پلاسٹک کرہ ارض کے کئے خطرہ

زمیں کی زرخیزی کی بات کی جائے یا آبی حیات کے بقاء کی پلاسٹک نے سب کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے

زمیں کی زرخیزی کی بات کی جائے یا آبی حیات کے بقاء کی پلاسٹک نے سب کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ فوٹو : فائل

RAWALPINDI:
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بے شمار اشیاء استعمال کرتے ہیں۔

وہ اشیاء بھی کئی اجزاء کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ بعض اشیاء کا ماخد افادیت بخش ہوتا ہے اور بعض کا نقصان دہ۔ پلاسٹک کااستعمال روزمرہ زندگی میں کیا جاتا ہے ۔ پلاسٹک کا استعمال کم و بیش پوری دنیا میں بڑھ چکا ہے اور خصوصاً فاسٹ فورڈ اور کینڈاور ڈسپوزی ایبل فودڑ ( ڈبوں میں بند)کے کونسیپٹ کے بعد سے پلاسٹک کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔

جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اور سائنس ترقی کر رہی ہے تو انسانی صحت اور اس سے جڑے مسائل کے حوالے سے تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ماحول کی بات کی جائے تو انسانی زندگی اور ماحول کا چولی دامن کا ساتھ ہے انسان ماحول سے کٹ کہ جی سکتا۔ ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں اس پہ براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔

اس وقت جہاں ماحول کو بڑے خطرات لاحق ہیں ان میں سے ایک پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال ہے اور اس سے زیادہ باعث تشویش یہ ہے کہ پلاسٹک کا لائف سائیکل بائیو دی گریڈایبل نہیں اور یہ زمین میں جا کر دوبارہ ایک نیچرل پروسس کی طرح ماحول کا حصہ نہیں بنتی بلکہ یہ صدیوں تک اپنی اصل حالت میں ہی موجود رہتی ہے۔پلاسٹک کے ڈھیر کم و بیش ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔

زمیں کی زرخیزی کی بات کی جائے یا آبی حیات کے بقاء کی پلاسٹک نے سب کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 2050تک سمندری حیات کے لئے سب سے بڑا خطرہ پلاسٹک ہوگا۔ سمندری حیات بھی اس کی تباہ کاریوںس ے محفوظ نہیں آئے روز ساحل پہ آبی حیات کے مردہ وجود ملتے ہیں جو انسانوں کی نااہلی اور لاپرواہی کے نتیجہ میں پھینکے جانے والی پلاسٹک کے شاپر، سڑائزاور ڈسپوزی ایبل اشیاء کو نگلنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

کئی سائنسی تحقیقات تو یہاں تک انکشاف کر چکی ہیں کہ پلاسٹک کے ذرات مچھلیوں کے پیٹ سے انسان کی پلیٹ تک کا سفر کرتے ہیں اور یوں انسان اپنی قبر خود کھودنے کا ذمہ دارہے۔

زمینیں بنجر ہو رہی ہیں جہاں بھی پلاسٹک پگل کر گرتا ہے وہاں سے ہریالی اپنے ڈیرے ختم کر دیتی ہے۔ اور بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی اس کے اثرات کی لیپٹ میں انسانی زندگی بھی شامل ہے۔ یہ کبھی ہوا تو کبھی غذاء کا حصہ بن کر انسانی جسم میں داخل ہوجاتی ہے اور پھر انسانی صحت کو خوفناک حد تک نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لیبارٹری میں تجرباتی طور پہ اس بات کی تصدیق کے لئے کہ کیا پلاسٹک کے ذرات انسانی جسم کے خلیوں کے لئے نقصان دہ ہیں تحقیق کی گئی جس میں یہ معلوم ہوا کہ ہر برس فیضائی آلودگی کی وجہ سے ہر برس لاکھوں لوگ موت کا شکار بن جاتے ہیں ۔

دنیا بھر میں پلاسٹک کا کچرا ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ بن چکا ہے اور یوں پلاسٹک کے ذرات جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں اس وقت دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر بحر اوقیانوس تک پلاسٹک کے کچرے کی زد میں ہیں۔

ناصرف خوراک بلکہ پانی میں بھی اس کے مہین ذرات کی آمیزش ہے ۔بلکہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں وہ بھی پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے بچی نہیں رہی اور اس میں بھی پلاسٹک کے مہین ذرات موجود ہوتے ہیں جو جسم میں جا کر بیمایوں کا باعث بنتے ہیں۔بچوں اور بالؑغ افراد کے پاخانے پہ ایک تحقیق کی گئی جس میںسئنتھیٹک مادوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا جو پلاسٹک کہ مرہونِ منت ہے۔ماہرین نے بائیس الگ صحت مند بالغ افراد کے خون کے نمونے لئے جس میں سترہ کے خون میں سے پلاسٹک کے ذرات کی تصدیق ہوئی۔

پینے کے پانی کو محفوظ کرنے والی پلاسٹک کی بوتلوں میں بھی پانی کے اندر پلاسٹک کے ذرات پائے گئے اور اس کے علاوہ پولی تھائلین کی موجودگی کے بھی آثار موجود رہے جو کہ پیک شدہ کھانوں اور دیگر اجراء کو محفوظ کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ تحقیق سے مزید معلوم ہوا کہ خون کے ایک تہائی نمونوں میں پولی تھائلین کے نشانات ملے جس کا ماخذ پلاسٹک بیگز ہوتے ہیں۔

ایمسٹیڈم یونیورسٹی نیدرلینڈ کی جانب سے گارڈین میں شائع ہونی والی رپورٹ کے مطابق ماہرین یہ حیرت انگیز نتائج ہیں جو پولیمر کے ذرات کی انسانی خون میں موجودگی کو واضح کرتے ہیں۔لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کر خون کے بہاؤ کے ہمراہ چلنے والے ان پلاسٹک کے ذرات کی کھوج کی جا سکتی ہے۔


موجودہ تحقیق ان ہوش ربا حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے کہ بچوں کے پاخانے میں بڑوں کے پاخانے کی نسبت دس فیصد زیادہ مائیکرو پلاسٹکس پائے جاتے ہیں۔جس کا تعلق ماہرین کے نزدیک بچوں کو پلاسٹک کی بوتلوں میں دودھ دینے سے ہے۔ فیڈر سے دودھ پینے کے دوران ان کے اند ر لاکھوں کے حساب سے روزانہ کی بنیاد پہ پلاسٹک کے انتہائی مہین ذرات جاتے ہیں جو کے جسم میں بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیںبلکہ دماغ میں جاکر رکاوٹ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

اہم نکات

؎ہمیشہ مائیکرو ویو میں کھانا گرم کرتے ہوئے شیشے کے برتن کا استعمال کریں۔

؎گرم کھانااور مشروبات پلاسٹک کے برتن میں ڈالنے سے گریز کریں۔

؎بچوں کے فیڈرز کی نپل اچھی کوالٹی کی لیں اور وقفے وقفے سے تبدیل کرتی رہیں۔

؎بچوں کو جلد فیڈر کی عادت ختم کروائیںاور گلاس یا کپ میں دودھ دیں۔

؎ پلاسٹک بیگز کا استعمال حتی الامکان کم کیجئے۔

؎پولی تھائلین کی پیکنگ میں گرم کھانا پیک کروانے سے گرہیز کیجئے۔

؎پانی رکھنے کے لئے پلاسٹک کے بجائے کانچ یا پھر سٹین لیس سٹیل کی بوتل استعمال کریں۔

انسانی خون میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کا ہولناک انکشاف
حال ہی میں ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پلاسٹک کی تباہ کاریاں صرف ماحول تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ ان کے سنگین نتائج رونما ہونے لگے ہیں۔ مغربی سائنسدانوں نے ایک تحقیق کی جس میں انسانی خون کے نمونے لئے گئے اور ان نمونوں کے اندر چونکا دینے والے انکشافات ہوئے۔ بین الاقوامی جریدۂ ماحولیات کی تحقیق کے مطابق انسانی خون میں اسّی (80) فیصد سے زائد پلاسٹک کے مہین (انتہائی باریک) ذرات پائے گئے ہیں۔

اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ذرات انسانی خون کے بہائو کے ساتھ کسی بھی اعضاء میں جا کر مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ ماہرین اس کے انسانی صحت پہ طویل و قلیل مدتی اثرات کی چھان بین کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایک خطرے کی گھنٹی بجانے والی بات ہے مگر ابھی اس پہ مزید تحقیق کی ضروت ہے جو اس کے انسانی صحت پہ اثرات کے کا احاطہ کر سکے۔
Load Next Story