ڈالر ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اسٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار
انٹربینک میں ڈالر 194.21 روپے کا ہوگیا، اسٹاک مارکیٹ ایک ہزار پوائنٹس کم ہوکر 2020ء کی کم ترین سطح پر آگئی
KABUL:
ملکی تاریخ میں ڈالر ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جب کہ اسٹاک مارکیٹ شدید مندی کے بعد 43 ہزار کی نفسیاتی حد بھی کھوگئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق دس ماہ میں تجارتی خسارہ 65 فیصد بڑھ کر 39.3 ارب ڈالر تک پہنچنے، اپریل 2022ء میں خام تیل کا درآمدی بل 72 فیصد کی ریکارڈ سطح تک پہنچنے سمیت ملک کو درپیش بدترین معاشی چیلینجز سے خوف زدہ سرمایہ کاروں کی جانب سے دھڑا دھڑ حصص کی فروخت اور غیریقینی سیاسی صورتحال کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں پیر کو بھی مندی کا تسلسل برقرار رہا اور انڈیکس کی 43000 پوائنٹس کی نفسیاتی سطح بھی گرگئی۔
مندی کے سبب 77.35 فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں جبکہ سرمایہ کاروں کے مزید ایک کھرب 23 ارب 17 کروڑ 72 لاکھ 29 ہزار 222 روپے ڈوب گئے۔
مزید پڑھیے: عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود ملکی سطح پر سونے کے نرخ بڑھ گئے
ایک موقع پر مندی کی شدت 1113 پوائنٹس کی کمی تک پہنچ گئی تھی تاہم اختتامی لمحات میں نچلی قیمتوں پر حصص کی خریداری سرگرمیاں بڑھنے سے مندی کی شدت میں کمی واقع ہوئی۔
نتیجتا کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 819.14 پوائنٹس کی کمی سے 42667.32 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا جبکہ کے ایس ای 30 انڈیکس 329.05 پوائنٹس کی کمی سے 16212.92، کے ایم آئی 30 انڈیکس 1660.57 پوائنٹس کی کمی سے 68861.78 اور پی ایس ایکس کے ایم آئی انڈیکس 434.43پوائنٹس کی کمی سے 20922.27 پر بند ہوا۔
کاروباری حجم گزشتہ جمعہ کی نسبت 20.34 فیصد زائد رہا اور مجموعی طور پر 25 کروڑ 4 لاکھ 46 ہزار 894 حصص کے سودے ہوئے جبکہ کاروباری سرگرمیوں کا دائرہ کار 340 کمپنیوں کے حصص تک محدود رہا۔ ان میں 63 کے بھاؤ میں اضافہ، 263 کے داموں میں کمی اور 14 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
جن کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ان میں پریمئیم ٹیکسٹائل کے بھاؤ 34 روپے بڑھ کر 750 روپے اور سفائر فائبر کے بھاؤ 52.89 روپے بڑھ کر 964.89 روپے ہوگئے جبکہ باٹا پاکستان کے بھاؤ 100 روپے گھٹ کر 2000 روپے اور رفحان میظ کے بھاؤ 660.93 روپے گھٹ کر 10089.07 روپے ہوگئے۔
ماہرین اسٹاک کا کہنا تھا کہ مطلوبہ شرائط کی عدم تکمیل سے آئی ایم ایف پروگرام کی عدم بحالی کے خدشات اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ کر تین ماہ کے بجائے صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے محدود ہونے جیسے عوامل بھی مارکیٹ میں گھبراہٹ کی فضاء پیدا کیے ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس غیر یقینی معاشی صورتحال کے سبب سرمایہ کار مارکیٹ میں تازہ سرمایہ کاری کے بجائے سرمائے کے انخلا کو ترجیح دے رہے ہیں جو کیپیٹل مارکیٹ کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے یہی وجہ ہے کہ کاروبار کے تمام دورانیے میں مارکیٹ منفی زون میں رہی۔
ڈالر
سیاسی اور معاشی افق پر غیر یقینی صورتحال، حکومت کی جانب سے سیاسی دباؤ کی بناء پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات سے آئی ایم ایف پروگرام کی عدم بحالی کے خدشات نے پیر کو بھی روپیہ کو بے قدر اور ڈالر کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جس سے ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کے انٹربینک ریٹ 194 روپے اور اوپن ریٹ 196 روپے سے بھی تجاوز کرگئے۔
انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر اتار چڑھاؤ کے بعد 1.66 روپے کے اضافے سے 194.18 روپے کی بلند ترین سطح پر بند ہوئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1.80 روپے کے اضافے سے 196.50 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی 22 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئے جو صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے کافی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی درآمدی بل میں ریکارڈ اضافے جیسے عوامل کے باعث ڈالر کے طلب اور رسد کا توازن بگڑگیا ہے جو اسکی قدر میں تیزی سے اضافے کا باعث بن گیا ہے۔
ملکی تاریخ میں ڈالر ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جب کہ اسٹاک مارکیٹ شدید مندی کے بعد 43 ہزار کی نفسیاتی حد بھی کھوگئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق دس ماہ میں تجارتی خسارہ 65 فیصد بڑھ کر 39.3 ارب ڈالر تک پہنچنے، اپریل 2022ء میں خام تیل کا درآمدی بل 72 فیصد کی ریکارڈ سطح تک پہنچنے سمیت ملک کو درپیش بدترین معاشی چیلینجز سے خوف زدہ سرمایہ کاروں کی جانب سے دھڑا دھڑ حصص کی فروخت اور غیریقینی سیاسی صورتحال کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں پیر کو بھی مندی کا تسلسل برقرار رہا اور انڈیکس کی 43000 پوائنٹس کی نفسیاتی سطح بھی گرگئی۔
مندی کے سبب 77.35 فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں جبکہ سرمایہ کاروں کے مزید ایک کھرب 23 ارب 17 کروڑ 72 لاکھ 29 ہزار 222 روپے ڈوب گئے۔
مزید پڑھیے: عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود ملکی سطح پر سونے کے نرخ بڑھ گئے
ایک موقع پر مندی کی شدت 1113 پوائنٹس کی کمی تک پہنچ گئی تھی تاہم اختتامی لمحات میں نچلی قیمتوں پر حصص کی خریداری سرگرمیاں بڑھنے سے مندی کی شدت میں کمی واقع ہوئی۔
نتیجتا کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 819.14 پوائنٹس کی کمی سے 42667.32 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا جبکہ کے ایس ای 30 انڈیکس 329.05 پوائنٹس کی کمی سے 16212.92، کے ایم آئی 30 انڈیکس 1660.57 پوائنٹس کی کمی سے 68861.78 اور پی ایس ایکس کے ایم آئی انڈیکس 434.43پوائنٹس کی کمی سے 20922.27 پر بند ہوا۔
کاروباری حجم گزشتہ جمعہ کی نسبت 20.34 فیصد زائد رہا اور مجموعی طور پر 25 کروڑ 4 لاکھ 46 ہزار 894 حصص کے سودے ہوئے جبکہ کاروباری سرگرمیوں کا دائرہ کار 340 کمپنیوں کے حصص تک محدود رہا۔ ان میں 63 کے بھاؤ میں اضافہ، 263 کے داموں میں کمی اور 14 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
جن کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ان میں پریمئیم ٹیکسٹائل کے بھاؤ 34 روپے بڑھ کر 750 روپے اور سفائر فائبر کے بھاؤ 52.89 روپے بڑھ کر 964.89 روپے ہوگئے جبکہ باٹا پاکستان کے بھاؤ 100 روپے گھٹ کر 2000 روپے اور رفحان میظ کے بھاؤ 660.93 روپے گھٹ کر 10089.07 روپے ہوگئے۔
ماہرین اسٹاک کا کہنا تھا کہ مطلوبہ شرائط کی عدم تکمیل سے آئی ایم ایف پروگرام کی عدم بحالی کے خدشات اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ کر تین ماہ کے بجائے صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے محدود ہونے جیسے عوامل بھی مارکیٹ میں گھبراہٹ کی فضاء پیدا کیے ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس غیر یقینی معاشی صورتحال کے سبب سرمایہ کار مارکیٹ میں تازہ سرمایہ کاری کے بجائے سرمائے کے انخلا کو ترجیح دے رہے ہیں جو کیپیٹل مارکیٹ کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے یہی وجہ ہے کہ کاروبار کے تمام دورانیے میں مارکیٹ منفی زون میں رہی۔
ڈالر
سیاسی اور معاشی افق پر غیر یقینی صورتحال، حکومت کی جانب سے سیاسی دباؤ کی بناء پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات سے آئی ایم ایف پروگرام کی عدم بحالی کے خدشات نے پیر کو بھی روپیہ کو بے قدر اور ڈالر کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جس سے ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کے انٹربینک ریٹ 194 روپے اور اوپن ریٹ 196 روپے سے بھی تجاوز کرگئے۔
انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر اتار چڑھاؤ کے بعد 1.66 روپے کے اضافے سے 194.18 روپے کی بلند ترین سطح پر بند ہوئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1.80 روپے کے اضافے سے 196.50 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی 22 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئے جو صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے کافی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی درآمدی بل میں ریکارڈ اضافے جیسے عوامل کے باعث ڈالر کے طلب اور رسد کا توازن بگڑگیا ہے جو اسکی قدر میں تیزی سے اضافے کا باعث بن گیا ہے۔