عمران خان پہلے ہی ملک کا دیوالیہ کرگئے
سابق مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور شوکت ترین وزیراعظم کو ’سب ٹھیک ہے‘ کی رپورٹیں دے کر مطمئن کرتے رہے
6 ماہ پہلے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ حکومتی حلقے کہہ رہے ہیں کہ ملک بڑا اچھا چل رہا ہے، ہم نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے اور جس تبدیلی کا ہم نے وعدہ کیا تھا ہم وہ تبدیلی لے آئے ہیں، جبکہ یہ سب غلط اور گمراہ کن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری رائے کے مطابق اکاؤنٹنگ کی اصطلاح میں ملک دیوالیہ ہوچکا ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ جب آپ یہ طے کرلیں کہ ہم دیوالیہ ہوچکے ہیں اور اس سے آگے ہمیں چلنا ہے، یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ آپ کہیں ملک اچھا چل رہا ہے، میں یہ کردوں گا، میں وہ کردوں گا۔ یہ سب لوگوں کو دھوکا دینے والی باتیں ہیں۔
آج ملک کی موجودہ معاشی حالت اور معیشت کی دن بہ دن بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں شبر زیدی کی طرف سے کیے گئے اہم ترین انکشافات شدت سے یاد آرہے ہیں۔ کاش اس وقت حکومت وقت شبر زیدی کی طرف سے کیے گئے انکشافات پر عقل، فہم و فراست کا مظاہرہ کرتی تو شاید ہمیں ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جس کے نتیجے میں روپیہ گرتا رہا، زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے رہے، شرح سود بڑھتی گئی اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہا۔ مگر اس وقت سابق مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور شوکت ترین وزیراعظم کو 'سب ٹھیک ہے' کی رپورٹیں دے کر مطمئن کرتے رہے۔
عبدالرزاق داؤد، اسد عمر اور حماد اظہر بھی وزارت خزانہ چلاتے رہے اور معیشت کی بگڑتی صورتحال کی چشم پوشی کرتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم آج تاریخ کے ایسے سخت دوراہے پر پھنس چکے ہیں جہاں ہماری معیشت بری طرح سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اور پاکستان کے پاس صرف ایک مہینہ کے ریزروز باقی ہیں۔
یاد رکھیے بیرونی قرضوں پر چلنے والے ممالک جب اپنے بیرونی قرضے کی اقساط اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہوجائیں تو ان ممالک کو دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیاد پر بہت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور ڈالر بلندی کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہوگئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔
ہم ایسے دوراہے پر پھنس چکے ہیں جہاں آئی ایم ایف نے کڑی شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ڈیزل و پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، صنعتوں کےلیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کی شرائط شامل ہیں۔
اس تناظر میں ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی۔ آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط میں سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اگر ہم آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات پر سے سبسڈی ہٹاتے ہیں تو مہنگائی کا ایک ایسا سیلاب آئے گا جس کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ ایک عام آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر رہ جائے گا۔ جبکہ اگر ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نکلتے ہیں تو ہم دیوالیہ ہونے کے نزدیک ترین ہوں گے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، سب نے ہماری مالی معاونت کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ یوکرائن جنگ کی وجہ سے یورپی ممالک بھی مالی مسائل کا شکار ہیں۔ ان حالات میں وہ بھی ہم سے معذرت کرچکے ہیں۔
عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد نئی مخلوط حکومت بھی سخت فیصلے لینے میں شش و پنج میں مبتلا نظر آتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرتے ہیں، تو مہنگائی کا جو سیلاب آئے گا اس کا سارا ملبہ سابقہ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں سے منتقل ہوکر موجودہ حکومت خصوصاً مسلم لیگ ن پر گرتا نظر آئے گا۔ جس کا خمیازہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔
ان تمام عوامل کی وجہ سے نئی مخلوط حکومت سخت فیصلے لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ان ہی حالات کے تناظر میں پی ایم ایل این کی نائب صدر مریم نواز نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی اور موجودہ مخلوط حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومت کی نااہلی کا گند اپنے اوپر ڈالنے کے بجائے نئے الیکشن میں جانے کی تیاری کریں اور عمران خان کو اس ہی گند کے ساتھ عوام میں جانے دیں۔
پی ایم ایل این کے قائد میاں محمد نواز شریف اور چند سینئر ترین لیگی رہنما بھی اس ہی قسم کی رائے رکھتے ہیں اور ان ہی امور پر گفت و شنید کرنے کے لیے میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کو لندن طلب کیا۔ جس میں طویل ترین مشاورت ہوئی۔ تاہم اس مشاورت میں کیا فیصلے ہوئے اس کا اعلامیہ اب تک جاری نہیں ہوسکا اور لیگی رہنما وہاں کیے گئے فیصلوں پر بیان دینے سے گریز کررہے ہیں۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے۔ جس سے نمٹنے کےلیے نظریہ ضرورت کے تحت ہی سہی مگر سخت ترین فیصلے کرنا ناگزیر ہوچکے ہیں۔ اور اگر مخلوط حکومت ان مخدوش معاشی حالات میں فیصلے لینے سے پیچھے ہٹتی ہے اور مصلحت کا شکار ہوتی ہے، تو اس کے سنگین اور خوفناک معاشی نتائج برآمد ہوں گے، جس سے شاید ہم آئندہ دس پندرہ سال تک نہ نکل سکیں۔
دوسری طرف ان مخدوش معاشی حالات کے باوجود ملک میں سیاسی ٹمپریچر اپنے عروج پر ہے۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ کھلے عام ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہیں۔ چند مخصوص یو ٹیوبرز اور نام نہاد صحافی جن کا فرض ہے کہ وہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو ٹھنڈا کریں، مگر وہ امریکا اور یورپ میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جائیں تو ایک طوفان بدتمیزی دکھائی دیتا ہے۔ مخالفین کے خلاف فحش گوئی اور دشنام طرازی کی جارہی ہے۔ غداری اور ملک دشمنی کی اسناد سے نوازا جارہا ہے۔ مخالفین متشدد ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک کے موجودہ معاشی حالات اور مسائل سے قطع نظر تمام سیاستدان اگلے الیکشن کی تیاری میں سرگرداں ہیں۔ ان تمام حالات میں ایسا محسوس ہوتا کہ کسی سازش کے تحت ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر حکومتی و ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یاد رکھیے! پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ آپس کی سیاسی چپقلش میں ملک کو کسی ایسے دوراہے پر نہ لے جائیں، جس کا ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے۔ کیا آپ پاکستان کی بقا و سالمیت کےلیے صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہوسکتے کہ تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف باہمی مشاورت سے اس موجودہ معاشی بحران سے نکلنے میں حکومت کی مدد کریں۔ اس میں اپنا حصہ ڈالیں اور ملک کو استحکام بخشیں۔
اس نازک اور مخدوش صورتحال میں ملک کو قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے تمام سیاسی اختلافات کو محض کچھ عرصے کےلیے پس پشت رکھ کر اس ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو عوام میں مقبول ہیں اور ایک مقام رکھتے ہیں، جیسے خطیب علمائے اکرام وغیرہ۔ سیاسی وابستگی یا پسندیدگی کو ایک طرف رکھ کے آپس کے اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے میں اپنا خصوصی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
خدارا! ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہ لے کر جائیے۔ خواہ آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، اس کٹھن دور میں بھائی چارگی کی فضا اجاگر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ ان حالات میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کو بھی اعتماد میں لیتے ہوئے ان کو ایک میز پر بٹھائیں۔ ایسی سیاسی جماعتیں جو ریاست سے ناراض ہیں یا ریاست ان سے ناراض ہے، ان کو بھی بلائیں، ان کے مسائل سنیں، ان سے مذاکرات کریں۔ جب ملک کے وسیع تر مفاد میں طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ان کی بھی سنیں ان کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کو قومی دھارے میں واپس لائیں۔ یقین کیجئے اس سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا، جو وقت کی اولین ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ جب آپ یہ طے کرلیں کہ ہم دیوالیہ ہوچکے ہیں اور اس سے آگے ہمیں چلنا ہے، یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ آپ کہیں ملک اچھا چل رہا ہے، میں یہ کردوں گا، میں وہ کردوں گا۔ یہ سب لوگوں کو دھوکا دینے والی باتیں ہیں۔
آج ملک کی موجودہ معاشی حالت اور معیشت کی دن بہ دن بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں شبر زیدی کی طرف سے کیے گئے اہم ترین انکشافات شدت سے یاد آرہے ہیں۔ کاش اس وقت حکومت وقت شبر زیدی کی طرف سے کیے گئے انکشافات پر عقل، فہم و فراست کا مظاہرہ کرتی تو شاید ہمیں ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جس کے نتیجے میں روپیہ گرتا رہا، زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے رہے، شرح سود بڑھتی گئی اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہا۔ مگر اس وقت سابق مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور شوکت ترین وزیراعظم کو 'سب ٹھیک ہے' کی رپورٹیں دے کر مطمئن کرتے رہے۔
عبدالرزاق داؤد، اسد عمر اور حماد اظہر بھی وزارت خزانہ چلاتے رہے اور معیشت کی بگڑتی صورتحال کی چشم پوشی کرتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم آج تاریخ کے ایسے سخت دوراہے پر پھنس چکے ہیں جہاں ہماری معیشت بری طرح سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اور پاکستان کے پاس صرف ایک مہینہ کے ریزروز باقی ہیں۔
یاد رکھیے بیرونی قرضوں پر چلنے والے ممالک جب اپنے بیرونی قرضے کی اقساط اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہوجائیں تو ان ممالک کو دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیاد پر بہت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور ڈالر بلندی کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہوگئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔
ہم ایسے دوراہے پر پھنس چکے ہیں جہاں آئی ایم ایف نے کڑی شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ڈیزل و پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، صنعتوں کےلیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کی شرائط شامل ہیں۔
اس تناظر میں ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی۔ آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط میں سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اگر ہم آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات پر سے سبسڈی ہٹاتے ہیں تو مہنگائی کا ایک ایسا سیلاب آئے گا جس کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ ایک عام آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر رہ جائے گا۔ جبکہ اگر ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نکلتے ہیں تو ہم دیوالیہ ہونے کے نزدیک ترین ہوں گے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، سب نے ہماری مالی معاونت کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ یوکرائن جنگ کی وجہ سے یورپی ممالک بھی مالی مسائل کا شکار ہیں۔ ان حالات میں وہ بھی ہم سے معذرت کرچکے ہیں۔
عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد نئی مخلوط حکومت بھی سخت فیصلے لینے میں شش و پنج میں مبتلا نظر آتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرتے ہیں، تو مہنگائی کا جو سیلاب آئے گا اس کا سارا ملبہ سابقہ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں سے منتقل ہوکر موجودہ حکومت خصوصاً مسلم لیگ ن پر گرتا نظر آئے گا۔ جس کا خمیازہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔
ان تمام عوامل کی وجہ سے نئی مخلوط حکومت سخت فیصلے لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ان ہی حالات کے تناظر میں پی ایم ایل این کی نائب صدر مریم نواز نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی اور موجودہ مخلوط حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومت کی نااہلی کا گند اپنے اوپر ڈالنے کے بجائے نئے الیکشن میں جانے کی تیاری کریں اور عمران خان کو اس ہی گند کے ساتھ عوام میں جانے دیں۔
پی ایم ایل این کے قائد میاں محمد نواز شریف اور چند سینئر ترین لیگی رہنما بھی اس ہی قسم کی رائے رکھتے ہیں اور ان ہی امور پر گفت و شنید کرنے کے لیے میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کو لندن طلب کیا۔ جس میں طویل ترین مشاورت ہوئی۔ تاہم اس مشاورت میں کیا فیصلے ہوئے اس کا اعلامیہ اب تک جاری نہیں ہوسکا اور لیگی رہنما وہاں کیے گئے فیصلوں پر بیان دینے سے گریز کررہے ہیں۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے۔ جس سے نمٹنے کےلیے نظریہ ضرورت کے تحت ہی سہی مگر سخت ترین فیصلے کرنا ناگزیر ہوچکے ہیں۔ اور اگر مخلوط حکومت ان مخدوش معاشی حالات میں فیصلے لینے سے پیچھے ہٹتی ہے اور مصلحت کا شکار ہوتی ہے، تو اس کے سنگین اور خوفناک معاشی نتائج برآمد ہوں گے، جس سے شاید ہم آئندہ دس پندرہ سال تک نہ نکل سکیں۔
دوسری طرف ان مخدوش معاشی حالات کے باوجود ملک میں سیاسی ٹمپریچر اپنے عروج پر ہے۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ کھلے عام ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہیں۔ چند مخصوص یو ٹیوبرز اور نام نہاد صحافی جن کا فرض ہے کہ وہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو ٹھنڈا کریں، مگر وہ امریکا اور یورپ میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جائیں تو ایک طوفان بدتمیزی دکھائی دیتا ہے۔ مخالفین کے خلاف فحش گوئی اور دشنام طرازی کی جارہی ہے۔ غداری اور ملک دشمنی کی اسناد سے نوازا جارہا ہے۔ مخالفین متشدد ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک کے موجودہ معاشی حالات اور مسائل سے قطع نظر تمام سیاستدان اگلے الیکشن کی تیاری میں سرگرداں ہیں۔ ان تمام حالات میں ایسا محسوس ہوتا کہ کسی سازش کے تحت ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر حکومتی و ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یاد رکھیے! پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ آپس کی سیاسی چپقلش میں ملک کو کسی ایسے دوراہے پر نہ لے جائیں، جس کا ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے۔ کیا آپ پاکستان کی بقا و سالمیت کےلیے صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہوسکتے کہ تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف باہمی مشاورت سے اس موجودہ معاشی بحران سے نکلنے میں حکومت کی مدد کریں۔ اس میں اپنا حصہ ڈالیں اور ملک کو استحکام بخشیں۔
اس نازک اور مخدوش صورتحال میں ملک کو قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے تمام سیاسی اختلافات کو محض کچھ عرصے کےلیے پس پشت رکھ کر اس ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو عوام میں مقبول ہیں اور ایک مقام رکھتے ہیں، جیسے خطیب علمائے اکرام وغیرہ۔ سیاسی وابستگی یا پسندیدگی کو ایک طرف رکھ کے آپس کے اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے میں اپنا خصوصی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
خدارا! ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہ لے کر جائیے۔ خواہ آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، اس کٹھن دور میں بھائی چارگی کی فضا اجاگر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ ان حالات میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کو بھی اعتماد میں لیتے ہوئے ان کو ایک میز پر بٹھائیں۔ ایسی سیاسی جماعتیں جو ریاست سے ناراض ہیں یا ریاست ان سے ناراض ہے، ان کو بھی بلائیں، ان کے مسائل سنیں، ان سے مذاکرات کریں۔ جب ملک کے وسیع تر مفاد میں طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ان کی بھی سنیں ان کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کو قومی دھارے میں واپس لائیں۔ یقین کیجئے اس سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا، جو وقت کی اولین ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔