مقبرہ جہانگیر مغلیہ ذوقِ تعمیر کا نادر اظہار

مقبرہ جہانگیر کے اندر کئی اسرار ہیں جن کو جاننے اور سمجھنے کےلیے بہت وقت درکار ہے

تاج محل آگرہ کے بعد مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار مقبرہ جہانگیر کو مانا جاتا ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

دورِ جدید میں فنِ تعمیر بہت ترقی پا چکا ہے، تاہم آج بھی قدیم طرز تعمیر پر نظر دوڑائی جائے تو دورِ حاضر کا جدید انفرااسٹرکچر بھی مات کھاتا نظر آتا ہے۔ بالخصوص برصغیر کی تاریخ میں مغلوں نے جس نوعیت کے تعمیراتی شاہکار بنائے وہ آج بھی انسانی جمالیاتی حس کی تسکین کا باعث ہیں۔ پاکستان بھر میں مغلیہ دورِ حکومت کے تعمیراتی شاہکار تاریخی شان و شوکت کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اور مغلیہ ہنرمندوں کے عظیم فن تعمیر کے شاہد ہیں۔ ماضی کی یادوں کو زندہ رکھنے کا فن مغلیہ تعمیرات سے عیاں ہے۔ پاکستان ان تاریخی تعمیراتی خزانوں کی بدولت دنیا بھر میں معتبر مقام رکھتا ہے۔ ان تاریخی ورثوں سے ہزاروں داستانیں جڑی ہیں جن کے بارے میں جاننا نسلِ نو کا بنیادی حق ہے۔

مغلیہ فنِ تعمیر کا ذکر لاہور کے تاریخی تعمیراتی شاہکاروں بالخصوص مقبرہ جہانگیر کے بغیر ادھورا ہے۔ لاہور کے مضافات میں دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ کے باغ دلکشا میں واقع مقبرہ جہانگیر مغلوں کی سب سے حسین یادوں میں سے ایک ہے، جو کہ مغلیہ سلطنت کے عظیم بادشاہ سلیم نورالدین جہانگیر کا مدفن ہے۔



مغل شہنشاہ جہانگیر، جن کے عدل و انصاف کے چرچوں سے مغل تاریخ بھری پڑی ہے، ان کی وفات1627 میں کشمیر سے لاہور واپس آتے ہوئے راجوری کے مقام پر ہوئی۔ شہنشاہ جہانگیر لاہور سے شدید محبت کرتے تھے اور خواہش مند تھے کہ جب وہ وفات پا جائیں تو ان کو لاہور میں ہی دفن کیا جائے۔ ان کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے انہیں ان کی چہیتی بیگم ملکہ نورجہاں کے ملکیتی وسیع و عریض باغ (باغ دلکشا) کے وسط میں دفن کیا گیا، جبکہ مقبرے کی تعمیر کا حکم جہانگیر کے بیٹے مغل سلطنت کے جانشین شہنشاہ شاہ جہاں نے دیا۔

اس بات کے بھی حوالے موجود ہیں کہ شہنشاہ جہانگیر کی بیوی مہرالنساء بیگم یعنی ملکہ نورجہاں نے ہی مقبرے کی تعمیر کا آغاز کرایا جبکہ ان کے بیٹے شاہ جہاں نے تعمیر مکمل کرائی۔ ملکہ نورجہاں نے یہاں رہائش بھی اختیار کی اور رہائشی عمارتیں اب بھی مقبرہ جہانگیر میں موجود ہیں۔ ملکہ نورجہاں نے مقبرے کے ساتھ ہی ایک مسجد بھی تعمیر کرائی، جو اب بھی موجود ہے۔ مقبرے کی تعمیر پر اس وقت تقریباً دس لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ دس سال کی مدت میں تعمیر ہونے والا مقبرہ جہانگیر 1637 میں مکمل ہوا۔ مقبرہ جہانگیر آنکھوں کو خیرہ کردینے والی خوبصورتی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور لاہور کی تاریخی عظمت کا ثبوت ہے۔



تاج محل آگرہ کے بعد مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار مقبرہ جہانگیر کو مانا جاتا ہے۔ اس مربع شکل عمارت کی ہر سمت 287 فٹ بتائی جاتی ہے اور عمارت تقریباً چار فٹ اونچے پلیٹ فارم پر بنائی گئی ہے۔ عمارت کے بیرونی اطراف اور میناروں کے نیچے والے حصے پر سرخ پتھروں کے استعمال نے خوبصورتی دوچند کردی ہے جبکہ سنگِ سرخ کی سلوں پر سنگ مرمر سے کی گئی آرائش عمارت کی چکاچوند میں اضافے کا باعث ہے۔

مقبرہ جہانگیر کے چاروں کونوں پر ہشت پہلو 5 منزلہ اور تقریباً 100 فٹ اونچے مینار عظمت کی علامت بنے ہر نظر کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ میناروں پر سنگِ مرمر اور پیلے پتھر سے آڑھی ترچھی دھاریاں عروجِ فن کی علامت ہیں۔ میناروں پر چڑھنے کےلیے سیڑھیاں بھی موجود ہیں، تاہم جب میرا وہاں جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر انتظامیہ نے سیڑھیوں پر چڑھنے کے راستے بند کیے ہوئے ہیں۔

مقبرہ اندر سے گنبد نما ہے جبکہ عمارت کے اندر دیواروں پر پھول دار نقاشی کی گئی ہے۔ قبر کا بالائی حصہ سنگِ مرمر پر مشتمل ہے جن پر قیمتی پتھروں سے اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام کندہ کیے گئے ہیں۔ مرکزی عمارت کے چاروں طرف متعدد کمرے بھی موجود ہیں، جن کے آگے محرابی چھتوں والے برآمدے تعمیر کیے گئے ہیں جو قدیم طرز تعمیر بالخصوص مغلیہ طرز تعمیر کا خاصہ رہے ہیں۔ مزار کے چاروں طرف لگی سنگ مرمر کی جالیاں جو سخت گرم موسم میں بھی ہال کا درجہ حرارت بڑھنے نہیں دیتیں۔ گرم موسم میں ان جالیوں سے درجہ حرارت کے فرق کو واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔




ملکہ نورجہاں کا مقبرہ بھی ان کے شوہر شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے کی حدود میں ہی بنایا گیا تھا، تاہم انگریزوں کے دور حکومت میں ریلوے کی پٹڑی بچھائی گئی، جس کی بدولت ان دونوں کی آخری آرام گاہیں جدا ہوگئیں۔ اسی طرح مقبرہ ابوالحسن آصف خان بھی مقبرۂ جہانگیر کی موجودہ حدود میں ہی واقع ہے جو تاریخ کے انمول ابواب میں سے ہے اور جن کو بیان کرنے کےلیے الگ تحریر ضروری ہے۔ باغ دلکشا کا ذکر اب بس تاریخ کی کتابوں میں ہی رہ گیا ہے جبکہ باغ دلکشا میں موجود مقبرۂ جہانگیر، مقبرۂ نورجہاں اور مقبرۂ آصف جاہ پر مشتمل رقبہ کو اب مقبرہ جہانگیر کے نام سے ہی جانا اور پکارا جاتا ہے۔



مقبرے کا پرشکوہ داخلی راستہ، آسمان کو چھوتے مینار، بے مثال گنبد، سلیقہ سے چنی دیواریں، چاروں طرف پھیلے سرسبز پودے، پھول اور دیوقامت درخت سحر آفریں نظاروں کا باعث ہیں جبکہ مرکزی عمارت کی خوبصورتی دیکھ کر تو ہر شخص انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ مقبرۂ جہانگیر کا طرز تعمیر لازوال شاعری کی طرح سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ یہاں ہر طرف تاریخ کے خوبصورت پہلو ہیں جو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں، ماضی کی تابناکی کو محسوس کرنے کےلیے یہ جگہ مثالی ہے۔ جب مجھے مقبرہ جہانگیر جانے کا اتفاق ہوا تو لوگوں کی بڑی تعداد سیاحت کے مقصد سے موجود تھی جن میں بڑی تعداد فیملیز کی تھی۔ سکون کے متلاشی لوگ بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔



عہد گزشتہ کی حسین و عظیم یادگار مقبرہ جہانگیر کو مختلف ادوار میں تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ جب پنجاب پر سکھ راج قائم ہوا تو رنجیت سنگھ نے اس مقبرے کے خوبصورت آرائشی پتھروں کو اکھاڑ کر امرتسر میں سکھوں کے گردوارے میں استعمال کیے۔ رنجیت سنگھ سے قبل حکمران رہنے والے لہنا سنگھ نے بھی مقبرے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار اور افغان سردار احمد شاہ ابدالی کی پنجاب پر یلغار کے دوران بھی اس مقبرے کے بخیے ادھیڑے گئے۔ اس عمارت کو سکھ دور کے ہسپانوی فوجی افسر آمائس نے بطور رہائش گاہ استعمال کیا اور بعد ازاں دوست محمد خان کے بھائی سلطان محمد خان کے زیر تسلط رہا۔ ان سب کے ہاتھوں مقبرہ کو نقصان پہنچا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ مختلف ادوار میں دریائے راوی میں آنے والی طغیانی نے بھی مقبرہ جہانگیر کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور اور کھوکھلا کیا۔ برطانوی راج کے دوران مقبرہ جہانگیر پر توجہ دی گئی اور مرمت، تزئین و آرائش کا کام کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس مقبرہ کی دیکھ بھال کےلیے مختلف اقدامات کیے گئے تاہم وہ ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔ اس عظیم تعمیراتی شاہکار کے مٹتے نقوش کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے ترجیحی اقدامات کی ضرورت ہے۔



مغلیہ دور کے فنِ تعمیرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مغل حکمران مذہبی طور پر دقیانوس نہیں تھے۔ ان حکمرانوں میں ذہنی کشادگی کی بدولت مختلف ثقافتوں کی آمیزش سے ہند اسلامی تہذیب کا کلچر وجود میں آیا جبکہ اس کلچر کو پروان چڑھانے میں مغلیہ تعمیرات نے کلیدی کردار ادا کیا اور طرز تعمیر کی اس کشادگی نے تاریخ ہندوستان پر انمٹ نقوش چھوڑے۔

مقبرہ جہانگیر کے اندر کئی اسرار ہیں جن کو جاننے اور سمجھنے کےلیے بہت وقت درکار ہے۔ مقبرہ جہانگیر کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار نہیں دیا گیا، اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جبکہ اس وسیع و عریض مقبرے کے بنیادی ڈھانچے کو محفوظ کرنے اور تزئین و آرائش کا کام کرتے ہوئے اس کی خوبصورتی کو ماضی کی طرح مثالی بنایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story