افریقی شہری اور کارکنان کا کیا حال ہے
معاشی مسائل میں اضافہ غربت میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ بنیادی سماجی ڈھانچہ تیزی سے زوال پذیر ہے
انسانی تہذیب اور زراعت کی ابتدا افریقہ سے ہی شروع ہوئی۔ اب سے 50 لاکھ سال قبل کی پائی جانے والی انسانی کھوپڑی مقابلتاً سب سے بڑی تھی اور افریقہ سر سبز و شاداب تھا جہاں دریاؤں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ماحولیاتی تبدیلی اور سامراجی استحصال کے باعث افریقہ نہ صرف غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگرا بلکہ طبقاتی خلیج یہ ثابت کرتی ہے کہ افریقہ اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ نابرابری والے ممالک میں سرفہرست ہے۔
جنوبی افریقہ اس براعظم کا کلیدی ملک ہے۔ 1996 میں پابندیوں کے خاتمے سے اب تک جنوبی افریقہ کا جی ڈی پی 3 گنا ہوکر 400 ارب ڈالر ہوچکا ہے جب کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 50 ارب ڈالر ہوچکے ہیں۔ لیکن اس تمام تر ترقی کے باوجود وہاں 2013 میں 35 فیصد افراد بیروزگار تھے جب کہ آبادی کے ایک چوتھائی افراد 1.25 ڈالر روزانہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سیاہ فاموں کا اقتدار میں آنا یقیناً آگے کی جانب ایک بہت بڑا قدم تھا لیکن اس تحریک کے قائدین کی غداری کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کے بچ جانے کی وجہ سے محنت کش طبقے کے استحصال میں اضافہ ہوا ہے۔ 60 فیصد افراد کی سالانہ آمدن 7 ہزار ڈالر سے کم ہے جب کہ 2.2 فیصد افراد کی سالانہ آمدن 50 ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ 47 فیصد افراد انتہائی غربت میں رہنے پر مجبور ہیں۔ 15 سے 24 سال تک کے ایک کروڑ 40 لاکھ نوجوانوں میں سے 33 لاکھ کے پاس نہ تعلیم و تربیت ہے اور نہ روزگار۔ ایسی صورت حال میں برسراقتدار افریقن نیشنل کانگریس عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی پالیسیوں پر عملدرآمد کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہی۔ اس سال جولائی سے قبل ہونے والے انتخابات میں اس کی قیادت کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری سے تنگ آچکے ہیں۔
''ماریکانا'' کے احتجاج کرنے والے محنت کشوں کے پولیس کے ہاتھوں کیے گئے قتل عام کے زخم بھی ابھی مندمل نہیں ہوئے۔ ان شہدا کی پہلی برسی کی تقریبات میں بھی محنت کشوں کا غم و غصہ عیاں ہوا۔ ٹریڈ یونین تحریک بھی فعال اور متحرک ہے اور محنت کشوں کی ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے معمول بن چکے ہیں۔ 12 سے 14 نومبر 2013 تک ہزاروں محنت کش عوام کے مظاہرے بہت سے شہروں اور قصبوں میں دیکھنے میں آئے جس میں وہ مزدور دشمن قوانین، رد اصلاحات کے خلاف احتجاج کر رہے تھے لیکن ٹریڈ یونین قیادت میں اختلافات کے باعث یہ احتجاج روایتی طور پر جنوبی افریقہ کی معیشت پر اثرانداز نہیں ہوسکا۔ ان مظاہروں کا اعلان افریقی ٹریڈ یونین فیڈریشن (COSATU) کی جانب سے کیا گیا تھا جس نے الیکٹرانک ٹال سسٹم، لیبر کی ٹھیکیداری اور نوجوانوں کی اجرتوں کے طریقہ کا نئے قوانین کے خلاف احتجاج کی کال دی۔
اس احتجاج سے سینٹرل آرگنائزیشن آف ساؤتھ افریقن ٹریڈ یونین (COSATU) کی قیادت میں موجود اختلافات بھی عیاں ہوئے۔ محنت کشوں کی ''کوساٹو'' کی قیادت میں دائیں بازو کے دھڑے کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ جسے وہ اپنے مسائل کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ بائیں بازو کی قیادت پر بھی نچلی صفوں سے فیصلہ کن اقدامات کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ کوساٹو میں ابھرنے والے اختلافات ایک بڑی طبقاتی کشمکش ابھرنے کے پیش خیمے کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں مفاد پرست قیادت کے خلاف غم و غصہ ابھر رہا ہے۔ اس عرصے میں جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی کے نوجوان بھی متحرک ہو رہے ہیں اور نجات کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے واقعات محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ محنت کش طبقہ ناگزیر طور پر ایسے نتائج اخذ کرے گا جو اسے اس نظام کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کریں گے۔ ایسی صورتحال میں انقلابی تحریک ابھرسکتی ہے۔
نائیجیریا کی معیشت کے 90 فیصد حصے کا دارومدار تیل کی برآمدات پر ہے جس میں کمی آرہی ہے۔ امریکا نائیجیریا کے تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا جس نے اب اس تیل پر انحصار کم کرکے ملک کے اندر سے یہ ضرورت پوری کرنی شروع کردی ہے۔ معاشی مسائل میں اضافہ غربت میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ بنیادی سماجی ڈھانچہ تیزی سے زوال پذیر ہے۔ یہ بیروزگاری کی شرح کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے جہاں 80 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ یہ تمام صورت حال حکمران طبقے پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ حکمران جماعت پی ڈی پی میں ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ پارٹی نہ صرف نائیجیریا بلکہ پورے افریقہ کی سب سے بڑی پارٹی کہلاتی تھی۔ پارٹی اب پرانی پی ڈی پی اور نئی پی ڈی پی کے دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ حزب اختلاف کی چند سرمایہ دار جماعتوں کا اتحاد اے پی سی بھی حکمرانوں کی جانب سے عوام کو دھوکہ دینے کی ایک اور کوشش ہے۔اختلافات کے باوجود ان تمام پارٹیوں کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں۔ حکمران طبقے میں ٹوٹ پھوٹ کی ایک وجہ صدر گڈلک کی حمایت میں کمی ہے جس کے باعث وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں پر پہلے کی طرح عملدرآمد نہیں کر پا رہا۔
عوام میں صدر کی حقیقت بے نقاب ہوچکی ہے۔ اسی لیے اب صدر قومی ریاستی کانفرنس جیسے نان ایشو اچھال رہا ہے تاکہ اصل مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکے۔ نائیجیریا کی ٹریڈ یونینوں کی جانب سے بنائی جانے والی لیبر پارٹی کی قیادت بھی اصلاح پسند پالیسیوں پر گامزن ہے اور حکمران طبقے سے مصالحت کرچکی ہے۔ محنت کشوں کی اس قیادت سے وابستہ امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور اب بہت سے سرمایہ دار سیاست داں اس پارٹی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نائیجیریا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ ان تمام مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ابھرنے والی خودرو تحریک اسی بے چینی اور غصے کا اظہار تھی۔ آنے والے عرصے میں بھی ایسی تحریکیں چلنے کے امکانات موجود ہیں۔محنت کشوں کی یکجہتی اور تحریکوں کو توڑنے کے لیے حکمران طبقات اور سامراجی قوتیں اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کو استعمال کر رہی ہیں۔ بوکوحرم نامی بنیاد پرست تنظیم کی دہشت گرد کارروائیوں نے شمالی مشرقی حصے کو یرغمال بنایا ہوا ہے جہاں گزشتہ 6 ماہ سے کرفیو لگا ہوا ہے۔ ان تمام صورتحال کا مقابلہ محنت کشوں کی طبقاتی جرأت کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے افریقہ اور دنیا بھر میں عالمی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
سرمایہ داری کی بدترین شکل اس براعظم میں نظر آتی ہے جہاں معدنی وسائل کی لوٹ مار کے لیے سامراجی پشت پناہی پر خانہ جنگیاں اور جنگیں معمول ہیں۔ سامراجی طاقتوں کے ایما پر جنوبی سوڈان کے لیے ملک کے قیام کے باوجود وہاں جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ 1983 سے 2005 تک سوڈان میں چلنے والی خانہ جنگی میں 20 لاکھ افراد جنگ و قحط اور بیماریوں کی وجہ سے مارے گئے۔ اس دوران جنوبی سوڈان میں 40 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے بڑی تعداد متعدد دفعہ بے گھر ہوئی۔ اس دوران غلامی اور قتل عام کے کئی اندوہناک واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ اسی دوران سوڈان کے مشرقی حصے میں واقعے دارفر کے علاقے میں ہونے والی نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ اس وقت جنوبی سوڈان اور سوڈان دونوں ممالک میں خانہ جنگیاں چل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی آپس میں جنگ کے آثار بھی نمودار ہو رہے ہیں۔ 2012 میں بھی ان دو ممالک کے درمیان جنگ ہوئی جس کی وجہ دونوں ممالک کے مابین سرحد پر موجود تیل کے ذخائر تھے۔
اسی طرح لیبیا میں بھی قذافی کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی جاری ہے جس میں ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔ مالی میں 2007 سے شروع ہونے والی خانہ جنگی جاری ہے جس میں فرانس اور دیگر یورپی ممالک سامراجی جارحیت بھی کر رہے ہیں۔ آئیوری کوسٹ میں 2002 سے 2011 تک خانہ جنگی جاری رہی۔ اس کے علاوہ بھی تنازعات پورے افریقہ میں موجود ہیں۔ جن کی بنیادی وجہ سامراجی طاقتوں کی وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ہوس ہے۔ اس لوٹ مار کے لیے وہاں موجود نسلی، مذہبی، لسانی اور دیگر تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ہیروں سے لے کر یورینیم تک ان تمام قیمتی معدنیات کی موجودگی کے باوجود وہاں کی آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت غربت اور بیماری کی گہرائیوں میں غرق ہے اور سرمایہ داری کے مظالم کا انتقام لینے کے لیے سلگ رہی ہے۔ ان تمام مسائل کا حل ایک اشتمالی، آزاد، برابری کے سماج کی تشکیل میں مضمر ہے جہاں دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔
جنوبی افریقہ اس براعظم کا کلیدی ملک ہے۔ 1996 میں پابندیوں کے خاتمے سے اب تک جنوبی افریقہ کا جی ڈی پی 3 گنا ہوکر 400 ارب ڈالر ہوچکا ہے جب کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 50 ارب ڈالر ہوچکے ہیں۔ لیکن اس تمام تر ترقی کے باوجود وہاں 2013 میں 35 فیصد افراد بیروزگار تھے جب کہ آبادی کے ایک چوتھائی افراد 1.25 ڈالر روزانہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سیاہ فاموں کا اقتدار میں آنا یقیناً آگے کی جانب ایک بہت بڑا قدم تھا لیکن اس تحریک کے قائدین کی غداری کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کے بچ جانے کی وجہ سے محنت کش طبقے کے استحصال میں اضافہ ہوا ہے۔ 60 فیصد افراد کی سالانہ آمدن 7 ہزار ڈالر سے کم ہے جب کہ 2.2 فیصد افراد کی سالانہ آمدن 50 ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ 47 فیصد افراد انتہائی غربت میں رہنے پر مجبور ہیں۔ 15 سے 24 سال تک کے ایک کروڑ 40 لاکھ نوجوانوں میں سے 33 لاکھ کے پاس نہ تعلیم و تربیت ہے اور نہ روزگار۔ ایسی صورت حال میں برسراقتدار افریقن نیشنل کانگریس عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی پالیسیوں پر عملدرآمد کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہی۔ اس سال جولائی سے قبل ہونے والے انتخابات میں اس کی قیادت کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری سے تنگ آچکے ہیں۔
''ماریکانا'' کے احتجاج کرنے والے محنت کشوں کے پولیس کے ہاتھوں کیے گئے قتل عام کے زخم بھی ابھی مندمل نہیں ہوئے۔ ان شہدا کی پہلی برسی کی تقریبات میں بھی محنت کشوں کا غم و غصہ عیاں ہوا۔ ٹریڈ یونین تحریک بھی فعال اور متحرک ہے اور محنت کشوں کی ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے معمول بن چکے ہیں۔ 12 سے 14 نومبر 2013 تک ہزاروں محنت کش عوام کے مظاہرے بہت سے شہروں اور قصبوں میں دیکھنے میں آئے جس میں وہ مزدور دشمن قوانین، رد اصلاحات کے خلاف احتجاج کر رہے تھے لیکن ٹریڈ یونین قیادت میں اختلافات کے باعث یہ احتجاج روایتی طور پر جنوبی افریقہ کی معیشت پر اثرانداز نہیں ہوسکا۔ ان مظاہروں کا اعلان افریقی ٹریڈ یونین فیڈریشن (COSATU) کی جانب سے کیا گیا تھا جس نے الیکٹرانک ٹال سسٹم، لیبر کی ٹھیکیداری اور نوجوانوں کی اجرتوں کے طریقہ کا نئے قوانین کے خلاف احتجاج کی کال دی۔
اس احتجاج سے سینٹرل آرگنائزیشن آف ساؤتھ افریقن ٹریڈ یونین (COSATU) کی قیادت میں موجود اختلافات بھی عیاں ہوئے۔ محنت کشوں کی ''کوساٹو'' کی قیادت میں دائیں بازو کے دھڑے کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ جسے وہ اپنے مسائل کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ بائیں بازو کی قیادت پر بھی نچلی صفوں سے فیصلہ کن اقدامات کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ کوساٹو میں ابھرنے والے اختلافات ایک بڑی طبقاتی کشمکش ابھرنے کے پیش خیمے کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں مفاد پرست قیادت کے خلاف غم و غصہ ابھر رہا ہے۔ اس عرصے میں جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی کے نوجوان بھی متحرک ہو رہے ہیں اور نجات کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے واقعات محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ محنت کش طبقہ ناگزیر طور پر ایسے نتائج اخذ کرے گا جو اسے اس نظام کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کریں گے۔ ایسی صورتحال میں انقلابی تحریک ابھرسکتی ہے۔
نائیجیریا کی معیشت کے 90 فیصد حصے کا دارومدار تیل کی برآمدات پر ہے جس میں کمی آرہی ہے۔ امریکا نائیجیریا کے تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا جس نے اب اس تیل پر انحصار کم کرکے ملک کے اندر سے یہ ضرورت پوری کرنی شروع کردی ہے۔ معاشی مسائل میں اضافہ غربت میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ بنیادی سماجی ڈھانچہ تیزی سے زوال پذیر ہے۔ یہ بیروزگاری کی شرح کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے جہاں 80 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ یہ تمام صورت حال حکمران طبقے پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ حکمران جماعت پی ڈی پی میں ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ پارٹی نہ صرف نائیجیریا بلکہ پورے افریقہ کی سب سے بڑی پارٹی کہلاتی تھی۔ پارٹی اب پرانی پی ڈی پی اور نئی پی ڈی پی کے دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ حزب اختلاف کی چند سرمایہ دار جماعتوں کا اتحاد اے پی سی بھی حکمرانوں کی جانب سے عوام کو دھوکہ دینے کی ایک اور کوشش ہے۔اختلافات کے باوجود ان تمام پارٹیوں کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں۔ حکمران طبقے میں ٹوٹ پھوٹ کی ایک وجہ صدر گڈلک کی حمایت میں کمی ہے جس کے باعث وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں پر پہلے کی طرح عملدرآمد نہیں کر پا رہا۔
عوام میں صدر کی حقیقت بے نقاب ہوچکی ہے۔ اسی لیے اب صدر قومی ریاستی کانفرنس جیسے نان ایشو اچھال رہا ہے تاکہ اصل مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکے۔ نائیجیریا کی ٹریڈ یونینوں کی جانب سے بنائی جانے والی لیبر پارٹی کی قیادت بھی اصلاح پسند پالیسیوں پر گامزن ہے اور حکمران طبقے سے مصالحت کرچکی ہے۔ محنت کشوں کی اس قیادت سے وابستہ امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور اب بہت سے سرمایہ دار سیاست داں اس پارٹی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نائیجیریا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ ان تمام مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ابھرنے والی خودرو تحریک اسی بے چینی اور غصے کا اظہار تھی۔ آنے والے عرصے میں بھی ایسی تحریکیں چلنے کے امکانات موجود ہیں۔محنت کشوں کی یکجہتی اور تحریکوں کو توڑنے کے لیے حکمران طبقات اور سامراجی قوتیں اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کو استعمال کر رہی ہیں۔ بوکوحرم نامی بنیاد پرست تنظیم کی دہشت گرد کارروائیوں نے شمالی مشرقی حصے کو یرغمال بنایا ہوا ہے جہاں گزشتہ 6 ماہ سے کرفیو لگا ہوا ہے۔ ان تمام صورتحال کا مقابلہ محنت کشوں کی طبقاتی جرأت کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے افریقہ اور دنیا بھر میں عالمی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
سرمایہ داری کی بدترین شکل اس براعظم میں نظر آتی ہے جہاں معدنی وسائل کی لوٹ مار کے لیے سامراجی پشت پناہی پر خانہ جنگیاں اور جنگیں معمول ہیں۔ سامراجی طاقتوں کے ایما پر جنوبی سوڈان کے لیے ملک کے قیام کے باوجود وہاں جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ 1983 سے 2005 تک سوڈان میں چلنے والی خانہ جنگی میں 20 لاکھ افراد جنگ و قحط اور بیماریوں کی وجہ سے مارے گئے۔ اس دوران جنوبی سوڈان میں 40 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے بڑی تعداد متعدد دفعہ بے گھر ہوئی۔ اس دوران غلامی اور قتل عام کے کئی اندوہناک واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ اسی دوران سوڈان کے مشرقی حصے میں واقعے دارفر کے علاقے میں ہونے والی نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ اس وقت جنوبی سوڈان اور سوڈان دونوں ممالک میں خانہ جنگیاں چل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی آپس میں جنگ کے آثار بھی نمودار ہو رہے ہیں۔ 2012 میں بھی ان دو ممالک کے درمیان جنگ ہوئی جس کی وجہ دونوں ممالک کے مابین سرحد پر موجود تیل کے ذخائر تھے۔
اسی طرح لیبیا میں بھی قذافی کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی جاری ہے جس میں ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔ مالی میں 2007 سے شروع ہونے والی خانہ جنگی جاری ہے جس میں فرانس اور دیگر یورپی ممالک سامراجی جارحیت بھی کر رہے ہیں۔ آئیوری کوسٹ میں 2002 سے 2011 تک خانہ جنگی جاری رہی۔ اس کے علاوہ بھی تنازعات پورے افریقہ میں موجود ہیں۔ جن کی بنیادی وجہ سامراجی طاقتوں کی وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ہوس ہے۔ اس لوٹ مار کے لیے وہاں موجود نسلی، مذہبی، لسانی اور دیگر تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ہیروں سے لے کر یورینیم تک ان تمام قیمتی معدنیات کی موجودگی کے باوجود وہاں کی آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت غربت اور بیماری کی گہرائیوں میں غرق ہے اور سرمایہ داری کے مظالم کا انتقام لینے کے لیے سلگ رہی ہے۔ ان تمام مسائل کا حل ایک اشتمالی، آزاد، برابری کے سماج کی تشکیل میں مضمر ہے جہاں دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔