مارشل لا کس کی ضرورت تھی
مسلم لیگ (ن) چاہتی تھی کہ تحریک انصاف حکومت مزید ناکام ہو اور وہ سیاسی شہید نہ بن سکے
وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل پی ٹی آئی حکومت کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا لگ سکتا ہے۔
تحریک پر ووٹنگ رکوانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم نے اس حد تک کوشش کی تھی کہ کسی طرح اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لے تو وہ قبل از وقت عام انتخابات بھی کرانے کو تیار ہیں۔ اس وقت کی حکومت نے کوشش کی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرکے تحریک عدم اعتماد رکوائے مگر اپوزیشن نے عمران خان کی یقین دہانی پر اعتماد کرنے اور تحریک واپس لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔
عمران خان نے ملک کی اپوزیشن کو اپنے انتقامی اقدامات اور نیب کے ذریعے گرفتاریاں کرا کر اپوزیشن کو خود متحد ہونے کا موقع دیا تھا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انھیں جولائی میں ہی تحریک عدم اعتماد لائے جانے کا پتا تھا تو پھر انھوں نے تحریک روکنے کی کوشش نہیں کی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان کو یقین ہی نہیں تھا کہ اپوزیشن انھیں ہٹانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی جب اپوزیشن تیاری کر رہی تھی تو عمران خان اور ان کے وزیر سمجھ رہے تھے کہ یہ سب دھمکیاں ہیں اور اپوزیشن کے پاس مطلوبہ ووٹ ہی نہیں ہیں اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور ان کی حکومت اپوزیشن نہیں ہٹا سکے گی اسی لیے عمران خان نے بھرے جلسوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تو منتظر تھے کہ اپوزیشن تحریک لائے تو میں انھیں ناکام بناؤں۔ انھوں نے کہا تھا کہ تحریک کے نتیجے میں اپوزیشن سے 2023 کا الیکشن بھی جائے گا اور وہ 2028 تک اقتدار میں رہیں گے۔
عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی سرکاری جلسے شروع کردیے تھے جن میں وہ حزب اختلاف کا مذاق اڑا کر مشتعل کرتے اور شیخ رشید اور فواد چوہدری کہتے تھے کہ اپوزیشن حکومت کو ہٹانے کی صرف دھمکی دے رہی ہے ان میں طاقت ہے تو تحریک پیش کیوں نہیں کر رہی؟
مارچ کو جب اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی تو عمران خان کو خطرہ تو محسوس ہوا مگر انھیں تحریک کی کامیابی کا یقین ہی نہیں تھا۔ انھیں اپنے اتحادیوں کے پاس جانے کا خیال آیا مگر وہ اپنے دو بڑے اتحادیوں ایم کیو ایم اور چوہدریوں کے پاس ان کے دفاتر گئے اور چائے پی کر واپس آگئے اور ان کے ساتھیوں نے بیانات دے دیے کہ اتحادی ان کے ساتھ ہیں اور حکومت کہیں نہیں جا رہی۔
عمران خان نے اتحادیوں کے تحفظات معلوم کیے اور نہ انھیں تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کا کہا جس کے بعد دونوں بڑے اتحادیوں نے بھی واضح کر دیا کہ وزیر اعظم نے ان سے مدد مانگی اور نہ ہی ہم نے انھیں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
عمران خان اپوزیشن کو مسلسل دھمکیاں دیتے آ رہے تھے کہ ان کے رہنماؤں کو گرفتار کرا کر سزائیں دلوا دی جائیں گی۔ کوشش تو تھی کہ میاں شہباز شریف اور آصف زرداری کو گرفتار کرا دیں مگر نیب کے پاس کچھ تھا ہی نہیں کہ وہ اپنے کمزور کیسوں کے باعث ضمانتوں پر رہا ہونے والوں کو دوبارہ گرفتار کرتا کیونکہ اعلیٰ عدالتوں سے نیب کی کارکردگی پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے۔
نیب سے مایوس ہو کر ایف آئی اے کے ذریعے گرفتاریاں کرانا چاہیں مگر ایسا نہ ہو سکا ۔
عمران خان کا اصل ٹارگٹ میاں شہباز شریف تھے جوکہ متفقہ اپوزیشن کے لیڈر تھے اور عمران خان کو یقین تھا کہ میاں شہباز شریف وزیر اعظم بن سکتے ہیں پھر بھی انھوں نے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن پر تنقیدی حملے جاری رکھے مگر آصف زرداری خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہے اور انھوں نے تحریک عدم اعتماد کے لیے پہلے اپوزیشن کو تیار کیا اور اندرون خانہ وہ حکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے بڑھاتے گئے جو حکمران قیادت کی من مانی، وعدے پورے نہ کرنے اور نظرانداز کیے جانے پر ناراض تھے ۔
حکومتی اشتعال انگیز بیانات نے اپوزیشن کو تیاری کا پورا موقعہ دیا اور جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی اور میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بنائے جانے کا اعلان تحریک انصاف کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوا کیونکہ اسے یہ امید نہیں تھی۔ شہباز شریف نے ایک ماہ تک عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی صرف توشہ خانہ کا ہی انکشاف کیا۔ عمران خان نے حکومت کو امپورٹڈ قرار دے کر اپنے جلسے جاری کر رکھے ہیں ۔
تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سوٹ کرتا تھا کہ اگر وہ حکومت میں نہ رہیں تو ان کی جگہ کسی صورت شہباز شریف نہ آئیں بے شک ملک میں مارشل لا لگ جائے کیونکہ ان کا یقین ہے کہ ملک میں مارشل لا کا نفاذ ان کے، پی ٹی آئی رہنماؤں کو تحفظ دے سکتا اور وہ مقدمات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہ ہو اور ماضی کی طرح ان کی حکومت کا ساتھ دیتی رہے اور ایسا نہ ہو تو ملک میں مارشل لا بے شک لگ جائے مگر شہباز شریف کسی بھی صورت ملک کے وزیر اعظم نہ بنیں۔
مسلم لیگ (ن) چاہتی تھی کہ تحریک انصاف حکومت مزید ناکام ہو اور وہ سیاسی شہید نہ بن سکے۔ ملک میں امریکی مخالفت موجود ہے جس کا عمران خان بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس سلسلے میں تحریک انصاف کو ڈھیل دینے والی نئی حکومت جلدی نہیں کر رہی کیونکہ ملک میں معیشت کی بحالی سب سے بڑا چیلنج ہے جب کہ تحریک انصاف کی قیادت کو نئے انتخابات کی بہت جلدی ہے اور وہ دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے بہت کچھ کر گزرنا چاہتی ہے۔ ریاستی ادارے جانتے ہیں کہ مارشل لا ملکی مسائل کا حل قطعی نہیں ہے۔
تحریک پر ووٹنگ رکوانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم نے اس حد تک کوشش کی تھی کہ کسی طرح اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لے تو وہ قبل از وقت عام انتخابات بھی کرانے کو تیار ہیں۔ اس وقت کی حکومت نے کوشش کی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرکے تحریک عدم اعتماد رکوائے مگر اپوزیشن نے عمران خان کی یقین دہانی پر اعتماد کرنے اور تحریک واپس لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔
عمران خان نے ملک کی اپوزیشن کو اپنے انتقامی اقدامات اور نیب کے ذریعے گرفتاریاں کرا کر اپوزیشن کو خود متحد ہونے کا موقع دیا تھا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انھیں جولائی میں ہی تحریک عدم اعتماد لائے جانے کا پتا تھا تو پھر انھوں نے تحریک روکنے کی کوشش نہیں کی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان کو یقین ہی نہیں تھا کہ اپوزیشن انھیں ہٹانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی جب اپوزیشن تیاری کر رہی تھی تو عمران خان اور ان کے وزیر سمجھ رہے تھے کہ یہ سب دھمکیاں ہیں اور اپوزیشن کے پاس مطلوبہ ووٹ ہی نہیں ہیں اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور ان کی حکومت اپوزیشن نہیں ہٹا سکے گی اسی لیے عمران خان نے بھرے جلسوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تو منتظر تھے کہ اپوزیشن تحریک لائے تو میں انھیں ناکام بناؤں۔ انھوں نے کہا تھا کہ تحریک کے نتیجے میں اپوزیشن سے 2023 کا الیکشن بھی جائے گا اور وہ 2028 تک اقتدار میں رہیں گے۔
عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی سرکاری جلسے شروع کردیے تھے جن میں وہ حزب اختلاف کا مذاق اڑا کر مشتعل کرتے اور شیخ رشید اور فواد چوہدری کہتے تھے کہ اپوزیشن حکومت کو ہٹانے کی صرف دھمکی دے رہی ہے ان میں طاقت ہے تو تحریک پیش کیوں نہیں کر رہی؟
مارچ کو جب اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی تو عمران خان کو خطرہ تو محسوس ہوا مگر انھیں تحریک کی کامیابی کا یقین ہی نہیں تھا۔ انھیں اپنے اتحادیوں کے پاس جانے کا خیال آیا مگر وہ اپنے دو بڑے اتحادیوں ایم کیو ایم اور چوہدریوں کے پاس ان کے دفاتر گئے اور چائے پی کر واپس آگئے اور ان کے ساتھیوں نے بیانات دے دیے کہ اتحادی ان کے ساتھ ہیں اور حکومت کہیں نہیں جا رہی۔
عمران خان نے اتحادیوں کے تحفظات معلوم کیے اور نہ انھیں تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کا کہا جس کے بعد دونوں بڑے اتحادیوں نے بھی واضح کر دیا کہ وزیر اعظم نے ان سے مدد مانگی اور نہ ہی ہم نے انھیں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
عمران خان اپوزیشن کو مسلسل دھمکیاں دیتے آ رہے تھے کہ ان کے رہنماؤں کو گرفتار کرا کر سزائیں دلوا دی جائیں گی۔ کوشش تو تھی کہ میاں شہباز شریف اور آصف زرداری کو گرفتار کرا دیں مگر نیب کے پاس کچھ تھا ہی نہیں کہ وہ اپنے کمزور کیسوں کے باعث ضمانتوں پر رہا ہونے والوں کو دوبارہ گرفتار کرتا کیونکہ اعلیٰ عدالتوں سے نیب کی کارکردگی پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے۔
نیب سے مایوس ہو کر ایف آئی اے کے ذریعے گرفتاریاں کرانا چاہیں مگر ایسا نہ ہو سکا ۔
عمران خان کا اصل ٹارگٹ میاں شہباز شریف تھے جوکہ متفقہ اپوزیشن کے لیڈر تھے اور عمران خان کو یقین تھا کہ میاں شہباز شریف وزیر اعظم بن سکتے ہیں پھر بھی انھوں نے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن پر تنقیدی حملے جاری رکھے مگر آصف زرداری خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہے اور انھوں نے تحریک عدم اعتماد کے لیے پہلے اپوزیشن کو تیار کیا اور اندرون خانہ وہ حکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے بڑھاتے گئے جو حکمران قیادت کی من مانی، وعدے پورے نہ کرنے اور نظرانداز کیے جانے پر ناراض تھے ۔
حکومتی اشتعال انگیز بیانات نے اپوزیشن کو تیاری کا پورا موقعہ دیا اور جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی اور میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بنائے جانے کا اعلان تحریک انصاف کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوا کیونکہ اسے یہ امید نہیں تھی۔ شہباز شریف نے ایک ماہ تک عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی صرف توشہ خانہ کا ہی انکشاف کیا۔ عمران خان نے حکومت کو امپورٹڈ قرار دے کر اپنے جلسے جاری کر رکھے ہیں ۔
تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سوٹ کرتا تھا کہ اگر وہ حکومت میں نہ رہیں تو ان کی جگہ کسی صورت شہباز شریف نہ آئیں بے شک ملک میں مارشل لا لگ جائے کیونکہ ان کا یقین ہے کہ ملک میں مارشل لا کا نفاذ ان کے، پی ٹی آئی رہنماؤں کو تحفظ دے سکتا اور وہ مقدمات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہ ہو اور ماضی کی طرح ان کی حکومت کا ساتھ دیتی رہے اور ایسا نہ ہو تو ملک میں مارشل لا بے شک لگ جائے مگر شہباز شریف کسی بھی صورت ملک کے وزیر اعظم نہ بنیں۔
مسلم لیگ (ن) چاہتی تھی کہ تحریک انصاف حکومت مزید ناکام ہو اور وہ سیاسی شہید نہ بن سکے۔ ملک میں امریکی مخالفت موجود ہے جس کا عمران خان بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس سلسلے میں تحریک انصاف کو ڈھیل دینے والی نئی حکومت جلدی نہیں کر رہی کیونکہ ملک میں معیشت کی بحالی سب سے بڑا چیلنج ہے جب کہ تحریک انصاف کی قیادت کو نئے انتخابات کی بہت جلدی ہے اور وہ دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے بہت کچھ کر گزرنا چاہتی ہے۔ ریاستی ادارے جانتے ہیں کہ مارشل لا ملکی مسائل کا حل قطعی نہیں ہے۔