عوام فرشتوں کا انتظار مت کریں
خبریں یہ بتارہی ہیں کہ لندن میں مشاورت کے بعدپاکستان میں اپنے حکومتی اتحادیوں سے ملاقات کرکے ان کواعتمادمیں لیاجارہاہے
ISLAMABAD:
ان دنوں عوام اور خواص میںالیکشن کی بہت باتیں ہو رہی ہیں لیکن اتحادی حکومت الیکشن کے انعقاد کے متعلق کوئی واضح فیصلہ کرنے میںابہام کا شکار ہے، ادھرعمران خان کا پورا زور الیکشن کے جلد ازجلد انعقاد پر ہے۔
عمران خان ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پرجلسے بھی کر رہے ہیں اورانھوں نے لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اورنواز لیگ کے حکومتی زعماء لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں ۔
خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ لندن میں مشاورت کے بعد پاکستان میں اپنے حکومتی اتحادیوں سے ملاقات کر کے ان کو اعتماد میں لیا جارہا ہے جس کے بعد باہمی مشاورت سے کسی مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان ہو گا ۔ لیکن ابھی سیاسی صورتحال انتہائی بے یقینی کا شکار اور غیر واضح ہے ۔
لندن میں مشاورتی عمل کے بعد اب پاکستان میں نواز لیگ کے اتحادیوں پر منحصر ہے کہ وہ نواز لیگ کی لندنی مشاورت کو اپنے ترازو میں کس طرح تولتے ہیں اور ان کو کتنا وزن دیتے ہیں لیکن ایک بات سب کے علم میں ہے کہ حکومتی اتحاد کی ہر پارٹی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گی اور یہ فیصلہ ہی اس بات کومزید واضح کر دے گا کہ حکومتی اتحادی کس حدتک آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور کتنی دور تک ایک ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔
جہاں تک الیکشن کے فوری انعقاد کی بات ہے تو بڑی مشکل سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ہے اوراس مشکل سے نبرد آزما ہونے کے بعد اس کے ثمرات سے مستفید اورلطف اندوز ہونے کے لیے آج کے حکومتی اتحاد کا یہ حق تو بنتا ہے کہ وہ حکومت کی باقی ماندہ آئینی مدت کو پورا کرے ۔ حکومت کی آئینی مدت میں ابھی ایک سال سے کچھ زیادہ کاوقت باقی ہے۔
اس لیے شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت کی کوشش تو یہ ہو نی چاہیے کہ وہ نہ صرف اس سال کا بجٹ پیش کرے بلکہ آیندہ برس کا بجٹ بھی پیش کرنے کے بعد الیکشن کے انعقاد کا اعلان کرے۔ ان دونوں بجٹوں میں وہ عوام کی مشکلات کو کم کرنے اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کئی نئی اسکیموں اور فیصلوںکا اعلان کر سکتے ہیں جو کہ لامحالہ ان کے ووٹ بینک میں اضافے اور ان کی نیک نامی کاسبب بن سکتا ہے ۔
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس نئی نویلی حکومت کی بدقسمتی آڑے آرہی ہے ملکی معیشت کی انتہائی دگرگوں اور روز بروز بگڑتی صورتحال نے تازہ ترین اقتدار کے نشے میںرنگ میںبھنگ ڈال دیا ہے اور یہ فیصلہ نہیں ہو پارہا کہ اقتدار تو جیسے تیسے مل گیا ہے اس ذمے داری کو نبھایا کیسے جایا جائے۔
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ بن چکا ہے ۔اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں تو مستقبل انتہائی مخدوش دکھائی دے رہا ہے موجودہ ملکی معیشت کے ساتھ ایک برس سے زیادہ کا وقت گزارنا بظاہرناممکن دکھائی دیتا ہے کیونکہ معاشی اشاریے تنزلی کا شکار ہیں ۔
آئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مشکل فیصلہ اگر کربھی دیا جائے تو یہ فیصلہ سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنے کے علاوہ عمران خان کی حکومت مخالف مہم کو ایندھن فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔
حکومت کے آگے کنواں اورپیچھے کھائی ہے ان دونوں سے بچنے کا واحد راستہ الیکشن کا ہے جس کے انعقاد سے ہی جان بچ سکتی ہے لیکن حکومتی اتحاد الیکشن سے پہلے انتخابی اصلاحات کرنا چاہتا ہے جس میں سر فہرست تارکین وطن کے ووٹ میں ترامیم ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ تارکین وطن کی غالب اکثریت عمران خان کی حامی ہے دوسرا اہم نقطہ الیکڑانک ووٹنگ مشین کو الیکشن کے عمل سے علیحدہ رکھنا ہے ان دونوں پر بجا تحفظات ہیں جس پر متفقہ فیصلہ ہونا ضروری ہے ،کوشش کر کے اس مشاورت میں عمران خان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے لیکن عمران خان اس بات پر زور لگا رہے ہیں کہ الیکشن کے عمل میں ان کی حکومت میں جو تبدیلیاں کی گئیں تھیں ان تبدیلیوں کے ساتھ ہی الیکشن کا انعقاد ہو لیکن اتحادی حکومت کو یہ قبول نہیں ہیں ۔
ملک میں ایک کتاب یا کتابچہ بھی موجود ہے جسے آ ئین کہا جاتا ہے اس میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے الیکشن کا کہا گیا ہے۔ ہر حکومت اور اپوزیشن اس کتابچے کا حوالہ دیا کرتی ہے ۔
جس کسی نے یہ آئین بنایا تھا اس نے غالباً حکومتوں کو تنگ کرنے کے لیے یہ حرکت کی تھی، یہ جو الیکشن ہیں یہ سب اسی آئین نامی کتابچے کا کیا دھرا ہیں لیکن ہمارے ملک میں الیکشن تاخیر سے کرانا یا پھر اپنی مرضی کے کرانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور ذرا غور فرمائیے الیکشن ہو گئے تو اسمبلیوں میں کون لوگ ہوں گے یقینا وہی پرانے اور عوام کے آزمودہ شناسا چہرے ہی نظر آئیںگے جن میں سے اکثریت میں یہ تبدیلی ضرور نظر آ سکتی ہے کہ گزشتہ الیکشن کی پارٹی کے بجائے وہ کسی اور پارٹی کی نمایندگی کر رہے ہوں گے۔
اس لیے عوام جمع خاطر رکھیں اسمبلیوں میں فرشتوں کا انتظار مت کریں یہاں وہی ہوگا جو ہوتا آیا ہے۔ تازہ خبریں یہی ہیں کہ الیکشن کا اعلان بہت جلد ہو گا لیکن اس الیکشن میںالیکڑانک ووٹنگ مشین اور تارکین وطن کے ووٹ نظر نہیں آرہے ہیں۔
ان دنوں عوام اور خواص میںالیکشن کی بہت باتیں ہو رہی ہیں لیکن اتحادی حکومت الیکشن کے انعقاد کے متعلق کوئی واضح فیصلہ کرنے میںابہام کا شکار ہے، ادھرعمران خان کا پورا زور الیکشن کے جلد ازجلد انعقاد پر ہے۔
عمران خان ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پرجلسے بھی کر رہے ہیں اورانھوں نے لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اورنواز لیگ کے حکومتی زعماء لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں ۔
خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ لندن میں مشاورت کے بعد پاکستان میں اپنے حکومتی اتحادیوں سے ملاقات کر کے ان کو اعتماد میں لیا جارہا ہے جس کے بعد باہمی مشاورت سے کسی مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان ہو گا ۔ لیکن ابھی سیاسی صورتحال انتہائی بے یقینی کا شکار اور غیر واضح ہے ۔
لندن میں مشاورتی عمل کے بعد اب پاکستان میں نواز لیگ کے اتحادیوں پر منحصر ہے کہ وہ نواز لیگ کی لندنی مشاورت کو اپنے ترازو میں کس طرح تولتے ہیں اور ان کو کتنا وزن دیتے ہیں لیکن ایک بات سب کے علم میں ہے کہ حکومتی اتحاد کی ہر پارٹی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گی اور یہ فیصلہ ہی اس بات کومزید واضح کر دے گا کہ حکومتی اتحادی کس حدتک آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور کتنی دور تک ایک ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔
جہاں تک الیکشن کے فوری انعقاد کی بات ہے تو بڑی مشکل سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ہے اوراس مشکل سے نبرد آزما ہونے کے بعد اس کے ثمرات سے مستفید اورلطف اندوز ہونے کے لیے آج کے حکومتی اتحاد کا یہ حق تو بنتا ہے کہ وہ حکومت کی باقی ماندہ آئینی مدت کو پورا کرے ۔ حکومت کی آئینی مدت میں ابھی ایک سال سے کچھ زیادہ کاوقت باقی ہے۔
اس لیے شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت کی کوشش تو یہ ہو نی چاہیے کہ وہ نہ صرف اس سال کا بجٹ پیش کرے بلکہ آیندہ برس کا بجٹ بھی پیش کرنے کے بعد الیکشن کے انعقاد کا اعلان کرے۔ ان دونوں بجٹوں میں وہ عوام کی مشکلات کو کم کرنے اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کئی نئی اسکیموں اور فیصلوںکا اعلان کر سکتے ہیں جو کہ لامحالہ ان کے ووٹ بینک میں اضافے اور ان کی نیک نامی کاسبب بن سکتا ہے ۔
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس نئی نویلی حکومت کی بدقسمتی آڑے آرہی ہے ملکی معیشت کی انتہائی دگرگوں اور روز بروز بگڑتی صورتحال نے تازہ ترین اقتدار کے نشے میںرنگ میںبھنگ ڈال دیا ہے اور یہ فیصلہ نہیں ہو پارہا کہ اقتدار تو جیسے تیسے مل گیا ہے اس ذمے داری کو نبھایا کیسے جایا جائے۔
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ بن چکا ہے ۔اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں تو مستقبل انتہائی مخدوش دکھائی دے رہا ہے موجودہ ملکی معیشت کے ساتھ ایک برس سے زیادہ کا وقت گزارنا بظاہرناممکن دکھائی دیتا ہے کیونکہ معاشی اشاریے تنزلی کا شکار ہیں ۔
آئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مشکل فیصلہ اگر کربھی دیا جائے تو یہ فیصلہ سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنے کے علاوہ عمران خان کی حکومت مخالف مہم کو ایندھن فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔
حکومت کے آگے کنواں اورپیچھے کھائی ہے ان دونوں سے بچنے کا واحد راستہ الیکشن کا ہے جس کے انعقاد سے ہی جان بچ سکتی ہے لیکن حکومتی اتحاد الیکشن سے پہلے انتخابی اصلاحات کرنا چاہتا ہے جس میں سر فہرست تارکین وطن کے ووٹ میں ترامیم ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ تارکین وطن کی غالب اکثریت عمران خان کی حامی ہے دوسرا اہم نقطہ الیکڑانک ووٹنگ مشین کو الیکشن کے عمل سے علیحدہ رکھنا ہے ان دونوں پر بجا تحفظات ہیں جس پر متفقہ فیصلہ ہونا ضروری ہے ،کوشش کر کے اس مشاورت میں عمران خان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے لیکن عمران خان اس بات پر زور لگا رہے ہیں کہ الیکشن کے عمل میں ان کی حکومت میں جو تبدیلیاں کی گئیں تھیں ان تبدیلیوں کے ساتھ ہی الیکشن کا انعقاد ہو لیکن اتحادی حکومت کو یہ قبول نہیں ہیں ۔
ملک میں ایک کتاب یا کتابچہ بھی موجود ہے جسے آ ئین کہا جاتا ہے اس میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے الیکشن کا کہا گیا ہے۔ ہر حکومت اور اپوزیشن اس کتابچے کا حوالہ دیا کرتی ہے ۔
جس کسی نے یہ آئین بنایا تھا اس نے غالباً حکومتوں کو تنگ کرنے کے لیے یہ حرکت کی تھی، یہ جو الیکشن ہیں یہ سب اسی آئین نامی کتابچے کا کیا دھرا ہیں لیکن ہمارے ملک میں الیکشن تاخیر سے کرانا یا پھر اپنی مرضی کے کرانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور ذرا غور فرمائیے الیکشن ہو گئے تو اسمبلیوں میں کون لوگ ہوں گے یقینا وہی پرانے اور عوام کے آزمودہ شناسا چہرے ہی نظر آئیںگے جن میں سے اکثریت میں یہ تبدیلی ضرور نظر آ سکتی ہے کہ گزشتہ الیکشن کی پارٹی کے بجائے وہ کسی اور پارٹی کی نمایندگی کر رہے ہوں گے۔
اس لیے عوام جمع خاطر رکھیں اسمبلیوں میں فرشتوں کا انتظار مت کریں یہاں وہی ہوگا جو ہوتا آیا ہے۔ تازہ خبریں یہی ہیں کہ الیکشن کا اعلان بہت جلد ہو گا لیکن اس الیکشن میںالیکڑانک ووٹنگ مشین اور تارکین وطن کے ووٹ نظر نہیں آرہے ہیں۔