پاکستان میں خشک سالی کے خطرات
دنیا کی واحد سپرپاور امریکا بھی اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے پاکستان کو بھی ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا ہے جو خشک سالی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا کی واحد سپرپاور امریکا بھی اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس فہرست میں 22ممالک شامل ہیں، جو گزشتہ 2 برس سے خشک سالی کی ہنگامی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔دوسری جانب وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے قومی سلامتی کے خطرات میں سے ایک ہیں، پاکستان میں پانی کی کمی سے خشک سالی کا خطرہ موجود ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے پاکستان کی جی ڈی پی چار سے چھ فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے لہٰذا ان آفات سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس وقت جدید دنیا تاریخ کے ایسے دوراہے پر آن کھڑی ہوئی ہے ، جسے اپنی بقا کے لیے شدید خطرات کا سامنا ہے ، بڑھتی ہوئی خشک سالی اور میٹھے پانی کے غیر محتاط اور بے دریغ استعمال کی وجہ سے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور دنیا میں بدنظمی اور تشدد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گا۔رواں برس دو ارب سے زائد افراد ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جو پانی کی کمی کاشکار ہیں جب کہ 2030 تک مزید 70 کروڑ افراد خشک سالی کے چنگل میں گرفتار ہوجائیں گے۔
اس صورتحال سے نسلی انسانی کے لیے ہی نہیں بلکہ مویشیوں اور زراعت کے لیے پانی کی مقدارکم سے کم ہوتی جارہی ہے اور یوں خوراک کی پیداوار کا دائرہ بھی سکڑتا جارہا ہے، خشک سالی متاثرہ خطوں میں افریقہ سرفہرست ہے اور اس کے بعد بھارت، پاکستان، لاطینی امریکا کے ممالک، امریکا اور آسٹریلیا کے کچھ حصے شامل ہیں۔حالیہ برسوں میں کرہ ارض کی آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیل ہوتی رہی ہے ۔
صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والا دھواں اور ویسٹ،پلاسٹک والی اشیاء کی بھرمار، مصنوعی خوراک، غریب ممالک کے کسان لاعلمی کی بنا پر فصلوں کو جلاتے ہیں، جس کی وجہ سے بھی فضا میں ہمہ وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ اورمیتھین گیس کے اخراج میں اضافہ ہورہا ہے، گرمی کے موسم کا طویل ہوجانا اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیر پگھلنے کی رفتار تیز تر ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے سیلاب زیادہ آتے ہیں ۔
گرم ہواؤں کی وجہ سے خشک سالی، دریا اور جھیل کے پانی کی کمی ہوتی ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق پاکستان میں خشک سالی کے سبب گزشتہ کچھ برسوں میں زراعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہماری 90 فیصد زراعت کا دارومدار دریائے سندھ پر ہے، لیکن اس وقت دریائے سندھ میں دھول اڑ رہی ہے ،موجودہ سیزن میں بارشوں کا نہ ہونا بدترین ماحولیاتی تبدیلی ہے جس کا براہ راست اثر زراعت پر پڑرہا ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اپنی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید خشک سالی کا شکار ہونے جارہا ہے ۔ایک زرعی ملک جس کی ستر فی صد پیداوار کا انحصار زراعت پر رہا ہے ، وہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ۔صدرایوب خان نے کشمیر سے پنجاب میں بہنے والے تین دریاؤں کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کرکے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے تھے، حالانکہ متحدہ پنجاب کا تقریباً ستر فیصد پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔
اس لیے اگر بھارت کو دریاؤں کے پانی کے استعمال کا حق دینا ہی تھا تو پانی کی مقدار مقرر کرکے معاہدہ کیا جانا چاہیے تھا ، اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں بہنے والے تمام دریاؤں میں پانی موجود رہتا اور ٹیلی میٹری سسٹم کے تحت باآسانی معلوم ہوجاتا کہ بھارت کتنا پانی استعمال کررہاہے لیکن ایوب خان حکومت نے شاید اس پہلو پر غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے اشتراک کے حوالے سے بھی کوئی معاہدہ یا میکنزم موجود نہیں ہے جب کہ افغانستان کی سابقہ حکومت کے دور میں افغانستان میں کئی ڈیموں کی تعمیر ہورہی تھی جسے بھارت کا مالی اور تیکنیکی تعاون حاصل تھا ،اب شاید ان ڈیموں پر کام بند ہے لیکن آخر یہ کتنی دیر بند رہے گا ، جب بھی ان آبی ذخائر کی تعمیر مکمل ہوگئی تو خیبر پختونخوا کی طرف بہنے والے دریا بھی خشک ہونے کا خطرہ ہے لیکن اس جانب بھی کسی حکومت نے توجہ نہیں دی ۔
اس وقت چولستان شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، میڈیا کی خبروں کے مطابق چولستان کے کئی علاقوں میں پانی کے تالاب خشک ہوگئے اور کنوؤں کا پانی کڑوا اور زہریلا ہوگیا ہے، یہ پانی پینے سے پالتو جانور مر رہے ہیں۔ جھلسا دینے والی گرمی میں چرواہے اور مویشی مالکان پانی کی تلاش میں آبادیوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہیں۔بارش نہ ہونے کی وجہ سے 29 ہزار مربع کلومیٹرز پر پھیلے صحرا میں 3 ہزار ''ٹوبے ''خشک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جب کہ نچلے آدھے پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں پر زراعت کی جاتی ہے۔
وہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ان بارانی علاقوں میں خشک سالی کے بعد ایک طرف تو مسلسل قحط سالی ہے اور دوسری طرف گزشتہ چند سالوں سے ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ان علاقوں میں صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔
2050 تک پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تقریباً دو لاکھ افراد موسمیاتی مہاجرین بن جائیں گے۔جنوبی پنجاب کے روہی اور چولستان صحرا، سندھ کے صحرائے تھر، اچھڑو تھر یا وائٹ ڈیزرٹ، نارا صحرا، کاچھو، کوہستان اور لاڑ، بلوچستان کے مکران کوسٹ سمیت آواران، بلوچستان کے قلات، چاغی، نؤکنڈی اور ژوب میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری قحط سالی کے باعث مقامی لوگوں کی اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔
سندھ کا صحرائے تھر قحط سالی سے متاثر خطوں میں سرفہرست ہے جہاں کئی سالوں سے بھوک کے باعث خواتین اور نومولود بچوں کی اموات کی خبریں مقامی میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ بلوچستان میں کم بارش کے باعث خشک سالی کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے، جس کی وجہ سے زراعت، کاشت کاری، فضلات و باغات، آب نوشی اور گلہ بانی اور آب و ہوا سمیت دیگر شعبے متاثر ہوسکتے ہیں۔
محکمہ لائیو اسٹاک کے مطابق چولستان میں پانی کی قلت اور ہیٹ اسٹروک سے دوسو سے زائد بھیڑیں اور مویشی ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ بارشیں نہ ہونے سے تالاب مکمل طور پر خشک ہوگئے ہیں، جس کے باعث مقامی افراد پینے کے پانی سے بھی محروم ہورہے ہیں۔چولستان کے مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ تالاب ہی ان کے لیے پانی کا ذخیرہ ہے تاہم طویل عرصے سے تالابوں کی صفائی نہ ہونے سے بارش کا پانی ضایع ہوجاتا ہے اور نتیجے کے طور پر خشک سالی کا سامنا ہے۔
دوسری جانب مقامی آبادی گاڑیوں پر سامان لادے نقل مکانی کرتی نظر آتی ہے جب کہ پانی کی کمی کے باعث چولستان کا جہاز اونٹ بھی سست اور بیمار پڑنے لگا ہے۔دیہی علاقوں کے مکینوں کے روزگار کا واحد زریعہ کھیتی باڑی تباہ حالی کا شکار ہے، کاشتکاروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں اور کاشتکار معاشی بحران کا شکار ہیں۔
پاکستان میں کپاس کے کاشتکار موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو محسوس کر رہے ہیں کیونکہ موسم کے غیر متوقع نمونے اور شدید گرمی بڑھتے ہوئے موسموں کو مختصر کر رہی ہے۔اس سے کیڑوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر سفید مکھی اور گلابی بول ورم، جس کے نتیجے میں کسان کیڑے مار ادویات پر زیادہ انحصار کر سکتے ہیں۔کپاس کی زیادہ لاگت اور کم مارکیٹ کی قیمتوں نے پاکستان کے بہت سے چھوٹے کاٹن کاشتکاروں کو اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کافی کمانے کے لیے شدید جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔
ملک میں اس وقت شجرکاری نہ صرف ضروری ہے بلکہ عالمی حدت کے اثرات کو کم کرنے کا واحد حل بھی ہے، عوام میں اس حوالے سے شعور کی بیداری بھی ضروری ہے۔ہمیں ملک میں کلین انرجی مکس کی طرف جانے کی بھی ضرورت ہے۔ پانی کی کمی پاکستان کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے، گلیشیئر کے پگھلنے، بے موسمی بارشوں اور دریائے سندھ میں سلٹنگ سمیت دیگر قدرتی آفات پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت فوری طور پر فصلوں اور لائیو اسٹاک کے نقصان کو بچانے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔ان تمام پیدا شدہ مسائل کا واحد حل ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر ہے ،جس سے پانی کی کمی نہ صرف دور ہوگی ، بلکہ ملک میں خوشحالی بھی آئے گی۔حکومت کو انتہائی سنجیدگی سے خشک سالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی جنگی بنیادوں پر ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔
اقوام متحدہ کی اس فہرست میں 22ممالک شامل ہیں، جو گزشتہ 2 برس سے خشک سالی کی ہنگامی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔دوسری جانب وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے قومی سلامتی کے خطرات میں سے ایک ہیں، پاکستان میں پانی کی کمی سے خشک سالی کا خطرہ موجود ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے پاکستان کی جی ڈی پی چار سے چھ فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے لہٰذا ان آفات سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس وقت جدید دنیا تاریخ کے ایسے دوراہے پر آن کھڑی ہوئی ہے ، جسے اپنی بقا کے لیے شدید خطرات کا سامنا ہے ، بڑھتی ہوئی خشک سالی اور میٹھے پانی کے غیر محتاط اور بے دریغ استعمال کی وجہ سے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور دنیا میں بدنظمی اور تشدد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گا۔رواں برس دو ارب سے زائد افراد ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جو پانی کی کمی کاشکار ہیں جب کہ 2030 تک مزید 70 کروڑ افراد خشک سالی کے چنگل میں گرفتار ہوجائیں گے۔
اس صورتحال سے نسلی انسانی کے لیے ہی نہیں بلکہ مویشیوں اور زراعت کے لیے پانی کی مقدارکم سے کم ہوتی جارہی ہے اور یوں خوراک کی پیداوار کا دائرہ بھی سکڑتا جارہا ہے، خشک سالی متاثرہ خطوں میں افریقہ سرفہرست ہے اور اس کے بعد بھارت، پاکستان، لاطینی امریکا کے ممالک، امریکا اور آسٹریلیا کے کچھ حصے شامل ہیں۔حالیہ برسوں میں کرہ ارض کی آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیل ہوتی رہی ہے ۔
صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والا دھواں اور ویسٹ،پلاسٹک والی اشیاء کی بھرمار، مصنوعی خوراک، غریب ممالک کے کسان لاعلمی کی بنا پر فصلوں کو جلاتے ہیں، جس کی وجہ سے بھی فضا میں ہمہ وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ اورمیتھین گیس کے اخراج میں اضافہ ہورہا ہے، گرمی کے موسم کا طویل ہوجانا اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیر پگھلنے کی رفتار تیز تر ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے سیلاب زیادہ آتے ہیں ۔
گرم ہواؤں کی وجہ سے خشک سالی، دریا اور جھیل کے پانی کی کمی ہوتی ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق پاکستان میں خشک سالی کے سبب گزشتہ کچھ برسوں میں زراعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہماری 90 فیصد زراعت کا دارومدار دریائے سندھ پر ہے، لیکن اس وقت دریائے سندھ میں دھول اڑ رہی ہے ،موجودہ سیزن میں بارشوں کا نہ ہونا بدترین ماحولیاتی تبدیلی ہے جس کا براہ راست اثر زراعت پر پڑرہا ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اپنی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید خشک سالی کا شکار ہونے جارہا ہے ۔ایک زرعی ملک جس کی ستر فی صد پیداوار کا انحصار زراعت پر رہا ہے ، وہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ۔صدرایوب خان نے کشمیر سے پنجاب میں بہنے والے تین دریاؤں کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کرکے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے تھے، حالانکہ متحدہ پنجاب کا تقریباً ستر فیصد پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔
اس لیے اگر بھارت کو دریاؤں کے پانی کے استعمال کا حق دینا ہی تھا تو پانی کی مقدار مقرر کرکے معاہدہ کیا جانا چاہیے تھا ، اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں بہنے والے تمام دریاؤں میں پانی موجود رہتا اور ٹیلی میٹری سسٹم کے تحت باآسانی معلوم ہوجاتا کہ بھارت کتنا پانی استعمال کررہاہے لیکن ایوب خان حکومت نے شاید اس پہلو پر غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے اشتراک کے حوالے سے بھی کوئی معاہدہ یا میکنزم موجود نہیں ہے جب کہ افغانستان کی سابقہ حکومت کے دور میں افغانستان میں کئی ڈیموں کی تعمیر ہورہی تھی جسے بھارت کا مالی اور تیکنیکی تعاون حاصل تھا ،اب شاید ان ڈیموں پر کام بند ہے لیکن آخر یہ کتنی دیر بند رہے گا ، جب بھی ان آبی ذخائر کی تعمیر مکمل ہوگئی تو خیبر پختونخوا کی طرف بہنے والے دریا بھی خشک ہونے کا خطرہ ہے لیکن اس جانب بھی کسی حکومت نے توجہ نہیں دی ۔
اس وقت چولستان شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، میڈیا کی خبروں کے مطابق چولستان کے کئی علاقوں میں پانی کے تالاب خشک ہوگئے اور کنوؤں کا پانی کڑوا اور زہریلا ہوگیا ہے، یہ پانی پینے سے پالتو جانور مر رہے ہیں۔ جھلسا دینے والی گرمی میں چرواہے اور مویشی مالکان پانی کی تلاش میں آبادیوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہیں۔بارش نہ ہونے کی وجہ سے 29 ہزار مربع کلومیٹرز پر پھیلے صحرا میں 3 ہزار ''ٹوبے ''خشک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جب کہ نچلے آدھے پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں پر زراعت کی جاتی ہے۔
وہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ان بارانی علاقوں میں خشک سالی کے بعد ایک طرف تو مسلسل قحط سالی ہے اور دوسری طرف گزشتہ چند سالوں سے ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ان علاقوں میں صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔
2050 تک پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تقریباً دو لاکھ افراد موسمیاتی مہاجرین بن جائیں گے۔جنوبی پنجاب کے روہی اور چولستان صحرا، سندھ کے صحرائے تھر، اچھڑو تھر یا وائٹ ڈیزرٹ، نارا صحرا، کاچھو، کوہستان اور لاڑ، بلوچستان کے مکران کوسٹ سمیت آواران، بلوچستان کے قلات، چاغی، نؤکنڈی اور ژوب میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری قحط سالی کے باعث مقامی لوگوں کی اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔
سندھ کا صحرائے تھر قحط سالی سے متاثر خطوں میں سرفہرست ہے جہاں کئی سالوں سے بھوک کے باعث خواتین اور نومولود بچوں کی اموات کی خبریں مقامی میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ بلوچستان میں کم بارش کے باعث خشک سالی کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے، جس کی وجہ سے زراعت، کاشت کاری، فضلات و باغات، آب نوشی اور گلہ بانی اور آب و ہوا سمیت دیگر شعبے متاثر ہوسکتے ہیں۔
محکمہ لائیو اسٹاک کے مطابق چولستان میں پانی کی قلت اور ہیٹ اسٹروک سے دوسو سے زائد بھیڑیں اور مویشی ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ بارشیں نہ ہونے سے تالاب مکمل طور پر خشک ہوگئے ہیں، جس کے باعث مقامی افراد پینے کے پانی سے بھی محروم ہورہے ہیں۔چولستان کے مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ تالاب ہی ان کے لیے پانی کا ذخیرہ ہے تاہم طویل عرصے سے تالابوں کی صفائی نہ ہونے سے بارش کا پانی ضایع ہوجاتا ہے اور نتیجے کے طور پر خشک سالی کا سامنا ہے۔
دوسری جانب مقامی آبادی گاڑیوں پر سامان لادے نقل مکانی کرتی نظر آتی ہے جب کہ پانی کی کمی کے باعث چولستان کا جہاز اونٹ بھی سست اور بیمار پڑنے لگا ہے۔دیہی علاقوں کے مکینوں کے روزگار کا واحد زریعہ کھیتی باڑی تباہ حالی کا شکار ہے، کاشتکاروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں اور کاشتکار معاشی بحران کا شکار ہیں۔
پاکستان میں کپاس کے کاشتکار موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو محسوس کر رہے ہیں کیونکہ موسم کے غیر متوقع نمونے اور شدید گرمی بڑھتے ہوئے موسموں کو مختصر کر رہی ہے۔اس سے کیڑوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر سفید مکھی اور گلابی بول ورم، جس کے نتیجے میں کسان کیڑے مار ادویات پر زیادہ انحصار کر سکتے ہیں۔کپاس کی زیادہ لاگت اور کم مارکیٹ کی قیمتوں نے پاکستان کے بہت سے چھوٹے کاٹن کاشتکاروں کو اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کافی کمانے کے لیے شدید جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔
ملک میں اس وقت شجرکاری نہ صرف ضروری ہے بلکہ عالمی حدت کے اثرات کو کم کرنے کا واحد حل بھی ہے، عوام میں اس حوالے سے شعور کی بیداری بھی ضروری ہے۔ہمیں ملک میں کلین انرجی مکس کی طرف جانے کی بھی ضرورت ہے۔ پانی کی کمی پاکستان کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے، گلیشیئر کے پگھلنے، بے موسمی بارشوں اور دریائے سندھ میں سلٹنگ سمیت دیگر قدرتی آفات پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت فوری طور پر فصلوں اور لائیو اسٹاک کے نقصان کو بچانے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔ان تمام پیدا شدہ مسائل کا واحد حل ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر ہے ،جس سے پانی کی کمی نہ صرف دور ہوگی ، بلکہ ملک میں خوشحالی بھی آئے گی۔حکومت کو انتہائی سنجیدگی سے خشک سالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی جنگی بنیادوں پر ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔