انحراف بہت بڑا ناسور ہے 1970 سے چلنے والی میوزیکل چیئر کو ختم ہونا چاہیے چیف جسٹس
ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
KABUL:
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔
مسلم لیگ (ق) کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے، 16 اپریل کو پی ٹی آئی کے ارکان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی اور حمزہ شہباز کو ووٹ دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی ریفرنس زیر التواء ہے، جس پر اپنی رائے نہیں دے سکتے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر کچھ اُدھر ہیں، آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی پارٹی اُدھر ہے، ق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں، ایک بلوچستان کی پارٹی ہے انکے لوگوں کا پتہ نہیں وہ کدھر ہیں، ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں، جس کی چوری ہوتی ہے اسکو معلوم ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے، ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، 1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔
اظہر صدیق نے کہا کہ ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ انحراف بذات خود ایک آئینی جرم ہے، منحرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں، سوال یہ ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہلی کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، کیا نااہلی کے لیے ٹرائل ہوگا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رضا ربانی نے فوجی عدالتوں پر اعتراض کیا، لیکن ضمیر کی آواز کے باوجود ووٹ فوجی عدالتوں کے حق میں دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا اور وہ ڈی سیٹ ہوئے، آج وہ سیاسی شخصیت سینیٹر ہے، کیا تاریخ میں کسی رکن کے ضمیر کے مطابق انحراف کرنے کا کوئی ڈاکومنٹ ہے؟۔
سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اسکی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے، جس نے پیسے لیکر انحراف کیا اسکی سزا سخت ہونی چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے، انحراف کرنے والوں کیلئے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں، جو میں استعمال نہیں کروں گا، منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے پوچھا کہ کیا آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں گے؟۔ اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ اگر عدالت چاہے گی تو اگلے ہفتے منگل کو عدالت کی معاونت کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کو صدارتی ریفرنس پر ہماری معاونت کریں، کیا آرٹیکل 63 اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے، کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں کہ وہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کرے، چاہے تو نہ کرے، ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ ، ہیجان ، دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے، کیا ہم یہاں سیاسی جماعتوں کے آپسی اور اندرونی مسائل حل کرنے کیلئے بیٹھے ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن ضروری ہوتا، اگر آپکی دلیل تسلیم کر لیں تو سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی، اس طرح سارا نظام تباہ ہو جائے گا، پارٹی ڈسپلن نہیں ہوگا تو سیاسی جماعت میں انتشار ہوگا۔
وکیل منصور اعوان نے کہا کہ اگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو جماعت اپنی سیٹ واپس لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض ایک رسمی آرٹیکل سمجھ لیں، کیا یہ آرٹیکل سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے بھی منسلک ہے، کیا اس کو محض شوپیس آرٹیکل سمجھ لیں یا اس کا کوئی اثر بھی ہونا چاہیے۔
عدالت نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔
مسلم لیگ (ق) کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے، 16 اپریل کو پی ٹی آئی کے ارکان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی اور حمزہ شہباز کو ووٹ دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی ریفرنس زیر التواء ہے، جس پر اپنی رائے نہیں دے سکتے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر کچھ اُدھر ہیں، آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی پارٹی اُدھر ہے، ق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں، ایک بلوچستان کی پارٹی ہے انکے لوگوں کا پتہ نہیں وہ کدھر ہیں، ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں، جس کی چوری ہوتی ہے اسکو معلوم ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے، ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، 1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔
اظہر صدیق نے کہا کہ ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ انحراف بذات خود ایک آئینی جرم ہے، منحرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں، سوال یہ ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہلی کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، کیا نااہلی کے لیے ٹرائل ہوگا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رضا ربانی نے فوجی عدالتوں پر اعتراض کیا، لیکن ضمیر کی آواز کے باوجود ووٹ فوجی عدالتوں کے حق میں دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا اور وہ ڈی سیٹ ہوئے، آج وہ سیاسی شخصیت سینیٹر ہے، کیا تاریخ میں کسی رکن کے ضمیر کے مطابق انحراف کرنے کا کوئی ڈاکومنٹ ہے؟۔
سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اسکی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے، جس نے پیسے لیکر انحراف کیا اسکی سزا سخت ہونی چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے، انحراف کرنے والوں کیلئے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں، جو میں استعمال نہیں کروں گا، منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے پوچھا کہ کیا آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں گے؟۔ اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ اگر عدالت چاہے گی تو اگلے ہفتے منگل کو عدالت کی معاونت کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کو صدارتی ریفرنس پر ہماری معاونت کریں، کیا آرٹیکل 63 اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے، کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں کہ وہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کرے، چاہے تو نہ کرے، ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ ، ہیجان ، دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے، کیا ہم یہاں سیاسی جماعتوں کے آپسی اور اندرونی مسائل حل کرنے کیلئے بیٹھے ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن ضروری ہوتا، اگر آپکی دلیل تسلیم کر لیں تو سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی، اس طرح سارا نظام تباہ ہو جائے گا، پارٹی ڈسپلن نہیں ہوگا تو سیاسی جماعت میں انتشار ہوگا۔
وکیل منصور اعوان نے کہا کہ اگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو جماعت اپنی سیٹ واپس لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض ایک رسمی آرٹیکل سمجھ لیں، کیا یہ آرٹیکل سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے بھی منسلک ہے، کیا اس کو محض شوپیس آرٹیکل سمجھ لیں یا اس کا کوئی اثر بھی ہونا چاہیے۔
عدالت نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔