عوام تو پاگل ہیں
ہمارے دوستوں کا سارا غصہ پاکستانی پاسپورٹ اورغریب ’’پٹواریوں‘‘ پر اترا ہے
مخصوص حادثے اور سانحے اچانک رونما نہیں ہوتے،ان کے لیے پہلے بیج بوئے جاتے ہیں، پھرآبیاری ہوتی ہے، بعد میں زمین سے پودے نکلتے ہیں اور پھر پودے ایک ایسے تناور اور مضبوط پیڑ کی شکل اختیار کر لیتے ہیںجن کا بدلتے موسم کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
میں پاکستان کی سیاست کے کئی ادوار کا عینی شاہد بھی ہوں اور راوی بھی۔ مگر سیاست کا جو ماحول آجکل بنا دیا گیا ہے، ایسا گزرے 74برسوں میں کبھی نہیںدیکھا گیا۔سقوط ڈھاکا کے بعدپاکستان میں بھٹو کا عروج ہوا اور سیاست پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم ہوئی۔
آج سیاست پرو عمران اور اینٹی عمران میں تقسیم ہوچکی۔ اینٹی عمران گروپوں میں کچھ تو اپنی پارٹی وابستگی کی وجہ سے عمران خان کے مخالف ہیں جب کہ ایک کم آمدنی والا طبقہ بھی ہے جسے عمران خان کے پونے چار سالہ اقتدار میں بدترین بے روزگاری اور مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی محدود سی آمدنی سے جب ایسے لوگ گھر چلانے لگتے ہیں تو انھیںجناب عمران خان کے ترقی اور خوشحالی کے سارے وعدے اور دعوے یاد آ جاتے ہیں، وہ اپنی ساری محرومیوں اور ناکامیوں کا ملبہ عمران خان پر ڈال کر شانت ہوتے ہیں۔
مہنگائی عالمی فینامنا ہے، کوویڈ نائٹین اور اومیکرون مہنگائی کی وجہ ہیں، طلب و رسد کا فالٹ ہے، وغیرہ وغیرہ ایسے دلائل انھیں سمجھ نہیں آتے ، دنیا کی کوئی دلیل ایسے بھوکوں کو قائل نہیں کر سکتی جن کے پاس روٹی ایک ہو اور کھانے والے 5ہوں، ان کے لیے سب سے بڑی دلیل روٹی ہوتی ہے، یہ وہ طبقہ انسانی ہے جس کی کسی سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر سے کوئی وابستگی نہیں ہوتی، ان کا پیٹ ہی ان کی پارلیمنٹ اور منتخب نمایندہ ہوتا ہے۔
یہ مظلوم اور بے بس طبقہ دماغ سے نہیں بلکہ معدے سے سوچتا ہے۔جب تک معدہ خالی ہے،اس کے پاس بس دیوانگی اورغنودگی ہے۔ دماغ میں سوچ تو تب آئے جب معدہ بھرا ہو۔
اب آئیں پرو عمران یا عاشقان عمران کے گروہ کی طرف۔ خان صاحب نے تبدیلی، کرپش اور احتساب کا ایسا مدھر اور ہائی بیٹ ڈھول بجانا شروع کیا کہ پپو سائیں کی روح بھی کانپ گئی ۔اس ڈھول کی گھن گرج سنتے ہی عاشقان عمران بے ساختہ بھنگڑا ڈالنے لگے۔ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے نے تو دیوانگی اور جنون کوانتہا تک پہنچا دیا۔
بدقسمتی سے تبدیلی، کرپشن اور احتساب کا ڈھول اتنا زور سے اور مسلسل بجایا گیا کہ اچانک ٹھاہ کرکے پھٹ گیا،اس سے پہلے کہ خان صاحب کی محفل تبدیلی برخواست ہو تی اور وہ بنی گالہ کے سرسبز پہاڑوں میں بسائی گئی اپنی پرسکون کٹیا میں گوشہ نشین ہو کر یاد الٰہی میں گم ہو کر سچی ریاست مدینہ کے قیام کی دعائیں مانگتے، اچانک خان صاحب کی بلند بختی کام کر گئی اور امریکی سازش نامی ایک نیا ڈھول خان صاحب کے ہاتھ آ گیا، جس کی دھمک سے اقتدار کے ایوانوںکے درودیوار لرز اٹھے۔
اﷲ ہی جانے ''لفظ سازش'' کی ہمارے ملک کے ایک طبقے کو کیا سمجھ آئی کہ ان پر جنون طاری ہو گیا۔ عمران خان اور ان کے عاشقان کے سوا سارے سیاستدان اور پارلیمنٹیرین اچانک غدار قرار پائے، اسٹیبلشمنٹ اور معزز عدلیہ امریکی آلہ کار اور الیکشن کمیشن نواز شریف کا ملازم خاص نظر آنے لگا۔ سوشل میڈیا اور گلیوں بازاروں میں کوسنے اورگالیاں یوں برسنے لگیں گویا ڈھائی ڈھائی کلو کے اولے پڑ رہے ہوں۔
آہ! بے چارے شہباز شریف، انھوں نے ابھی سرمنڈایا ہی تھا کہ دھڑا دھڑ اولے پڑنے لگے۔ اب ہمارے پیارے وطن کے سپوت اتنے صوفی اور وسیع القلب تو ہیں نہیں کہ مخالفین کی گالیاں سنیں اورانھیں دعا دے کر چل دیں یا گالیاں سن کر خاموش ہی ہو جائیں، یہاں کا تو کلچر یہ ہے کہ کوئی بات کر کے جائے تو جائے کہاں۔یوںاینٹی عمران گروپ نے بھی آستینیں چڑھا لیں۔ پھر ایک تماشہ شروع ہو گیا جو اسلام آباد کے ہوٹل سے ہوتا ہوا سعودی عرب تک جا پہنچا۔
چاروں طرف پھڑ لو، پھڑ لو، جانے نہ پائے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ارباب عقل و دانش ، مہذب اور کمزوردل حضرات حیران وپریشان اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے، یاالہی!آخر اس طوفان بدتمیزی بلکہ پاگل پن کا انجام کیا ہو گا؟ کہیں پاکستانی پاسپورٹ جلائے جا رہے ہیں، کہیں مظاہرے فرمائے جا رہے ہیں' کچھ لوگ ٹوئٹر، فیس بک اور وٹس ایپ کے مورچوں میں بند ہوکر جہالت نامی بم پھوڑ رہے ہیں۔
ان شیدائیوں اور فدائیوں کے کارنامے دیکھ کر مجھے وہ دیہاتی خاتون یاد آ جاتی ہے جس کی گاؤں میں کسی سے بھی لڑائی ہوجاتی تو وہ گھر آکر اپنے بیٹے کی دھنائی کر دیتی۔ بچہ ذرا سیانا ہوا اور اسے ماں کی یہ واردات سمجھ میں آگئی۔
اس کے بعداس نے مار سے بچنے کی یہ راہ نکالی ، جونہی اسے پتہ چلتا کہ اس کی ماں کی کسی سے لڑائی ہوگئی ہے اور وہ گھر پہنچنے والی ہے، وہ جوتے اتار کر بغل میں دباتا اور گھر سے بھاگ نکلتا۔اب عوام بھی جوتے بغل میں دبائے کھڑی ہے اور بھاگنے کی تیاری کر رہی ہے۔
ہمارے ہاں جو غدر مچا ہوا ہے، اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکا جو اس ساری ''سازش'' کابانی و مبانی قرار پایا ہے، اسے کسی نے درفٹے منہ تک نہیں کہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خان صاحب کے مریدین امریکی سفارت خانے کے سامنے روز دھرنا دیتے، مظاہرہ کرتے، پاکستانی پاسپورٹ کے بجائے کوئی خط وغیرہ جلایا جاتا تاکہ صدر جو بائیڈن گھبرا کر فون کرتا، خان صاحب معاف کردیں، آیندہ ایسی غلط نہیں ہوگی۔
مگر ہم اتنے خوش قسمت کہاں کہ دل کی ساری مرادیں پوری ہوتیں۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ ''پانی نیوی تھاں تے آندا اے'' (پانی نشیب کی طرف بہتا ہے) ہمارے دوستوں کا سارا غصہ پاکستانی پاسپورٹ اورغریب ''پٹواریوں'' پر اترا ہے، سوشل میڈیا دیکھ کریہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ ریاستی اداروں کے لیے عاشقان عمران خان اپنے دل میں کیسے کیسے پاکیزہ جذبات رکھتے ہیں۔
ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تقسیم درتقسیم ہوتے جا رہے ہیں، صوبائیت، لسانیت اور مذہبی فرقہ بندی اور مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق رہی سہی کسر ''غیرملکی سازش ''نے نکال دی ہے ، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،جے یو آئی، اے این پی، ایم کیوایم، اختر مینگل ، شاہ زین بگٹی اور پی ٹی آئی کے منحرف پارلیمنٹیرنز غدار ڈیکلئر کردیے گئے۔ معیشت کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔
اس سارے تماشے کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ لڑائی رکتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ اس کی حدت، شدت، سنگینی اور سفاکی میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہمارے خوش الحان اور خوش بیان سابق وزیر داخلہ جناب قبلہ شیخ رشید صاحب ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مسلسل ہمیں آگاہ فرما رہے ہیں کہ خانہ جنگی ہونے والی ہے، لاشیں بچھنے والی ہیں، جلاؤ اور گھیراؤ ہونے والا ہے،عمران خان کا احتجاجی مارچ خونی ہو گا۔ اب ایسے میں مجھ جیسے ڈرپوک اور بزدل قلم کار پر سکتہ طاری نہ ہو تو اور کیا ہو۔
پاکستان تو ہمیشہ سے نازک دور سے گزر رہا ہے، اس کی معاشی، سیاسی اور نظریاتی عوارض پیدائشی ہیں۔ وہ پہلے کبھی حل ہوئے ہیں نہ اب حل ہوں گے، البتہ کہیں سے جب کبھی کوئی خیرات ملے تو پین کلر مل جاتی ہے اور تھوڑی دیر کے لیے سکون آجاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے سیاسی ناخداؤںنے قوم کی کشتی پار لگانے کا کوئی ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا۔
آلو، پیاز، انڈے، پٹرول، بجلی، آٹا، چینی اور ادویات کی مہنگائی جیسے گھٹیا اور حقیر مسائل کا سردرد پالنا سیاسی رہبروںکا کام نہیں ہوتا۔اﷲہمارے رہبروں کو سلامت رکھے، عوام کا کیا ، یہ تو پاگل ہیں،دو گھڑیاں رو کے چپ کر جائیں گے۔
میں پاکستان کی سیاست کے کئی ادوار کا عینی شاہد بھی ہوں اور راوی بھی۔ مگر سیاست کا جو ماحول آجکل بنا دیا گیا ہے، ایسا گزرے 74برسوں میں کبھی نہیںدیکھا گیا۔سقوط ڈھاکا کے بعدپاکستان میں بھٹو کا عروج ہوا اور سیاست پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم ہوئی۔
آج سیاست پرو عمران اور اینٹی عمران میں تقسیم ہوچکی۔ اینٹی عمران گروپوں میں کچھ تو اپنی پارٹی وابستگی کی وجہ سے عمران خان کے مخالف ہیں جب کہ ایک کم آمدنی والا طبقہ بھی ہے جسے عمران خان کے پونے چار سالہ اقتدار میں بدترین بے روزگاری اور مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی محدود سی آمدنی سے جب ایسے لوگ گھر چلانے لگتے ہیں تو انھیںجناب عمران خان کے ترقی اور خوشحالی کے سارے وعدے اور دعوے یاد آ جاتے ہیں، وہ اپنی ساری محرومیوں اور ناکامیوں کا ملبہ عمران خان پر ڈال کر شانت ہوتے ہیں۔
مہنگائی عالمی فینامنا ہے، کوویڈ نائٹین اور اومیکرون مہنگائی کی وجہ ہیں، طلب و رسد کا فالٹ ہے، وغیرہ وغیرہ ایسے دلائل انھیں سمجھ نہیں آتے ، دنیا کی کوئی دلیل ایسے بھوکوں کو قائل نہیں کر سکتی جن کے پاس روٹی ایک ہو اور کھانے والے 5ہوں، ان کے لیے سب سے بڑی دلیل روٹی ہوتی ہے، یہ وہ طبقہ انسانی ہے جس کی کسی سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر سے کوئی وابستگی نہیں ہوتی، ان کا پیٹ ہی ان کی پارلیمنٹ اور منتخب نمایندہ ہوتا ہے۔
یہ مظلوم اور بے بس طبقہ دماغ سے نہیں بلکہ معدے سے سوچتا ہے۔جب تک معدہ خالی ہے،اس کے پاس بس دیوانگی اورغنودگی ہے۔ دماغ میں سوچ تو تب آئے جب معدہ بھرا ہو۔
اب آئیں پرو عمران یا عاشقان عمران کے گروہ کی طرف۔ خان صاحب نے تبدیلی، کرپش اور احتساب کا ایسا مدھر اور ہائی بیٹ ڈھول بجانا شروع کیا کہ پپو سائیں کی روح بھی کانپ گئی ۔اس ڈھول کی گھن گرج سنتے ہی عاشقان عمران بے ساختہ بھنگڑا ڈالنے لگے۔ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے نے تو دیوانگی اور جنون کوانتہا تک پہنچا دیا۔
بدقسمتی سے تبدیلی، کرپشن اور احتساب کا ڈھول اتنا زور سے اور مسلسل بجایا گیا کہ اچانک ٹھاہ کرکے پھٹ گیا،اس سے پہلے کہ خان صاحب کی محفل تبدیلی برخواست ہو تی اور وہ بنی گالہ کے سرسبز پہاڑوں میں بسائی گئی اپنی پرسکون کٹیا میں گوشہ نشین ہو کر یاد الٰہی میں گم ہو کر سچی ریاست مدینہ کے قیام کی دعائیں مانگتے، اچانک خان صاحب کی بلند بختی کام کر گئی اور امریکی سازش نامی ایک نیا ڈھول خان صاحب کے ہاتھ آ گیا، جس کی دھمک سے اقتدار کے ایوانوںکے درودیوار لرز اٹھے۔
اﷲ ہی جانے ''لفظ سازش'' کی ہمارے ملک کے ایک طبقے کو کیا سمجھ آئی کہ ان پر جنون طاری ہو گیا۔ عمران خان اور ان کے عاشقان کے سوا سارے سیاستدان اور پارلیمنٹیرین اچانک غدار قرار پائے، اسٹیبلشمنٹ اور معزز عدلیہ امریکی آلہ کار اور الیکشن کمیشن نواز شریف کا ملازم خاص نظر آنے لگا۔ سوشل میڈیا اور گلیوں بازاروں میں کوسنے اورگالیاں یوں برسنے لگیں گویا ڈھائی ڈھائی کلو کے اولے پڑ رہے ہوں۔
آہ! بے چارے شہباز شریف، انھوں نے ابھی سرمنڈایا ہی تھا کہ دھڑا دھڑ اولے پڑنے لگے۔ اب ہمارے پیارے وطن کے سپوت اتنے صوفی اور وسیع القلب تو ہیں نہیں کہ مخالفین کی گالیاں سنیں اورانھیں دعا دے کر چل دیں یا گالیاں سن کر خاموش ہی ہو جائیں، یہاں کا تو کلچر یہ ہے کہ کوئی بات کر کے جائے تو جائے کہاں۔یوںاینٹی عمران گروپ نے بھی آستینیں چڑھا لیں۔ پھر ایک تماشہ شروع ہو گیا جو اسلام آباد کے ہوٹل سے ہوتا ہوا سعودی عرب تک جا پہنچا۔
چاروں طرف پھڑ لو، پھڑ لو، جانے نہ پائے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ارباب عقل و دانش ، مہذب اور کمزوردل حضرات حیران وپریشان اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے، یاالہی!آخر اس طوفان بدتمیزی بلکہ پاگل پن کا انجام کیا ہو گا؟ کہیں پاکستانی پاسپورٹ جلائے جا رہے ہیں، کہیں مظاہرے فرمائے جا رہے ہیں' کچھ لوگ ٹوئٹر، فیس بک اور وٹس ایپ کے مورچوں میں بند ہوکر جہالت نامی بم پھوڑ رہے ہیں۔
ان شیدائیوں اور فدائیوں کے کارنامے دیکھ کر مجھے وہ دیہاتی خاتون یاد آ جاتی ہے جس کی گاؤں میں کسی سے بھی لڑائی ہوجاتی تو وہ گھر آکر اپنے بیٹے کی دھنائی کر دیتی۔ بچہ ذرا سیانا ہوا اور اسے ماں کی یہ واردات سمجھ میں آگئی۔
اس کے بعداس نے مار سے بچنے کی یہ راہ نکالی ، جونہی اسے پتہ چلتا کہ اس کی ماں کی کسی سے لڑائی ہوگئی ہے اور وہ گھر پہنچنے والی ہے، وہ جوتے اتار کر بغل میں دباتا اور گھر سے بھاگ نکلتا۔اب عوام بھی جوتے بغل میں دبائے کھڑی ہے اور بھاگنے کی تیاری کر رہی ہے۔
ہمارے ہاں جو غدر مچا ہوا ہے، اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکا جو اس ساری ''سازش'' کابانی و مبانی قرار پایا ہے، اسے کسی نے درفٹے منہ تک نہیں کہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خان صاحب کے مریدین امریکی سفارت خانے کے سامنے روز دھرنا دیتے، مظاہرہ کرتے، پاکستانی پاسپورٹ کے بجائے کوئی خط وغیرہ جلایا جاتا تاکہ صدر جو بائیڈن گھبرا کر فون کرتا، خان صاحب معاف کردیں، آیندہ ایسی غلط نہیں ہوگی۔
مگر ہم اتنے خوش قسمت کہاں کہ دل کی ساری مرادیں پوری ہوتیں۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ ''پانی نیوی تھاں تے آندا اے'' (پانی نشیب کی طرف بہتا ہے) ہمارے دوستوں کا سارا غصہ پاکستانی پاسپورٹ اورغریب ''پٹواریوں'' پر اترا ہے، سوشل میڈیا دیکھ کریہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ ریاستی اداروں کے لیے عاشقان عمران خان اپنے دل میں کیسے کیسے پاکیزہ جذبات رکھتے ہیں۔
ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تقسیم درتقسیم ہوتے جا رہے ہیں، صوبائیت، لسانیت اور مذہبی فرقہ بندی اور مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق رہی سہی کسر ''غیرملکی سازش ''نے نکال دی ہے ، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،جے یو آئی، اے این پی، ایم کیوایم، اختر مینگل ، شاہ زین بگٹی اور پی ٹی آئی کے منحرف پارلیمنٹیرنز غدار ڈیکلئر کردیے گئے۔ معیشت کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔
اس سارے تماشے کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ لڑائی رکتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ اس کی حدت، شدت، سنگینی اور سفاکی میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہمارے خوش الحان اور خوش بیان سابق وزیر داخلہ جناب قبلہ شیخ رشید صاحب ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مسلسل ہمیں آگاہ فرما رہے ہیں کہ خانہ جنگی ہونے والی ہے، لاشیں بچھنے والی ہیں، جلاؤ اور گھیراؤ ہونے والا ہے،عمران خان کا احتجاجی مارچ خونی ہو گا۔ اب ایسے میں مجھ جیسے ڈرپوک اور بزدل قلم کار پر سکتہ طاری نہ ہو تو اور کیا ہو۔
پاکستان تو ہمیشہ سے نازک دور سے گزر رہا ہے، اس کی معاشی، سیاسی اور نظریاتی عوارض پیدائشی ہیں۔ وہ پہلے کبھی حل ہوئے ہیں نہ اب حل ہوں گے، البتہ کہیں سے جب کبھی کوئی خیرات ملے تو پین کلر مل جاتی ہے اور تھوڑی دیر کے لیے سکون آجاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے سیاسی ناخداؤںنے قوم کی کشتی پار لگانے کا کوئی ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا۔
آلو، پیاز، انڈے، پٹرول، بجلی، آٹا، چینی اور ادویات کی مہنگائی جیسے گھٹیا اور حقیر مسائل کا سردرد پالنا سیاسی رہبروںکا کام نہیں ہوتا۔اﷲہمارے رہبروں کو سلامت رکھے، عوام کا کیا ، یہ تو پاگل ہیں،دو گھڑیاں رو کے چپ کر جائیں گے۔