سری لنکا بے بسی کی تصویر

سری لنکا کی حکومت ملک کو دیوالیہ ڈیکلیر کر چکی ہے

سری لنکا کی حکومت ملک کو دیوالیہ ڈیکلیر کر چکی ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

لاہور:
سری لنکا کا معاشی و اقتصادی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے' سری لنکا کی حکومت ملک کو دیوالیہ ڈیکلیر کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے اور امیر ممالک تا حال سری لنکا کو بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں'یوں سری لنکا کی حکومت بے بسی کی تصویر بن چکی ہے، البتہ بھارت کسی حد تک مالی سپورٹ فراہم کر رہا ہے'تاہم یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔

سری لنکن حکومت کے پاس زرمبادلہ ختم ہو چکا ہے'جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی سے کوئی چیز خریدنے سے قاصر ہے۔ملک میں کاروباری سرگرمیاں ختم ہیں' صرف کھانے پینے کی اشیاء کی خرید وفروخت ہورہی ہے اور ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔سری لنکا کی معیشت کا دارومدار سیاحت انڈسٹری پر ہے لیکن وہ بھی صفر پر کھڑی ہے۔

بے روزگاری آخری حدوں کو چھو رہی ہے، جرائم کی بھرمار ہوچکی ہے۔ اگلے روز سری لنکا کے نئے وزیراعظم نے ملک میں پٹرول ختم ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا جب کہ سری لنکا کی قومی ایئر لائن فروخت کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہوچکی ہے کہ سری لنکا کے پاس ضروری درآمدات کے لیے ڈالر بھی نہیں رہے۔ حکومت کے پاس 14لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اداکرنے کے لیے نقد رقم بھی ختم ہو چکی ہے۔

سری لنکا کے نئے وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے اگلے روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے عوام کو خبردار کیا کہ آنے والے مہینوں میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت تیل کی تین کھیپوں کی ادائیگی کے لیے ڈالر اکٹھا کرنے سے بھی قاصر ہے۔

میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا کہ کولمبو کی بندر گاہ کے قریب تیل سے بھرے ہوئے بحری جہاز موجود ہیں لیکن وہ ادائیگیوں کے انتظار میں ہیں۔ سری لنکا کی حکومت کے پاس ڈالرز ہوں تو وہ فوری ادائیگیاں کرکے تیل منگوا سکتی ہے لیکن المیہ دیکھیں کہ سری لنکا کے پاس ایسے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ فوری طور پر ڈالر اکٹھا کرسکے یا عالمی مارکیٹ سے خرید سکے۔آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے سری لنکا کے ساتھ کوئی بھی ڈیل کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ سری لنکا کی نئی نسل نے تو اس قسم کے بحران کا کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا، حالیہ عرصے میں سری لنکا کے 22ملین افراد کو خوراک' ایندھن اور ادویات کے حصول کے لیے شدید مشکلات کے ساتھ ساتھ آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کی طویل بندش کا سامنا ہے۔ بجلی اور پیٹرول نہ ہونے کی وجہ سے معیشت زمین بوس ہوچکی ہے۔ نئے وزیراعظم وکرما سنگھے کا کہنا ہے کہ اگلے دو مہینے ہماری زندگی کے مشکل ترین ماہ ہوںگے۔

انھوں نے واضح کیا کہ انھیں سچ چھپانے اور عوام کے سامنے جھوٹ بولنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ اگلے دو مہینے صبر سے سب کچھ برداشت کریں۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس بحران پر قابو پا سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ مئی کے مہینے میں حکومت کے پاس 14لاکھ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے نقد رقم بھی ختم ہو چکی ہے اور وہ آخری حربے کے طور پر مزید نوٹوں کی پرنٹنگ کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔

ادھر سری لنکن عوام صدر اور حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں' پورا ملک مظاہروں اور دھرنوں کی لپیٹ میں ہے ۔اگلے روز بھی پانچ مظاہرین دوران احتجاج سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے' ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ قبل مشتعل مظاہرین نے سری لنکا کے مستعفی ہوجانے والے وزیراعظم کا گھر نذر آتش کردیا تھا، سیکیورٹی فورسز نے انھیں اور ان کے اہل خانہ کو بمشکل وہاں سے نکالا تھا۔اس کے بعد پرتشدد ہنگاموں کو روکنے کے لیے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن مظاہرے تھمنے میں نہیں آ رہے۔ احتجاجی عوام سری لنکا کے صدر گوتا بایا راجا پاکسے سے بھی استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن وہ تاحال اپنے عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔


اس وقت سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ حکومت کے پاس تیل کی درآمد کے لیے غیر ملکی کرنسی موجود نہیں ہے اور تیل ختم ہوچکا ہے، ٹریفک ختم ہوچکی ہے۔ بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ حکومت کے خزانے میں کچھ نہیں ہے۔ سری لنکن کرنسی کی قدر محض کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ سری لنکا روس یا ایران سے سستا ترین تیل خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتا، کسی آزاد اور خود مختار ملک کی ایسی بدحالی اور بے بسی اس خطے کے تمام ممالک کے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

سری لنکا نہ تو اپنے ملک کی ضروریات پورا کرنے کے لیے تیل درآمد کرپا رہا ہے اور نہ ہی دیگر اشیائے ضروریات۔ اب تو نئے وزیراعظم نے باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ پٹرول ختم ہو چکا اور پٹرول خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ حکومت ادھر ادھر سے ڈالر حاصل کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس وجہ سے ملک میں بد ترین افراتفری کا عالم ہے۔ مہنگائی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ مڈل کلاس کے لیے کچن چلانا بھی ممکن نہیں ہے، بجلی کا تعطل ایسا ہے کہ اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسیں ٹارچ جلا کر مریضوں کا علاج کررہے ہیں، جوادویات درآمد ہوتی تھیں، اب دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول پمپ اور گیس اسٹیشنز ویران پڑے ہیں۔

طلبہ کے امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں اور ہر طرف سراسیمگی اور خوف کے ڈیرے ہیں۔ چاول جو سری لنکا کے لوگوں کے کھانے کا بنیادی جزو ہیں، سو فیصد تک مہنگے ہو گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں ہے' حکومت نئے نوٹ چھاپنے جا رہی ہے جس سے مہنگائی کا گراف مزید اوپر جائے گا۔ لوگ سڑکوں پر ہیں اور صدر سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں جب کہ صدر ہیں کہ اقتدار چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں، ادھر ایسے حالات میں اقتدار کون سنبھالے گا، یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔

سری لنکا کا ایک اور درد سر سات ارب ڈالر سے زائد وہ قرضہ ہے جو اسے اس سال دینا ہے۔ اس میں ایک بلین کے لگ بھگ سورن بانڈز sovereign bonds کی ادائیگی بھی شامل ہے جو اسے جولائی میں کرنا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی بدانتظامی، ناقابلِ برداشت قرضے اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں نے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔

انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے سری لنکا کی عالمی ریٹنگ انتہائی کم کردی ہے۔ سری لنکن حکومت نے بیرونی قرضوں اور حکومتی بانڈز کی عدم ادائیگی کے باعث دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے اور اب سری لنکا آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالر کا 3 سالہ بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے، عالمی مالیاتی ادارے کوئی بڑا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے اور حالات سخت تشویشناک ہوچکے ہیں۔

معاشی ماہرین کے نزدیک بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومت کے اقدامات سری لنکا کو درپیش تاریخ کے سنگین ترین بحران کے اسباب میں شامل ہیں۔ سری لنکا 2007 سے مسلسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ مختلف ادوار میں لیا گیا یہ قرض 11 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔

اس قرض میں سے سب سے زیادہ یعنی36.4 فی صد حصہ حکومت کے بین الاقوامی بانڈ سے حاصل کردہ قرضوں پر مشتمل ہے۔ سری لنکا کے غیر ملکی قرضوں میں 14 فی صد سے زائد ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہے ، جو ساڑھے چار ارب سے زائد ہے۔ اس قرض میں جاپان اور چین دونوں کے الگ الگ ساڑھے تین ارب سے زائد بھی واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت اور عالمی بینک، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی شامل ہیں۔سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کا 119فیصد ہوگئے تھے اور سری لنکا میں خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی طرح 502حکومتی اداروں پر بجٹ کا 20فیصد خرچ ہوجاتا تھا۔

پاکستان بھی کم و بیش ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور ریاست کے سٹیک ہولڈرز کے فیصلوں کی وجہ سے معیشت لرز رہی ہے ۔ پاکستان کے پاس ابھی وقت ہے ، پاکستان معاشی بحران سے باآسانی نکل سکتاہے کیونکہ پاکستان کے پاس سری لنکا سے کہیں زیادہ وسائل موجود ہیں۔

اگر اقتدار کے سٹیک ہولڈرز ہوش کے ناخن لیں اور سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کو ختم کریں تو عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر اقتدار کے سٹیک ہولڈرز نے تدبر اور دوراندیشی کا مظاہرہ نہ کیا اورسیاسی عدم استحکام طول پکڑ گیا تو پھر معاشی بحران پر قابو پانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ پاکستان کی نئی حکومت کو سری لنکا کی صورتحال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ نئی پاکستانی حکومت کو اپنی مضبوط اور مستحکم معاشی پالیسیوں کی بنیاد پر ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہوگا۔
Load Next Story