مقتل کے سرخرو صحافی

ایسے جان نثاروں کی قربانی اور جذبے موجزن ہوں تو صحافتی حقوق کی یہ تحریک مدہم ہو سکتی ہے

Warza10@hotmail.com

کراچی:
1978 میں سماج ساکت تھا اور محکوم عوام دم سادھ اپنی زندگیوں کی بقا میں ''کٹھ پتلی'' تماشے کا ایک کردار بننے پر مجبور کر دی گئی تھی۔

آمر ضیا الحق کے جھوٹ پر مبنی بیمار ذہن اور تنگ نظر بیانیے کی کوشش تھی کہ عوام میں خوف و ہراس کے ''دیو'' کو اتنا قہر آلود کر دیا جائے کہ عوام اور جمہوری جدوجہد کرنے والے سرفروشوں کے سر کچل دیے جائیں اور پھر ڈری سہمی اور انسانی حقوق کے مطالبے کرنے والی عوام کو آمرانہ جبر کی ٹکٹکی پر چڑھا کر قرون وسطی کے'کوڑے زدہ' نظام کے خوف میں ذہنی غلام بنا دیا جائے اور عوام کے سیاسی، جمہوری، معاشی اور آزادی اظہار کے تمام حقوق غصب کرکے تنگ نظری کے غلاف میں لپیٹ کر آمرانہ طرز کے شاہ دولوں سے واہ واہ سمیٹی جائے۔

انسانی آزادی کے دیوانوں کو ہر جگہ بندوق بردار سونگھتے پھر رہے تھے،کہیں ان آزادی کے متوالوں کو''ڈاکو''گردان کر مارا جا رہا تھا تو کہیں ان کے ماتھے پر ملکی سلامتی کے خلاف فتوے دے کر ملک دشمن یا ''غداری'' کے تمغے سجائے جا رہے تھے،ایسے گھٹن کے ماحول میں تحریر و تقریر کی تمام آوازوں کو صدا بہ صحرا کرنے کی کوششیں سر کشی سے سماج میں رقص کر رہی تھیں۔

اس قہر اور جبر کے نظام نے انسانی آزادیوں اور ان کی رائے کو قید کرنے میں ہر ریاستی کوشش کو استعمال کرکے ''عادلانہ'' سماج کا لولی پوپ عوام کو دیے جانے کی ترکیب اختیار کی جا رہی تھی،اہل دانش کو خرید کر اقتدار کے محل صرا کا درباری بنایا جا رہا تھا،جمہوریت پر یقین رکھنے والے دانشوروں کے قلم پر ریاستی پابندیوں کا طوق ڈال کر انھیں ریاست کے تنگ نظر اور منافقت سے پر بیانیہ عوام تک پہنچانے پر مجبور کیا جا رہا تھا،اخبارات پر سنسر کی جبریہ قینچی چلا کر عوام کی آواز اور شہری حقوق غصب کرنے کا دور دورہ طاقت کے مکمل جبر کے ساتھ جاری و ساری تھا،یہی وہ وقت تھا جب انسانی وقار اور آزادی کی اہل دانش فکر کی آواز حبیب جالب بنے اور کہا کہ۔

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں

اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا


پاکستان کی سیاسی جمہوری تحریک میں عجب اتفاق ہے کہ مارشل لا نے جمہوری آزادی اور انسانی حقوق مانگنے والوں کو تہہ تیغ کرنے کے لیے مئی کے مہینے کا ہی انتخاب کیا ہے،پھر چاہے وہ 13 مئی 78 کے صحافیوں کو کوڑے مارنے کا دن ہو یا جنرل مشرف زدہ 12 مئی جس روز جمہوری حقوق کی جنگ میں عوام پر گولی چلائے جانے والا واقعہ ہواور یہ بھی ایک حقیقت رہی کہ مئی کا مہینہ ہی آمرانہ جنرلز کی جانب سے مارشل لا کے خاتمے کی آخری کیل ثابت ہوا ہے، گو کہ صحافت کی آزادی اور اظہار ہمیشہ ہی سے ایوان اقتدار کی آنکھوں کا بے چین کانٹا ہی بنا رہا ہے۔

ہر حکومت اور بطور خاص آمر ایوب خان سے لے کر یحیی،ضیا اور مشرف تک کی کوشش رہی کہ صحافت کی آزادی کو پابند سلاسل کیا جائے، مگر دوسری جانب ترقی پسند،روشن خیال اور سماج کی آواز بن جانے والے صحافی بھی شہری آزادی اور عوام کے جمہوری حصول میں نہ صرف جتے رہے بلکہ منہاج برنا سے لے کر نثار عثمانی تک تشدد اور عقوبت گاہوں کے راہی بنے رہے مگر کسی طور اظہار اور صحافت کی آزادی پر سمجھوتا نہ کیا، منہاج برنا کی اسی جدوجہد کے جان فروش چار صحافی دوست،ناصر زیدی،خاور نعیم ہاشمی،اقبال جعفری اور مسعود اللہ وہ صحافی ہیں جنھوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر صحافت کی آزادی کے علم کو سر نگوں نہ ہونے دیا۔

نو مئی 78 کو ایبٹ روڈ گلستان سینما کے چوک سے گرفتار ہونے والے ان چار صحافیوں کو صحافت کی آزادی اور عوام کے اظہار کی آزادی پر مارشل لا کورٹ نے پانچ پانچ کوڑوں کی سزا سنائی،جس میں مسعود اللہ کو بیماری کے سبب کوڑے نہ مارے گئے،البتہ ناصر زیدی،خاور نعیم ہاشمی اور اقبال جعفری کی سزاؤں پر عمل 13 مئی کو کرایا گیا،تماش بینوں کی موجودگی میں صحافت کو برہنہ کرکے کوڑے مارے گئے۔

جبر مطمئن تھا کہ اب صحافت کی آواز اور آزادی کبھی سر نہ ابھارے گی،مگر آمر کا مطمئن ہو جانا ہی اس کی شکست ٹھہرتاہے،سو دنیا آج بھی ناصر زیدی سے لے کر خاور نعیم ہاشمی،اقبال جعفری اور مسعوداللہ کو نہ بھولی البتہ آمر کی بھٹکتی روح آج بھی تبدیلی کے نعرے میں اس سماج میں دوبارہ سے جھوٹ،فریب مکر اور جمہوری قدروں کو چبانے کے درپہ ہے۔

صحافتی قدروں کی آبیاری کرنے والے صحافیوں کی بیتی سے اس قہر کا اندازہ اور کوڑے کھانے والے ان صحافیوں کا عزم دیکھا جا سکتاہے،ناصر زیدی لکھتے ہیں کہ''ہر طرف ہو کا عالم تھا،جو بولتا تھا فورا سزا سنا دی جاتی تھی،ایک سال قید،دس کوڑے...اگلے لمحے سزا پر عمل ہو جاتا تھا،1978 میں جب آواز خلق خاموش نہ ہوسکی تو سندھ اور پنجاب میں اخبارات اور جرائد کو بند کر دیا گیا،سیکڑوں صحافی برطرف کر دیے گئے،اخبارات پر سنسر شپ نافذ کر دی گئی۔

یہاں تک کہ قرآن کی آیتوں کو بھی سنسر کیا جانے لگا،ان پابندیوں پر احتجاج کے خلاف مارشل لا عدالت سے سزا کے بعد ہم باری باری ٹکٹکی پر باندھے گئے،اس طرح کہ بالکل برہنہ تھے اور ہماری پشت کے نیچے پنسل سے نشان لگا کر ایک کے بعد ایک کوڑا مارتے رہے۔۔زخم بنتے گئے،ہم سوچتے رہے کہ کیا یہی وہ آزادی تھی جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے جدوجہد کی؟ہمارا خواب ٹوٹ گیا،لیکن آزادی صحافت کا سفر جاری رہا۔''

صحافتی تحریک میں ''ماں'' کے عظیم کردار پر اقبال جعفری رقم طراز ہیں کہ کچھ دیر سوچنے کے بعد دراز سے ایک کاغذ نکال کر میری امی کے سامنے رکھتے ہوئے کہا گیا ''اس کاغذ پر دستخط کردیں،ہم تمہارا بیٹا چھوڑ دیتے ہیں'' یہ بات سنتے ہی میری والدہ کو غصہ آگیا اور کہا کہ ''میں اپنے بیٹے کو چھوڑنے کی بھیک نہیں مانگ رہی...نہ میں معافی مانگوں گی نہ میرا بیٹا۔''

اسی طرح موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے خاور نعیم ہاشمی بیان کرتے ہیں کہ'' مجھ پر جو الزامات تھے ان کی سزا صرف اور صرف موت تھی،اس سے قبل میں کوٹ لکھپت جیل میں مکمل برہنہ حالت میں کوڑوں کی سزا برداشت کر چکا تھا،جنرل ضیا کے سامنے نثار عثمانی میری رہائی کا اشو ہمیشہ رکھ دیتے تھے،جنرل ضیا کا ایک جواب ہوتا کہ خاور نعیم ہاشمی صحافی نہیں ایک خطرناک دہشت گرد ہے،وہ رہا نہیں ہو سکتا۔''

صحافت کی آزادی اور عوام کے جمہوری حقوق میں جب ایسے جان نثاروں کی قربانی اور جذبے موجزن ہوں تو صحافتی حقوق کی یہ تحریک مدہم ہو سکتی ہے مگر اسی دوران ایک ایسے جوالے کی جانب ملکی صحافت کا یہ بڑھتا ہوا سفر ہے جو کسی بھی وقت جوالا بن کر اہل صفا کو نابود کرنے کی طاقت ہوگی،سو نوشتہ دیوار پڑھ لیں ضیا کے جھوٹے پیروکار کہ سرفروشوں کے قافلے تمہارے قابو کے نہیں۔
Load Next Story