آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
روایت ہے کہ کسی ملک میں ایک کوتوال تھا جس کے راج میں شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے تھے۔ اس کا انصاف بڑا مشہور تھا
روایت ہے کہ کسی ملک میں ایک کوتوال تھا جس کے راج میں شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے تھے۔ اس کا انصاف بڑا مشہور تھا، چہار عالم میں جس کا ڈنکا بجا ہوا تھا، ایک مرتبہ اس کے علاقے میں چوری ہوگئی مگر چور کا پتہ نہ چلا اس طرح کوتوال کی کارکردگی پر حرف آرہا تھا، اس نے ترکیب سوچی اور ایک پھندا تیار کیا جو کہ بہت پتلا تھا اور سپاہیوں سے کہاکہ یہ پھندا لے کر جائو جس پتلی گردن میں فٹ آجائے وہی چور ہے۔ اب ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عوام نے بھی پھندا تیار کرلیا ہے جو کسی پر فٹ نہ آئے مگر حکومت کی گردن میں فٹ آجائے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جو کام ہمارے کرنے کے ہیں ان کو کرنے کے لیے بھی ہم حکومت کی طرف ہی منہ اٹھا کر دیکھتے ہیں، معاشرتی و سماجی برائیوں کا ذمے دار بھی حکومت کو ہی گردانتے ہیں۔ ایک صاحب کی طلاق کا مسئلہ چل رہا تھا، ان کے دوست نے پوچھا بھائی کیا بات ہوگئی ، نہ تمہارے گھر میں لوگ ہیں نہ ہی بھابی کا میکہ موجود ہے جو تم دونوں کے درمیان لڑائی کرواتا، یہ طلاق تک نوبت کیوں کر پہنچی؟ وہ صاحب غصے سے بولے یار یہ طلاق اس حکومت کی وجہ سے ہورہی ہے، نہ یہ حکومت ہوتی، نہ مہنگائی ہوتی، نہ میرے گھر میں جھگڑے ہوتے، سارا قصور اس حکومت کا ہے۔
یہ تو خیر ایک بات تھی ورنہ عمومی طور پر ہمارا رویہ من حیث القوم یہی ہوگیا ہے کہ ہم حکمران طبقات کے نا مناسب رویوں کا واویلا ہی کرتے رہتے ہیں مگر اپنے نامہ اعمال پر کبھی ہماری نظر نہیں جاتی۔ اپنی ادائوں پر کبھی غور کیجیے، ہم اگر کہیںگے تو شکایت ہوگی۔ ہم اجتماعی طور پر تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ 68 برس گزرنے کے باوجود ہمارے رویوں، ہماری سوچوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ ہم وہی کنویں کے مینڈک کی طرح اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ہم نے کبھی اپنا تجزیہ ہی نہیں کیا کہ ہم اخلاق کی کس سطح پر ہیں۔ فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت، ذات، برادری، اسراف، نمود و نمائش یہ سب برائیاں ہمارے اندر اس طرح سرائیت کر گئی ہیں کہ جس سے دامن بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ پہلے پیسہ، دولت، نام تو بہت سے لوگوں کے پاس تھا مگر خاندان کا تصور اتنا راسخ تھا کہ نمود و نمائش کے بے جا مظاہرے کو خاندانی لوگ برا سمجھتے تھے، جس کی وجہ سے خاندان، محلے، برادری کے لوگ آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اب ناجائز پیسے کی بھرمار اور اسٹیٹس کے مذاق نے لوگوں کو اتنا پاگل کردیا ہے کہ اس کے لیے جائز، ناجائز ہر طرح کے طریقے اپنائے جارہے ہیں۔
کیا حکومت نے ہمیں کہا ہے کہ پیسے کی اس ناجائز دوڑ میں بھاگتے رہو یا ہم خود ہی معاشرے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ہم آہنگ ہوتے جارہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ منتشر اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ بات ہم سب ہی کے علم میں ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد جاپان تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ مگر آج جاپان صنعتی ترقی کی ایسی منزل پر ہے جہاں امریکا سمیت سارا یورپ حیران ہے، اس کی وجہ جاپان کے لوگوں کی شدید محنت تو ہے ہی ان کا طرز زندگی بھی اس ترقی کا حصہ دار ہے۔ جاپان کی ترقی کا کھلا راز یہ ہے کہ انھوں نے نمود و نمائش، بے جا اسراف سے پرہیز کرتے ہوئے سادگی اختیار کی۔ جاپان ہو یا دنیا کا کوئی سا بھی ترقی یافتہ ملک اس کی ترقی پر اگر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قومیں ترقی کے ''ہما'' کو حاصل کرتی ہیں جو من حیث القوم کردار سازی کرتی ہیں۔ جب کہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم اجتماعیت کے فوائد کو بھلا کر انفرادی مفادات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، لوڈ شیڈنگ کا سیاپا ہم سب مل کر ڈالتے ہیں مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ بجلی کی بچت میں ہم کتنے حصے دار ہیں؟
بجلی چوری میں نچلی سطح سے لے کر اوپر تک سب حصے دار ہیں۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز۔ جہاں اس طرح کے عمومی رویے ہوںگے تو قوم ترقی کی طرف نہیں بلکہ تنزلی کی طرف ہی جائے گی۔ کوریا ہمارے بعد آزاد ہوا۔ ایک وقت تھا کہ وہاں کی فی کس آمدنی محدود تھی، پوری قوم نے طے کیا کہ ہم ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیںگے۔ آج کوریا کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ بہت سارے رویے ایسے ہیں جن کا پھندا حکومت کے گلے میں ڈالنے کے بجائے ہم خود بھی درست کرسکتے ہیں۔ ہم مسلمان یہ جانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر ہمارے گھر، ہماری سڑکیں، محلے سب گندگی کا ڈھیر ہیں۔ ہم اپنی گلیوں، محلوں کو صاف کرسکتے ہیں، کچرا گھر کے باہر ڈالنے کے بجائے کچرا گھر میں ڈال سکتے ہیں، ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کرکے حادثات سے بچا جاسکتا ہے، دفتروں میں کام کرکے ہم اپنی محنت کو جائز قرار دے سکتے ہیں۔
حدیث ہے کہ ''محنت کرنے والا اﷲ کا دوست ہے'' مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم دفتروں میں یا اپنے کسی بھی کام کے اوقات میں کتنی ایمان داری سے کام لیتے ہیں۔ کسی کام سے جمعے کے دن ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ 11بجے کا ٹائم تھا پتہ چلا کہ متعلقہ شعبے میں چپڑاسی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ ہڑتال بھی نہیں تھی کہ ہم سمجھ لیتے کہ اس کے باعث لوگ دفتر نہیں پہنچ سکے۔ معلوم ہوا کہ جمعے کی نماز کی وجہ سے دفتر خالی ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جمعے کی نماز 11بجے کب سے ہونے لگی۔ دفتری اوقات کی ہم تنخواہ لیتے ہیں۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اس کو ایمان داری سے ادا کریں ورنہ یہ پیسہ ہماری جائز محنت کو بھی حرام کردے گا۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ''انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے'' اگر ہم اجتماعی ترقی چاہتے ہیں تو انفرادی طور پر اپنی شخصیت کی تعمیر کا کام شروع کردیں۔ حکمران خود بخود ٹھیک ہو جائیںگے۔ حکمرانوں کا رونا بھول کر اپنے نفس کی اصلاح کرلیں۔ کیوں کہ یہ حکمران تو ہمارے ہی اعمال کے نتیجے میں ہم پر مسلط ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ''جیسے عوام ویسے حکمران''۔
یہ تو خیر ایک بات تھی ورنہ عمومی طور پر ہمارا رویہ من حیث القوم یہی ہوگیا ہے کہ ہم حکمران طبقات کے نا مناسب رویوں کا واویلا ہی کرتے رہتے ہیں مگر اپنے نامہ اعمال پر کبھی ہماری نظر نہیں جاتی۔ اپنی ادائوں پر کبھی غور کیجیے، ہم اگر کہیںگے تو شکایت ہوگی۔ ہم اجتماعی طور پر تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ 68 برس گزرنے کے باوجود ہمارے رویوں، ہماری سوچوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ ہم وہی کنویں کے مینڈک کی طرح اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ہم نے کبھی اپنا تجزیہ ہی نہیں کیا کہ ہم اخلاق کی کس سطح پر ہیں۔ فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت، ذات، برادری، اسراف، نمود و نمائش یہ سب برائیاں ہمارے اندر اس طرح سرائیت کر گئی ہیں کہ جس سے دامن بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ پہلے پیسہ، دولت، نام تو بہت سے لوگوں کے پاس تھا مگر خاندان کا تصور اتنا راسخ تھا کہ نمود و نمائش کے بے جا مظاہرے کو خاندانی لوگ برا سمجھتے تھے، جس کی وجہ سے خاندان، محلے، برادری کے لوگ آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اب ناجائز پیسے کی بھرمار اور اسٹیٹس کے مذاق نے لوگوں کو اتنا پاگل کردیا ہے کہ اس کے لیے جائز، ناجائز ہر طرح کے طریقے اپنائے جارہے ہیں۔
کیا حکومت نے ہمیں کہا ہے کہ پیسے کی اس ناجائز دوڑ میں بھاگتے رہو یا ہم خود ہی معاشرے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ہم آہنگ ہوتے جارہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ منتشر اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ بات ہم سب ہی کے علم میں ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد جاپان تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ مگر آج جاپان صنعتی ترقی کی ایسی منزل پر ہے جہاں امریکا سمیت سارا یورپ حیران ہے، اس کی وجہ جاپان کے لوگوں کی شدید محنت تو ہے ہی ان کا طرز زندگی بھی اس ترقی کا حصہ دار ہے۔ جاپان کی ترقی کا کھلا راز یہ ہے کہ انھوں نے نمود و نمائش، بے جا اسراف سے پرہیز کرتے ہوئے سادگی اختیار کی۔ جاپان ہو یا دنیا کا کوئی سا بھی ترقی یافتہ ملک اس کی ترقی پر اگر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قومیں ترقی کے ''ہما'' کو حاصل کرتی ہیں جو من حیث القوم کردار سازی کرتی ہیں۔ جب کہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم اجتماعیت کے فوائد کو بھلا کر انفرادی مفادات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، لوڈ شیڈنگ کا سیاپا ہم سب مل کر ڈالتے ہیں مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ بجلی کی بچت میں ہم کتنے حصے دار ہیں؟
بجلی چوری میں نچلی سطح سے لے کر اوپر تک سب حصے دار ہیں۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز۔ جہاں اس طرح کے عمومی رویے ہوںگے تو قوم ترقی کی طرف نہیں بلکہ تنزلی کی طرف ہی جائے گی۔ کوریا ہمارے بعد آزاد ہوا۔ ایک وقت تھا کہ وہاں کی فی کس آمدنی محدود تھی، پوری قوم نے طے کیا کہ ہم ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیںگے۔ آج کوریا کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ بہت سارے رویے ایسے ہیں جن کا پھندا حکومت کے گلے میں ڈالنے کے بجائے ہم خود بھی درست کرسکتے ہیں۔ ہم مسلمان یہ جانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر ہمارے گھر، ہماری سڑکیں، محلے سب گندگی کا ڈھیر ہیں۔ ہم اپنی گلیوں، محلوں کو صاف کرسکتے ہیں، کچرا گھر کے باہر ڈالنے کے بجائے کچرا گھر میں ڈال سکتے ہیں، ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کرکے حادثات سے بچا جاسکتا ہے، دفتروں میں کام کرکے ہم اپنی محنت کو جائز قرار دے سکتے ہیں۔
حدیث ہے کہ ''محنت کرنے والا اﷲ کا دوست ہے'' مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم دفتروں میں یا اپنے کسی بھی کام کے اوقات میں کتنی ایمان داری سے کام لیتے ہیں۔ کسی کام سے جمعے کے دن ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ 11بجے کا ٹائم تھا پتہ چلا کہ متعلقہ شعبے میں چپڑاسی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ ہڑتال بھی نہیں تھی کہ ہم سمجھ لیتے کہ اس کے باعث لوگ دفتر نہیں پہنچ سکے۔ معلوم ہوا کہ جمعے کی نماز کی وجہ سے دفتر خالی ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جمعے کی نماز 11بجے کب سے ہونے لگی۔ دفتری اوقات کی ہم تنخواہ لیتے ہیں۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اس کو ایمان داری سے ادا کریں ورنہ یہ پیسہ ہماری جائز محنت کو بھی حرام کردے گا۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ''انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے'' اگر ہم اجتماعی ترقی چاہتے ہیں تو انفرادی طور پر اپنی شخصیت کی تعمیر کا کام شروع کردیں۔ حکمران خود بخود ٹھیک ہو جائیںگے۔ حکمرانوں کا رونا بھول کر اپنے نفس کی اصلاح کرلیں۔ کیوں کہ یہ حکمران تو ہمارے ہی اعمال کے نتیجے میں ہم پر مسلط ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ''جیسے عوام ویسے حکمران''۔