امریکا کی منافقانہ سیاست
امریکا کی خارجہ پالیسی بدترین حد تک امریکی مفادات کے تابع ہے، اسی وجہ سے امریکا ہر جگہ امتیازی سلوک کرتا نظر آتا ہے
KARACHI:
امریکا کی اعلیٰ قیادت کو یہ احساس اور شکایت ہے کہ دنیا بھر میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن امریکا کی اعلیٰ قیادت نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور امریکا اس گڑھ کی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے، ڈرون حملے اسی کوششوں کا حصہ ہیں۔ اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ ڈرون حملوں میں ہمارے حکمرانوں کی رضا بھی شامل رہی ہے لیکن ایک مخصوص لابی نے ڈرون حملوں کے خلاف تحریک چلاکر وقتی طور پر امریکا کو ڈرون حملوں سے روک دیا ہے۔ لیکن کیا یہ سلسلہ مستقل طور پر رک سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کا انحصار دہشت گردی کے کم ہونے یا بڑھنے پر ہے۔ امریکا 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جس راستے پر چل پڑا ہے وہ بادی النظر میں تو بڑا موثر اور مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے جو طریقے اختیار کیے گئے وہ ایسے دوغلے اور امتیازی ہیں کہ عام آدمی بھی امریکا کے اس دوغلے پن کو محسوس کرلیتا ہے۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کی جنت بنا ہوا ہے لیکن خود افغانستان کی اس حوالے سے کیا صورت حال ہے اس کا اندازہ پچھلے ہفتے 23 ایف سی اہلکاروں کے بہیمانہ قتل سے ہوسکتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق چار سال سے دہشت گردوں کی قید میں رہنے والے 23 ایف سی اہلکاروں کے سر افغانستان کی حدود میں کاٹے گئے ہیں۔ امریکا پاکستان میں قیام پذیر نہیں بلکہ افغانستان ہی میں دس سال سے مقیم ہے۔ کیا امریکا کو افغانستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کا علم نہیں؟ اگر ہے تو پھر امریکا دہشت گردی کے ان اڈوں کو ختم کرنے کے لیے ڈرون کا استعمال کیوں نہیں کرتا؟ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے جس کا تازہ ثبوت 23 اہلکاروں کا افغان سرزمین پر بہیمانہ قتل ہے۔ پاکستان نے اس قتل کے خلاف افغانستان سے احتجاج تو کیا ہے لیکن اس کی اصل ذمے داری امریکا پر عائد ہوتی ہے جس کی سرپرستی میں افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں۔ امریکا پاکستان پر جب بھی کسی حوالے سے دباؤ بڑھانا چاہتا ہے وہ شدت پسندوں کو استعمال کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ابھی تک نیٹو کی فوجیں موجود ہیں اور اس علاقے کی سخت زمینی اور فضائی نگرانی بھی امریکا کرتا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو کیا ان 23 اہلکاروں کے سر افغانستان کی حدود میں کاٹے جانے سے امریکا بے خبر تھا؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی بدترین حد تک امریکی مفادات کے تابع ہے، اسی وجہ سے امریکا ہر جگہ امتیازی سلوک کرتا نظر آتا ہے۔ اگر دہشت گردی کے خاتمے میں امریکا کا کردار غیر جانبدار اور شفاف ہوتا تو امریکا شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کے خلاف بھی کارروائی کرتا۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسی دوغلی پالیسی کی وجہ پاکستان میں بھی امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا ایک طرف القاعدہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے اور القاعدہ کے خاتمے کو اپنا اولین مقصد قرار دیتا ہے تو دوسری طرف شام کی حکومت کے خلاف القاعدہ کے کارکنوں کو مجاہدین آزادی بناکر استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے اور ہر قیمت پر بشارالاسد کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ عرب ملکوں کی حکومتوں کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ جمہوریت نہیں بلکہ ان ملکوں کی امریکا سے تابعداری یا بغاوت ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عوام جب اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکا نے عرب عوام کی اپنے حکمرانوں سے بغاوت کو جمہوری تحریکوں کا نام دے کر ان کی اس حد تک مدد کی کہ لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خلاف فضائی حملے بھی کیے لیکن جمہوریت کے اس چیمپئن کو مشرق وسطیٰ میں موجود موروثی بادشاہتیں اس لیے نظر نہیں آئیں کہ یہ بادشاہتیں نہ صرف اس کی تابعدار ہیں بلکہ خطے میں اس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی محافظ بھی ہیں۔ یہ امریکا کی وہ دوغلی سیاست ہے جس سے دنیا بھر میں امریکا کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔
امریکا جب بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کے تحت صدام حسین کی حکومت کے خلاف حملے کی تیاری کر رہا تھا تو دنیا بھر میں کروڑوں عوام اس ممکنہ حملے کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ یہ عوامی نفرت امریکا کی جارحانہ پالیسیوں کا نتیجہ تھی لیکن امریکا نے اس عالمگیر عوامی نفرت کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور عراق پر چڑھ دوڑا۔ جب خود امریکا کی خفیہ ایجنسیوں نے اعتراف کیا کہ صدام حکومت کے پاس ان انتہائی مہلک ہتھیاروں کا کوئی ذخیرہ نہیں تھا جس کو بنیاد بناکر عراق پر حملہ کیا گیا، تو عالمی سطح پر امریکا کا جھوٹ منظر عام پر آیا۔
9/11 کے حملوں نے سابق امریکی صدر بش کو اس قدر مشتعل کردیا کہ وہ انجام پر نظر ڈالے بغیر افغانستان پر چڑھ دوڑے۔ 9/11 کے حملوں کی ذمے داری القاعدہ پر ڈال کر افغانستان پر حملہ اس لیے کیا گیا کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں چھپا ہوا ہے۔ اگر القاعدہ نے اسامہ کے حکم پر 9/11 کے حملے کیے تھے تو اس کا مجرم اسامہ تھا۔ اور اسامہ کہاں تھا اس کی کوئی مصدقہ خبر نہ تھی لیکن اول تو افغانستان پر وحشیانہ کارپٹ بمباری کی گئی پھر افغانستان پر زمینی حملہ کیا گیا۔ دس سال کے دوران اس احمقانہ فیصلے کی سزا میں لاکھوں افغانی مارے گئے اور افغانستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک امریکا کے خلاف نفرت پھیلتی چلی گئی۔ آج ''بصد سامان رسوائی'' امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے تو کھربوں ڈالر کے نقصان کے عوض اسے کیا ملا۔۔۔۔ نفرت؟
دنیا میں مسلم ملکوں کی تعداد57 اور دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ مسلمان ہیں۔ 57 مسلم ملکوں میں رہنے والا ایک ایک مسلمان فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے سخت خلاف ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسرائیل امریکا کی سرپرستی ہی کی وجہ سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے لیکن امریکا اسرائیل کو ان مظالم سے اس لیے نہیں روک سکتا کہ عربوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اسرائیل کو اس خطے میں دادا بناکر رکھنا ضروری ہے۔ کیا اس سیاست سے مسلمانوں کے ذہنوں میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ نہیں ہوتا؟
بش کے بعد جب لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایک سیاہ فام امریکا کا صدر بنا تو دنیا کو یہ امید بندھی کہ شاید اب امریکا کی دوغلی منافقانہ سیاست میں کوئی بنیادی تبدیلی آئے گی لیکن افسوس کہ دنیا کے عوام کی امیدیں پوری نہ ہوئیں کیونکہ امریکا کی سیاست صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہے، اسے وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات میں ہوتا ہے۔ افغانستان میں آنا اور جانا دونوں اگرچہ امریکی منصوبہ سازوں کے احمقانہ منصوبوں کے شاہکار ہیں لیکن آج بھی اندرونی اور بیرونی امریکی سیاست کا قطب نما سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے، جس کی نظر نفع پر ہوتی ہے۔ نفع کے لالچ میں ہونے والے نقصانات کی اسے پرواہ نہیں ہوتی۔ دنیا بھر کی نفرت وہ بڑا نقصان ہے جو امریکا کو ہو رہا ہے۔ بے چارہ اوباما کیا کرے وہ بھی اس نظام کی ایک کٹھ پتلی ہے۔
امریکا کی اعلیٰ قیادت کو یہ احساس اور شکایت ہے کہ دنیا بھر میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن امریکا کی اعلیٰ قیادت نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور امریکا اس گڑھ کی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے، ڈرون حملے اسی کوششوں کا حصہ ہیں۔ اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ ڈرون حملوں میں ہمارے حکمرانوں کی رضا بھی شامل رہی ہے لیکن ایک مخصوص لابی نے ڈرون حملوں کے خلاف تحریک چلاکر وقتی طور پر امریکا کو ڈرون حملوں سے روک دیا ہے۔ لیکن کیا یہ سلسلہ مستقل طور پر رک سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کا انحصار دہشت گردی کے کم ہونے یا بڑھنے پر ہے۔ امریکا 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جس راستے پر چل پڑا ہے وہ بادی النظر میں تو بڑا موثر اور مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے جو طریقے اختیار کیے گئے وہ ایسے دوغلے اور امتیازی ہیں کہ عام آدمی بھی امریکا کے اس دوغلے پن کو محسوس کرلیتا ہے۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کی جنت بنا ہوا ہے لیکن خود افغانستان کی اس حوالے سے کیا صورت حال ہے اس کا اندازہ پچھلے ہفتے 23 ایف سی اہلکاروں کے بہیمانہ قتل سے ہوسکتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق چار سال سے دہشت گردوں کی قید میں رہنے والے 23 ایف سی اہلکاروں کے سر افغانستان کی حدود میں کاٹے گئے ہیں۔ امریکا پاکستان میں قیام پذیر نہیں بلکہ افغانستان ہی میں دس سال سے مقیم ہے۔ کیا امریکا کو افغانستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کا علم نہیں؟ اگر ہے تو پھر امریکا دہشت گردی کے ان اڈوں کو ختم کرنے کے لیے ڈرون کا استعمال کیوں نہیں کرتا؟ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے جس کا تازہ ثبوت 23 اہلکاروں کا افغان سرزمین پر بہیمانہ قتل ہے۔ پاکستان نے اس قتل کے خلاف افغانستان سے احتجاج تو کیا ہے لیکن اس کی اصل ذمے داری امریکا پر عائد ہوتی ہے جس کی سرپرستی میں افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں۔ امریکا پاکستان پر جب بھی کسی حوالے سے دباؤ بڑھانا چاہتا ہے وہ شدت پسندوں کو استعمال کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ابھی تک نیٹو کی فوجیں موجود ہیں اور اس علاقے کی سخت زمینی اور فضائی نگرانی بھی امریکا کرتا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو کیا ان 23 اہلکاروں کے سر افغانستان کی حدود میں کاٹے جانے سے امریکا بے خبر تھا؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی بدترین حد تک امریکی مفادات کے تابع ہے، اسی وجہ سے امریکا ہر جگہ امتیازی سلوک کرتا نظر آتا ہے۔ اگر دہشت گردی کے خاتمے میں امریکا کا کردار غیر جانبدار اور شفاف ہوتا تو امریکا شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کے خلاف بھی کارروائی کرتا۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسی دوغلی پالیسی کی وجہ پاکستان میں بھی امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا ایک طرف القاعدہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے اور القاعدہ کے خاتمے کو اپنا اولین مقصد قرار دیتا ہے تو دوسری طرف شام کی حکومت کے خلاف القاعدہ کے کارکنوں کو مجاہدین آزادی بناکر استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے اور ہر قیمت پر بشارالاسد کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ عرب ملکوں کی حکومتوں کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ جمہوریت نہیں بلکہ ان ملکوں کی امریکا سے تابعداری یا بغاوت ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عوام جب اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکا نے عرب عوام کی اپنے حکمرانوں سے بغاوت کو جمہوری تحریکوں کا نام دے کر ان کی اس حد تک مدد کی کہ لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خلاف فضائی حملے بھی کیے لیکن جمہوریت کے اس چیمپئن کو مشرق وسطیٰ میں موجود موروثی بادشاہتیں اس لیے نظر نہیں آئیں کہ یہ بادشاہتیں نہ صرف اس کی تابعدار ہیں بلکہ خطے میں اس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی محافظ بھی ہیں۔ یہ امریکا کی وہ دوغلی سیاست ہے جس سے دنیا بھر میں امریکا کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔
امریکا جب بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کے تحت صدام حسین کی حکومت کے خلاف حملے کی تیاری کر رہا تھا تو دنیا بھر میں کروڑوں عوام اس ممکنہ حملے کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ یہ عوامی نفرت امریکا کی جارحانہ پالیسیوں کا نتیجہ تھی لیکن امریکا نے اس عالمگیر عوامی نفرت کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور عراق پر چڑھ دوڑا۔ جب خود امریکا کی خفیہ ایجنسیوں نے اعتراف کیا کہ صدام حکومت کے پاس ان انتہائی مہلک ہتھیاروں کا کوئی ذخیرہ نہیں تھا جس کو بنیاد بناکر عراق پر حملہ کیا گیا، تو عالمی سطح پر امریکا کا جھوٹ منظر عام پر آیا۔
9/11 کے حملوں نے سابق امریکی صدر بش کو اس قدر مشتعل کردیا کہ وہ انجام پر نظر ڈالے بغیر افغانستان پر چڑھ دوڑے۔ 9/11 کے حملوں کی ذمے داری القاعدہ پر ڈال کر افغانستان پر حملہ اس لیے کیا گیا کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں چھپا ہوا ہے۔ اگر القاعدہ نے اسامہ کے حکم پر 9/11 کے حملے کیے تھے تو اس کا مجرم اسامہ تھا۔ اور اسامہ کہاں تھا اس کی کوئی مصدقہ خبر نہ تھی لیکن اول تو افغانستان پر وحشیانہ کارپٹ بمباری کی گئی پھر افغانستان پر زمینی حملہ کیا گیا۔ دس سال کے دوران اس احمقانہ فیصلے کی سزا میں لاکھوں افغانی مارے گئے اور افغانستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک امریکا کے خلاف نفرت پھیلتی چلی گئی۔ آج ''بصد سامان رسوائی'' امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے تو کھربوں ڈالر کے نقصان کے عوض اسے کیا ملا۔۔۔۔ نفرت؟
دنیا میں مسلم ملکوں کی تعداد57 اور دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ مسلمان ہیں۔ 57 مسلم ملکوں میں رہنے والا ایک ایک مسلمان فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے سخت خلاف ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسرائیل امریکا کی سرپرستی ہی کی وجہ سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے لیکن امریکا اسرائیل کو ان مظالم سے اس لیے نہیں روک سکتا کہ عربوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اسرائیل کو اس خطے میں دادا بناکر رکھنا ضروری ہے۔ کیا اس سیاست سے مسلمانوں کے ذہنوں میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ نہیں ہوتا؟
بش کے بعد جب لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایک سیاہ فام امریکا کا صدر بنا تو دنیا کو یہ امید بندھی کہ شاید اب امریکا کی دوغلی منافقانہ سیاست میں کوئی بنیادی تبدیلی آئے گی لیکن افسوس کہ دنیا کے عوام کی امیدیں پوری نہ ہوئیں کیونکہ امریکا کی سیاست صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہے، اسے وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات میں ہوتا ہے۔ افغانستان میں آنا اور جانا دونوں اگرچہ امریکی منصوبہ سازوں کے احمقانہ منصوبوں کے شاہکار ہیں لیکن آج بھی اندرونی اور بیرونی امریکی سیاست کا قطب نما سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے، جس کی نظر نفع پر ہوتی ہے۔ نفع کے لالچ میں ہونے والے نقصانات کی اسے پرواہ نہیں ہوتی۔ دنیا بھر کی نفرت وہ بڑا نقصان ہے جو امریکا کو ہو رہا ہے۔ بے چارہ اوباما کیا کرے وہ بھی اس نظام کی ایک کٹھ پتلی ہے۔