کے درمیان بہترین انڈراسٹینڈنگ قائم کی تھی جس کے مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔

لیکن جیسے میں نے پہلے بھی لکھا کہ پولیس کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے انفرادی طو رپر تو پولیس افسران کام کرتے رہتے ہیں لیکن پولیس ڈیپارٹمنٹ کی کوئی باضابطہ محکمانہ پالیسی نہیں ہے۔ اگر بلال صدیق کمیانہ کاروباری برادری سے تعاون کو اہم سمجھتے ہیں تو دوسری طرف کئی پولیس افسران کے نزدیک یہ حکمت عملی وقت کا ضیاع بھی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کاروباری برادری کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

لاہور پیشہ ور شوٹرز کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے ۔ آئس کے نشے میں ملوث نوجوان پیشہ ورانہ شوٹر بن گئے ہیں۔ حال ہی میں لاہور میںکئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ان شوٹرز کو مخالفین کے قتل کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

یہ شوٹرز تیس تیس ہزار میں سپاری لے لیتے ہیں اور قتل کر دیتے ہیں۔ نئے پولیس سربراہ نے لاہور میں شوٹرز کے خلاف کریک ڈاؤں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، شوٹرز کے خلاف کریک ڈاؤن شہر میں امن اومان کے لیے اہم ہوگا۔ کراچی میں تو اس کی اور بھی بری شکل موجود ہے، وہاں تو کاروباری افراد کا اغوا بھی عام ہے۔ لیکن لاہور میں ایسا نہیں ہے۔

ویسے جو لوگ بلال کمیانہ کو جانتے ہیں کہ انھیں علم ہے کہ وہ ایسے پولیس کمانڈر ہیں جو فرنٹ لائن پر خود موجود ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھ کر حکم چلانے پر کم ہی یقین رکھتے ہیں۔ وردی کے بغیر سول کپڑوں میں شہر میں پھرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس لیے لاہور پولیس کو بہت عرصے بعد ایک اچھا کمانڈر ملا ہے۔

میں نے ہمیشہ کہا ہے اور لکھا ہے کہ پولیس کا کام جرائم کی سرکوبی ہے، اس کام معاشرے کی اخلاقی تربیت کرنا نہیں ہے۔ یہ گیسٹ ہاؤسز میں چھاپے۔ لوگوں کے منہ سونگھنا ۔ نکاح نامے چیک کرنا، پولیس کا کام نہیں ہونا چاہیے، پولیس کو ہر شخص کو انفرادی زندگی مرضی سے جینے کا اختیار دینا چاہیے۔ اس میں مداخلت کوئی اچھی بات نہیں۔ بہر حال شہریوں اور کاروباری برادری کو لاہور پولیس کے نئے سربراہ سے بہت امیدیں ہیں۔ دیکھیں وہ ان پر کیسے پورا اترتے ہیں۔
Load Next Story