امید افزا منظر نامہ
عوام پر بھی یہ بات واضع ہوگئی ہےکہ ہماری افواج ہرقسم کےچیلنج کامقابلہ کرسکتی ہیں اورپاکستان کادفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے
شمالی وزیرستان میں فی الحال زمینی آپریشن کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔ ابھی جنگ جوئوں کے خلاف پاک فضائیہ کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے ایف 16 کے ذریعے اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ پاک فوج کے پاس امریکا جیسی ڈرون ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ اسی لیے اس کا سب سے بہتر آپشن ایف 16 ہی ہے جسے بروئے کار لایا گیا ہے۔ عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے جیسے ہی حکم دیا تو پاک فوج بھرپور زمینی آپریشن شروع کر دے گی۔ اس سوال پر کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ کہا گیا آپریشن تمام گروپوں کے خلاف ہو گا اور اس معاملے میں کسی کی تخصیص نہیں ہو گی۔ ان ذرایع کا کہنا ہے کہ جنگجوئوں کا سائز اتنا بڑا نہیں ہے جتنا بڑا انھیں ظاہر کیا جا رہا ہے۔
عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ اندرون ملک بھی دھشت گردوں سے ہمدردی رکھنے والے موجود ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں گرائونڈ آپریشن شروع نہیں ہوا۔ البتہ طالبان جو کریں گے اس کا فوری اور انھی کی زبان میں جواب دیا جائے گا اور یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم نہیں کروانا چاہتا۔ ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ افغانستان میں تمام گروپس پر مشتمل حکومت قائم ہو جائے جو پاکستان کے لیے مسائل نہ پیدا کرے۔ عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کو جو کامیابیاں ملی ہیں وہ دنیا پر واضح ہیں۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جتنی کامیابیاں حاصل کیں افغانستان میں غیر ملکی افواج نے بھی اتنی کامیابیاں حاصل نہیں کیں۔
عسکری ذرایع کے حوالے سے سامنے آنے والی یہ باتیں عوام کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں۔ اس سے عوام پر بھی یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ ہماری افواج ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ پچھلے کئی سالوں کی دہشت گردی نے عوام میں مایوسی ناامیدی کی فضا پیدا کر دی تھی ان حالات میں جب یہ کہا گیا کہ فوجی آپریشن میں کامیابی کے امکانات صرف چالیس فیصد ہیں تو عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ فوج کی حالیہ سرجیکل اسٹرائیکس نے شدت پسندوں کی طاقت کا پول کھول دیا ہے ۔ نا امیدی، خوف، بے یقینی سے قوم باہر نکلنے لگی ہے۔ عسکری ذرایع نے قوم کو یہ خوش خبری دی ہے کہ صرف 4 سے 6 ہفتوں میں شمالی وزیرستان کو جنگجو گروپوں سے آزاد کرا لیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں میں خاصی حد تک کمی آ جائے گی۔ عسکری ذرایع کی اس بریفنگ نے اس حقیقت کو واضع کر دیا ہے کہ پاک فوج کی سوچ میں آپریشن کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔ اس آپریشن کے تمام مثبت اور منفی پہلوئوں پر ان کی نظر ہے۔ یہ بات بھی واضع کر دی گئی کہ مذاکرات صرف اور صرف مضبوطی کی پوزیشن سے کیے جائیں گے۔ کسی کمزوری کی صورت میں ہر گز نہیں کیے جائیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ اب طالبان نے اپنے رویے میں لچک پیدا کر کے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے' اللہ کرے اب ملک میں امن قائم ہو جائے۔
پوری دنیا میں مذاکرات اور جنگ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ میدان جنگ کے نتائج مذاکرات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جو فریق میدان جنگ میں بالادست ہو گا مذاکرات کی میز پر شرائط بھی اس کی ہی مانی جائیں گی۔
سب سے اہم بات اسٹرٹیجک گہرائی کے نظریے سے دست برداری ہے۔ اس نظریے سے پاکستان اور افغانستان دونوں کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ آج پاکستان کو ہر طرح کی جس تباہی و بربادی کا سامنا ہے وہ اسی نظریے سے ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جائے ۔ یہاں پر بھی ایک دوسرا محاورہ یاد آتا ہے جس کا استعمال ایسے ہی موقعوں پر ہوتا ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اس فقرے کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب قوم خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے اور ہمارا تو کمال یہ ہے کہ ہم نے اپنے پائوں پر نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے وجود پر ہی کلہاڑا مار لیا ہے جب کہ اس عظیم کارنامے پر پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔
اسی ضمن میں الطاف حسین کے بیان پر شدید تنقید ہو رہی ہے کہ جس میں انھوں نے فوج کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی نوبت ہی کیوں آئی کہ الطاف حسین یہ بیان دیتے۔ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی اور خود کش دھماکوں سے پورے ملک پر سناٹا طاری ہے اور اس کے جواب میں مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ نہیں۔ان حالات میں جرات کا مظاہرہ سوائے بلاول بھٹو زرداری اور الطاف حسین کے اور کسی نے نہیں کیا۔الطاف حسین سے بہت سی باتوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر تنقید کرتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی میں صرف ایم کیو ایم ہی ہے جو شدت پسندوں کے راستے میں چٹان بنی ہوئی ہے اگر یہ رکاوٹ بھی راستے سے ہٹ جاتی ہے تو جنگجوئوں کو کراچی جیسے شہر پر قبضے سے کون روک سکتا ہے جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور جنگ معیشت کی بنیاد پر ہی لڑی جاتی ہے۔ کراچی کے ایک بڑے حصے پر قبضہ ایک زبردست جنگی چال ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ الطاف حسین جو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں' انھوں نے غیر جمہوری بیان کیوں دیا؟ آپریشن کا مطالبہ کر کے الطاف حسین نے عوام کی آواز بن کر حریفوں پر سبقت حاصل کرتے ہوئے سیاسی برتری حاصل کر لی ہے۔ ہمیں پسند آئے نہ آئے اس معاملے پر تو قوم کو الطاف حسین کی حمایت کرنا ہی پڑے گی۔
8-9 مارچ سے دہشت گردی کی جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔
سیل فون: 0346-4527997
عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ اندرون ملک بھی دھشت گردوں سے ہمدردی رکھنے والے موجود ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں گرائونڈ آپریشن شروع نہیں ہوا۔ البتہ طالبان جو کریں گے اس کا فوری اور انھی کی زبان میں جواب دیا جائے گا اور یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم نہیں کروانا چاہتا۔ ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ افغانستان میں تمام گروپس پر مشتمل حکومت قائم ہو جائے جو پاکستان کے لیے مسائل نہ پیدا کرے۔ عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کو جو کامیابیاں ملی ہیں وہ دنیا پر واضح ہیں۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جتنی کامیابیاں حاصل کیں افغانستان میں غیر ملکی افواج نے بھی اتنی کامیابیاں حاصل نہیں کیں۔
عسکری ذرایع کے حوالے سے سامنے آنے والی یہ باتیں عوام کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں۔ اس سے عوام پر بھی یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ ہماری افواج ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ پچھلے کئی سالوں کی دہشت گردی نے عوام میں مایوسی ناامیدی کی فضا پیدا کر دی تھی ان حالات میں جب یہ کہا گیا کہ فوجی آپریشن میں کامیابی کے امکانات صرف چالیس فیصد ہیں تو عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ فوج کی حالیہ سرجیکل اسٹرائیکس نے شدت پسندوں کی طاقت کا پول کھول دیا ہے ۔ نا امیدی، خوف، بے یقینی سے قوم باہر نکلنے لگی ہے۔ عسکری ذرایع نے قوم کو یہ خوش خبری دی ہے کہ صرف 4 سے 6 ہفتوں میں شمالی وزیرستان کو جنگجو گروپوں سے آزاد کرا لیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں میں خاصی حد تک کمی آ جائے گی۔ عسکری ذرایع کی اس بریفنگ نے اس حقیقت کو واضع کر دیا ہے کہ پاک فوج کی سوچ میں آپریشن کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔ اس آپریشن کے تمام مثبت اور منفی پہلوئوں پر ان کی نظر ہے۔ یہ بات بھی واضع کر دی گئی کہ مذاکرات صرف اور صرف مضبوطی کی پوزیشن سے کیے جائیں گے۔ کسی کمزوری کی صورت میں ہر گز نہیں کیے جائیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ اب طالبان نے اپنے رویے میں لچک پیدا کر کے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے' اللہ کرے اب ملک میں امن قائم ہو جائے۔
پوری دنیا میں مذاکرات اور جنگ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ میدان جنگ کے نتائج مذاکرات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جو فریق میدان جنگ میں بالادست ہو گا مذاکرات کی میز پر شرائط بھی اس کی ہی مانی جائیں گی۔
سب سے اہم بات اسٹرٹیجک گہرائی کے نظریے سے دست برداری ہے۔ اس نظریے سے پاکستان اور افغانستان دونوں کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ آج پاکستان کو ہر طرح کی جس تباہی و بربادی کا سامنا ہے وہ اسی نظریے سے ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جائے ۔ یہاں پر بھی ایک دوسرا محاورہ یاد آتا ہے جس کا استعمال ایسے ہی موقعوں پر ہوتا ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اس فقرے کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب قوم خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے اور ہمارا تو کمال یہ ہے کہ ہم نے اپنے پائوں پر نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے وجود پر ہی کلہاڑا مار لیا ہے جب کہ اس عظیم کارنامے پر پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔
اسی ضمن میں الطاف حسین کے بیان پر شدید تنقید ہو رہی ہے کہ جس میں انھوں نے فوج کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی نوبت ہی کیوں آئی کہ الطاف حسین یہ بیان دیتے۔ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی اور خود کش دھماکوں سے پورے ملک پر سناٹا طاری ہے اور اس کے جواب میں مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ نہیں۔ان حالات میں جرات کا مظاہرہ سوائے بلاول بھٹو زرداری اور الطاف حسین کے اور کسی نے نہیں کیا۔الطاف حسین سے بہت سی باتوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر تنقید کرتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی میں صرف ایم کیو ایم ہی ہے جو شدت پسندوں کے راستے میں چٹان بنی ہوئی ہے اگر یہ رکاوٹ بھی راستے سے ہٹ جاتی ہے تو جنگجوئوں کو کراچی جیسے شہر پر قبضے سے کون روک سکتا ہے جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور جنگ معیشت کی بنیاد پر ہی لڑی جاتی ہے۔ کراچی کے ایک بڑے حصے پر قبضہ ایک زبردست جنگی چال ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ الطاف حسین جو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں' انھوں نے غیر جمہوری بیان کیوں دیا؟ آپریشن کا مطالبہ کر کے الطاف حسین نے عوام کی آواز بن کر حریفوں پر سبقت حاصل کرتے ہوئے سیاسی برتری حاصل کر لی ہے۔ ہمیں پسند آئے نہ آئے اس معاملے پر تو قوم کو الطاف حسین کی حمایت کرنا ہی پڑے گی۔
8-9 مارچ سے دہشت گردی کی جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔
سیل فون: 0346-4527997